ملک سکندر نسوآنہ
رکن
- شمولیت
- اپریل 05، 2020
- پیغامات
- 95
- ری ایکشن اسکور
- 4
- پوائنٹ
- 45
حافظ تقی الدین ابو محمد عبد الغنی مقدسیؒ
541ھ تا 600ھ
1 نام اور نسب
حافظ تقی الدین ابو محمد عبد الغنی بن عبد الواحد بن علی بن سرور بن رافع بن حسن بن جعفر بن ابراہیم المقتول بن اسماعیل بن امیر جعفر سید اغر بن ابراہیم اعرابی بن ابو جعفر محمد رئیس جواد بن علی زینبی بن عبد اللہ بحر الجود بن جعفر طیارؓ بن ابی طالب ، مقدسی جماعیلی ہے۔ مشہور کتاب "عمدۃ الاحکام" کے مصنف ہیں،
2 ولادت اور وطن
بیت المقدس کے خطہ نابلس میں جماعیل کے اندر سنہ 541 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن جلد ہی وہاں سے مع اہل خانہ دمشق منتقل ہو گئے۔
3 علمی زندگی
عبد الغنی مقدسی ابتدا ہی میں طلب علم میں مشغول ہو گئے تھے، چنانچہ اپنے علاقہ کے کبار علما اور شیوخ سے علم حاصل کیا، دمشق کے شیوخ اور علما کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ، ان سے فقہ اور دوسرے علوم کو حاصل کیا۔
4 اساتذہ و شیوخ اور رحلت
1۔ محمد بن احمد بن قدامہ مقدسی۔
2۔ ابو المکارم بن ہلال۔
3۔ سلمان بن علی رحبی۔
4۔ ابو عبد اللہ محمد بن حمزہ قرشی۔
پھر 561ھ میں بغداد گئے، وہاں شیخ عبدالقادر جیلی (کیلانی) کے پاس قیام کیا، بغداد میں تقریباً 4 سال تک قیام کیا، وہاں حدیث اور فقہ میں مشغول رہے، پھر سنہ 565ھ میں دمشق واپس آ گئے، پھر جلد ہی مصر چلے گئے، 566ھ میں اسکندریہ گئے اور ایک عرصہ تک حافظ ابو طاہر سلفیؒ کی خدمت میں رہے، پھر سنہ 570ھ میں بھی حافظ سلفی کی خدمت میں تشریف لے گیے، پھر اصفہان تشریف لے گئے ۔ حافظ ضیاء کہتے ہیں جس وقت آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اصفہان کا رخ کیا اس وقت خرچ کے لیے آپ کے پاس کوئی رقم نہیں تھی اللّٰه تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک شخص بہم پنچایا جو آپ کو ساتھ لے گیا اور تمام اخرجات کی کفالت اس نے اپنے ذمہ لے لی چنانچہ آپ نے وہاں ایک مدت تک قیام کیا ۔ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت سی عمدہ عمدہ کتابیں بھی جمع کر لیں.
5 تلامذہ
مندرجہ ذیل اصحاب نے عبدالغنی المقدسیؒ کے خرمِن علم سے خوشہ چینی کی.
آپ کے دونوں صاحبزادے، 1۔ ابوالفتح محمد، 2۔ ابوموسیٰ عبدالله، 3۔ عبدالقادر رہاوی، 4۔ موفق الدین بن قدامہ مقدسی، 5۔ محدث ضیاء المقدسی، 6۔ ابن خلیل، 7۔ فقیہ یونینی، 8۔ ابن عبدالدائم، 9۔ عثمان بن مکی شارعی، 10۔ احمد بن حامد ارتاح، 11۔ اسماعیل بن غزون، 13۔ عبدالله بن علاق، 14۔ محمد بن مہلہل جینی متوفیٰ 674ھ یہ آپ کے آخری شاگرد ہیں.
