طاہرمحمودسلفی
مبتدی
- شمولیت
- اگست 07، 2013
- پیغامات
- 38
- ری ایکشن اسکور
- 76
- پوائنٹ
- 23
لرزاں ہیں میرے نام کی ہیبت سے کاسہ لیس
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
انسان کیا ہے اورکیا نہیں؟یہ سوال ہمیشہ معمہ رہاہے، اس بات کی ٹوہ لگانا بڑا مشکل ہے کہ اس کی خیروشر کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے. ملک کی تقسیم بلاشبہ ایک انقلاب تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک المیہ بھی تھا، ہر انقلاب ایک المیہ ہوتا ہے اور اس کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں، انقلاب آتا ہے تو خود انقلابی قوتیں حیران رہ جاتی ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ اس سے خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو وہ نہ تھا جو ہم چاہتے تھے، لیکن انقلاب بہرحال ایک نظام کی اجتماعی موت کا نام ہے.
آغا شورش کاشمیری،(بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفل)
ایسی ھستیاں بڑی مشکل سے پیدا ہوا کرتی ہیں کہ جن کے کارناموں پر بعد میں آنے والے ناز کر سکیں آغاشورش کاشمیری بھی ایسے افراد کی صف میں شامل ہیں۔ وہ جرات واستقامت کا پیکر، عزم وحوصلے کا کوہ گراں، میدان صحافت کا شہسوار اور کارزار سیاست کا مرد میدان، وہ شاعر انقلاب، صاحب طرز ادیب اور تحریک آزادی تحریک تحفظ ختم نبوت کا عظیم مجاہد وہ سچے عاشق رسول جو اپنے جوش خطابت سے خرمن باطل میں آگ لگایا کرتے تھے جسکی صداقت گوئی اور جرات واستقامت کے سامنے وقت کے فرعون بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
آغا شورش نے اپنی پوری زندگی اور تمام توانائیاں آزادی کی جدوجہد تحفظ ختم نبوت میں صرف کی۔اسی حق گوئی کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کو مارا گیا پیٹا گیا مال ودولت کا لالچ دیا گیا لیکن آغا شورش کاشمیری نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ آغاشورش کاشمیری جیسے مجاہدین کی جرات واستقامت تھی کہ آج ہم غلامی سے آزاد ہیں۔
شورش کاشمیری کا نام عبدالکریم اور تخلص الفت تھا۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست1917ء کو بروز منگل امرتسر میں پیدا ہوئے۔سات آٹھ سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔والدہ کی وفات کے بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ ان کے والد کا نام نظام الدین تھا۔ انکے دادا بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور آئے تھے پھر پورا خاندان یہیں رہائش پذیر ہو گیا ۔شروع میں شاعری اور ادب کا ایسا چسکا تھا کہ نام کے ساتھ الفت تخلص لگاتے تھےاور اشعار بھی کہتے تھے احسان دانش جیسے شاعر سے ٹیویشن بھی لیتے رہے۔ احباب نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش رکھ دیا اور اس کی وجہ وہ خود اپنی طبیعت بتاتے ہیں۔ شورش کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور بڑے محنتی طالب علم تھے۔دیوسماج ھائی اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا شوق کے باوجود گھر کے معاشی بحران کی وجہ سے باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ عرصہ دراز تک روزگار کی تلاش میں سرگردان رہے لیکن فرصت کے اوقات مطالعہ اور اہل علم کے مجلسوں میں نشت وبرخاست کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کےگھر میں زمیندار اخبار پابندی سے آتا تھا اور شورش پابندی سے پڑھتےتھے جیل میں قرآن کریم کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا۔ فارسی اردو سیاسیات اور عمرانیات میں بھی دسترس حاصل کر لی۔ یوں تو آغا صاحب میٹرک سے اوپر کسی سند یا ڈگری کے حامل نہیں تھے لیکن ذاتی محنت وریاضت اور مطالعے سے وہ مقام حاصل کر لیاتھا کہ بڑے بڑے ڈگریوں والے ان کے آگے جو ئہ کم آب نظر آتے۔
آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔
آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ''چٹان'' کااجراء کیا اور اسے باکمال بنایا میں نے کہیں پڑھا ہے کہ لوگ ہفت روزہ "چٹان " کوقطار میں لگ کر لیا کرتے تھے۔
