• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
دین زبردستی کی اجازت نہیں دیتا ، لیکن اگر کسی پر زبردستی ہو جائے تو پھر کیا کیا جائے گا ، اس بارہ میں ضرور رہنمائی کرتا ہے ۔
اسی حدیث سے دونوں مسئلے ثابت ہو جاتے ہیں
۱۔ عورت کی مرضی کے بغیر کیا گیا نکاح درست ہے : کیونکہ آپ نے ا سے اختیار دیا ہے رہنے کا بھی ! ، اگر وہ نکاح درست نہ ہوتا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ یہ تو نکاح ہی نہیں ہے ۔ خوب سمجھ لیں
۲۔ عورت کی مرضی کے بغیر اگر نکاح کر دیا جائے تو عورت کو نکاح ختم کرنےکے اختیار حاصل ہے اور اسکے لیے وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہے : یہ بات تو واضح طور پر اس حدیث میں سمجھ آ رہی ہے ۔


السلام علیکم!۔
جزاکم اللہ خیرا۔۔۔

شیخ محترم! اختیار دینے کی وجہ کو اگر میرا گمان نہ سمجھا جائے تو اپنے لفظوں میں یہ بیان کرنا چاہوں گا کے ولی کی جانب سے انجام دیا گیا عمل درست نہیں تھا۔ لیکن ایک امر انجام پاچکا تھا اس لئے رد پیش کرنے سے بہتر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو اختیار دیا کہ وہ اپنے فیصلے میں پوری طرح آزاد ہے چاہے تو اس نکاح کو جاری رکھے یا فسخ کروا دے۔ لیکن یہ مسئلہ ایک امر کو انجام دینے کے بعد سامنے آیا۔۔۔

میرا سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ اگر نکاح کے انجام دینے سے پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا جاتا تو اُس وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کیا ردعمل ہوتا؟؟؟۔۔۔ رد عمل جاننے کے لئے بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں اگر اس مسئلے کو سمجھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو اختیار دیا۔۔۔ کیوں؟؟؟۔۔یعنی شاید یہ میرا گمان ہو جو میں سمجھ رہا ہوں وہ یہ کہ لڑکی کی اجازت نکاح کے سلسلے میں ضروری ہے۔۔۔ الا یہ کہ جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہو اس میں اگر کوئی شرعی عذر نہیں (واللہ اعلم) نکاح میں کوئی حرج نہیں ہوگی۔۔۔


اب اس مسئلے کو ہم اپنے اہلحدیث کی عدالت میں رکھتے ہیں۔۔۔
فرض کیجئے! کہ اگر یہ ہی مسئلہ آپ کے سامنے پیش کیا جائے۔۔۔ عقد نکاح سے پہلے تو اس پر آپ کیا فتوٰی جاری فرمائیں گے۔۔۔


شیخ المحترم! میں پھر عرض کردوں کے میرا مقصد کسی قسم کا کوئی الجھاؤ نہیں ہے۔۔۔


اور میری درخواست ہے کے مفتی عابد الرحمٰن صاحب بھی اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
میں نے تو بات ساری ہی واضح کر دی ہے کہ
۱۔ والدین لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے ، انکے لیے یہ جائز نہیں ہے ۔
۲۔ اگر والدین زبردستی کر لیں تو لڑکی کو اختیار حاصل ہے ۔
۳۔ والدین کی زبردستی کی وجہ سے کیا گیانکاح ، نکاح ہی تصور ہوگا ، نہ کہ زنا ! ۔ اور وہ باطل نہیں ہوگا ، ہاں لڑکی اسے فسخ کر سکتی ہے ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میں نے تو بات ساری ہی واضح کر دی ہے کہ
۱۔ والدین لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے ، انکے لیے یہ جائز نہیں ہے ۔
۲۔ اگر والدین زبردستی کر لیں تو لڑکی کو اختیار حاصل ہے ۔
۳۔ والدین کی زبردستی کی وجہ سے کیا گیانکاح ، نکاح ہی تصور ہوگا ، نہ کہ زنا ! ۔ اور وہ باطل نہیں ہوگا ، ہاں لڑکی اسے فسخ کر سکتی ہے ۔
یعنی زبردستی کیا جانے والا نکاح!۔
والدین کے لئے جائز نہیں۔
ایسا نکاح زنا تصور نہیں ہوگا۔
ہاں لڑکی کو اختیارہے اُسے فسخ کرسکتی ہے۔

