وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اول تو یہی بات عامی کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ مقلدین کو کہ جنہوں نے قرآن و حدیث کو محض اپنے امام کے لئے دلیل وحجت قرار دیتے ہوئے، خود پر اس کی حجت سے آزادی اختیار کرتے ہوئے اپنے امام کے قول کو خود پر حجت قرار دیا!
تو ایسے لوگوں سے سوال ہی کیوں کیا جائے؟ کہ وہ تو بہر صورت اپنے تقلیدی مؤقف پر فتوی دینے کے قائل ہیں!
دوم کہ عامی کو سمجھنا چاہیئے کہ کہ جو خود مقلد ہے، اور تقلید یہ کہہ کر کرتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا، اور نہ ہی مجتہدین کے بیان کردہ مسائل میں صحیح و غلط کو پرکھنے کی لیاقت رکھتا ہے، اس لیئے اس نے خود پر تقلیدی شخصی کو لاز م قرار دے دیا!
اب ایسے شخص سے قرآن و حدیث کے موافق فتوی طلب کرنا ہی نامعقول بات ہے! کہ اس نے خود کو مقلد قرار دے دیا ہے!
اب جب کوئی عامی ایسے مقلد کے پاس جائے گا، تو اس مقلد مفتی نے جو خود قرآن و حدیث نہ قرآن و حدیث سے استدلال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور نہ ہی مجتہدین کے استدلال میں صحیح و غلط پرکھنے کی لیاقت رکھتا ہے، اپنے تقلیدی مذہب کے موافق بتلانا ہے، اور اس واسطے لوگوں کو دھوکہ میں بھی مبتلا کرتے ہیں، جس دھوکہ میں وہ خود مبتلا ہیں!
اور عامی کا مقلد مفتی کی طرف رجوع کرنا ہی غلط ہے! جو عامی اپنی کم علمی یا غلط فہمی یا کسی دھوکہ میں مبتلا ہو کر کرتے ہیں!
لہٰذا ایک معقول عامی مقلد مفتی کی طرف رجوع نہیں کرے گا!
اور مقلدین کے بیان کردہ شبہات کے ازالہ کے لئے بھی علمائے اہل الحدیث سے رجوع کرے!
جب عامی کو یہ بات سمجھ آجائے گی، کہ مقلد کی دلیل قرآن و حدیث نہیں، بلکہ اس کے امام کا قول ہے، تو معقول عامی کو یہ سمجھ آجائے گی کہ مقلدین کی طرف رجوع نہیں کرے گا!
اگر آپ بھی اس طرح عامی ہیں، جیسا کہ آپ کے سوال میں مذکور ہے، تو معقول ہونے کی صورت میں آپ کو یہ سمجھ آجائے گی، کہ عامی کو کیا کرنا چاہئے!
اگر عامی قرآن و حدیث سے مسئلہ کے جواب کا قائل ہے تو اہل الحدیث علماء سے رجوع کرے!
یعنی کہ علمائے اہل الحدیث سےرجوع کرنا چاہیئے! نہ کہ مقلدین سے !
جزاک اللہ خیراً۔