• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الرزاق بن يوسف بنگلہ دیشی کی حقیقت

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

عبد الرزاق بن يوسف بنگلہ دیشی کی حقیقت

(قسط اول)

(خوارج کا ہمنوا متکبر و مغرور تکفیری)

بقلم
مامون رشید ہارون رشید سلفی

قارئین کرام دعاۃ اور مصلحین کے اندر انحراف وانعکاس کا پایا جانا ایک فطری امر ہے ہم سے پیشتر امتوں میں بھی یہ مصیبت موجود تھی اور امت مسلمہ کے اندر بھی ہر دور میں یہ خرابی پائی جاتی رہی ہے جس کی پیشن گوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل کر دی تھی....

چنانچہ حدیث رسول ہے حضرت عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے(صحيح البخاري حديث نمبر: 100)

اسی طرح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر (قائم رہتے ہوئے) غالب رہے گا ، جو شخص بھی ان کی حمایت سے دست کش ہو گا وہ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ اسی طرح ہوں گے -(صحيح مسلم حدیث نمبر : 1920..صحیح بخاری : 7312)
اسی طرح حدیث الافتراق جس میں بیان کیا گیا ہے کہ یہود اکہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے نصاری بھی بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور امت مسلمہ بھی تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تمام کے تمام جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے جو نبی اور صحابہ کرام کے نقش پا کی پیروی کرتا ہو..

مطلب یہ ہے کہ ایک قلیل جماعت کے علاوہ تمام لوگ گمراہی پر ہوں گے وہ دو چار افراد بھی ہو سکتے ہیں اور دو چار کروڑ کی جماعت بھی جیسا کہ قرآن میں ایک آدمی پر بھی طائفۃ کا اطلاق کیا گیا ہے...اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص جو اپنے آپ کو سلفیت اورر اہل حدیثیت کی طرف منسوب کرتا ہو وہ اہل حدیثوں میں سے ہو بلکہ اہل حدیث ہونے کے لیے سلفیت و اہل حدیثیت کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے دنیا میں ہر دور میں بہت سے ایسے افراد آئے جنہوں نے اپنے آپ کو سلفیت کی طرف منسوب کر کے امت کو دھوکہ دینے کی کوشش کی مگر اللہ رب العالمین نے بر وقت ان کے محاسبے کے لیے ایسے علما مہیا فرمائے جنہوں نے علم جرح و تعدیل کے سہارے ان فتنہ پروروں کی دسیسہ کاریوں کا پردہ فاش کیا اور امت کو ان کے شرور وفتن سے محفوظ رکھا.

چنانچہ کتب جرح و تعدیل اس بات کی شاہد ہے کہ اللہ رب العالمین نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے جہابذہ ناقدین پیدا فرمائے جنہوں نے دینی تعلیمات سے منسوب ہر شخص کی مکمل حیات کا دراسہ کیا ان کے سلسلے میں دقت اور باریک بینی سے جانچ پڑتال کیا پھر ان میں سے ہر ایک کو اس کا مناسب مقام عطا کیا جو قابل اعتماد تھے انہیں قابل اعتماد قرار دیا اور جو مجروح اور ناقابل اعتماد تھے انہیں پایہ اعتبار سے ساقط کر دیا اور اس میں ذرہ برابر بھی ناانصافی سے کام نہیں لیا...ان میں سر فہرست امام شعبہ، مالک بن انس، محمد بن ادریس شافعی، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، یحیی القطان، عبد الرحمن بن مہدی، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، امام بخاری ، ابو زرعہ رازی ، ابو حاتم رازی، عثمان بن سعید دارمی، ابن خزیمہ، أجرى ، قوام السنة إسماعيل اصبهاني ، ابن بطہ، ذہبی، ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن کثیر، محمد بن عبد الوہاب، امیر صنعانی، معلمی یمانی، محمد عبد الرحمن مبارکپوری، ثناء اللہ امرتسری، محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ، البانی، ابن باز، ابن عثمین، مقبل بن ہادی الوادعی، ربیع بن ہادی المدخلي ، حمود بن عبد اللہ التویجری، زبیر علی زئی، وغیرہم ہیں.

کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ ایک عالم دین جو علمی حلقوں میں معروف ہیں عوام الناس میں ان کی طوطی بولتی ہے کس طرح سے ان کے اخطا بیان کر کے ان کے سلسلے میں بدگمانی پھلائی جا سکتی ہے کیا یہ غیبت نہیں ہے؟ کیا یہ علما کی شان میں گستاخی نہیں ہے؟.. من الذي ما ساء قط ومن له الحسنى فقط.؟

تو جوابا عرض ہے کہ جرح و تعدیل کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماع سے موجود ہے لہذا اسے غیبت نہیں کہہ سکتے یہ جائز بلکہ بسا اوقات واجب بھی ہو جاتا ہے:

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نادمين"
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ -(سورۃ الحجرات ، آیت نمبر 6)

مطلب یہ ہے کہ اگر تحقیق حال کے بعد کسی کا فسق ظاہر ہو جائے تو اس کو خاطر میں نہ لایا جائے اور نہ ہی اس کی خبر کا اعتبار کیا جائے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو فاسق کے بارے میں بتلا کر اس کی خبر سے دور رکھا جائے...یہی جرح و تعدیل کی مشروعیت کی دلیل ہے.

حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "عن عائشة، ان رجلا استاذن على النبي صلى الله عليه وسلم، فلما رآه قال: " بئس اخو العشيرة وبئس ابن العشيرة"، فلما جلس تطلق النبي صلى الله عليه وسلم في وجهه وانبسط إليه، فلما انطلق الرجل، قالت له عائشة: يا رسول الله، حين رايت الرجل قلت له: كذا وكذا، ثم تطلقت في وجهه وانبسطت إليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا عائشة: " متى عهدتني فحاشا، إن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من تركه الناس اتقاء شره"
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بھائی۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بیٹا۔ پھر جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ بیٹھا تو آپ اس کے ساتھ بہت خوش خلقی کے ساتھ پیش آئے۔ وہ شخص جب چلا گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب آپ نے اسے دیکھا تھا تو اس کے متعلق یہ کلمات فرمائے تھے، جب آپ اس سے ملے تو بہت ہی خندہ پیشانی سے ملے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تم نے مجھے بدگو کب پایا۔ اللہ کے یہاں قیامت کے دن وہ لوگ بدترین ہوں گے جن کے شر کے ڈر سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں۔(صحيح بخاری : 6032 صحیح مسلم : 6596)

اس حدیث میں دو اہم چیزوں کا اثبات ہے :
اول: اگر کوئی شخص برا ہو تو ضرورت کے تحت اس کی نشاندہی کر دینی چاہیے جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا بئس أخو العشيرة. یہ بھی جرح کی دلیل ہے.

دوم: اور اگر برا ہو خواہ دینی اعتبار سے مثلا وہ بدعتی ہو، لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنے ، فتنہ فساد کا باعث ہو، لوگوں کے دین کے لیے خطرہ ہو یا اخلاقی ناحیے سے برا ہو تو اس کے فتنوں سے بچنے کے لیے اس سے دور رہنا چاہیے...جیسا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا "إن شر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من تركه الناس اتقاء شره" یہ اہل بدعت سے تحذیر کی دلیل ہے.

ایک دوسری حدیث کے اندر حضرت فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں: "قالت فلما حللت ذكرت له ان معاوية بن ابى سفيان وابا جهم خطبانى. فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- «‏‏‏‏اما ابو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه واما معاوية فصعلوك لا مال له انكحى اسامة بن زيد» .‏‏‏‏ فكرهته ثم قال «‏‏‏‏انكحى اسامة» .‏‏‏‏ فنكحته فجعل الله فيه خيرا واغتبطت به.(صحیح مسلم : 3697)
وہ کہتی ہیں کہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ مجھے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم نے نکاح کا پیغام دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”ابوجہم تو اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتارتا اور معاویہ مفلس آدمی ہے کہ اس کے پاس مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔“ اور مجھے یہ امر ناپسند ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کہ ”اسامہ سے نکاح کر لو۔“ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی خیر و خوبی دی کہ مجھ پر دوسری عورتیں رشک کرنے لگیں۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شرعی مصلحت کے خاطر کسی کی غیبت کرنا یا کسی کی برائی بیان کرنا جائز ہے جیسا کہ یہاں اللہ کے رسول نے کیا ہے.

اسی طرح علما نے چھے ایسے اسباب بتائے ہیں جن کے تحت غیبت کرنا جائز ہے:
ان میں سے چوتھا سبب : مسلمانوں کو شر سے آگاہ کرنے اور ان کو نصیحت کرنے کے لیے غیبت کرنا . اس کے تحت چند چیزیں آتی ہیں :
مثلا: حدیث کے سلسلہ سند کے مجروح راویوں اور واقعے کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے گواہوں پر جرح کرنا یہ مسلمانوں کے اجماع سے جائز ہے بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے .......اسی طرح جب ایک شخص کسی طالب علم کو دیکھے کہ وہ شریعت کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی بدعتی یا فاسق کے پاس جاتا ہے اور وہ یہ اندیشہ محسوس کرتا ہے کہ طالب علم کو اس بدعتی یا فاسق سے نقصان پہنچے گا، پس اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کا حال بیان کر کے اس کی خیر خواہی کرے بشرط یہ ہے کہ مقصد صرف خیر خواہی ہو.. (ملاحظہ فرمائیں ریاض الصالحین للنووی 1/426)

بدعتیوں اور متجددین سے آگاہ کرتے ہوئے اور ان سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ کے رسول فرماتے ہیں : عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " سيكون في آخر امتى، اناس يحدثونكم ما لم تسمعوا انتم، ولا آباؤكم، فإياكم وإياهم ".
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اخیر امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی باتیں بیان کریں گے جن کو نہ تم نے سنا ہوگا، نہ تمہارے باپ دادا نے تو ان سے بچے رہنا۔“ (مقدمة مسلم: 6)