6 علمی مقام
ابن نجار کہتے ہیں ”آپ نے حدیث بڑی کثرت سے بیان کی اور اس فن میں بڑی اچھی اور عمدہ کتب تصنیف کیں آپ کا حافظہ اور اتقان و ضبط قابل رشک تھا حدیث کے تمام فنون میں مہارت تامہ رکھتے تھے“ ۔ فقیہ محمود بن ہمام کہتے ہیں ”میں نے کندی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حافظ عبدالغنی نے اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا“ ۔ ربیعہ یمنی کہتے ہیں ”میں نے ابو موسیٰ مدینی کو لکھا ہے مگر یہ حافظ عبدالغنی ان سے بڑے حافظ حدیث ہیں“۔ ضیاء المقدسی کہتے ہیں ”میں نے جن محدثین کو دیکھا ہے سب ہی کہتے تھے ہم نے حافظ عبدالغنی جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا ۔ اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے حافظ ضیاء کہتے ہیں اگر کوئی شخص آپ سے کوئی حدیث پوچھتا آپ نہ صرف یہ حدیث بیان کرتے بلکہ اس کے مالہ و علیہ پر پوری بحث کر ڈالتے اور اگر کوئی کسی راوی کے متعلق سوال کرتا تو فوراً فرماتے یہ فلاں بن فلاں ہے اور اس کا پورا نسب بیان کر دیتے اس لیے میں کہتا ہوں آپ امیر المؤمنین فی حدیث ہیں میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ حافظ ابو موسیٰ مدینی کے حلقہ درس میں ایک شخص نے مجھ سے ایک حدیث کے متعلق جھگڑا کیا اور کہنے لگے یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے میں نے کہا یہ صحیح بخاری میں نہیں ہے اس نے یہ حدیث ایک رقعہ پر لکھ کر حافظ ابو موسیٰ کی خدمت میں پیش کی اور اس بارے میں فیصلہ حاصل کرنا چاہا حافظ صاحب نے یہ رقعہ پڑھ کر مجھے دے دیا اور پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں میں نے عرض کیا یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے یہ دیکھ کر وہ آدمی بڑا شرمسار ہوا ۔ حافظ ضیاء مزید کہتے ہیں میں نے ایک ثقہ عالم عبدالرحمان بن محمد سے سنا انہوں نے حافظ عبدالغنیؒ سے سنا فرماتے تھے میں نے اللّٰه تعالیٰ سے ایک سوال کیا کہ مجھے امام احمد بن حنبلؒ جیسا مقام عطا فرمائے چنانچہ میری دعا منظور ہوئی اور اللّٰه تعالیٰ نے مجھے امام موصوف جیسی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی عبدالرحمان کہتے ہیں پھر آپ اہل بدعت کے اٹھائے ہوئے فتنوں کے باعث مبتلائے مصائب و آلام ہوئے اس طرح آپ کی پوری دعا قبول ہوئی“۔ حافظ ابوموسیٰ مدینی فرماتے ہیں ”اصحاب الحدیث سے ایسے لوگ ہمارے پاس کم ہی آئے ہیں جو اس فن کو عبدالغنی مقدسی کی طرح جانتے ہوں اللّٰه تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے یہ آپ پر اللّٰه تعالیٰ کا انعام ہے کہ آپ کو ابو نعیم کی کتاب ”معرفت الصحابہ“ میں واقع ہونے والے اغلاط کی نشاندہی کرنے کی ہمت عطا فرمائی حافظ ابوموسیٰ ۔مزید لکھے ہیں اگر آج امام دارقطنی اور ان کے اقران زندہ ہوتے تو آپ کو اس شاہکار پر خراج تحسین پیش کرتے جن چیزوں پر آپ کی نظر ہے ہمارے اہل زمانہ اس کو کم ہی جانتے ہیں“۔
