• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادت اور کاروبار۔ ایک سبق آموز قصہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
حاجی صاحب نے آخری عمر میں فیکٹری لگالی اور چوبیس گھنٹے فیکڑی میں رہنے لگے- وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے دفتر میں کام کرتے تھے اور جب تھک جاتے تھے تو فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس میں سو جاتے تھے- حاجی صاحب کے مزاج کی یہ تبدیلی سب کیلیۓ حیران کن تھی- وہ تیس برس تک دنیاداری کاروبار اور روپے پیسے سے الگ تھلگ رہے تھے انہوں نے یہ عرصہ عبادت اور ریاضت میں گزاراتھا اور اللہ تعالی نے انہیں اس ریاضت کا بڑا خوبصورت صلہ دیا تھا وہ اندرسے روشن ہوگۓ تھے وہ صبح آٹھ بجے اپنی بیٹھک کھولتے تھے اور رات گۓ تک ان کے گرد لوگوں کا مجمع رہتا تھا،لوگ اپنی اپنی حاجت لے کر ان کے پاس آتے تھے- وہ ان کے لیۓ دعا کا ہاتھ بلند کر دیتے تھے اور اللہ تعالی سائل کے مسائل حل فرمادیتا تھا- اللہ تعالی نے ان کی دعاؤں کو قبولیت سے سرفراز کر رکھا تھا لیکن پھر اچانک حاجی صاحب کی زندگی نے پلٹا کھایا- وہ ایک دن اپنی گدی سے اٹھے، بیٹھک بند کی، اپنے بیٹوں سے سرمایہ لیا اور گارمنٹس کی ایک درمیانے درجے کی فیکٹری لگا لی- انہوں نے اس فیکٹری میں پانچ سو خواتین رکھیں- خود اپنے ہاتھوں سے یورپی خواتین کے لیۓ کپڑوں کے نۓ ڈیزائن بناۓ- یہ ڈیزائن یورپ بھجواۓ- باہر سے آرڈر آۓ اور حاجی صاحب نے مال بنوانا شروع کردیا- یوں ان کی فیکٹری چل نکلی اور حاجی صاحب دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹنے لگے- دنیا میں اس وقت گارمنٹس کی کم و بیش دو،تین کروڑ فیکٹریاں ہوں گی اور ان فیکٹریوں کے اتنے ہی مالکان ہوں گے لیکن ان دو تین کروڑ مالکان میں حاجی صاحب جیسا کوئی دوسرا کردار نہیں ہو گا ـ پوری دنیا میں لوگ بڑھاپے تک کاروبار کرتے ہیں اور بعدازاں روپے پیسے اور اکاؤنٹس سے تائب ہو کر اللہ اللہ شروع کر دیتے ہیں لیکن حاجی صاحب ان سے بالکل الٹ ہیں- انہوں نے پینتیس سال کی عمر میں کاروبار چھوڑا اللہ سے لو لگائی لیکن جب وہ اللہ کے قریب ہو گۓ توانہوں نے اچانک اپنی آباد خانقاہ چھوڑی اور مکروہات کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی- وہ دنیا کے واحد بزنس مین ہیں جو فیکٹری سے درگاہ تک گۓ تھے اور پھر درگاہ سے واپس فیکٹری پر آگۓـ حاجی صاحب کی کہانی ایک کتے سے شروع ہوئی تھی اور کتے پر ہی ختم ہوئی