اس تمہید کے بعد میں اصل موضوع کی طرف متوجہ ہو رہا ہوں اس تمہید سے یہ بتانا مقصود ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ کوئی نیا کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ خلاف شرع کام ہے بلکہ اس کا ثبوت قرآن و سنت اور اجماع امت سے موجود ہے اور علمائے کرام نے اس میدان میں جلیل القدر خدمات انجام دی ہیں بالخصوص دور حاضر میں بھی اس فن میں وافر مقدار میں کام ہوا ہے چاہے وہ علامہ معلمی یمانی کی "التنکیل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل" کی شکل میں ہو یا منجنیق اہل السنۃ حمود بن عبد اللہ التویجری کی "الرد القویم علی المجرم الاثیم" اور "القول البلیغ فی جماعۃ التبليغ" وغیرہما کتب کی شکل میں یا علامہ الألباني کی "الرد علی جهالات الدكتور البوطي في فقه السيرة" کی شکل میں یا علامہ صالح الفوزان کی "البیان بالدلیل بما فی مقدمۃ البوطی من الکذب الواضح والتضلیل" یا علامہ عبد المحسن العباد کی "الرَّدٌّ على الرفاعي والبوطي في كذبهما على أهل السنة ودعوتهما إلى البدع والضلال" کی شکل میں یا علامہ مقبل الوادعی کی "إسكات الكلب العاوي يوسف بن عبد الله القرضاوي" وغیرہ کتب کی شکل میں یا پھر امام البانی کی جانب سے حامل لواء الجرح والتعديل فی ھذا الزمان کا خطاب پانے والے ربیع بن ہادی المدخلي کی "العواصم مما في كتب سيد قطب من القواصم" "التنکیل بما فی توضیح الملیباری من الاباطیل" اور "ازہاق اباطیل عبد اللطیف باشمیل"وغیرہما جمیع کتب کی شکل میں یا عبيد بن عبد الله الجابري، محمد أمان الله جامي، ثناء اللہ امرتسری، محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ، حافظ زبیر علی زئی کی اس فن میں لکھی گئی کتابوں کی شکل میں.

قارئین کرام اس تحریر میں میں ایک بنگلہ دیشی مقرر "عبد الرزاق بن یوسف" (جو بنگلہ دیش اور ہندوستانی بنگلہ داں طبقے میں بہت معروف ہیں بلکہ بعض حلقوں میں تو ان کی بات حرف آخر تصور کی جاتی ہے) کے بارے میں چند علمی ملاحظات کا تذکرہ آپ کے سامنے پیش کروں گا تاکہ آپ لوگ ان کی حقیقت سے آگاہ ہو کر ان کے سلسلے میں صحیح موقف کی تعیین کر سکیں.

میں نے ان کے سلسلے میں یہ ساری چیزیں ان کی تقاریر اور فتاوی سن سن کر جمع کی ہے یہ سب ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں نے محض لوگوں کی باتوں پر اعتماد کرکے صفحات کے صفحات سیاہ کر ڈالا ہے بلکہ یہ مسلسل ذاتی عرق ریزی وپیہم خوشہ چینی کا نتیجہ ہے.. ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ ایک معتمد علیہ ثقہ عالم دین نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں بھی کسی نے اس موضوع پر کام شروع کیا تھا مگر بزور خاموش کر دیا گیا.. اگر ایسا ہے اور واقعی ہے تو یہ چیز کسی عظیم خفیہ شئی پر دلالت کرتی ہے جس کو دبانے اور چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے ورنہ علمائے حق اپنے بارے میں لکھنے سے جبرا کسی کو روکا نہیں کرتے اگر جناب واقعی حق پر ہیں ان کے دعوے کے مطابق ان میں کوئی منہجی خرابی نہیں ہے تو کسی کو خاموش کرنے کی کیا ضرورت؟ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ مخالف کی بات بے بنیاد اور ساقط الاعتبار پروپیگنڈہ ہے لہذا ان کا کسی کو زبردستی روکنا کسی عظیم خفیہ عمل کی طرف اشارہ کر رہا ہے.. ع:
بے رخی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے .

قارئین کرام ذیل میں عبد الرزاق کے سلسلے میں چند اہم ملاحظات کا تذکرہ پیش ہے صبر سے پڑھیں اور انصاف سے کام لیں:

(1) سب پہلی چیز تو یہ ہے کہ ان کے پاس غیر معمولی تکبر وغرور ہے تعالم اور ادعا میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں :
مثال کے طور پر ان کی چند باتیں جن سے ان کا غرور ٹپکتا ہے پیش ہے:
ان کے موقف (جمعہ کے روز سنت عثمانی کے مطابق دو اذانوں میں سے پہلی اذان دینا بدعت ہے) کے خلاف بولنے والے کسی عالم پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میری ایک تقریر سن کر اس کے پیچھے لگ جانا صحیح نہیں ہے، تم کیا تمہارا باپ بھی میرا شاگرد ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے، تم زبان کھول بھی کیسے سکتے ہو!! میں تمہیں کچھ نہیں کہتا کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس لیے، تم نے قوم کے لیے کیا ہی کیا ہے؟ کیا کیا ہے تم نے ؟ تم کر بھی کیا سکتے ہو؟ قوم کے لیے تم نے کیا کیا ہے ؟اور کیا کر سکتے ہو ؟ تمہارے اندر ایسی کون سی صلاحیت ہے ؟ تم ملک میں بڑے ہو یا میں ملک میں بڑا ہوں ؟ تم اپنے کو سمجھتے کیا ہو میں تمہیں اور تین صدیاں پڑھاؤں گا... تمہاری طرح ادمی اگر قیامت تک زندہ رہے پھر بھی عبد الرزاق صاحب تمہارا نام نہیں لیں گے یہ یاد رکھو تم.....آدمی کی خدمات کا خیال رکھنا چاہیے تم نے قوم کے لیے کیا ہی کیا ہے ؟.....میں بیس سال سے فتویٰ پڑھ رہا ہوں اور قلم سے فتویٰ لکھ رہا ہوں، بیس سال سے فتویٰ بورڈ میں بیٹھ رہا ہوں تم کبھی ایک دن بیٹھے ہو.... وغیرہ وغیرہ کثیر

ایک مسئلے پر بات کرنے کے بعد کہتے ہیں : "دیکھتے ہیں کون ماں کا لال میری بات کو غلط ثابت کرتا ہے قیامت تک وقت دیتا ہوں کوئی میری بات کو غلط ثابت کرکے دکھائے...