آغا شورش کاشمیری پکےموحد تھے۔ شرک و بدعت سے سخت نفرت کرتے تھے وہ سچے عاشق رسول تھے۔ ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ پوری زندگی قادیانیوں کی محتسب رہے۔ دجال قدیان اور اسکی ذریت کے خلاف چلنے والی تمام تحریکوں کو اپنے خون سے سینچا
غالبا 1972ء میں آغا شورش کاشمیری نے اپنے رسالے چٹان میں مرزا قادیانی کا فوٹو چھاپا تھا اور لکھا کہ اسکی شکل دیکھ کر اسکو نبی مان سکتے ہو تو مجھ سے آکر دس ہزار روپے انعام لے جاؤ۔
کچھ لوگ ان کے نام کے ساتھ "آغا" سے انہیں شیعہ سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ تخلص انہیں اسی ہستی نے دیا تھا جنہوں نے سب سے پہلے "محمد علی جناح" کے لیے "قائد اعظم " کا استمعال کیا تھا۔۔ مزید جانکاری کے لیے ان کی سوانح ّّ بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفلٗ ٗ جو انہوں نے خود لکھی ہے سے استفادہ کریں۔
ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے جولائی1973 میں شدت آگئی 25 اکتوبر1975 کو بروز جمعرات رات 12 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا مفتی محمود کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی مغرب کی آذان کے وقت میانی صاحب کے قربستان میں دفن کر دیئے گئے۔
انہوں نے ایک دفعہ اپنے کالم میں اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد وہ شخص مجھے غسل دے جس نے منبر و محراب کی عظمت کو داغدار نہ کیا ہو۔
-کوئی حکمران میری قبر پر فاتحہ نہ پڑھے
-جو کبھی انگریز فوج میں بھرتی ہو کر ملک معظم کی حکومت کیلئے نہ لڑا ہو
-جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو
-مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو
-مجھے وہ اشخاص کندھا دیں جو ظلم وجور کے خلاف لڑتے رہے
-میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے جس کولہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو۔
-میری قبر پر ایک ہی کتبہ لکھا جائے کہ ''یہاں وہ شخص دفن ہے جس کی زندگی تمام عمر عبرتوں کا مرقع رہی ہے''
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
انسان کیا ہے اورکیا نہیں؟یہ سوال ہمیشہ معمہ رہاہے، اس بات کی ٹوہ لگانا بڑا مشکل ہے کہ اس کی خیروشر کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے. ملک کی تقسیم بلاشبہ ایک انقلاب تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک المیہ بھی تھا، ہر انقلاب ایک المیہ ہوتا ہے اور اس کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں، انقلاب آتا ہے تو خود انقلابی قوتیں حیران رہ جاتی ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ اس سے خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو وہ نہ تھا جو ہم چاہتے تھے، لیکن انقلاب بہرحال ایک نظام کی اجتماعی موت کا نام ہے.
آغا شورش کاشمیری،(بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفل)
ایسی ھستیاں بڑی مشکل سے پیدا ہوا کرتی ہیں کہ جن کے کارناموں پر بعد میں آنے والے ناز کر سکیں آغاشورش کاشمیری بھی ایسے افراد کی صف میں شامل ہیں۔ وہ جرات واستقامت کا پیکر، عزم وحوصلے کا کوہ گراں، میدان صحافت کا شہسوار اور کارزار سیاست کا مرد میدان، وہ شاعر انقلاب، صاحب طرز ادیب اور تحریک آزادی تحریک تحفظ ختم نبوت کا عظیم مجاہد وہ سچے عاشق رسول جو اپنے جوش خطابت سے خرمن باطل میں آگ لگایا کرتے تھے جسکی صداقت گوئی اور جرات واستقامت کے سامنے وقت کے فرعون بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
آغا شورش نے اپنی پوری زندگی اور تمام توانائیاں آزادی کی جدوجہد تحفظ ختم نبوت میں صرف کی۔اسی حق گوئی کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کو مارا گیا پیٹا گیا مال ودولت کا لالچ دیا گیا لیکن آغا شورش کاشمیری نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ آغاشورش کاشمیری جیسے مجاہدین کی جرات واستقامت تھی کہ آج ہم غلامی سے آزاد ہیں۔