حاجی صاحب کی گارمنٹس فیکٹری تھی، حاجی صاحب صبح صبح فیکٹری چلے جاتے اور رات بھیگنے تک کام کرتے تھے- ایک دن وہ فیکٹری پہنچے تو انہوں نے دیکھا ایک درمیانے قد کاٹھ کا کتا گھسٹ گھسٹ کر ان کے گودام میں داخل ہو رہا ہے، حاجی صاحب نے غور کیا تو پتہ چلا کتا شدید زخمی ہے، شاید وہ کسی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا جس کے باعث اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں اور وہ صرف ایک ٹانگ کے ذریعے اپنے جسم کو گھسیٹ کر ان کے گودام تک پہنچا تھا- حاجی صاحب کو کتے پر بڑا رحم آیا، انہوں نے سوچا وہ کتے کو جانوروں کے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، اس کا علاج کراتے ہیں اور جب کتا ٹھیک ہو جائے گا تو وہ اسے گلی میں چھوڑ دیں گے- حاجی صاحب نے ڈاکٹر سے رابطے کے لیۓ فون اٹھایا لیکن نمبر ملانے سے قبل ان کے دل میں ایک انوکھا خیال آیا اور حاجی صاحب نے فون واپس رکھ دیا- حاجی صاحب نے سوچا کتا شدید زخمی ہے، اس کی تین ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں، اس کا جبڑا زخمی ہے اور پیٹ پر بھی چوٹ کا نشان ہے چنانچہ کتا روزی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتا- حاجی صاحب نے سوچا' اب دیکھنا یہ ہے قدرت اس کتے کی خوراک کا بندوبست کیسے کرتی ہے، حاجی صاحب نے مشاہدے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ بیٹھ بیٹھ گئے- وہ کتا سارا دن گودام میں بیہوش پڑا رہا، شام کو جب اندھیرا پھیلنے لگا تو حاجی صاحب نے دیکھا ان کی فیکٹری کے گیٹ کے نیچے سے ایک دوسرا کتا اندر داخل ہوا، کتے کے منہ میں ایک لمبی سی بوٹی تھی- کتا چھپتا چھپاتا گودام تک پہنچا، زخمی کتے کے قریب آیا، اس نے پاؤں سے زخمی کتے کو جگایا اور بوٹی اس کے منہ میں دے دی- زخمی کتے کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا چنانچہ اس نے بوٹی واپس اگل دی- صحت مند کتے نے بوٹی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، بوٹی چبائی، جب وہ اچھی طرح نرم ہو گئی تو اس نے بوٹی کا لقمہ سا بنا کر زخمی کتے کے منہ میں دے دیا- زخمی کتا بوٹی نگل گیا، اسکے بعد وہ کتا گودام سے باہر آیا، اس نے پانی کے حوض میں اپنی دم گیلی کی، واپس گیا اور دم زخمی کتے کے منہ میں دے دی- زخمی کتے نے صحت مند کتے کی دم چوس لی- صحت مند کتا اس کروائی کے بعد اطمینان سی واپس چلا گیا- حاجی صاحب مسکرا پڑے- اس کے بعد یہ کھیل روزانہ ہونے لگا- روز کتا آتا اور زخمی کتے کو بوٹی کھلاتا، پانی پلاتا اور چلا جاتا- حاجی صاحب کئی دنوں تک یہ کھیل دیکھتے رہے- ایک دن حاجی صاحب نے اپنے آپ سے پوچھا "وہ قدرت جو اس زخمی کتے کو رزق فراہم کر رہی ہے کیا وہ مجھے دو وقت کی روٹی نہیں دے گی؟" سوال بہت دلچسپ تھا، حاجی صاحب رات تک اس سوال کا جواب تلاش کرتے رہے یہاں تک کہ وہ توکل کی حقیقت بھانپ گئے- انہوں نے فیکٹری اپنے بھائی کے حوالے کی اور تارک الدنیا ہو گئے- وہ مہینے میں تیس دن روزے رکھتے اور صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک رکوع و سجود کرتے، وہ برسوں اللہ کے دربار میں کھڑے رہے، اس عرصے میں اللہ انہیں رزق بھی دیتا رہا اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بھی- یہاں تک کہ وہ صوفی بابا کے نام سے مشہور ہو گئے اور لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویز بنا کر گلے میں ڈالنے لگے لیکن پھر ایک دوسرا واقعہ پیش آیا اور صوفی بابا دوبارہ حاجی صاحب ہو گئے