اسی طرح ایک اور مسئلہ(کوکا کولا، پیپسی، ٹھنڈا وغیرہ پینا حرام یے یہ شراب ہے)پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: "آم کے درخت میں جام کا پھل آ سکتا ہے، اماوس کی رات چاند نمودار ہو سکتا ہے، سوئی کے شگاف میں ہل کا پھل گھس سکتا ہے یہ سب ہو سکتا ہے مگر محمد الرسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کہا میں نے جو کہا اس میں سرسوں کا دانہ داخل نہیں کیا جا سکتا ہے."
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کے ساتھ اپنی بات کے سلسلے میں بھی مذکورہ بالا عظیم دعوی ٹھونک بیٹھا جو صرف وحی الہی ہی کے شایان شان ہے.

اسی طرح عید کی نماز کی پہلی رکعت میں تکبیرات زوائد کی تعداد تکبیر تحریمہ کے علاوہ چھے کہنے والوں پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ"چھے تکبیرات کے سلسلے میں ذخیرہ احادیث میں کوئی ایک بھی حدیث موجود نہیں ہے خواہ وہ ضعیف اور موضوع ہی کیوں نہ ہو لہذا چھے تکبیر کہنا بدعت ہے قیامت تک وقت دیتا ہوں کوئی ماں کا لال ایک بھی ایک حدیث لا کر دکھائے"
حتی کہ اس مسئلے میں شدت کی وجہ سے مار پیٹ کی نوبت بھی آ گئی تھی (إنا للہ و انا الیہ راجعون)
جبکہ چھے تکبیرات والی بات ہی راجح ہے یہی ابن باز اور ابن عثیمین وغیرہما کا اختیار ہے، شیخ مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں:
"اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد محض چھ تکبیرات کہی جائیں گی کیونکہ تکبیرتحریمہ کو حدیث کے الفاظ “سبع تکبیرات” یعنی سات تکبیرات سے الگ کرنے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے عام لفظ سات تکبیرات کا ذکر کیا ہے لہذا تکبیرتحریمہ ملاکر سات مانی جائے گی۔ اگر کوئی تکبیرتحریمہ کوحدیث کے الفاظ سبع تکبیرات سے الگ شمار کرتا ہے تو اس کو دلیل دینی پڑے گی اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
سبع تکبیرات کے علاوہ حدیث کےدوسرے قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کی سات تکبیرات میں تکبیر تحریمہ بھی داخل ہے مثلا”قبل القراءۃ” یعنی قرات سے پہلے ، یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ قرآن کی قرات سے پہلے پہلی رکعت میں کل سات تکبیرات کہنی ہیں اور سات میں تکبیر تحریمہ بھی شامل ہے ۔ اس سےبھی ٹھوس قرینہ “سوى تَكبيرتيِ الرُّكوعِ” کے الفاظ ہیں ، آپ ﷺ نے قیام سے رکوع میں انتقال کرنے والی تکبیرکو مستثنی قرار دیتے ہوئے محض سات تکبیرات کا ذکر کیا ، اگر تکبیر تحریمہ بھی مستثنی ہوتی تو آپ ﷺ رکوع کی تکبیر کی طرح اسے بھی مستثنی قرار دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور اس طرح دورکعتوں کی مکمل تکبیرات کو ملاکر سات مع پانچ، بارہ تکبیرات بنتی ہیں جس کا ذکر مسند احمد کی روایت میں ہے ۔"(ملاحظہ فرمائیں : نماز عیدین کی تکبیرات کی تعداد)

میں سمجھتا ہوں اثبات دعویٰ کے لیے اتنا کافی ہے.

(2) خوارج اور معتزلہ کی موافقت:
عبد الرزاق صاحب ایک جگہ کہتے ہیں: "تین قسم کے لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے مسلسل شراب نوشی کرنے والا، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں، دیوث مرد"

اسی طرح انہیں تین قسم کے لوگوں کے بارے میں ایک اور جگہ کہتے ہیں: "مسلسل شراب نوشی کرنے والا، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں، دیوث مرد ضرور بالضرور جہنم میں داخل ہوں گے"
یہ باتیں عمومی طور پر ان کے اکثر خطبات میں شامل ہیں اور وہ ان باتوں کو بڑے طمطراق سے بولتے بھی ہیں.