7 علما کی آراء
1۔ علامہ ذہبیؒ کہتے ہیں: «امام، عالم، حافظ کبیر، متقی عابد، سلف کے پیروکار اور متبع سنت تھے»
2۔ ابن نجار کہتے ہیں: «بہت زیادہ احادیث انھیں حفظ تھیں، حدیث میں ان کی بہت سی بہترین تصنیفات ہیں، حافظہ کمال تھا، حدیث کو اس کے اصول و علل، صحت و ضعف، ناسخ و منسوخ اور غریب و حسن، نیز حدیث اور اس کے معانی کا فہم اور فقہ، اس کے روایت کے ناموں اور ان کے احوال کا علم سب کچھ اچھی طرح حاصل تھا»
3۔ عبد العزیز بن عبد الملک شیبانی کہتے ہیں: «میں نے یعقوب کندی کو فرماتے ہوئے سنا کہ "دار قطنی کے بعد حافظ عبد الغنی جیسا کوئی نہیں ہوا» کندی کہتے ہیں: «ان کے جیسا حافظ الحدیث نہیں دیکھا گیا»
4۔ ابن العماد حنبلی کہتے ہیں: « حفظ حدیث متن اور سند دونوں میں اس کے فنون پر مہارت کے ساتھ منتہیٰ تھے، ساتھ ساتھ تقوی، عبادت، سلف کی پیروی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں اپنی مثال آپ تھے»
5۔ موفق الدین کہتے ہیں: «عبد الغنی مقدسی علم و عمل کے جامع تھے، بچپن میں اور طلب علم میں میرے دوست تھے، ہم اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے، اللّٰہ نے انھیں اہل بدعت کی اذیت اور ان کی عداوت میں مبتلا کرکے کمال فضیلت عطا فرمایا، اسی طرح اخیر عمر تک علم اور کثرت مطالعہ کتب میں بہت فوقیت دی»
6۔ ابن جوزی کہتے ہیں: « عبد الغنی مقدسی متقی، زاہد اور عابد تھے، روزانہ تین سو رکعات نمازیں پڑھتے، پابندی سے قیام اللیل کرتے، سال میں روزے رکھتے، بہت سخی تھے کوئی چیز جمع کر کے نہیں رکھتے تھے، یتیموں اور بیواؤں کو خفیہ صدقہ کیا کرتے تھے، نئے کپڑے کے مقابلہ میں پرانا پیوند لگا کپڑا پہنتے تھے، کثرت مطالعہ اور کثرت بکا کی وجہ سے بینائی کمزور ہو گئی تھی، علم حدیث اور حفظ حدیث میں اپنے زمانہ میں یکتا تھے»
8 حافظہ اور قوت یادداشت
حافظ ضیاء المقدسی کہتے ہیں میں نے اسماعیل بن ظفر کو کہتے ہوئے سنا ایک دفعہ ایک آدمی نے حافظ عبدالغنی سے پوچھا ایک شخص نے اس بات پر طلاق کی قسم کھائی ہے کہ آپ کو ایک لاکھ احادیث بنوک زبان یاد ہیں؟ کیا یہ درست ہے؟ آپ نے جواب دیا اگر وہ اس سے زیادہ بھی کہتا تب بھی سچا تھا اور میں نے جامع دمشق میں کئی دفعہ مشاہدہ کیا کہ حافظ عبدالغنی منبر پر تشریف فرما ہوتے حاضرین میں سے کوئی شخص کہتا کہ آج آپ ہمیں کتاب سامنے رکھے بغیر احادیث پڑھائیں آپ مطلوبہ احادیث مع اسناد زبانی پڑھا دیتے اس پر کہا جاتا کہ آپ ہمشہ اس طرح کیوں نہیں کرتے اور احادیث زبانی کیوں نہیں پڑھاتے فرماتے اس طرح عجب و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے آپ کے اس بے مثال حافظہ کو دیکھ کر تاج کندی فرمایا کرتے تھے کہ دارقطنی کے بعد عبدالغنی مقدسی جیسا کوئی آدمی پیدا نہیں ہوا.