یہ سردیوں کی ایک نیم گرم دوپہر تھی، صوفی بابا کی بیٹھک میں درجنوں عقیدت مند بیٹھے تھے- صوفی بابا ان کے ساتھ روحانیت کے رموز پر بات چیت کر رہے تھے- باتوں ہی باتوں میں صوفی بابا نے کتے کا قصہ چھیڑ دیا اور اس قصے کے آخر میں حاضرین کو بتایا "رزق ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتا ہے لیکن ہم بیوقوف انسانوں نے رزق کا پیچھا شروع کر دیا ہے- اگر انسان کی توکل زندہ ہو تو رزق انسان تک ضرور پہنچتا ہے بلکل اس کتے کی طرح جو زخمی ہوا تو دوسرا کتا اس کے حصے کا رزق لے کر اس کے پاس آ گیا- میں نے اس زخمی کتے سے توکل سیکھی- میں نے دنیاداری ترک کی اور اللہ کی راہ میں نکل آیا- آج اس راہ کا انعام ہے میں آپ کے درمیان بیٹھا ہوں- ان تیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اللہ تعالی نے کسی نہ کسی وسیلے سے مجھے رزق نہ دیا ہو یا میں کسی رات بھوکا سویا ہوں- میں ہمیشہ اس زخمی کتے کو تھینک یو کہتا رہتا ہوں جس نے مجھے توکل کا سبق سکھایا تھا-" صوفی بابا کی محفل میں ایک نوجوان پروفیسر بھی بیٹھا تھا، پروفیسر نے جینز پہن رکھی تھی اور اس کے کان میں ایم پی تھری کا ائر فون لگا تھا- نوجوان پروفیسر نے ائر فون اتارا اور قہقہہ لگا کر بولا "صوفی بابا ان دونوں کتوں میں افضل زخمی کتا نہیں تھا بلکہ وہ کتا تھا جو روز شام کو زخمی کتے کو بوٹی چبا کر کھلاتا تھا اور اپنی گیلی دم سے اس کی پیاس بجھاتا تھا- کاش آپ نے زخمی کتے کے توکل کی بجائے صحت مند کتے کی خدمت، قربانی اور ایثار پر توجہ دی ہوتی تو آج آپ کی فیکٹری پانچ، چھ سو لوگوں کا چولہا جلا رہی ہوتی-" صوفی بابا کو پسینہ آ گیا- نوجوان پروفیسر بولا "صوفی بابا! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے، وہ صحت مند کتا اوپر والا ہاتھ تھا جبکہ زخمی کتا نیچے والا- افسوس آپ نے نیچے والا ہاتھ تو دیکھ لیا لیکن آپ کو اوپر والا ہاتھ نظر نہ آیا- میرا خیال ہے آپ کا یہ سارا تصوف اور سارا توکل خود غرضی پر مبنی ہے کیونکہ ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے" نوجوان اٹھا' اس نے سلام کیا اور بیٹھک سے نکل گیا- حاجی صاحب نے دو نفل پڑھے، بیٹھک کو تالا لگایا اور فیکٹری کھول لی، اب وہ عبادت بھی کرتے ہیں اور کاروبار بھی۔

لنک
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مجھے نہیں معلوم اس واقعہ سے کیا ثابت کرنا مقصود ہے؟ اصل مراد واضح نہیں ہو سکی؟؟

در اصل جو شخص بھی کوئی تحریر لکھتا ہے وہ اس تحریر میں اپنے خیالات کو غیر محسوس طور پر ڈال دیتا ہے، اور اس طرز کی مثال پیش کرتا ہے کہ وہ اپنا موقف ظاہر کیے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈال سکے۔
یہ طریقہ کار اس لئے آسان ہے کہ اس کے لئے کوئی دلیل نہیں دینی پڑتی۔ اور مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے۔