ملاحظہ: مذکورہ بالا عبارتوں میں دو چیزیں قابل ملاحظہ ہیں:
اول: ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے.
دوم: ضرور بالضرور جہنم میں جائیں گے.
عرض ہے کہ یہ چیزیں جن کا ذکر عبد الرزاق صاحب نے کیا ہے کبائر الذنوب میں تو شامل ہیں مگرا قطعا یہ چیزیں کفر اعتقادی یا شرک نہیں ہے لہذا ان کا مرتکب کسی طور پر جہنم میں ہمیشگی کا مستحق نہیں ہے.
اب آئیے جانتے ہیں کہ مرتکب کبیرہ کے بارے میں اہل سنت و جماعت اہل حدیث سلفیوں کا کیا عقیدہ ہے:
شیخ ابن باز ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: "
مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ گنہگار اور فاسق ہے لیکن خوارج(کی رائے) کے برخلاف وہ ملت سے خارج نہیں ہوگا، اہل سنت و جماعت کے ہاں زنا کار فاسق ہے ، شراب نوشی کرنے والا فاسق ہے جبکہ وہ اس کو حلال نہ سمجھتا ہو، والدین کا نافرمان فاسق ہے، سودی لین دین کرنے والا فاسق ہے، کیونکہ یہ تمام چیزیں کبائر میں سے ہیں لیکن وہ کافر نہیں ہوگا لیکن خوارج کے ہاں اس کی وجہ سے انسان کافر ہو جائے گا.. ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں.
جبکہ صحیح یہ ہے کہ ان کی بات باطل ہے مرتکب کبیرہ کافر نہیں ہے گنہگار ہے اس پر توبہ اور رجوع الی اللہ واجب ہے، جو توبہ کرتا ہے اللہ کی توبہ قبول کرتا ہے اور اگر وہ اسی پر مر جائے تو وہ گنہگار ہو کر جہنم میں داخل ہونے کے خدشے کے ساتھ مرتا ہے الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے، لیکن اگر وہ جہنم میں داخل ہو جائے تو اس میں ہمیشہ نہیں رہے گا (ہمارا) یہ(عقیدہ) خوارج اور معتزلہ کے برخلاف ہے خوارج کہتے ہیں وہ کافر ہو جائے گا اور ہمشہ ہمیش جہنم میں رہے گا جب انسان والدین کی نافرنی کرکے مر جائے، یا زنا سے توبہ کیے بغیر اسی حالت میں مر جائے یا شراب نوشی کرتے ہوئے مر جائے تو خوارج کہتے کہ وہ کافر اور مخلد فی النار ہوگا، معتزلہ بھی آخرت کے سلسلے میں خوارج کی طرح ہیں یہ لوگ کہتے ہیں مخلد فی النار ہوں گا لیکن دنیا کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ نہ تو مسلم ہے نہ ہی کافر بلکہ دو درجات کے مابین ایک درجے میں ہے ان کی بات بھی باطل ہے، جبکہ اہل سنت و جماعت کہتے ہیں: وہ(مرتکب کبیرہ) گنہگار مسلم ہے گنہگار مؤمن ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ سے توبہ کرے اگر اس نے توبہ کر لیا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر وہ اپنا گناہ لیے ہوئے مر جائے تو وہ اللہ کی مشیت کے تابع ہوگا اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور اس کی توحید اور اسلام کے بدولت جنت میں داخل کرے گا اور اگر چاہے تو اس کے گناہوں کے بقدر جن پر وہ مرا ہے عذاب دے گا پھر گناہوں سے پاک کرنے کے بعد اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا جیسا کہ اللہ رب العالمین نے اپنی عظیم کتاب کے اندر فرمایا ہے: "إِنّ الله لا يغفرُ أَنْ يُشْرك به وَيَغْفرُ ما دون ذلك لِمنْ يشاء" [النساء: 48]
(فتاوى نور على الدرب لابن باز بعناية الشويعر 3/259-260)

اسی طرح عورتوں کی بے پردگی کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ٹی شرٹ پہن کر گھومنے والی لڑکیاں جنت میں داخل نہیں ہوں گی یہ میرا چیلنج ہے، اللہ قیامت کے دن فرعون کو جنت میں داخل کرے یہ الگ بات ہے مگر ٹی شرٹ پہن کر چلنے والی لڑکیاں جنت نہیں جائیں گی"