تو پھر جو تیسری شرط ہے۔۔۔
اس پر اب کیا لڑکی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر یعنی سلطان کو ولی بنا کر اُس شخص سے جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے وہ نکاح جائز ہوگا؟؟؟۔۔۔ یہیں سے دوسرا سوال!۔ کہ اگر یہ قدم لڑکی زبردستی کئے جانے والے نکاح سے پہلے اُٹھا لے اور یہاں تک نوبت ہی نہ آنے دے جس کی وجہ سے دو خاندانوں کی عزتوں پر حرف آئے اور والدین یا ولی کی جانب سے کی جانے والی زیادتی جس پر سند موجود ہے کہ اس طرح زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں کو دلیل مان کر لڑکی نکاح ایسے شخص سے کرے جس سے وہ نکاح کرنا ہی چاہتی ہو تو کیا ایسی صورت میں سلطان کو ولی بنا کر نکاح کیا جاسکتا ہے۔۔۔

میں پھر یہ کہوں گا کہ باریک بینی کا مقصد ہرگز یہ نہیں سمجھا جائے کہ خدانخواستہ میں مسئلے کو الجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔۔۔ اس لئے شیخ محترم سے گزارش ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر اس مسئلے پر قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ مستقبل میں اگر کوئی ساتھی یا دوست اس حوالے سے دلائل دیکھنا چاہے تو اسکے لئے آسانی ہو۔۔۔

شکریہ
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
حرب بن شداد بھائی
آپ کا حکم سر آنکھوں پر!
دیکھا جائے تو رفیق محترم جناب رفیق طاہر صاحب نے ہر پہلو سے جامع بات بیان فرمادی ہے اب رہا آپ کا یہ فرمانا
یعنی زبردستی کیا جانے والا نکاح!
زبردستی والا نکاح منعقد ہوجاتا لیکن جانبین(لڑکی اور ولی) کو حق فسخ ہے اگر چاہیں تو باقی رکھیں اور چاہیں تو بذریعہ شرعی عدالت فسخ کراسکتے ہیں
والدین کے لئے جائز نہیں۔
والدین کے لیے جائز نہیں بلکہ یہ فرمایئے بہتر نہیں کہ اگر عاقل بالغ لڑکی نے کفوء میں نکاح کیا ہے تو زور زبر دستی کریں۔
ایسا نکاح زنا تصور نہیں ہوگا۔
جب لڑکا اور لڑکی نے گوہاں کی موجودگی میں نکاح کیا ہے تو وہ زناشمار نہیں ہوگا
ہاں لڑکی کو اختیارہے اُسے فسخ کرسکتی ہے۔
اگر ولی زبردستی لڑکی کی مرضی کے بغیر کسی ناپسند لڑکے سے نکاح کرتے ہیں تو لڑکی کو خیار فسخ حاصل ہے(خلوت سے پہلے پہلے)
تو پھر جو تیسری شرط ہے
لڑکی اگر عاقل بالغ ہے اور لڑکا اور لڑکی ہم کفوء ہیں اور ولی راضی نہیں ہے تو سلطان (موجودہ دور میں شرعی قاضی)کو ولی بنا سکتی ہے اگرچہ سلطان کی حیثیت ثانوی ہے ،باپ کے بعد لڑکوں (بھایئوں) کا نمبر ہے نکاح منعقدہوجایئگا۔اور یہی خاندان کی عزت کے لیے بہتر ہے کیوں کہ آج کل کی محبت کی شادیاں مشکوک ہیں لڑکا لڑکی خفیہ ملاقات کرلیتے ہیں اور ایسے واقعات کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے

اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً، وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ، وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ.(النور 24: 3)
یہ زانی نکاح نہ کرنے پائے ، مگر زانیہ اور مشرکہ کے ساتھ اور اِس زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے ، مگر کوئی زانی یا مشرک ۔ ایمان والوں پر یہ بہرحال حرام ٹھیرایا گیا ہے۔
دوسرا سوال!۔ کہ اگر یہ قدم لڑکی زبردستی کئے جانے والے نکاح سے پہلے اُٹھا لے اور یہاں تک نوبت ہی نہ آنے دے جس کی وجہ سے دو خاندانوں کی عزتوں پر حرف آئے اور والدین یا ولی کی جانب سے کی جانے والی زیادتی جس پر سند موجود ہے کہ اس طرح زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں کو دلیل مان کر لڑکی نکاح ایسے شخص سے کرے جس سے وہ نکاح کرنا ہی چاہتی ہو تو کیا ایسی صورت میں سلطان کو ولی بنا کر نکاح کیا جاسکتا ہے
بیشک اگر لڑکی کو یہ علم ہوجائے کہ اس کے ولی غیر کفوء میں نکاح کرنا چاہ رہے ہیں تو بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ وہ کسی طرح والدین کو سمجھانے کی کوشش کرے یا پھر بھائی سے کہے اس پر بھی کوئی بات نہیں بنتی تو عاقلہ بالغہ لڑکی سلطان کو ولی بنا سکتی ہے۔
اور ان سب کے دلائل اسی تھریڈ میں موجود ہیں
فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یعنی زبردستی کیا جانے والا نکاح!۔
والدین کے لئے جائز نہیں۔
ایسا نکاح زنا تصور نہیں ہوگا۔
ہاں لڑکی کو اختیارہے اُسے فسخ کرسکتی ہے۔

تو پھر جو تیسری شرط ہے۔۔۔
اس پر اب کیا لڑکی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر یعنی سلطان کو ولی بنا کر اُس شخص سے جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے وہ نکاح جائز ہوگا؟؟؟۔۔۔ یہیں سے دوسرا سوال!۔ کہ اگر یہ قدم لڑکی زبردستی کئے جانے والے نکاح سے پہلے اُٹھا لے اور یہاں تک نوبت ہی نہ آنے دے جس کی وجہ سے دو خاندانوں کی عزتوں پر حرف آئے اور والدین یا ولی کی جانب سے کی جانے والی زیادتی جس پر سند موجود ہے کہ اس طرح زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں کو دلیل مان کر لڑکی نکاح ایسے شخص سے کرے جس سے وہ نکاح کرنا ہی چاہتی ہو تو کیا ایسی صورت میں سلطان کو ولی بنا کر نکاح کیا جاسکتا ہے۔۔۔

میں پھر یہ کہوں گا کہ باریک بینی کا مقصد ہرگز یہ نہیں سمجھا جائے کہ خدانخواستہ میں مسئلے کو الجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔۔۔ اس لئے شیخ محترم سے گزارش ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر اس مسئلے پر قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ مستقبل میں اگر کوئی ساتھی یا دوست اس حوالے سے دلائل دیکھنا چاہے تو اسکے لئے آسانی ہو۔۔۔

شکریہ
کسی کو ولی بنانا لڑکی کے ا ختیار میں ہے ہی نہیں ، اور نہ ہی یہ کسی انسان کے اختیار میں ہے ۔
ولایت دینے کا حق صرف شریعت کو حاصل ہے ۔
لہذا لڑکی ایسی صورت میں صرف عدالت سے رجوع کرے گی ، اور قاضی اسکا مناسب حل ایجاد کرے گا ، اور اولیاء کے ساتھ معاملہ کو نمٹائے گا ۔
لیکن اگر لڑکی کے اقرب اولیاء یا قاضی کے علاوہ ابعد اولیاء ، حق ولایت کو درست نہ استعمال کر رہے ہوں ، تو انکی ولایت ختم ہو جائے گی ، اور قاضی یا سلطان کے پاس حق ولایت چلا جائے گا۔
اور پھر ضروری نہیں کہ قاضی لڑکی کی شادی اس مرد سے کر دے جسے لڑکی پسند کرتی ہے ۔ بلکہ وہ بھی معروف طریقہ سے غور وفکر کے بعد اسکے نکاح کا اہتمام کرے گا ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اور پھر ضروری نہیں کہ قاضی لڑکی کی شادی اس مرد سے کر دے جسے لڑکی پسند کرتی ہے ۔ بلکہ وہ بھی معروف طریقہ سے غور وفکر کے بعد اسکے نکاح کا اہتمام کرے گا ۔
جزاکم اللہ خیرا


یعنی آخر میں یہ مسئلہ قاضی یا سلطان کے پاس بالفرض آجائے جیسا کہ آپ نے رہنمائی فرمائی۔۔۔ تو اُس پورے معاملے تک پہنچنے سے پہلے ولی کا ناجائز عمل ٹھہرا۔۔۔