شورش کاشمیری کا نام عبدالکریم اور تخلص الفت تھا۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست1917ء کو بروز منگل امرتسر میں پیدا ہوئے۔سات آٹھ سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔والدہ کی وفات کے بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ ان کے والد کا نام نظام الدین تھا۔ انکے دادا بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور آئے تھے پھر پورا خاندان یہیں رہائش پذیر ہو گیا ۔شروع میں شاعری اور ادب کا ایسا چسکا تھا کہ نام کے ساتھ الفت تخلص لگاتے تھےاور اشعار بھی کہتے تھے احسان دانش جیسے شاعر سے ٹیویشن بھی لیتے رہے۔ احباب نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش رکھ دیا اور اس کی وجہ وہ خود اپنی طبیعت بتاتے ہیں۔ شورش کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور بڑے محنتی طالب علم تھے۔دیوسماج ھائی اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا شوق کے باوجود گھر کے معاشی بحران کی وجہ سے باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ عرصہ دراز تک روزگار کی تلاش میں سرگردان رہے لیکن فرصت کے اوقات مطالعہ اور اہل علم کے مجلسوں میں نشت وبرخاست کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کےگھر میں زمیندار اخبار پابندی سے آتا تھا اور شورش پابندی سے پڑھتےتھے جیل میں قرآن کریم کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا۔ فارسی اردو سیاسیات اور عمرانیات میں بھی دسترس حاصل کر لی۔ یوں تو آغا صاحب میٹرک سے اوپر کسی سند یا ڈگری کے حامل نہیں تھے لیکن ذاتی محنت وریاضت اور مطالعے سے وہ مقام حاصل کر لیاتھا کہ بڑے بڑے ڈگریوں والے ان کے آگے جو ئہ کم آب نظر آتے۔
آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔
آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ''چٹان'' کااجراء کیا اور اسے باکمال بنایا میں نے کہیں پڑھا ہے کہ لوگ ہفت روزہ "چٹان " کوقطار میں لگ کر لیا کرتے تھے۔
آغا شورش کاشمیری پکےموحد تھے۔ شرک و بدعت سے سخت نفرت کرتے تھے وہ سچے عاشق رسول تھے۔ ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ پوری زندگی قادیانیوں کی محتسب رہے۔ دجال قدیان اور اسکی ذریت کے خلاف چلنے والی تمام تحریکوں کو اپنے خون سے سینچا
غالبا 1972ء میں آغا شورش کاشمیری نے اپنے رسالے چٹان میں مرزا قادیانی کا فوٹو چھاپا تھا اور لکھا کہ اسکی شکل دیکھ کر اسکو نبی مان سکتے ہو تو مجھ سے آکر دس ہزار روپے انعام لے جاؤ۔
کچھ لوگ ان کے نام کے ساتھ "آغا" سے انہیں شیعہ سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ تخلص انہیں اسی ہستی نے دیا تھا جنہوں نے سب سے پہلے "محمد علی جناح" کے لیے "قائد اعظم " کا استمعال کیا تھا۔۔ مزید جانکاری کے لیے ان کی سوانح ّّ بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفلٗ ٗ جو انہوں نے خود لکھی ہے سے استفادہ کریں۔
ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے جولائی1973 میں شدت آگئی 25 اکتوبر1975 کو بروز جمعرات رات 12 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا مفتی محمود کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی مغرب کی آذان کے وقت میانی صاحب کے قربستان میں دفن کر دیئے گئے۔
انہوں نے ایک دفعہ اپنے کالم میں اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد وہ شخص مجھے غسل دے جس نے منبر و محراب کی عظمت کو داغدار نہ کیا ہو۔
-کوئی حکمران میری قبر پر فاتحہ نہ پڑھے
-جو کبھی انگریز فوج میں بھرتی ہو کر ملک معظم کی حکومت کیلئے نہ لڑا ہو
-جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو
-مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو
-مجھے وہ اشخاص کندھا دیں جو ظلم وجور کے خلاف لڑتے رہے
-میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے جس کولہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو۔
-میری قبر پر ایک ہی کتبہ لکھا جائے کہ ''یہاں وہ شخص دفن ہے جس کی زندگی تمام عمر عبرتوں کا مرقع رہی ہے''
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے