عبداللہ بن مطیع رحمہ اللہ کے صحابی ہونے کا میرے علم میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اورنہ ہی میرے ناقص علم کے مطابق محدثین میں سے کسی نے انہیں صحابی کہا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنھایہ میں جو یہ لکھا ہے کہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابن مطیع کوگھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔[البداية والنهاية ط إحياء التراث 8/ 380]
تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے نہ تو اس بات کی سند ذکر کی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حوالہ پیش کیا ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کے لئے” له رؤية“ کہا ہے یعنی انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں دیکھا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3626]
عرض ہے کہ محض اتنی سی بات سے کوئی صحابی نہیں ہوجاتا بلکہ صحابی ہونے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی ضروری ہے۔ ہم تسلی کے لئے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) رحمہ اللہ نے ایک جواب میں کہا:
عن إسحق بن منصور قال قلت ليحيى محمد بن حاطب له رؤية أو صحبة قال رؤية
اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام ابن معین رحمہ اللہ سے پوچھا : محمدبن حاطب کو رویت حاصل ہے یا وہ صحابی ہیں ؟ تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے جواب دیا : انہیں رویت حاصل ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 183]
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
طارق بن شهاب له رؤية وليست له صحبة
طارق بن شہاب کو رویت حاصل ہے یہ صحابی نہیں ہیں[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 98]
نیز ان کے بیٹے نے کہا:
سئل أبي عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي له صحبة قال لا له رؤية
میرے والد سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن بن عثمان تیمی کیا صحابی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں ، انہیں رویت حاصل ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 123]
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
محمود بن الربيع ويقال بن ربيعة الخزرجي الأنصاري مدينى أدرك النبي صلى الله عليه و سلم وهو صبي ليست له صحبة وله رؤية
محمود بن ربیع انہیں ابن ربیعہ خزرجی انصاری مدینی بھی کہا جاتا ہے انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں پایا ہے یہ صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف رویت حاصل ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 289]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) مروان بن الحکم کے بارے میں فرماتے ہیں:
لم أر من جزم بصحبته فكأنه لم يكن حينئذ مميزا ومن بعد الفتح أخرج أبوه إلى الطائف وهو معه فلم يثبت له أزيد من الرؤية [الإصابة لابن حجر، ت تركي: 10/ 389]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک مروان بن الحکم کے بارے میں صرف یہ ثابت ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، یعنی صاحب رویت ہیں۔لیکن صرف اتنی بات سے ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک وہ صحابی ثابت نہیں ہوتے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الادراک والرؤية اقل افادة من قولہ لہ صحبة لان الصحبة کما لایخفاکم یلاحظ فیھا المعنی اللغوی ولو فی حدود ضیقة، اما لہ ادراک و لہ رؤية فذلک مما لایستلزم ، قد یکون راہ وھو طفل صغیر ادرک الرسول وھو کذلک ، لکن لا ینسحب علیہ معنی الصحبة مھما ضیقت دائرتھا ولذلک فمن قیل فیہ : بانہ لہ صحبة اقرب الی ان یحشر فی الصحابہ ولا یحشر مما قیل فیہ لہ رؤية او لہ ادراک
''فلاں کو ادراک حاصل ہے '' یا ''فلاں کو رویت حاصل ہے'' اس قول کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ فلاں کو صحبت حاصل ہےجیساکہ ظاہرہے اس کے لغوی معنی کو کسی نہ کسی شکل میں پیش نظر رکھنا ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے'' یا ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے'' تو اس سے صحابی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے جب دیکھا ہے اس وقت وہ چھوٹا بچہ رہا ہو ، اور یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانے میں بھی ہے۔ ایسے لوگوں پر صحابی کا اطلاق کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا ۔ لہٰذا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ''اسے صحبت حاصل ہے'' تو یہ اس بات کے قریب ہے کہ اسے صحابہ میں شمار کیا جائے ، اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ : ''اسے رویت حاصل ہے'' یا ''اسے ادراک حاصل ہے '' تو اس طرح کے لوگوں کا شمار صحابہ میں نہیں ہوسکتا۔[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔
معلوم ہوا کہ صحابی ہونے کے لئے محض رویت کافی نہیں ہے اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن مطیع کا تذکرہ کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا دیکھئے :[الكاشف للذهبي: 1/ 599]۔
اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی ابن مطیع ذکر کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا، دیکھئے :[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3626]
واضح رہے کہ بعض اہل علم ’’لہ رویۃ‘‘ والوں کو صحابی کہہ دیتے ہیں تو ان کی نظر میں صحابی کا عام اصطلاحی معنی مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تشریفی طور پر مقید صحبت ان کی مراد ہوتی ہے چنانچہ ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلاَ صُحْبَةَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، بَلْ لَهُ رُؤْيَةٌ، وَتِلْكَ صُحْبَةٌ مُقَيَّدَةٌ.
عبدالرحمن صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں روایت حاصل ہے اور یہ ایک مقید صحبت ہے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 484]
یعنی صحابی ہونے اورصاحب رویت ہونے میں فرق ہے ، الغرض یہ کہ ابن مطیع صحابی نہیں ہیں میرے ناقص علم کی حد تک کسی نے بھی انہیں صحابی نہیں کہا ہے۔
بطورفائدہ عرض ہے کہ محمدبن ابی بکر بھی ان لوگوں میں تھے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے ارادہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تھے بلکہ محمدبن ابی بکرنے قتل کااقدام بھی کردیا تھا لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی بات سے شرمندہ ہوکررک گئے۔[تاريخ خليفة بن خياط ص: 174 واسنادہ صحیح]
ان کے بارے میں بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
محمد بن أبي بكر الصديق أبو القاسم له رؤية
محمدبن ابی بکرالصدیق ابوالقاسم ،انہیں رؤیت حاصل ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 384]
یعنی انہوں نے بچپن میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی صحابی ہیں؟اورپھریہ بھی سوال اٹھے گا کہ کیا بعض صحابہ بھی نعوذباللہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں شامل تھے ؟
صاف بات یہ ہے کہ لہ رؤیۃ سے صحابی ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے محمدبن ابی بکر صحابی نہیں ہیں ۔
اسی طرح ابن مطیع بھی صحابی نہیں ہیں۔اور بعض اہل علم نے صحابہ والی کتاب میں جو ان کا تذکرہ کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ انہیں صحابی مانتے ہیں بلکہ انہوں نے فقط رویت کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں صحابہ والی کتاب میں ذکر کردیا ہے۔
اور اگر صحابہ والی کتاب میں کسی کے تذکرہ سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ صحابی ہیں تو واقعہ حرہ میں مدینہ پرحملہ کرنے والی فوج کے قائد مسلم بن عقبہ تھے ان کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں موجود ہے دیکھئے:[الإصابة في تمييز الصحابة 6/ 232]۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمن بن ملجم کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[تجريد أسماء الصحابة للذھبی: 1/ 356 ، الإصابة في تمييز الصحابة 5/ 85]۔
نیز عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کی نیت سے جانے والے محمدبن ابی بکر کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[أسد الغابة ط العلمية 5/ 97 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 3/ 1366]
بلکہ لطف تو یہ ہے کہ مختار ثقفی جیسے کذاب ودجال کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے ، دیکھئے:[أسد الغابة ط الفكر 4/ 346 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 4/ 1465]
تو کیا یہ سب کے سب صحابہ ہیں ؟؟
واضح رہے کہ ’’لہ رویۃ ‘‘ والے حضرات چونکہ صحابی نہیں ہوتے اسی لئے یہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو محدثین اس روایت کو مرسل قرار دیتے ہیں اسے متصل نہیں مانتے جب کہ صحابہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو انہیں متصل مانا جاتا ہے۔اس بابت بھی کچھ حوالے ملاحظہ ہوں:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فإن كان لم يكن له إلا مُجرَّدُ رُؤْية، فقولُه: "قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " محمولٌ على الإرسال.
اگرکسی کو محض اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت حاصل ہے اور وہ کہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تو اس کی یہ روایت مرسل ہوگی [الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 59 ، نیز دیکھیں: سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 509]۔
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وكذلك كثير من صبيان الصحابة رأوا النبي ولم يصح لهم سماع ، فرواياتهم عنه مرسلة كطارق بن شهاب وغيره
صحابہ کے بچوں میں سے کئی ایک نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا نہیں اس لئے اس طرح کے لوگوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت مرسل ہوتی ہے[شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 58]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے :[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔
الغرض یہ کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ’’لہ رویۃ‘‘ ان کو صحابی کہنا درست نہیں ہے اس لئےبعض لوگوں کا ابن مطیع کو صحابی کہنا اوران پر صحابہ کے احکامات منطبق کرنا اصول حدیث کے خلاف ہے ۔واللہ اعلم۔
آخر میں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض لوگ ابن مطیع کو صحابی کہنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے امیر یزیدبن معاویہ کو تارک صلاۃ اور شراب نوش کہا ہے۔جیساکہ البدایہ والنھایہ کی روایت میں ہے۔
عرض ہے کہ ابن مطیع نے شراب نوشی اور ترک صلاۃ کی جوبات کہی ہے وہ ان کی اپنی بات یا ان کا اپنا مشاہدہ ہے ہی نہیں ۔بلکہ ابن مطیع نے کسی مجہول و نامعلوم شخص سے یہ بات سنی ہے چنانچہ ابن مطیع اور ان کے ساتھیوں نے یہ بات کہی تو محمدبن الحنفیہ نے ان سے شہادت طلب کی اور پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے خود یہ بات دیکھی ہے تو انہوں نے صاف طور سے کہا کہ ہم نے یہ بات خود نہیں دیکھی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ بات سچ ہے۔
یعنی ابن مطیع اور ان کے ساتھ ان الزامات میں کسی اور کی بات پر یقین کررہے جس کا نام ان لوگوں نے نہیں بتایا ۔
معلوم ہوا کہ اس بات کو کہنے والا اصل شخص مجہول ہے اس کا صحابی ہونا تو دور کی بات سرے سے مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کانام اور حال سب نامعلوم ہے بہت ممکن ہے یہ بات کہنے والا کوئی منافق سبائی ہو جس سے ابن مطیع وغیرہ دھوکہ کھا گئے ہوں۔
اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ہماری کتاب : یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ۔