• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربی ویاہ

شمولیت
جنوری 07، 2014
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
6
پاکستان میں اپنی یا اپنے بچوں کی شادی کرنا آسان نہیں۔
لڑکے اور لڑکی ، دونوں کے خاندانوں کو مختلف مدوں میں کافی روکڑے ڈھیلے کرنے پڑتے ہیں۔
حق مہر عموماً بہت ہی معمولی سی رقم ہوتی ہے، لیکن کھانے اور تحائف کی مد میں دونوں خاندانوں کا تقریباً بیڑا غرق ھو جاتا ہے۔

دبئی میں معاملہ ذرا مختلف ہے۔
ادھر شادی کا خرچہ لڑکے والوں کی کمر جھکا دیتا ہے۔ کیونکہ برصغیر کے برعکس یہاں لڑکی والے شادی کے کسی خرچے میں حصہ نہیں ڈالتے۔
ہمارے یہاں تو نیا جوڑا شادی کے بعد اپنے ماں باپ کے گھر رہ سکتا ہے۔ (بلکہ رہنا پڑتا ہے۔ اور اگر مٹّی کے تیل کا چولہا نہ پھٹے تو آخر کار لڑ جھگڑ کر علیحدہ ہوا جاتا ہے)۔ لیکن عرب معاشرے میں ایسا نہیں۔ نئے جوڑے کو ان کے ماں باپ سے الگ، بالکل علیحدہ فیملی سمجھا جاتا ہے، اور اُن کو شروع سے ہی علیحدہ رہنا ہوتا ہے۔اسی لیے لڑکی کی پہلی ڈیمانڈ ہی اپنا گھر ہوتا ہے۔
اپنے گھر سے مراد لڑکے کا اپنا ملکیتی مکان ہے، کرائے کا مکان نہیں۔ (کم از کم دبئی والوں میں اپارٹمنٹ کے بارے تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔)
گورنمنٹ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک شادی سکیم متعارف کروائی ھوئی ہے، جس کے تحت شادی کے خواھش مند لوکل افراد کو مفت پلاٹ اور اس پر مکان تعمیر کرنے کے لیے آسان شرطوں پر قرضہ دیا جاتا ہے۔ اسی لیے لڑکے شادی کے ہونے سے پہلے ہی مقروض ھو جاتے ہیں۔ (ویسے یہ قرضہ صرف اسی صورت میں ملتا ہے کہ اگر لوکل لڑکا اپنی ہم وطن لڑکی سے شادی کرے)۔
لیکن مکان کے علاوہ شادی کے دیگر خرچے بھی لڑکے کو ہی اُٹھانے ہوتے ہیں۔ یہاں کا معاشرہ جیسے جیسے امیر ہوا ہے، ان خرچوں میں بھی ویسے ہی زیادتی آئی ہے۔
مثلاً حق مہر ہماری طرح معمولی نہیں بلکہ کافی بڑی رقم یا سونا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں حق مہر کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ، لیکن اِن معاشروں میں حق مہر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی اور اس کے خاندان کو دی جانے والی عزّت کا معاشرتی پیمانہ ہے۔ یعنی جس خاتون کا حق مہر کم ہو، اُس کا/اُس کی فیملی کا معاشرتی سٹیٹس بھی ذرا کم ہی سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں معروف ، بااختیار اور اچہے گھر کی خاتون سے شادی کے لیے حق مہر بھی زیادہ ہوگا۔ اس معاشرتی رویہ کو بھانپتے ھوئے حکومت لڑکوں کو ستر ہزار درہم کے قریب رقم تحفتاً دیتی ہے تاکہ دونوں گھروں کا وقار مجروح نہ ھو۔ لیکن اِس کے باوجود حق مہر کی رقم بھرنا اتنا آسان نہیں ہوتا کہ عموماً دلہن کا والد حق مہر کافی زیادہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