اللہ اکبر اللہ اکبر !!!
فرعون کا جہنمی ہونا نزول قرآن سے ہی متیقن ہو چکا ہے، قرآن میں بیشمار آیات اس کی تفصیل میں موجود ہیں، اس لیے اُس کے لیے مفروضہ قائم کرنا حرام ہے، لہذا عمدا و بلا عمد ایسا کہنا کلمۂ کفر ہے، جس کا کہنے والا بالقصد اور بلا قصد کے حساب سے الگ الگ حکم کا مستحق ہے۔
نیز عورتوں کا غیر ساتر لباس، ٹی شرٹ (جو اعضائے جسمانی کو ظاہر کرے) یا دیگر فحش امور گناہ یا کبیرہ گناہ تو ضرور ہو سکتے ہیں، کفر اعتقادی قطعاً نہیں ہیں، لہذا جنت کے عدم دخول کا سبب کبیرہ گناہ کو قرار دینا منہج سلف کے خلاف ہے، بلکہ کبیرہ گناہ کے لیے توبہ ضروری ہے، بلا توبہ اس کا مرتکب مشیت الہی میں ہوتا ہے۔۔۔ پس "ٹی شرٹ پہن کر چلنے والی لڑکیوں کو جنت کے دخول سے یکسر خارج کر دینا ایسا حکم ہے جو بلا دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔
ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف کے لباسوں کا پہننا عورتوں کے لیے باعثِ دخول جہنم ہو سکتا ہے۔
اس مقولہ کے سلسلے میں شیخ عبد السلام بن صلاح الدین مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: "(یہ مقولہ)تألی علی اللہ کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے اس تألی کی بنیاد پر اللہ اس کو جہنم میں ڈال دے، جب اللہ زانیہ فاسقہ کو معاف کرسکتا ہے (وہ بھی ایک معمولی نیک عمل کی بنیاد پر) تو اس ٹی شرٹ پہننے والی کو کیا معاف نہیں کرسکتا ہے؟
یقینا کرسکتا ہے، نیز کیا ہر ٹی شرٹ پہننے والی بدکار اور بد چلن ہوتی ہے (نعوذ باللہ)
نیز کیا کسی نے کسی کے دل میں جھانک کر دیکھا ہے ؟
ہو سکتا ہے وہ نیک سیرت ہو ‘ٹی شرٹ پہننے سے کسی کے کردار کا پتہ کیسے لگایا جا سکتا ہے (ہو سکتا ہے وہ بدکار ہو اور ہو سکتا ہے ٹی شرٹ پہننے کی کوئی مجبوری ہو ؟)
وغیرہ
بہر حال یہ جملہ انتہائی خطرناک ہے"

عبارت بالا پر تعلیق لگاتے ہوئے تقریبا اسی طرح کی بات ڈاکٹر عبید الرحمن مدنی حفظ اللہ نے بھی کی.
اسی طرح جب اس عبارت کے تعلق سے میں نے ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ مدنی حفظہ اللہ سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا: "اصل میں دینا میں کم علمی ہی کی وجہ سے لوگ خوارج ہوئے جن کے بارے میں کہا ہے کہ یہ جہنم کے کتے ہیں یا جہنمیوں کے کتے ہیں کوئی بھی وعید جو ہوتی ہے ایک ہے وعید ایک ہے وعد، وعید کے جتنے بھی نصوص ہیں اگر مسلمان سے متعلق ہیں تو اس کا مطلب دائمی اور ابدی جہنم میں جانا نہیں ہے"
ان باتوں سے یہ واضح ہو گیا کہ مذکورہ بالا عبارت بے حد خطرناک اور انتہائی مہلک ہے جو خوارج کی زبان سے بولی جانے والی بات ہے اس طرح کی باتیں کرنے والوں کو اللہ کے رسول کی یہ حدیث یاد رہنی چاہیے: "عن جندب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، حدث " أن رجلا قال: والله لا يغفر الله لفلان، وإن الله تعالى قال: من ذا الذي يتألى علي أن لا أغفر لفلان، فإني قد غفرت لفلان، وأحبطت عملك " أو كما قال"(صحیح مسلم حدیث نمبر: 2621)
حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم اللہ فلاں کو معاف نہیں کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو مجھ پر قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں فلاں کو معاف نہیں کروں گا، میں نے فلاں کو معاف کر دیا اور تمہارے اعمال کو ضائع کر دیا...

اس امر کو کہ بعض مسائل میں عبد الرزاق خوارج اور معتزلہ کے موافق ہیں آنے والی بات سے بھی تقویت ملتی ہے.

(3) تکفیریوں کی موافقت اور چیزوں کو شرک قرار دینے میں عجلت:

عبد الرزاق ہر قسم کی بداعتقادی اور ایسے کاموں کو جنہیں زیادہ سے زیادہ ناجائز یا حرام یا کبیرہ گناہ کہہ سکتے ہیں شرک سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے مرتکبین کو مشرک گردانتے ہیں بلکہ بعض ایسی چیزوں کو بھی شرک قرار دیتے ہیں جنہیں غلط ناجائز اور بد اعتقادی کہنا بھی شاید غلط ہو.
اور ان کے خطابات میں جابجا یہ چیز سننے کو ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قسم کا شرکیہ کام کر رہا ہے اور اس سے توبہ نہیں کرتا ہے تو وہ مشرک ہے خواہ وہ شرک اصغر ہی کیوں نہ ہو ..
جبکہ یہ بات غلط ہے:
یہ چیز معروف ہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں اکبر اور اصغر اور دنوں کے حکم اور تاثیر میں زمین آسمان کا فرق ہے:

شرک اصغر کے مرتکب کو مشرک نہیں کہہ سکتے جبکہ شرک اکبر کے مرتکب کو مشرک کہہ سکتے ہیں.
شرک اصغر کا مرتکب مرتکب کبیرہ کی طرح مشیت الہی کا تابع ہوگا جبکہ شرک اکبر کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے تو مخلد فی النار ہوگا.
شرک اکبر غیر اللہ کے لیے نذر ونیاز ماننا، غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا، غیر اللہ سے مدد طلب کرنا، مزاروں پر حاضری دے کر پیر سے اولاد وغیرہ طلب کرنا اللہ، کے علاوہ کسی اور کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھنا وغیرہ جو محض اللہ کے لیے خاص اور توحید ربوبیت والوہیت میں داخل ہے جبکہ شرک اصغر غیر اللہ کی قسم کھانا، شرکیہ تعویذ گنڈے، شرکیہ جھاڑ پھونک، کاہنوں کی تصدیق کرنا، بدشگونی لینا، کڑا دھاگا وغیرہ یہ سمجھ کر پہننا کہ یہ نفع پہنچانے اور نقصان دور کرنے کے اسباب ہیں، یا کسی چیز کو متبرک سمجھنا جو قرآن و حدیث میں نہیں ہے...وغیرہ وغیرہ چیزیں ہیں.

خلاصہ یہ ہے کہ شرک وکفر کا معاملہ بڑا سنگین ہے اگر آپ نے کسی کو مشرک قرار دیا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا اسے جنت نصیب نہیں ہوگی یہ بہت عظیم چیز ہے.

اب آئیے اس دعویٰ کے ثبوت میں عبد الرزاق صاحب کے چند اقوال ملاحظہ کرتے ہیں:

عبدالرزاق صاحب کہتے ہیں: "مشرک اور مرتد ہونے کے کئی راستے ہیں تانبہ کا کنگن، تانبہ کی انگوٹھی، تعویذ گنڈے وغیرہ پہننا"
حالانکہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ چیزیں شرک اصغر کے قبیل سے ہیں جس کا معاملہ مرتکب کبیرہ کی طرح ہے اور عبدالرزاق صاحب ان کے مرتکب کو مشرک اور مرتد گردانتے ہیں آپ ہی فیصلہ کریں انہیں تکفیری نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے...

اور سنئے شیخ صاحب کیا فرماتے ہیں: "اگر کسی کے گھر میں ذی روح کی تصویر والی کوئی شئی ہو مثلا پلیٹ پر مچھلی کی تصویر ہو یا آئینہ مجھلی کی شکل کا بنا ہوا ہو اور وہ اسے توڑ کر نہ پھینکے تو وہ خود مشرک اس کی ماں مشرک اس کا باپ مشرک"

یہ لیجیے.... تصویر رکھنا کبیرہ گناہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا پھر بھی شیخ پورے کنبے قبیلے کو مشرک گردان رہے ہیں.

اور پڑھئے شیخ صاحب فرماتے ہیں: "حسین احمد مدنی دیوبند میں انار کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر بخاری پڑھاتے تھے وہ بالخصوص اس کے نیچے کیوں بخاری پڑھائیں اس میں کیا ہے بخاری پڑھانے والا بھی مشرک پڑھنے والے بھی مشرک"

یہ تو حد ہی ہو گئی حسین احمد مدنی اور ان کے پاس پڑھنے والے تمام طلبہ مشرک یہ تو تکفیر معین ہو گئی کیا ابھی بھی انہیں تکفیری نہ کہا جائے ؟

اور سنئے ذات انواط والی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یوم پیدائش، یوم وفات، یوم جمہوریہ، یوم آزادی وغیرہ ہر طرح کا سالگرہ منانا شرک ہے آپ کیوں سالگرہ منائیں آپ مشرک ہیں ہر قسم کا سالگرہ منانا شرک ہے"
اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب بدعت اور گناہ کا کام ہے انہیں شرک گرداننا اور ان کے مرتکب کو مشرک قرار دینا انتہا جرأت کی بات ہے....

مزید فرماتے ہیں : "اگر کوئی مر جائے اور کوئی گھر والوں کو کھانہ پہنچائے گھر والے وہ کھانا جنازہ میں شریک ہونے والوں کو ان کے گھر پر پہنچائے تو یہ شرک بھی ہے اور بدعت بھی"

یہ دیکھیے یہاں اس عمل کا شرک سے کوئی تعلق ہی نہیں بلکہ بسا اوقات یہ جائز بھی ہے پھر بھی عبد الرزاق صاحب اسے شرک قرار دے رہے ہیں.
مزید کہتے ہیں: "شوہر کے مر جانے کے بعد عورت کا ناک کان وغیرہ کے زیورات اور کنگن وغیرہ کھول لینا شرک ہے...نئے زیورات نہیں پہنے گی جو پہنی ہوئی ہے اسے کھول لینا شرک ہے"
یہ عجیب نکتہ دانی ہے محترم کی کیسے کیسے عجیب و غریب چیزیں ڈھونڈ نکالتے ہیں ان کی یہ بات اجماع اور حدیث دونوں کے خلاف ہے ملاحظہ فرمائیں:
حدیث: عن أمِّ سلمة زوج النبي -صلَّى الله عليه وسلم-، عن النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلم- أنه قال: "المتوفَّى عنها زوجُها لا تَلبَسُ المُعَصفرَ مِن الثياب، ولا المُمَشَّقَةَ ولا الحُليَّ، ولا تختضِبُ، ولا تَكتحِلُ" (ابو داؤد : 2304 نسائی: 3535)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس عورت کا شوہر مر گیا ہے وہ عورت (عدت کے ایام میں) کسم کے رنگ کا اور سرخ پھولوں سے رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، زیورات نہ پہنے ، خضاب نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے“۔

اجماع: امام ابن المنذر فرماتے ہیں: سوگ منانے والی عورت کو زیورات پہننے سے منع کرنے پر تمام علما نے اتفاق کیا ہے کیوں کہ زیورات عورت کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور اس سے ملنے جلنے کی دعوت دیتے ہیں. (الاجماع لابن المنذر ص: 125 المغني لابن قدامہ 3/89)

دیکھئے کیسے ایک مجمع علیہ مشروع اور شرعا واجب چیز کو عجیب و غریب نکتہ نکال کر شرک سے تعبیر کر رہے ہیں اس سے بڑی ضلالت اور کیا ہو سکتی ہے.. ؟
کیا حسن وجمال کا باعث صرف نئے زیورات ہیں.. ؟ اور کیا حدیث میں ایسی کوئی تفصیل ہے کہ پرانا سب کھولنا نہیں ہے اور نیا سب پہننا نہیں ہے ؟ یا حدیث میں مطلق پہننے کی ممانعت ہے خواہ نئے ہوں یا پرانے..