اس کہانی میں دنیا داری میں مگن ہونے اور تصوف (ترکِ دنیا ورہبانیت) کا مقابلہ کیا گیا ہے، جو دونوں انتہائیں ہیں اگر تو ان دونوں انتہاؤں کا ردّ مقصود ہے تو ٹھیک ہے

لیکن

اگر یہاں دنیا کے بالمقابل تصوف سے مراد اسلام میں مطلوب دین داری (مثلاً زہد وتقویٰ، تعلیم وتعلّم، دعوت وجہاد) مراد ہے (جیسا کہ عوام میں معروف ہے) تو یہ ایک لغو اور باطل کہانی ہے، جس کے ذریعے دنیاداری (جو مباح ہے، اگر شریعت کے دائرے میں ہو) کو بلاوجہ دین پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

فرمانِ باری ہے:
﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ... سورة فصلت: 33
کہ ’’اور اس سے زیاده اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘

نیز فرمایا:
﴿ بَلْ تُؤْثِرُ‌ونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (١٦) وَالْآخِرَ‌ةُ خَيْرٌ‌ وَأَبْقَىٰ (١٧) إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ (١٨) صُحُفِ إِبْرَ‌اهِيمَ وَمُوسَىٰ ﴾ ... سورة الأعلىٰ
کہ ’’لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو (16) اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے (17) یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں (18) (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں۔‘‘

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
« من أحب دنياه ؛ أضر بآخرته ، ومن أحب آخرته ؛ أضر بدنياه ، فآثروا ما يبقى على ما يفنى » ... صحيح الترغيب: 3247
کہ ’’جو اپنی دُنیا سے محبت کرے گا، اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے گا۔ اور جو اپنی آخرت سے محبت کرے گا، اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا، تو تم فانی ہونے والی شے (دُنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت) کو ترجیح دو۔‘‘

نیز حدیث قدسی ہے:
« إن الله تعالىٰ يقول : يا ابن آدم تفرغ لعبادتى أملا صدرك غنى ، و أسد فقرك ، و إن لا تفعل ملأت يديك شغلا ، و لم أسد فقرك » ... صحيح الجامع: 1914
کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے آدم کے بیٹے! میرے عبادت کیلئے فارغ ہوجا میں تیرے سینے کو غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجگی کو بھی دور کر دوں گا۔ اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے ہاتھوں کو مشغولیت سے بھر دوں گا، اور تیری احتیاج (ضرورت) بھی ختم نہ کروں گا۔‘‘

یہ کیسی دین داری ہے کہ صبح آٹھ بجے بیٹھک کھولنا، پورا دن لوگوں کا مجمع اور اکٹھ رہنا اور حاجی صاحب کا رات تک لوگوں کیلئے دُعائیں کرنا (کم از کم میں نے ایسی نیکی کبھی نہیں سنی)،

پہلے یہ ’نیکی‘ پیش کی گئی۔ اگر حاجی صاحب (جو صوفی صاحب بن گئے تھے) پورا دن یہی کرتے تھے تو جو کچھ آگے بیان کیا گیا ہے کہ
ترکِ دُنیا، مہینے کے تیس دن روزے رکھنا (یعنی پورا سال مسلسل روزے)، صبح صادق سے اگلی صبح کاذب تک یعنی پورا دن رکوع وسجود وغیرہ وغیرہ

وہ کیسے ممکن ہے؟!! کیا یہ کھلا تضاد نہیں! پورا دن لوگوں کیلئے بیٹھک میں دعائیں کرتے تھے، یا رکوع وسجود کرتے تھے؟؟؟!!!

