سنن ابوداود ،کتاب العلم ، باب الْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ
باب: علم حاصل کرنے کی طرف رغبت دلانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3641
حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا عبد الله بن داود، سمعت عاصم بن رجاء بن حيوة يحدث، عن داود بن جميل، عن كثير بن قيس، قال: "كنت جالسا مع ابي الدرداء في مسجد دمشق، فجاءه رجل، فقال: يا ابا الدرداء، إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما جئت لحاجة، قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة، وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم، وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض والحيتان في جوف الماء، وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب، وإن العلماء ورثة الانبياء، وإن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم فمن اخذه اخذ بحظ وافر".
کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابي داود حدیث نمبر: 3641 ، سنن الترمذی/العلم ۱۹ (۲۶۸۲)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۹۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴) (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے دو راوی داود اور کثیر دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: زہد وکیع نمبر: ۵۱۹ بتحقیق الفریوائی) قال الشيخ الألباني: صحيح
علامہ البانیؒ اسے صحیح قرار دیتے ہیں ،جبکہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اسے ضعیف کہتے ہیں
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف / ت 2682،جه 223 ¤ داود بن جميل وشيخه كثير بن قيس : ضعيفان (تق:1778،5624) وحديث مسلم (2699) يغني عنه ۔ ¤ وانظر ضعيف سنن الترمذي (2650) ص:317 )