مزید کہتے ہیں : "خدا کہنا شرک ہے"
کیا کوئی عقل مند انسان کسی ایسے لفظ کو شرک سے تعبیر کر سکتا ہے جسے دنیا کے آدھی مسلمان قوم استعمال کررہی ہو اور اس کی تاویل بھی موجود ہو... کیا یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ فارسی ایک قدیم ترین زبان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف ایک رسول بھیجا ہے ہو سکتا ہے فارسی زبان بولنے والی قوموں کی طرف جن رسولوں کو بھیجا تھا وہ اللہ کو خدا کہتے تھے ؟ گرچہ ہم لوگ یہ نہیں کہتے اور "ولله الأسماء الحسنى فأدعوه بها" کے تحت صرف انہیں ناموں سے اللہ کو پکارنے کے قائل ہیں جو کتاب و سنت میں وارد ہے لیکن خدا کہنا شرک بھی نہیں کہتے یہی محققین اہل حدیث کا موقف ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے بچنا بہتر ہے مگر یہ لفظ شرک ہے ایسا کسی نے نہیں کہا ہے..

مزید کہتے ہیں: "اگر کوئی جھاڑ پھونک کرتا ہے تو کرنے والا بھی مشرک اور کروانے والا بھی مشرک"
واضح رہے کہ غیر شرعی جھاڑ پھونک شرک اصغر کے قبیل سے ہے پھر بھی جھاڑ پھونک کرنے والا مشرک.

کہتے ہیں: "اگر آپ سورہ یٰسین لکھ کر بھی تعویذ لٹکائیں تو یہ بھی شرک ہے اور سزا جہنم ہے"
جبکہ یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے شیخ سلیمان بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ بات جان لو کہ صحابہ تابعین اور ان کے بعد کے علمائے کرام نے ان تعویذوں کو لٹکانے کے جواز میں اختلاف کیا ہے جو قرآن اور اسما وصفات باری تعالٰی سے ہو.
چنانچہ ایک جماعت نے کہا کہ جائز ہے اور یہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص وغیرہ کا قول ہے حضرت عائشہ سے جو مروی ہے اس کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے یہی ابو جعفر باقر اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی قول ہے، اور ان لوگوں نے حدیث کو شرکیہ تمائم پر محمول کیا ہے، البتہ جن تمائم میں قرآن اور اللہ کے اسما وصفات ہیں ان کا حکم ان کے ذریعے رقیہ کی طرح ہے.
شیخ سلیمان فرماتے ہیں میں کہتا ہوں: امام ابن القیم کا بھی یہی پسندیدہ موقف ہے."
(تيسير العزيز الحميد " ( ص 136 - 138 ) .

لہذا علی الاطلاق اس کو شرک قرار دیتے ہوئے اس کی سزا جہنم بتانا درست نہیں ہے کیونکہ کبار علمائے عقیدہ نے احوط اور موجب سد ذریعہ قرار دیتے ہوئے اسے ناجائز قرار دیا شرک نہیں کہا ہے.

کہتے ہیں: "لٹن، بدھ، کتا، dog، اور ٹوم وغیرہ نام رکھنے سے بہتر ہے کہ کوئی اپنا نام بانس کاٹھ رکھے کیونکہ ان میں شرک نہیں ہے" مطلب اول الذکر ناموں میں شرک ہے..

کہتے ہیں: "'دھان کے اوپر جوتا چپل پہن کر نہیں چلنا چاہیے' یہ بات کہنا شرک ہے"
حالانکہ اس بات میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تو آداب میں سے ہے.

کہتے ہیں: "اگر کوئی کہے کہ کھانے کے برتن میں پیر نہیں رکھنا چاہیے یہ بھی شرک ہے"

حالانکہ اس بات میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تو اسلامی آداب میں سے ہے.

کہتے ہیں: "اگر کوئی کہے کہ چولہا پر پیر نہیں رکھنا چاہیے یہ بھی شرک ہے"

کہتے ہیں: "اگر کوئی کہے کہ جنابت کا غسل کیے بغیر انسان کو کچھ نہیں کرنا چاہیے یہ بھی شرک ہے"

کہتے ہیں: "قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا شرک ہے" "تصویر لٹکانا شرک ہے"
وغیرہ وغیرہ بہت ساری باتیں ہیں جن کے لیے مستقل تصنیف کی ضرورت ہے.

ان تین ملاحظات کے علاوہ اور بھی چیزیں ہیں جن کا ذکر آئندہ قسطوں میں ہوگا، ان شآء اللہ

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح کہنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.

.
 
Last edited:
Top