اب ہم بات کرتے ہیں آخر معاملے پر۔۔۔ ملاحظہ کیجئے!
اور پھر ضروری نہیں کہ قاضی لڑکی کی شادی اس مرد سے کر دے جسے لڑکی پسند کرتی ہے ۔ بلکہ وہ بھی معروف طریقہ سے غور وفکر کے بعد اسکے نکاح کا اہتمام کرے گا ۔
اب یہاں پر قاضی کے لئے شریعت نے جو معروف طریقے وضع کیئے ہیں وہ کیا ہوسکتے ہیں؟؟؟ یہ جاننے کے بعد کے لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف زبردستی کیا گیا تھا۔۔۔ جسے وہ فسق کروا چکی ہے۔۔۔


شکریہ!۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
قاضی کے لیے معروف طریقہ یہ ہے کہ اولیاء کو حکم دے کہ وہ لڑکی کی رضا مندی کا خیال رکھیں ، اور باہم صلاح مشورہ سے کوئی مناسب رشتہ تلاش کریں ، اور لڑکی کو حکم دے کہ وہ بھی اپنی ضد چھوڑ دے اور والدین کی اطاعت کرے ، ہاں اپنا ہم پلہ رشتہ ضرور طلب کرے ۔
یعنی قاضی کے ذمہ صلح جوئی ہے ۔
لیکن جب یہ تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں اور والدین یا قریبی اولیاء لڑکی کو ضرر پہنچاتے ہی نظر آئیں تو پھر سلطان خود ولی بن کر اس لڑکی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرے گا ، اس لڑکی سے اسکے مطالبات سن کر اگر مناسب ہوئے تو پورے کر ےگا اور اگر
ان میں کچھ غیر مناسب ہوئے تو ایسے مطالبات قاضی کے حکم پر لڑکی کو ترک کرنا پڑیں گے ، بالآخر بات وہی بنے گی کہ لڑکی اور اسکے اولیاء خواہ حقیقی ہوں یا سلطان کی شکل میں ہوں دونوں کے اتفاق رائے سے ہی رشتہ طے پائے گا ۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
محترم رفیق طاھر بھائی آج کے دور میں ہم قاضی کسے بنائیں گے ؟؟؟ قاضی کو کس معیار سے پرکھا جائے گا ؟؟؟؟
اگر والدین بے دین قاضی سے فیصلہ کروائے اور فیصلہ بھی اپنے حق میں کروائے ۔۔۔تو ایسی صورت میں دین دار لڑکی کو کیا کرنا چائیے ؟؟؟
جواب عنائیت فرما دیں جزاک اللہ خیرا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
قمحترم شیخ!۔ سلطان خود ولی بن کر اس لڑکی کے لیے مناسب رشتہ تلاش کرے گا، اس لڑکی سے اسکے مطالبات سن کر اگر مناسب ہوئے تو پورے کر ےگا اور اگر ان میں کچھ غیر مناسب ہوئے تو ایسے مطالبات قاضی کے حکم پر لڑکی کو ترک کرنا پڑیں گے۔
اب مسئلہ چونکہ پسند یا ناپسند کی حدود سے نکل کر قاضی یا سلطان پر آگیا ہے۔۔۔ تو میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کے شریعت نے مناسب اور غیرمناسب کے معیار کا تعین کس بنیاد یا اٗصول کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے؟؟؟ یا وہ کیا معیار ہے جو مناسب اور غیرمناسب میں فرق کرتا ہے۔۔۔ تاکہ اس مسئلے کو دوسرے فیز میں منتقل کریں۔

بالآخر بات وہی بنے گی کہ لڑکی اور اسکے اولیاء خواہ حقیقی ہوں یا سلطان کی شکل میں ہوں دونوں کے اتفاق رائے سے ہی رشتہ طے پائے گا۔۔۔
یہ آپ کا موقف ہے یا اس پر کوئی حکم موجود ہے۔۔۔ شریعت کا؟؟؟۔۔۔ لیکن اتفاق رائے اولیاء اور سلطان کے درمیان طے ہونے کی شرط کیا ہے؟؟؟۔۔۔ یعنی لڑکی کی رضامندگی ضروری ہوگی یا ۔۔۔۔۔

ایک عرض!
محترم شیخ! جواب دیتے وقت مجھے ٹیگ میں شامل کرلیا کیجئے یا کوٹ کردیا کیجئے اس سے مجھے یہ فائدہ ہوگا کے مجھے الرٹ مل جائے۔۔۔ کیونکہ میں اس تھریڈ میں یاسر بھائی کے جواب کی وجہ سے آیا ہوں تو پتہ چلا کے انہوں نے آپ کے جواب پر سوال پوچھا ہے۔ شکریہ۔۔۔
 
Top