سلام !
قال اللہ تعالیکتب علیکم الصیاموروی عن عائشۃفنومر بقضاء الصوم
سوال یہ ہے کہ
i)کتب علیکم عام ہے جوفنومر بقضاءسے مخصوص ہوا تو پھرکتب علیکمکو ظنی ہونا چاہئے یعنی روزہ فرض نہیں واجب ہونا چاہئے تو پھر ہم روزہ کو فرض کیوں کہتے ہیں؟
ii)کتب علیکمقطعی الدلالۃ ہےفنومر بقضاءظنی الدلالۃ (خبر واحد) ہے اور اگر واقعی خبر واحد ظنی ہوتی ہے تو یقینا قطعی پر ذیادتی کی صالح نہ ہوئی تو پھر اس ظنی کے قطعی کے عام کو مخصوص کیسے کردیا؟
محترم بھائی پہلے تمہیدا کچھ باتیں بتانا چاہوں گا جس پر ہمارے شیخ @رفیق طاہر صاحب میری اصلاح کر دیں گے ان شاءاللہ
1-قطعی الثبوت یا سند (یعنی سند یا الفاظ کے ثابت ہونے میں یقینی ہونا)
2-ظنی الثبوت یا سند (یعنی سند یا الفاظ کے ثابت ہونے میں ظنی ہونا البتہ ظنی کو انگلش میں most probable بھی کہ سکتے ہیں اس سے غیر یقینی مراد نہیں ہوتا)
3-قطعی الدلالۃ (جو الفاظ کے کسی مفہوم پر دلالت کرنے میں یقینی ہو)
4-ظنی الدلالۃ (جو الفاظ کے کسی مفہوم پر دلالت کرنے میں ظنی یا most probable ہو)
میرے علم کے مطابق ہمارے اور احناف کے ہاں قرآن اور حدیثِ متواتر قطعی الثبوت ہیں جبکہ خبرِ واحد ظنی الثبوت ہے
البتہ الفاظ کی دلالت (یعنی قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ) میں اختلاف ہے یہ اختلاف قرآن کے عام کی دلالت میں ہے مثلا احناف قرآن کے عام کو بھی قطعی الدلالۃ مانتے ہیں مگر ہم قرآن کے عام کو ظنی الدلالۃ مانتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ کسی چیز کی تخصیص جب کرتے ہیں تو وہ اس سے اعلی چیز یا اسکے برابر چیز سےہی ممکن ہے یعنی قطعی چیز کی تخصیص قطعی سے ہی ہو سکتی ہے
لیکن اس معاملے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ثبوت کے لحاظ ہم نے نہیں دیکھنا بلکہ دلالت کے لحاظ سے دیکھنا ہے کیونکہ ثبوت کے لحاظ سے خبر واحد بے شک ظنی ہے مگر most probable ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے لئے قرآن اور خبر متواتر کی طرح حجت ہے پس ہم قرآن ، خبر متواتر اور خبر واحد کو سند کے لحاظ سے قبول کر لیتے ہیں البتہ دلالت میں جب موازنہ کرتے ہیں تو قرآن کا عموم چونکہ قرآن کا عموم ہمارے ہاں ظنی الدلالۃ ہوتا ہے تو اسکی خبر واحدسے تخصیص کرنا جائز ہے جبکہ احناف چونکہ دلالت کی بجائے ثبوت یا سند کا موازنہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں قرآن کا عموم بھی اپنی دلالت میں قطعی ہے پس ایک ظنی چیز (خبر واحد) سے اسکی تخصیص نہیں ہو سکتی البتہ خبر متواتر سے ایسا کیا جا سکتا ہے
دوسرا احناف کے ہاں فرض اور واجب میں بھی اسی سند کی بنیاد پر فرق کیا جاتا ہے کہ جو چیز قطعی السند سے ثابت ہو (قرآن یا خبر متواتر) تو وہ فرض -مگر جو ظنی السند سے ثابت ہو وہ واجب
لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہم سند جب صحیح ہو تو اسکا موازنہ نہیں کرتے بلکہ الفاظ کی دلالت میں یقین اور گمان کو دیکھتے ہیں واللہ اعلم
اب آپ کے سوالوں کی طرف آتے ہیں
1-پہلے سوال کی مجھے سمجھ نہیں آئی آپ تھوڑی سی وضاحت کر دیں اصل میں عام کے کچھ صیغے ہوتے ہیں جیسے کتب علیکم الصیام میں آگے لفظ آ رہا ہے من شھد منکم الشھر اس میں من عام کا صیغہ ہے اب اگر اسکی آپ تخصیص حدیث سے کر رہے ہیں کہ حدیث نے حائضہ عورت کو قضا کی اجازت دے کر اس من کے عموم سے نکال دیا تو یہ ٹھیک ہے البتہ آپ کے واجب کرنے والی بات سمجھ نہیں آئی دوبارہ سمجھا دیں جزاک اللہ خیرا
2-دوسرے سوال کا جواب ہماری بہنا نے بھی دے دیا ہے اور کچھ وضاحت میں نے بھی کر دی ہے واللہ اعلم