• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالکریم آغا شورش کاشمیری

شمولیت
اگست 07، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
76
پوائنٹ
23
لرزاں ہیں میرے نام کی ہیبت سے کاسہ لیس
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
انسان کیا ہے اورکیا نہیں؟یہ سوال ہمیشہ معمہ رہاہے، اس بات کی ٹوہ لگانا بڑا مشکل ہے کہ اس کی خیروشر کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے. ملک کی تقسیم بلاشبہ ایک انقلاب تھا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک المیہ بھی تھا، ہر انقلاب ایک المیہ ہوتا ہے اور اس کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں، انقلاب آتا ہے تو خود انقلابی قوتیں حیران رہ جاتی ہیں اور ان کا ایک بڑا حصہ اس سے خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو وہ نہ تھا جو ہم چاہتے تھے، لیکن انقلاب بہرحال ایک نظام کی اجتماعی موت کا نام ہے.
آغا شورش کاشمیری،(بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفل)
ایسی ھستیاں بڑی مشکل سے پیدا ہوا کرتی ہیں کہ جن کے کارناموں پر بعد میں آنے والے ناز کر سکیں آغاشورش کاشمیری بھی ایسے افراد کی صف میں شامل ہیں۔ وہ جرات واستقامت کا پیکر، عزم وحوصلے کا کوہ گراں، میدان صحافت کا شہسوار اور کارزار سیاست کا مرد میدان، وہ شاعر انقلاب، صاحب طرز ادیب اور تحریک آزادی تحریک تحفظ ختم نبوت کا عظیم مجاہد وہ سچے عاشق رسول جو اپنے جوش خطابت سے خرمن باطل میں آگ لگایا کرتے تھے جسکی صداقت گوئی اور جرات واستقامت کے سامنے وقت کے فرعون بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
آغا شورش نے اپنی پوری زندگی اور تمام توانائیاں آزادی کی جدوجہد تحفظ ختم نبوت میں صرف کی۔اسی حق گوئی کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کو مارا گیا پیٹا گیا مال ودولت کا لالچ دیا گیا لیکن آغا شورش کاشمیری نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ آغاشورش کاشمیری جیسے مجاہدین کی جرات واستقامت تھی کہ آج ہم غلامی سے آزاد ہیں۔
شورش کاشمیری کا نام عبدالکریم اور تخلص الفت تھا۔آغا شورش کاشمیری 14 اگست1917ء کو بروز منگل امرتسر میں پیدا ہوئے۔سات آٹھ سال کے تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔والدہ کی وفات کے بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ ان کے والد کا نام نظام الدین تھا۔ انکے دادا بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور آئے تھے پھر پورا خاندان یہیں رہائش پذیر ہو گیا ۔شروع میں شاعری اور ادب کا ایسا چسکا تھا کہ نام کے ساتھ الفت تخلص لگاتے تھےاور اشعار بھی کہتے تھے احسان دانش جیسے شاعر سے ٹیویشن بھی لیتے رہے۔ احباب نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش رکھ دیا اور اس کی وجہ وہ خود اپنی طبیعت بتاتے ہیں۔ شورش کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور بڑے محنتی طالب علم تھے۔دیوسماج ھائی اسکول لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا شوق کے باوجود گھر کے معاشی بحران کی وجہ سے باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ عرصہ دراز تک روزگار کی تلاش میں سرگردان رہے لیکن فرصت کے اوقات مطالعہ اور اہل علم کے مجلسوں میں نشت وبرخاست کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کےگھر میں زمیندار اخبار پابندی سے آتا تھا اور شورش پابندی سے پڑھتےتھے جیل میں قرآن کریم کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا۔ فارسی اردو سیاسیات اور عمرانیات میں بھی دسترس حاصل کر لی۔ یوں تو آغا صاحب میٹرک سے اوپر کسی سند یا ڈگری کے حامل نہیں تھے لیکن ذاتی محنت وریاضت اور مطالعے سے وہ مقام حاصل کر لیاتھا کہ بڑے بڑے ڈگریوں والے ان کے آگے جو ئہ کم آب نظر آتے۔
آغا شورش نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تحریک مسجد شہید گنج کے عوامی اجتماعات میں خطابت و صدارت سے کیا اور خورد سالی کی عمر میں حسین آگاہی چوک ملتان میں مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کے خلاف ایک زبردست تقریر کی جس کے نتیجے میں انھیں پولیس کے بے پناہ تشدد اور پھر قید وبند کی آزمائشوں کانشانہ بننا پڑا لیکن ان کایہ ذوقِ جنوں پختہ تر ہوتا چلاگیا۔
آغا شورش نے ۱۹۴۹ء میں ہفت روزہ ''چٹان'' کااجراء کیا اور اسے باکمال بنایا میں نے کہیں پڑھا ہے کہ لوگ ہفت روزہ "چٹان " کوقطار میں لگ کر لیا کرتے تھے۔
آغا شورش کاشمیری پکےموحد تھے۔ شرک و بدعت سے سخت نفرت کرتے تھے وہ سچے عاشق رسول تھے۔ ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ پوری زندگی قادیانیوں کی محتسب رہے۔ دجال قدیان اور اسکی ذریت کے خلاف چلنے والی تمام تحریکوں کو اپنے خون سے سینچا
غالبا 1972ء میں آغا شورش کاشمیری نے اپنے رسالے چٹان میں مرزا قادیانی کا فوٹو چھاپا تھا اور لکھا کہ اسکی شکل دیکھ کر اسکو نبی مان سکتے ہو تو مجھ سے آکر دس ہزار روپے انعام لے جاؤ۔
کچھ لوگ ان کے نام کے ساتھ "آغا" سے انہیں شیعہ سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ تخلص انہیں اسی ہستی نے دیا تھا جنہوں نے سب سے پہلے "محمد علی جناح" کے لیے "قائد اعظم " کا استمعال کیا تھا۔۔ مزید جانکاری کے لیے ان کی سوانح ّّ بوۓ گل نالہ دل دود چراغ محفلٗ ٗ جو انہوں نے خود لکھی ہے سے استفادہ کریں۔
ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے جولائی1973 میں شدت آگئی 25 اکتوبر1975 کو بروز جمعرات رات 12 بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔مولانا مفتی محمود کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی مغرب کی آذان کے وقت میانی صاحب کے قربستان میں دفن کر دیئے گئے۔
انہوں نے ایک دفعہ اپنے کالم میں اپنی موت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
''میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد وہ شخص مجھے غسل دے جس نے منبر و محراب کی عظمت کو داغدار نہ کیا ہو۔
-کوئی حکمران میری قبر پر فاتحہ نہ پڑھے
-جو کبھی انگریز فوج میں بھرتی ہو کر ملک معظم کی حکومت کیلئے نہ لڑا ہو
-جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو
-مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو
-مجھے وہ اشخاص کندھا دیں جو ظلم وجور کے خلاف لڑتے رہے
-میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہکن بنا سکے جس کولہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو۔
-میری قبر پر ایک ہی کتبہ لکھا جائے کہ ''یہاں وہ شخص دفن ہے جس کی زندگی تمام عمر عبرتوں کا مرقع رہی ہے''

فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
 
شمولیت
اگست 07، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
76
پوائنٹ
23
آغا شورش کی تصانیف میں سے جو جو میرے علم میں ہیں
شب جائے کہ من بودم، پس دیوار زنداں، تحریک ختم نبوت، موت سے واپسی، اس بازار میں، فن خطابت، بوئے گل نالئہ دل دود چراغ محفل، سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری، تمغئہ خدمت، ابوالکلام آزاد
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
جزاک اللہ طاہر برادر
مجھے ان کے مسلک کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شورش کاشمیری کی ایک تقریر سنی تھی۔
محسوس ہوتا تھا کہ
الفاظ ہاتھ باندھے کہہ رہے ہیں کہ جس طرح چاہیں استعمال کریں۔
موضوع سے ہٹا ہوا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔
بات پوری پوری ارشاد فرما دی۔
نہ تشنہ لبی اور نہ ہی اُکتاہٹ کے آثار
نہ جھکاؤ۔ نہ چاپلوسی۔
غرض کیا عرض کروں ………………………………
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام العصر احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نے
فن خطابت کا
وہی اسلوب اختیار کیا جو
شورش کاشمیری کا ہوا کرتا تھا۔

احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی پہلی تقریر سن کر
شورش کے الفاظ پتھر پر لکیر ثابت ہوئے۔
کہ برصغیر کے چند نامور خطباء کا جب بھی ذکر آئے گا، احسان الٰہی ظہیر اس میں فہرست میں شامل ہو گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک روایت یہ ہے کہ
علامہ داؤد غزنوی کے آخری عہد میں شورش کاشمیری نے مسلک اہل الحدیث قبول کر لیا تھا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
علامہ داؤد غزنوی کی صدارت میں
ایک تقریر کے دوران
لوگوں کو سمجھاتے ہوئے
شورش کاشمیری نے کہا تھا:
اللہ کی قسم! میں اہل الحدیث نہیں ہوں۔
یہ کہنا تھا کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔
لوگوں پر عجیب پریشانی ٹوٹ پڑی۔
تب شورش نے فرمایا:
لوگو! میں نے تاریخ پڑھی ہے کہ
اہل الحدیث نے کبھی بھی اپنے ہاتھ سے تلوار نیچے نہیں رکھی۔ اور میں نے اسے کبھی چلایا نہیں۔
اس وجہ سے میری ان کی طرف کیا نسبت ہو گی۔
بات سمجھانے کا خوف فن آتا تھا شورش کاشمیری کو
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ذوالفقار علی بھٹو کو سب سے زیادہ خطرہ
شورش کاشمیری کی ذات سے رہتا تھا۔
وہ جب بھی کوئی الٹا سیدھا کام کرتا، ذہن میں یہ خدشہ ضرور رکھتا کہ شورش اس کے خلاف ضرور بولے گا۔ اور ایسا ہی ہوتا۔
 
شمولیت
اگست 07، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
76
پوائنٹ
23
ایک روایت یہ ہے کہ
علامہ داؤد غزنوی کے آخری عہد میں شورش کاشمیری نے مسلک اہل الحدیث قبول کر لیا تھا۔
ایسی کوئی بات میرے علم میں نہیں۔۔۔ توحیدی تو وہ شروع سے ہی تھے اور ان کی تقاریر اس سے کبھی خالی نہیں ہوئیں
واللہ اعلم
 
Top