- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
خدا کی عبادت اور مخلوق کی خدمت دونوں میں کون سی افضل ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خدا بے شک ہماری عبادت کا بھوکا نہیں لیکن ہم تو خدا کی عبادت کے بھوکے ہیں جیسے کھائے پئے بغیر ہماری جسمانی حیات قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح ہماری روحانی بقاء عبادت کے بغیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ روحانی بقاء وصال الٰہی سے ہے اور وصال الٰہی عبادت الٰہی سے ہے، پس اس حیثیت سے عبادت الٰہی کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے، مگر حقیقت امر یہ ہے کہ مخلوق کی خدمت عبادت الٰہی سے الگ سے الگ شے نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں ہے:
(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْن)
’’یعنی میں نے جنون اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
اگر خدمت مخلوق کو عبادت الٰہی سے خارج کر دیا جائے تو لازم آتا ہے کہ انسان ہمدردی کے لیے پیدا نہ ہو، حالانکہ اگر انسان کی پیدائش ہمدردی کے لیے نہ ہوتی تو پھر خدا انسان کو اس کا حکم کیوں دیتا؟ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدمت مخلوق بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے ہاں اگر سوال میں عبادت سے مراد بدنی عبادت ہو تو اس صورت میں بے شک خدمت مخلوق عبادت الٰہی سے الگ شمار ہو سکتی ہے مگر جب پیدائش انسان کی دونوں کے لیے ہے تو دونوں ضروری ہوئیں اور ایک کو غیر ضروری کہنا غلطی ہوئی اور مندرجہ ذیل شہادت سے بھی دونوں کا ضروری ہونا ثابت ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
(وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ )
’’یعنی خدا کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ قرابتی کے ساتھ احسان کرو ،نیز یتیموں، مسکینوں کے ساتھ سلوک کرو، نیز ہمسایہ قرابتی ہمسایہ بیگانہ، اپنے پہلو کا ساتھی، مسافر، مملوک ان سب کے ساتھ احسان کرو تکبر کرنے والے کو خدا بالکل دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ خدا کی عبادت بھی ضروری ہے اور مخلوق کے ساتھ احسان وسلوک کرنا بھی ضروری ہے دونوں پر عمل کرنا چاہئے، صرف ایک کو افضل سمجھ کر دوسرے میں سستی کرنا جائز نہیں ۔( عبداللہ امرتسری ۱۸ رجب ۱۳۵۴ھ مطابق ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۶۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خدا کی عبادت اور مخلوق کی خدمت دونوں میں کون سی افضل ہے؟
سوال:کیا خدا کی عبادت افضل ہے مخلوق کی خدمت؟
ایک شخص کہتا ہے کہ خدا ہماری عبادت کا بھوکا نہیں ہے مخلوق ہماری خدمت کی بھوکی اور حاجت مند ہے ،خدا کی عبادت ،روزہ، حج، زکوٰۃ ،خیر خیرات سب ایک کونے میں رکھ دیں اور مخلوق کی خدمت شروع کر دیں؟
( عبداللہ بن محمد سلیمان از بنگلور سٹی)
سوال:کیا خدا کی عبادت افضل ہے مخلوق کی خدمت؟
ایک شخص کہتا ہے کہ خدا ہماری عبادت کا بھوکا نہیں ہے مخلوق ہماری خدمت کی بھوکی اور حاجت مند ہے ،خدا کی عبادت ،روزہ، حج، زکوٰۃ ،خیر خیرات سب ایک کونے میں رکھ دیں اور مخلوق کی خدمت شروع کر دیں؟
( عبداللہ بن محمد سلیمان از بنگلور سٹی)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خدا بے شک ہماری عبادت کا بھوکا نہیں لیکن ہم تو خدا کی عبادت کے بھوکے ہیں جیسے کھائے پئے بغیر ہماری جسمانی حیات قائم نہیں رہ سکتی، اسی طرح ہماری روحانی بقاء عبادت کے بغیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ روحانی بقاء وصال الٰہی سے ہے اور وصال الٰہی عبادت الٰہی سے ہے، پس اس حیثیت سے عبادت الٰہی کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے، مگر حقیقت امر یہ ہے کہ مخلوق کی خدمت عبادت الٰہی سے الگ سے الگ شے نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں ہے:
(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْن)
’’یعنی میں نے جنون اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘
اگر خدمت مخلوق کو عبادت الٰہی سے خارج کر دیا جائے تو لازم آتا ہے کہ انسان ہمدردی کے لیے پیدا نہ ہو، حالانکہ اگر انسان کی پیدائش ہمدردی کے لیے نہ ہوتی تو پھر خدا انسان کو اس کا حکم کیوں دیتا؟ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدمت مخلوق بھی عبادت الٰہی میں داخل ہے ہاں اگر سوال میں عبادت سے مراد بدنی عبادت ہو تو اس صورت میں بے شک خدمت مخلوق عبادت الٰہی سے الگ شمار ہو سکتی ہے مگر جب پیدائش انسان کی دونوں کے لیے ہے تو دونوں ضروری ہوئیں اور ایک کو غیر ضروری کہنا غلطی ہوئی اور مندرجہ ذیل شہادت سے بھی دونوں کا ضروری ہونا ثابت ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
(وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَ )
’’یعنی خدا کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ قرابتی کے ساتھ احسان کرو ،نیز یتیموں، مسکینوں کے ساتھ سلوک کرو، نیز ہمسایہ قرابتی ہمسایہ بیگانہ، اپنے پہلو کا ساتھی، مسافر، مملوک ان سب کے ساتھ احسان کرو تکبر کرنے والے کو خدا بالکل دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ خدا کی عبادت بھی ضروری ہے اور مخلوق کے ساتھ احسان وسلوک کرنا بھی ضروری ہے دونوں پر عمل کرنا چاہئے، صرف ایک کو افضل سمجھ کر دوسرے میں سستی کرنا جائز نہیں ۔( عبداللہ امرتسری ۱۸ رجب ۱۳۵۴ھ مطابق ۱۸ اکتوبر ۱۹۳۵ء فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۶۸)
جلد 09 ص 339
محدث فتویٰ