اور پھر

لوگ ان کے پاؤں کی خاک کا تعویذ بنا کر گلے میں ڈالنے لگے، بھی دین کا غلط تصور ہے۔

اسی طرح

بجائے اس کے کہ حاجی صاحب زخمی کتے کو ہسپتال لے جاتے اور خود اس کی مدد کرتے، وہ بھی اللہ پر توکل کا ایک نمونہ ہی ہوتا۔ لیکن بلا وجہ حاجی صاحب نے دوسرے کتے کے آنے کا انتظار کر کے توکل کی حقیقت بھانپی (جو توکّل کا نہایت غلط مفہوم ہے) حالانکہ توکل تو یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھ کر اللہ پر توکل کیا جائے، نہ کہ فارغ بیٹھ کر روزی کا انتظار کیا جائے۔

اسی طرح دُنیا میں مشغولیت (یعنی تجارت جو مباح ہے، اگر شریعت کی حدود میں رہ کر کیا جائے) کی بھی انتہاء پیش کی گئی ہے، چوبیس گھنٹے فیکٹری میں ہی رہنا، سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنا، اور تھک جانے پر ہی دنیاوی کام چھوڑنا اور پھر وہیں گیسٹ ہاؤس میں سو جانا کیا انتہائی غلو نہیں؟!!!

فرمانِ نبویﷺ ہے:
﴿ أيها الناس اتقوا الله ، و أجملوا في الطلب ، فإن نفسا لن تموت حتى تستوفي رزقها ، و إن أبطا عنها ، فاتقوا الله ، و أجملوا في الطلب ، خذوا ما حل ، و دعوا ما حرم ﴾ ... صحيح ابن ماجه: 1756
کہ ’’اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور کسی شے کی طلب میں اجمال (یا جمال یعنی خوبصورتی) باقی رکھو، کیونکہ اس وقت تک کوئی شخص مر نہیں سکتا جب تک وہ اپنا (مقدر شدہ) رزق مکمل حاصل نہ کرلے، خواہ وہ اسے تاخیر سے ملے۔ طلب میں جمال اور وقار باقی رکھو، جو حلال ہے اسے لے لو اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو۔‘‘

اور پھر آخر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وہ اب کاروبار بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی۔ ناجانے سولہ، اٹھارہ گھنٹے کاروبار کرنے کے بعد باقی وقت سوتے ہوں گے یا عبادت؟؟

آخر میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ
ایک سخی بزنس مین دس ہزار نکمّے اور بے ہنر درویشوں سے بہتر ہوتا ہے۔
اگر اس سے مراد نام نہاد صوفی اور ملنگ ہیں تو ٹھیک لیکن اگر اس سے مراد دعوت وجہاد کے علمبردار علماء ہیں تو ایک باعمل عالم دنیا جہاں کے سخی بزنس مینوں سے بہتر ہے۔

فرمانِ نبوی ہے:
« فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم ، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله وملائكته وأهل السماوات والأرض حتى النملة في جحرها ، وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير » ... صحيح جامع الترمذي: 2685
کہ ’’عالم کی فضیلت عابد (نہ کہ سخی بزنس پر) پر ایسے ہے، جیسے میری (نبی کریمﷺ کی) فضیلت تم میں ادنیٰ (امتی) پر۔ پھر فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ، ان کے فرشتے، تمام زمین وآسمان والے حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی سمندر میں لوگوں کو خیر سکھلانے والے پر ’درود‘ (یعنی اللہ تعالیٰ رحمتیں فرماتے اور دیگر تمام مخلوقات رحمت کی دُعا کرتے) بھیجتے ہیں۔‘‘

نیز صحیح بخاری کی معروف حدیث کہ نبی کریمﷺ کے پاس سے دو آدمی گزرے: جن میں ایک معزز لوگوں میں سے تھا اور دوسرا فقیروں میں سے، جس کے آخر میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: « هذا خير من ملء الأرض مثل هذا » ... صحيح البخاري: 6447
کہ ’’ان معزز لوگوں سے بھری دنیا بھی ہو تو اکیلا یہ فقیر آدمی ان سب سے بہتر ہے۔‘‘

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top