9 درس حدیث
حافظ عبدالغنی جمعرات کو اور جمعہ کی نماز کے بعد دمشق میں درس حدیث دیا کرتے تھے ۔ استفادہ کے لیے بے شمار لوگ جمع ہوتے اور آپ کا پر تاثیر بیان سن کر بکثرت روتے تھے اختام مجلس پر آپ اہلِ اسلام کے حق میں بہت لمبی دعا کرتے تھے ۔ ضیاء مقدسی کہتے ہیں میں نے ابوالحس بن نجا واعظ کو ”جامع قرافہ“ کے منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ حافظ عبدالغنی یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں وہ حدیث کا درس دیا کریں گے ان کی خواہش ہے کہ آپ حضرات کم از کم تین دن ان کی مجلس میں ضرور حاضر ہوں اتنے میں ان کی قدر و منزلت آپ پر واضع ہوجائے گی اور آپ ان کے حلقہ درس میں شریک ہونا سعادت سمجھیں گے چنانچہ میں پہلے دن ہی جامع قرافہ میں حاضر ہوا پہلے آپ نے بہت سی احدیث بالاسناد زبانی بیان کی اور بہت سی احادیث بلا سند بیان فرمائیں لوگ بہت محظوظ ہوئے اور خوشی خوشی واپس گئے بعد میں میں نے ابن نجا سے سنا فرماتے تھے میرا مقصود تو پہلی مجلس میں ہی حاصل ہوگیا تھا.
10 درس کو غیر موثر بنانے کی کوشش
ضیاء مقدسی کہتے ہیں حافظ صاحب جامع دمشق میں درس حدیث دیا کرتے تھے جس میں لوگ بڑی کثرت سے شریک ہوتے تھے اہل بدعت کو یہ بات پسند نہ تھی اس لیے انہوں نے روڑے اٹکانے شروع کیے پہلے آپ کو ایسے وقت میں درس دینے پر مجبور کیا جس میں لوگ سو جاتے تھے اور کچھ بے توجہی سے سنتے تھے اس پر بھی انہیں صبر نہ آیا تو پھر ایک واعظ کو تیار کیا جب حافظ صاحب جمعہ کے دن درس حدیث دینا شروع کریں وہ قریب ہی قبةالنسر میں واعظ شروع کر دیا کرے یہ دیکھ کر حافظ صاحب نے عصر کی نماز کے بعد درس دینے کا پروگرام بنایا جب مخالفین نے اپنی تدبیر ناکام ہوتی ہوئی دیکھی تو انہوں نے بنو عساکر کے ایک دیوانے کو تیار کیا اس نے ایک دن واعظ کو خطاب کرتے ہوئے کہا تم منبر پر بیٹھ کر جھوٹ بولتے ہو یہ سنتے ہی عقیدتمند مشتعل ہو گئے اور دیوانہ کو زدوکوب کرنے لگے اس بچارے نے بھاگ کر اور کلاسر میں چھپ کر جان بچائی اس پر اہل بدعت کو بہانہ مل گیا حاکم شہر کے پاس شکایت کرنے جلے کہ یہ حنابلہ فتنہ پرداز ہیں یہ یو کرتے ہیں یو کرتے ہیں اور ان کے عقائد ایسے ایسے ہیں پھر چند معتبر آدمی قلعہ میں حاکم شہر کے پاس گئے اور مطالبہ کیا کہ حافظ عبدالغنی کو مناظرہ کے لیے یہاں بلایا جائے جب میرے ماموں شیخ موفق اور بھائی شمس اور دوسرے فقہاء کو پتہ چلا تو وہ حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اور عرض کی آپ کی طبیعت میں تیزی ہے آپ کو وہاں جانے کی ضرورت نہیں آپ گھر میں رہیں ہم آپ کی طرف سے ان کے ساتھ مناظرہ کے لیے کافی ہیں مگر اتفاق دیکھیے یہ حضرات باہر نکلے تو حکومت کے اہل کار آپ کو آکر لے گئے اور ان کو پتہ بھی نہ چلا ال بدعت نے آپ سے مناظرے کے لیے ایک جاہل آدمی کو کھڑا کر دیا جس نے دلائل سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی بجائے آپ کے خلاف حاضرین کو مشتعل کرنا شروع کردیا یہ دیکھ کر آپ طیش میں آگئے اور انتہائی جرت مندانہ طریقہ سے اپنے اپر عاید کردہ الزامات کی تردید کی مخالفین نے آخری حربہ استمال کیا ایک کاغذ پر اپنے عقائد لکھے اور اس پر اپنے ہم خیال علماء کے دستخط حاصل کیے پھر یہی تحریر حافظ صاحب کے سامنے پیش کی اور آپ سے اس پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ظاہر ہے آپ ان سے اتفاق نہیں کر سکتے تھے لہٰذا آپ نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا اس پر سب بدعتی حاکم شہر سے کہنے لگے دیکھیے جس دستاویز کو سب علماء بلاتفاق مانتے ہیں یہ اس کی مخالفت کرتا ہے یہ سن کر حاکم شہر نے اپنے اہلکار بھیج کر آپ کا منبر اور کتابیں مسجد سے نکلوا دیں مخالفین نے مطالبہ کیا کہ جامع مسجد میں شافعیہ کے سوا سب کو نماز پڑھنے سے منع کردیا جائے چنانچہ آپ کا منبر توڑ دیا گیا اور ہمیں مسجد میں نماز ظہر پڑھنے کی ممانعیت کر دی گئی اس حکم کے نافذ ہونے پر اس واعظ نے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے شہری اور دیہاتی لوگوں کو جمع کیا اور کہا اگر ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی گئی تو ہم اجازت کی پرواہ کیے بغیر نماز پڑھیں گے قاضی جو ایک فتنہ پرداز آدمی تھا کو پتہ چلا تو اس نے ان کو نماز پڑھنے کی اجازت دے دی حنفی بھی ایک فوجی دستہ کے ذریعے اپنے مصلّٰی کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ حافظ صاحب اس واقعہ سے دل بردشتہ ہو کر بعلبک منتقل ہو گۓ اور عرصہ تک وہاں رہے پھر وہاں سے مصر چلے گئے اور نابلس میں مدت تک قیام کیا.
11 فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پاداش میں حافظ عبدالغنیؒ کو چھ یا سات بار قتل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ضیاء المقدسیؒ کہتے ہیں جب آپ کوئی امر منکر دیکھتے تو اس کو ہاتھ یا زبان سے مٹانے کی کوشش فرماتے اور رضاالہیٰ کے مطابق عمل کرنے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقاً پرواہ نہیں کرتے تھے چنانچہ میں نے ایک دفعہ دیکھا کہ آپ نے ایک مَے فروش کی شراب زمین پر گرادی وہ تلوار لے کر اَٹھا اور آپ پر حملہ کرنا چاہا مگر آپ مضبوط و توانا تھے خوفزدہ ہونے کی بجائے آگے بڑھے اور اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی ۔ اسی طرح آپ گانے بجانے کے آلات ڈھولک طنبورے وغیرہ ٹور پھوڑ دیتے تھے۔
اہل بدعت کی ایک سازش۔ مزید لکھتے ہیں میں نے ابو بکر بن احمد طحان کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ اہل بدعت نے مسجد جبرون کی سیڑھی کے پاس بہت سے آلات لہو لعب اور دھولک طنبورے جمع کر دیئے حافظ صاحب آئے انہوں نے اکثر و بیشتر توڑ پھوڑ ڈالے اور منبر پر چڑھ کر خطبا دینے لگے تھوڑی دیر کے بعد قاصد آیا اور کہا قاضی شہر آپ کو بلاتے ہیں دف شبانہ اور دیگر آلاتِ ملاہی کے بارہ میں آپ سے مناظرہ کرنا چاھتے ہیں آپ نے جواب دیا یہ سب چیزیں حرام ہیں اس لیے میں نے توڑ دی ہیں مجھے قاضی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے اگر اسے ضرورت ہے تو یہاں آجائے تھوڑی دیر کے بعد قاصد پھر آیا اور کہنے لگا آپ نے بادشاہ کی دل لگی اور خوش طبعی کا سامان ضائع کردیا ہے اس کے لیے آپ کو ضرور آنا پڑے گا اس پر آپ نے غضبناک ہو کر کہا اللّٰه تعالیٰ اس کی اور بادشاہ کی گردن مارے یہ سن کر قاصد چلا گیا اور ہم کسی عظیم فتنہ کے خوف سے کاپنے لگے ۔ مگر کسی نے ادھر کارخ نہیں کیا. ابن قدامہ مقدسیؒ کہتے ہیں اہل بدعت کی دشمنی اور ایذارسانی سے آپ کی فضیلت مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا.
12 ابو نعیم کے اوہام کی نشاندہی
حافظ ضیاء کہتے ہیں میں نے امام ابوعبداللہ ابوالحسن حیائی کو کہتے ہوئے سنا کہ حافظ عبدالغنی نے ابونعیم کی 290 غلطیاں پکڑیں جس سے مشتعل ہو کر صدر بن خجندی نے آپ کو طلب کیا اور آپ کو قتل کرنا چاہا مگر حافظ صاحب نے چھپ کر جان بچائی میں نے محمود بن سلامہ سے سنا ہے کہتے تھے ہم نے حیلہ کیا کہ پہچانے نہ جائیں اس لیے ہم نے اس روز حافظ صاحب کو صرف ایک تہ بند میں وہاں سے نکالا تھا.
13 ایک اور مصیبت
محمود بن سلامہ کہتے ہیں میں نے حافظ عبدالغنی سے سنا ہے فرماتے ہیں ہم شہر موصل میں امام عقیل کی تصنیف کتاب الضعفاء پڑھا کرتے تھے اس پر ان کے کسی عظیم پیشوا پر جرح تھی جس سے مشتعل ہو کر اہل موصل نے مجھے گرفتار کر لیا اور میرے قتل کا منصوبہ بنایا چنانچہ ایک دراز قامت آدمی ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے میرے پاس آیا میں نے محسوس کیا کہ یہ مجھے قتل کر دے گا اور یوں میں روز روز کی مصیبتوں سے نجات پا جاؤں گا مگر اس نے کچھ نہ کیا اور مجھے رہا کر دیا واقعہ یوں ہوا کہ حافظ صاحب کے ساتھ ان کا ہمخیال برنی بھی یہ کتاب پڑھتا تھا اس کی شرارت سے آپ سے کتاب کا وہ حصہ چھین لیا گیا جس میں ان کے پیشوا کا ذکر تھا انہوں نے پوری کتاب میں ڈھونڈا مگر وہ مقام نہ ملا اس لیے آپ کو رہا کردیا گیا.
14 اصفہان میں قبول عام
حافظ ضیاء کہتے ہیں میں نے اصفہان میں محمود بن سلامہ کو کہتے ہوئے سنا ہے جب حافظ عبدالغنی اصفہان میں اپنے گھر سے باہر نکلتے تو لوگ آپ کو دیکھنے کے لیے بازاروں میں قطار در قطار کھڑے ہو جاتے تھے لوگوں کی محبت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا اگر آپ اصفہان میں رہنا اور اس پر قبضہ کرنا چاہیں تو باآسانی قبضہ کر سکتے ہیں ۔ حافظ ضیاء کہتے ہیں کہ مصر میں بھی میرا مشاہدہ ایسا ہی ہے جب ہم آپ کے ساتھ جمعہ کے لیے نکلتے تو آپ کے اردگرد عقیدت مندوں ملاقاتیوں اور دعا کرانے والوں کا اتنا ہجوم ہو جاتا کہ بازار میں چلنا مشکل ہو جاتا.
