ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
بسم الله الرحمن الرحیم
عبادت کا لغوی معنی ہے ذلیل ہونا، جھک جانا، اطاعت کرنا، دین بنانا/ماننا۔ وہ راستہ جس پر بہت زیادہ چلاجاتا ہو اور جسے بہت زیادہ روندا جاتا ہو اسے الطریق المعبد کہتے ہیں ۔[لسان العرب ۔ القاموس المحیط]
اور شرعی اصطلاح میں عبادت ہر اس ظاہری اور باطنی قول وفعل کا نام ہے جس سے اللہ محبت کرتا ہو اور اس سے راضی ہوتا ہو ۔ [العبودیۃ لابن تیمیۃ]
اور یہ اللہ تعالیٰ کی کمال درجے کی محبت کے ساتھ کمال درجے جھک جانے اور مان لینے اور قبول کرلینے کو متضمن ہو۔اور اللہ تعالیٰ کو عبادت میں اکیلا مان لینے کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے عبادت کے تینوں ارکان میں اکیلا مان لیا جائے یعنی نسک (طریقہ، قربانی) اور تشریع (قانون سازی) اور ولایت (دوستی، تعلق) میں گویا معنی یہ ہوا کہ :
اللہ کو نسک (طریقہ، قربانی) اور شعائر تعبدیہ (عبادت والے کام) میں اکیلا مان لینا اور اللہ کو حکم (فیصلہ) اور تشریع (قانون سازی) میں اکیلا مان لینا اور اللہ کو ولایت (دوستی، تعلق) میں اکیلا مان لینا عبادت ہے۔
لہٰذا جو اللہ سے محبت کئے بغیر اس کی اطاعت کرے اور اس کے لئے جھک جائے وہ منافق ہے جس کے دل میں بغض بھی ہو اور جو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرے لیکن بظاہر اس کی شریعت کی اطاعت نہ کرے اور اپنے آپ کو اس کے آگے جھکائے نہیں وہ زندیق کذاب (بہت بڑا جھوٹا) ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [آل عمران: ۳۱]
’’اے نبی کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے واقعی محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘ (یعنی اللہ سے محبت کا ایسا دعویٰ جو اس کی اطاعت سے خالی ہو محبت کا جھوٹا دعویٰ ہے)
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’جو شخص طریقہ محمدیہ پر نہ ہو اور اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو یہ آیت اس کے خلاف فیصلہ کر رہی ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں اس وقت تک جھوٹا شمار ہوگا جب تک اپنے تمام اقوال وافعال میں شریعت محمدی اور دین نبوی کی اتباع نہ کرلے ۔‘‘
[تفسیر ابن کثیر: ۳۶۶/۱]
عبادت کی پیش کردہ تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ عبادت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں پر مشتمل ہے چنانچہ ہر وہ قول اور ہر وہ عمل اور ہر وہ عقیدہ ونظریہ جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے وہ عبادت کی تعریف میں داخل ہے اور عبادت اس کا احاطہ کررہی ہے اور اس پر مشتمل ہے۔
لہٰذا جب کسی بندے سے اکیلے اللہ کی عبادت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس سے عبادت کا یہی عام معنی مراد لیا جاتا ہے یعنی اکیلے اللہ تعالیٰ کی رکوع وسجود میں عبادت کرنا، روزوں اور حج اور نذروں اور قربانیوں میں اس کی عبادت کرنا، اور پسندیدگی و ناپسندیدگی میں اور جہاد وقربانی میں اور خوف اور توکل میں اور دعا اور رجوع کرنے اور امید و آس لگانے میں اور اطاعت وجھک جانے میں اور اتباع و فیصلے اور فیصلہ چاہنے میں ایسے ہی شرعاً واجب اور مستحب اور مباح وغیرہ تمام امور میں اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرنا۔
اس کی بہترین مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ [ذاریات: ۵۶]
’’میں نے جن اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے‘‘۔
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے انہیں عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور ایسے ہی اس نے ان کی طرف رسولوں کو بھیجا اور اپنی کتابیں نازل کیں تاکہ وہ اس کی عبادت کریں گویا عبادت ہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انہیں پیدا کیا گیا۔‘‘
[بدائع التفاسیر لابن القیم: ۲۴۸/۴]
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی اس کی دلیل ہے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ [الانعام: ۱۶۳]
’’اے نبی کہہ دیجئے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والا (مسلم) ہوں۔‘‘
ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں بتادیں کہ میرے سارے افعال اور سارے احوال اکیلے اللہ ہی کے لئے ہیں نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے جس طرح کہ تم اس کے شریک بناتے ہو۔‘‘
[زاد المیسر: ۱۶۱/۳]
لہٰذا جس طرح عبادتی طور محض اللہ کے لئے ہیں اسی طرح بقیہ زندگی اور اس کے مختلف حالات پہلو اور گوشے بھی سارے کے سارے اکیلے اللہ ہی کے لئے ہیں حتی کہ موت کا بھی صرف اللہ کے لئے ہونا اور اللہ کی خاطر ہونا ضروری ہے نہ کہ وطن اور ملک کی خاطر نہ ہی ہمارے زمانے کے مختلف بتوں اور طاغوتوں کی خاطر (جنہوں نے لوگوں کو ان کے دین سے فتنوں میں مبتلا کر رکھا ہے) جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔
نیز دین اسلام میں عبادت صرف مخصوص افعال واعمال کا نام نہیں بلکہ ایک مسلمان کا ہر ہر لمحہ عبادت ہوسکتا ہے اس بات کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ [بینۃ: ۵]
’’اور انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر صرف اس بات کا کہ وہ اللہ کی عبادت کو اسی کے لئے خالص کرنے والے ہوں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی مضبوط دین ہے۔‘‘
اس آیت میں عبادت کا حکم عام ہے اور زندگی کے تمام پہلوؤں اور گوشوں کو شامل ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عبادت کے خاص پہلوؤں یعنی نماز اور زکاۃ کا حکم دیا تاکہ اسلام میں ان کی اہمیت کو بیان کیا جائے۔
ایسے ہی نبی ﷺ نے فرمایا:
(بنی الاسلام علیٰ خمس ان یعبداﷲ ویکفر بما دونہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ و حج البیت وصوم رمضان)
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا کے ساتھ کفر کیاجائے اور نماز کو قائم رکھنے پر اور زکاۃ ادا کرنے پر اور بیت اللہ کا حج کرنے پر اور رمضان کے روزے رکھنے پر۔‘‘ [مسلم]
یہاں نماز اور زکاۃ اور حج اور روزے کا حکم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مکرر (دوبارہ) حکم نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان فرائض کو عبادت کے عام پہلوؤں میں سے خاص طور پر ذکر کرنا ہے اور عبادت کے ان خاص پہلوؤں میں سے سب سے بنیادی فریضہ توحید ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں جو بتاتے ہیں کہ اسلام میں عبادت عام ہے اور صرف عبادت کے مخصوص طور طریقوں اور افعال واعمال کا نام نہیں ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس دین کی حقیقت پر گمراہی اور جہالت کے ایسے دبیز اور تاریک پردے پڑتے رہے جنہیں ایک طرف کفریہ سیکولرازم اور بے دینی گہرا اثر کرتی رہی تو دوسری جانب چند ٹکوں پر بکے ہوئے طاغوت کے مددگار اور وہ نام نہاد علماء انہیں مضبوط کرتے رہے
جنہیں طاغوتی نظام علامہ، عالم، اور مولانا کے القابات سے نواز کر کپا بناتے رہے تاکہ وہ لوگوں کو مسلسل گمراہ کئے رکھیں اور ان طاغوتی نظاموں اور حکومتوں کو جائز قرار دیتے رہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی شرعی حقیقتوں کے حقائق مسخ ہوکر رہ گئے
اور مسخ شدہ حقائق میں سے (جنہیں گمراہ کرنے اور شبہات میں ڈالنے والے ہاتھ ہاتھوں ہاتھ لیتے رہے) ایک حقیقت ’’عبادت‘‘ بھی ہے جسے انہوں نے عبادت کے صرف ان مخصوص طور طریقوں اور اعمال وافعال میں محصور کردیا جو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں ادا کئے جاتے ہیں
یہاں تک کہ عوام الناس کی اکثریت یہ سمجھنے لگی کہ عبادت فقط انہی طور طریقوں اور اعمال کا نام ہے اور اس کا الٹا اثر ان کے تصورات اور عقائد اور طرز زندگی پر یہ پڑا کہ وہ رکوع اور سجود میں تو اللہ کی عبادت کرنے لگے لیکن عبادت کے دیگر پہلوؤں میں غیر اللہ کو پوجنے لگے اور اپنے آپ کو شاہراہ حق پر گامزن سمجھتے رہے۔
اور اگر کوئی اس سوچ اور عمل پر انکار کرتا تو وہ اس کے انکار پر اعتراضات جڑتے اور حیران اور ششدر رہ جاتے اور کہتے کہ وہ سیاست کو بھی دین میں داخل کرنا چاہتے ہیں اور ایسے پہلوؤں کو بھی دین قرار دینا چاہتا ہے جو دین کے تابع نہیں ہیں دین الگ اور دنیا الگ ہے۔ فالعیاذ باﷲ
لہٰذا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ عبادت میں کیا کچھ داخل ہے اور کہاں تک بندے پر بندگی (عبادت) کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خواہ وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، اور اسے معلوم ہو کہ کیا وہ اکیلے اللہ کی عبادت واطاعت میں لگا ہوا ہے یا مخلوق کی عبادت واطاعت کر رہا ہے؟
﴿لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّ یَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍ﴾ [انفال: ۴۲] ’’تاکہ ہلاک ہونے والا دلیل کی بنیاد پر تباہ ہو اور زندہ رہنے والا دلیل پر زندہ رہے ۔‘‘