(مگر عورت اور دوسرے خاوند کی نیت میں یہ تھا کہ بغیر عدت والا نکاح ،نئے سرے سے عدت گزار کر تجدید کیا ہے اب ہمارا نکاح درست ہے، ہم گھر بسائیں گے))
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدت میں نکاح اور جبری طلاق
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب :
اس صورت مسئولہ میں عدت کے دوران کورٹ میرج کی صورت کیاگیا نکاح جائز نہیں ،
" اتفق الفقهاء على أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة أيا كانت عدتها من طلاق أو موت أو فسخ أو شبهة ، وسواء أكان الطلاق رجعيا أم بائنا بينونة صغرى أو كبرى . وذلك لحفظ الأنساب وصونها من الاختلاط ومراعاة لحق الزوج الأول ، فإن عقد النكاح على المعتدة في عدتها ، فُرّق بينها وبين من عقد عليها "
"الموسوعة الفقهية" (29/ 346)
ترجمہ :
فقہائے اسلام کا اتفاق ہے کہ : جوعورت عدت میں ہو اس سے اجنبی (یعنی دوسرا مرد ) نکاح نہیں کرسکتا ،عدت طلاق کی ہو،یا عدت موت کی یا نکاح فسخ ہونے کی ۔
اور عدت میں دوسرے مرد سے نکاح جائز نہ ہونے سے غرض یہ ہے کہ : نسب محفوظ رہیں ،اور اختلاط نسب نہ ہو ،اور پہلے خاوند کے حق تلف نہ ہو ،
اور اگرعدت میں نکاح کیا گیا تو دونوں میں تفریق/ علیحدگی کرادی جائے گی ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2۔
اور دوسرے مرد سے دوسرا نکاح جو یعنی کورٹ میرج کے بعد جو نکاح ہوا، اس میں اگر زوجین یعنی نکاح کرنے والے مرد اور عورت کی نیت "حلالہ " کی نہیں تھی ،بلکہ شرعی نکاح کے ساتھ زندگی گزارنے کی تھی ،تو وہ نکاح بالکل صحیح تھا ،اور جبری طلاق یعنی دھمکا /ڈرا کر لی جانے والی طلاق سے اس نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،نہ جبری طلاق واقع ہوتی ہے ۔
اگر اس شخص سے زبردستی طلاق دلوائی گئی ہے تو یہ طلاق شرعاً کالعدم ہے۔ اس کا وقوع نہیں ہوا۔
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے
باب طلاق المکرہ والناسی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إن الله تجاوز لأمتي عما توسوس به صدورها ما لم تعمل، أو تتكلم به، وما استكرهوا عليه "
(سنن ابن ماجہ 1/659(2044)
"یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں کے خیالات و وساس کو معاف کر دیا ہے جب تک وہ ان خیالات کو عملی جامہ پہنا نہیں لیتے یا بات نہیں کر لیتے اور اس بات کو بھی معاف کر دیا ہے جس پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہو۔"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جبراً طلاق دلوانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا طَلاَقَ ولا عِتاقَ في إغْلاقٍ )
"طلاق اور آزادی زبردستی نہیں ہوتی۔" (ابن ماجہ 1/660،(2046)ابو داؤد1/507)
امام ابو عبید اور امام قتیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اغلاق کا معنی اکراہ ہے اسی طرح ابن دریداور ابو طاہر نحومین کے نزدیک بھی اس کا معنی اکراہ ہے۔(ملاحظہ ہو ھوامغنی لابن قدامہ 10/351شرح السنہ 9/222)
صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"طَلَاقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ . "(صحیح البخاری 2/793)
"
نشے والے آدمی اور مجبور کی طلاق جائز نہیں۔"
امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
"أن طلاق المكره لا يقع، روي ذلك عن عمر وعلي وابن عمر وابن عباس وجابر بن سمرة وبه قال عبد الله بن عبيد بن عمير وعكرمة والحسن وجابر بن زيد وشريح وعطاء وطاووس وعمر بن عبد العزيز ومالك والأوزاعي والشافعي وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد" (المغنیٰ 10/350)
"جبراً طلاق واقع نہیں ہوتی یہ مذہب سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، اور سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سے مروی ہے اور یہی بات امام عبد اللہ بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ ،امام عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ،امام جابر بن زید رحمۃ اللہ علیہ ،امام شریح رحمۃ اللہ علیہ ، امام عطا ء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ ، امام طاؤس رحمۃ اللہ علیہ ،امام عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن عون رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے۔"(مزید ملاحظہ ہو شرح السنہ للا مام بغوی رحمۃ اللہ علیہ 9/222)
کتاب و سنت کی نصوص صریحہ اور ان آئمہ کرام کی تصریحات کے مطابق جبراً طلاق واقع نہیں ہوئی۔ بصورت دیگر اگر خاوند کی رضا مندی سے طلاق دی گئی ہو تو پھر بھی مجلس واحدہ کی متعدد طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں شمار ہوتی ہیں۔صحیح مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
"عن ابن عباس قال كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم"
(مسلم 1/433)مسند احمد 1/314مستدرک حاکم 2/196)
"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالفت کے ابتدائی دو سالوں میں اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہو تی تھیں۔پھر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس کا م میں لوگوں کے لیے سوچ و بچار کی مہلت تھی اس میں انھوں نے جلدی سے کام لیا اگر ہم ان پر تینوں لازم کردیں تو کیا حرج ہے تو انھوں نے ان پر اسے لازم کر دیا۔"
اس لئے کورٹ میرج کے بعد جو نکاح کیا گیا اگر واقعی اس میں زوجین کی نیت حلالہ مروجہ کی نہیں تھی ،تو وہ نکاح باقی ہے ،اور یہ مرد اس عورت کا شرعاً خاوند ہے ،اسے واپس لانے کا حق رکھتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