15 مصر میں آپ کی قبولیت
ضیاء مقدسی لکھتے ہیں جب ملک افضل نے مصر پر قبضہ کیا اور اسے دوبارہ دمشق کی عملداری میں شامل کیا تو حافظ عبدالغنیؒ سے ملاقات کی اور نہ صرف یہ کہ آپ سے انتہائی تعظیم و تکریم کے ساتھ پیش آیا ۔ بلکہ اہل مصر کو بھی آپ کے احترام کی ہدایت کی اس کے بعد حافظ صاحب کو بڑی قبولیت حاصل ہوئی اور آپ کی عزت و حرمت میں بے حد اضافہ ہوا اور آپ کے مخالفین جو مصر میں خاصی تعداد میں موجود تھے بادشاہ کے خوف سے دم نہیں مارتے تھے ۔ جب ملک عادل کا دور آیا اور اس نے مصر پر قبضہ کیا تو مخالفین نے ایک دفعہ پھر آپ کے خلاف طوفانِ بدتمیزی پیدا کیا اور آپ پر طرح طرح کے الزام لگائے عادل نے آپ کو دربار میں طلب کیا آپ کے خلاف الزامات غلط ثابت ہونے پر آپ کو بڑی عزت و حرمت سے واپس کیا گیا ۔ حافظ صاحب مصر میں اقامت پذیر تھے مگر آپ کے مخالفین آپ کے خلاف بہتان طرازیوں سے باز نہیں آتے تھے جب ان کی شکایتیں حد سے بڑھ گئی تو ملک عادل کے جانشین ملک کامل نے آپ کے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا آپ کو آپ کے گھر میں قید کر دیا جس میں آپ ایک ہفتہ نظر بند رہے میں نے تقی احمد بن محمد بن عبدالغنی سے سنا ہے کہتے تھے مجھے شجاع بن ابی ذکری نے بتایا ایک دن مجھے ملک کامل نے کہا یہاں ایک فقیر رہتے ہیں اہل مصر ان کو کافر کہتے ہیں میں نے کہا میں تو کس ایسے آدمی کو نہیں جانتا بولا تم نہیں جانتے وہ تو ایک بڑے محدث بھی ہیں میں نے عرض کیا شاید وہ حافظ عبدالغنیؒ ہوں گے؟ کہنے لگا ہاں ہاں وہی ہیں میں نے کہا بادشاہ سلامت عالم دو طرح کے ہیں ایک طلبِ آخرت اور ایک طلبِ دنیا آپ کا قرب دنیا حاصل کر نے کا ذریعہ ہے آپ یہ فرمائیں کبھی وہ آپ کے پاس آئے یا کبھی کوئی درخواست بھیجی؟ بولا نہیں میں نے عرض کیا باللّٰہ یہ لوگ حاسد ہیں حسد سے مجبور ہو کر بہتان طرازیاں کرتے ہیں ۔ بولا الّٰله آپ کا بھلا کرے آپ نے مجھ پر حقیقت واضح کردی ۔ ضیاء کہتے ہیں مجھے یہ خبر بھی ملی ہے کہ حافظ صاحب کو اپنے عقائد لکھ کر پیش کرنے کا حکم ملا تو آپ نے لکھا میں یہ کہتا ہوں اس کی دلیل اللّٰه تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ۔ میں یہ کہتا ہوں اس کی دلیل اللّٰه کے رسولﷺ کی یہ حدیث ہے اس طرح آپ نے اپنے عقائد کو اللّٰه تعالیٰ اور رسول ﷺ کے فرمین سے مدلل و مبرہَن لکھے ۔ جب ملک کامل نے یہ تحریر پڑھی تو کہنے لگا یہ تو اللّٰه تعالیٰ اور رسول ﷺ کے فرمین کے سوا کوئی بات نہیں کرتا میں انہیں کیا کہہ سکتا ہوں پھر اس نے آپ کو رہا کر دیا.