• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی حفظک اللہ
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اسلام کب قبول کیا؟
جزاکم اللہ خیرا
امام ابن سعد ؒ ( أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بابن سعد (المتوفى: 230 ھ)
نے طبقات کبریٰ میں لکھا ہے کہ :
(الْعَبَّاسُ بْنُ عبد المطلب
وكان العباس يكنى أبا الفضل.

یعنی سیدنا عباس بن عبدالمطلب کی کنیت " ابوالفضل " تھی ،
کیونکہ :قالوا: وكان للعباس بن عبد المطلب من الولد الفضل وكان أكبر ولده وبه كان يكنى : ان کے بڑے صاحبزادے کا اسم گرامی " فضل " تھا ، جس سے انکی کنیت ابوالفضل پڑی "
اور ابن سعد ہی نے نقل فرمایا ہے کہ :
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: أخبرنا خالد بن القاسم البياضي قال: حدثني شعبة مولى ابن عباس قال: سمعت عبد الله بن عباس يقول: ولد أبي العباس بن عبد المطلب قبل قدوم أصحاب الفيل بثلاث سنين. وكان أسن من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -بثلاث سنين.
یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرے والد عباس رضی اللہ عنہ اصحاب فیل کے واقعہ سے تین سال پیدا ہوئے ،
اس طرح وہ عمر میں جناب رسول کریم ﷺ سے تین سال بڑے تھے "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام أبو القاسم عبد الله بن محمد البغوي (المتوفى : 317هـ) نے " معجم الصحابہ " میں بالاسناد نقل کیا ہے کہ :
قيل للعباس: أيما أكبر أنت أو النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: هو أكبر مني وأنا ولدت قبله وهذا لفظ حديث عبد الله بن عمر وقال نصر بن علي في حديثه: هو أكبر مني وولدت أنا قبله ۔۔۔۔ )
جناب عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ : آپ بڑے ہیں یا نبی مکرم ﷺ ؟
سیدنا عباس نے فرمایا : نبی اکرم ﷺ ( فضائل و مراتب و مقامات میں ) مجھ سے بڑے ہیں ، ہاں میں انسے پہلے پیدا ہوا ،"
امام ھیثمی مجمع الزوائد میں اس روایت کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح) اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلامی فتاویٰ اور امہات الکتب کی مستند عربی سائیٹ ( اسلام ويب ، مركز الفتوى ) پر اس ضمن میں ایک فتوی موجود ہے :

نبذة مختصرة عن العباس بن عبد المطلب

الأحد 9 محرم 1425 - 29-2-2004

رقم الفتوى: 44751
التصنيف: فضائل الصحابة

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السؤال
أرغب في معرفة الكثير عن سيدنا العباس بن عبد المطلب عم النبي عليه الصلاة والسلام، نسبه، ورعه، زهده، عبادته، معاملاته مع الصحابة، وكل شيء عن حياته، حيث إنني قرأت كتاب رجال حول الصحابة ولم يأت بالكثير مما أرغب فيه؟ ولسيادتكم جزيل الشكر.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فإن العباس بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف هو عم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولد قبل عام الفيل بثلاث سنين، قال الكلبي: كان العباس شريفاً، مهيباً، عاقلاً، جميلاً، أبيض، له ضفيرتان، معتدل القامة.

قال الذهبي: كان من أطول الرجال، وأحسنهم صوتاً، وأبهاهم وأجهرهم صوتاً، مع الحلم الوافر، والسؤدد.

قيل إنه أسلم قبل الهجرة وكتم إسلامه، وخرج مع قومه إلى بدر، تزوج أم الفضل بنت الحارث الهلالية، وهي أخت ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فولدت له الفضل وهو أكبرهم، وعبد الله البحر، وعبيد الله، وقثم، وعبد الرحمن، ومعبد، وأم حبيب.

قال عنه النبي صلى الله عليه وسلم: ما بال أقوام يؤذونني في العباس، وإن عم الرجل صنو أبيه. رواه الحاكم في المستدرك.

وثبت في صحيح مسلم أنه ثبت مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين وأنه كان آخذاً بلجام بغلته، عاش ثمانياً وثمانين سنة وتوفي سنة 32 هـ وقيل سنة 34هـ، فصلى عليه عثمان ودفن بالبقيع رضي الله عن الصحابة أجمعين.

هذه نبذة مختصرة عن الصحابي استقيناها من كتاب سير أعلام النبلاء للذهبي، ومن أراد المزيد فليرجع إليه أو لغيره من كتب التراجم كالإصابة للحافظ ابن حجر، أو البداية والنهاية لابن كثير وغيرها.

والله أعلم.
اسلام ويب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس فتوی کا خلاصہ یہ ہے کہ :
جناب عباس رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ سے قبل ہی اسلام لاچکے تھے ،تاہم اپنے اسلام اظہار نہ کرتے تھے ،
اور بدر کی جنگ میں اپنی قوم کے ساتھ بھی گئے تھے ،
____________________________________________
اور علامہ حافظ ابن حجر ؒ نے الاصابہ میں لکھاہے کہ :
فيقال: إنه أسلم، وكتم قومه ذلك، وصار يكتب إلى النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم بالأخبار، ثم هاجر قبل الفتح بقليل، وشهد الفتح،
یعنی سیدنا عباس ایک عرصہ تک مکہ میں مقیم رہنا اورعلانیہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہونا درحقیقت ایک مصلحت پر مبنی تھا،وہ کفارمکہ کی نقل وحرکت اوران کے رازہائے سربستہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دیتے تھے،
پھر فتح مکہ سے تھوڑا پہلے اپنے اسلام کا اظہار فرمایا ، اور فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے "
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جزاکم اللہ خیرا یا شیخ!
الرحیق المختوم میں یہ لکھا ہے:
۱۰ رمضان المبارک ۸ ھ کو رسول اللہﷺ نے مدینہ چھوڑ کر مکے کا رخ کیا۔ آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے، مدینہ پر ابو رھم غفاریؓ کی تقرری ہوئی۔
جحفہ میں یا اس سے کچھ اوپر آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ملے۔ وہ مسلمان ہو کر اپنے بال بچوں سمیت ہجرت کرتے ہوئے تشریف لارہے تھے.
حوالہ
اور غالبا آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں فدیہ بھی دیا تھا..

محترم شیخ!
ہو سکے تو مزید وضاحت کر دیں!
بارک اللہ فیک
 
Top