میں نے پہلے ہی لکھا ہے کہ ”بعض فقہا“ کے مطابق ۔ اور جو فقہا فرض اور واجب کے فرق کو روا نہیں رکھتے، وہ ان دونوں صورتوں میں نکاح کو فرض سمجھتے ہیں۔
ہمارا ”المیہ“ یہ ہے کہ ہم بال کی کھال نکالنے کے اتنے ”ماہر“ ہیں کہ اصل موضوع کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ بات شادی کرنے، نہ کرنے کی ہورہی تھی۔ اور یہ سوال اٹھا کہ یہ فرض ہے یا سنت۔ نکاح کو بالعموم ”سنت“ قرار دیا جاتا ہے۔ اگرنکاح ”فرض عین“ ہوتا تو یقیناً سو فیصد صحابہ نکاح کرتے۔
لیکن فقہائے کرام نے نکاح کے تفصیلی بیان میں فرض، سنت اور حرام نکاح کو بھی ”ڈیفائن“ کردیا ہے۔ تاکہ استثنائی صورتوں کی بھی وضاحت ہوجائے۔ بس بات اتنی سی تھی۔ اسی تین حالت کو کوئی پانچ میں بیان کردے تو تین پانچ میں پڑنے کی بجائے اصل بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ”نکاح گو کہ سنت ہے۔ مگر استثنائی صورتوں میں یہ فرض یا حرام بھی ہوجاتا ہے۔“
واللہ اعلم