شادی کے متعلق کچھ دلچسپ چیزیں۔
نکاح عموماً شادی سے کچھ مہینے پہلے ہی سادگی سے ہو جاتا ہے۔
نکاح کی سب سے اہم شرط میڈیکلی فٹ ہونا ہے، جس کے لیے شادی سے پہلے دونوں پارٹیوں کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، تاکہ شادی کے بعد کے لڑائی جھگڑوں اور اولاد میں جنیاتی بیماریوں سے بچت ہو جائے۔
شادی کی تقریب میں عورتوں والی سائیڈ مردوں سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ عورتوں والی سائیڈ پر فوٹوگرافی کرنا حرام سمجھا جاتا ہے۔ (وجہ کافی واضح ہے)۔ دلہن ریمپ پر آہستہ آہستہ کیٹ واک کر کے اپنے جوڑے کی شو مارتی ہے۔ شنید ہے کہ شرکاء خواتین نے بھی ایک سے بڑھ کر ایک مغربی ڈیزائنر کا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے۔ دلہا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دلہن کو لینے عورتوں کی سائیڈ پر پہنچتا ہے تو دھڑا دھڑ برقعے نکل آتے ہیں۔ شادی والے دن تحفے تحائف لینے یا سلامیاں درج کرنے کے لیے گیٹ پر رجسٹرار بٹھانے کا رواج نہیں، لیکن اگر کوئی قریبی آدمی دینا چاہے تو کسی اور دن اپنا کباڑا کر سکتا ہے۔
مہنگےحق مہر اور شادی کے بعد کی آسمانی خرچوں کی وجہ سے لوکل حضرات کا دھیان غیر ملکی خواتین کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہاں کی لڑکیاں پیا کے انتظار میں بوڑھی ھو تی جا رہی ہیں۔
(دور کیوں جائیں، کئی کولیگ ایسی ہیں، جن کو میں ان کی ظاہر ی عمر کی وجہ سے شادی شدہ سمجھتا تھا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ میری سمجھ غلط تھی)۔
اِدھر کے کلچر میں لڑکی تیس کی عمر کراس کر لے تو اس کی شادی اپنے لوگوں میں ہونے کے امکان کافی کم ہو جاتے ہیں۔ اگر غیر ملکیوں سے شادی کریں گی تو ان کے خاوند یا بچوں کو ان کے ملک کی نیشنیلٹی عموماً کبھی نہیں ملتی۔ اگر آپ کو ترس آنے لگ گیا ہے تو یہ سمجھ لیں ، ضروری نہیں کہ ہر لڑکی شادی کی خواہشمند بھی ہو۔ جیسے جیسے معاشرے میں دولت آئی ہے، ویسے ہی لوگوں میں تعلیم اور معاشی آسودگی کی بھی فراوانی ہو گئی ہے۔ اب لڑکیا ں بھی پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں جاب یا بزنس کر کے پیسے بنا رہی ہوتی ہیں۔ اسی لیے اگر شادی نہ بھی ہو تو کوئی ٹینشن نہیں۔

میں نے ابھی تک ایک آدھ کے علاوہ کوئی ایسی شادی نہیں سنی جس میں یہاں کی کسی خاتون نے کسی انڈین ، پاکستانی یا براؤن رنگ کے کسی آدمی کے ساتھ باقاعدہ شادی کی ھو۔ وہ ایک آدھ کیس بھی اسپیشل حالات کے تحت ہے۔
جیسے عدنان سمیع کی دوسری شادی یہاں کے ایک معروف کاروباری فیملی گالاداری میں ہوئی تھی، گالاداری خاندان کی زیادہ زندگی کراچی میں گزری ہے اور کراچی میں کافی بزنس ہیں اِن کے۔ سو یہ ایک سپیشل کیس ہے۔
واضع ہو کہ پچھلے وقتوں میں عرب لوگ اپنے بچّوں کو اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان بھیجتے تھے۔ اب رُخ گوروں کی طرف ہو گیا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر اکثر حضرات ویاہ کے لیے شام کا رخ کرتے ہیں، کیونکہ حق مہر کا خرچہ اور ووہٹی کے نخرے ذرا کم ہے اُدھر۔ اوپر سے شامی خواتین رج کے گوری اور سوہنی ہوتی ہیں۔ایک دوست کہتا ہے کہ شام ، لبنان ، فلسطین میں حُسن وافر ہونے کا سبب اُن کا انبیاؑ کی سر زمین ہونا ہے۔
حُسن والی بات ٹھیک ہے لیکن آگے کی لاجک میں کبھی سمجھ نہیں سکا۔ میرا خیال یہ ہے کہ چونکہ یروشلم/فلسطین یہودیوں اور عیسائیوں کا مقدس مقام تھا، اس لیے لوگ دور دراز کے گورے ملکوں سے یہاں زیارات وغیرہ کے لیے آتے اور یہیں بس جاتے ہونگے۔
اصیل عرب نسل کا رنگ اتنا چٹّا نہیں ہوتا۔ دبئی کے لوکلوں کے رنگ بھی ایرانی النسل ہونے کی وجہ سے گورے ہیں۔
بقول شخصے شادی کا طریقہ بہت سمپل ہے۔
امیدوار اپنا بجٹ ذہن میں رکھ کر شام میں کسی ایجنٹ/رشتے والی مائی کے ذریعے مختلف فیملیوں سے ملتے اور اپنے لیے لڑکی پسند کر تے ہیں۔ بجٹ کے اندر حق مہر ہونے پر جھٹ نکاح کر لیتے ہیں۔ ابھی مجھے اپنے ساتھ سکواش کھیلنے والے ایک پاکستانی صاحب یاد آ رہے ہیں، جو بچپن سے ہی دبئی میں ہیں اور سیکنڈ ہینڈ کاروں کا کام کرتے ہیں۔ جِم میں ایک بار اُن کی فیملی انہیں ڈھونڈتی ہوئی آئی تو معلوم ہوا کہ اُن کی بیگم بھی شامی عرب ہیں۔ وہ اور اُن کی بیگم یقیناً شکر کرتے ہونگے کہ بچے کے نین نقش اور نگ روپ بیگم پر گئے ہیں۔
ویسے جب سے شام میں گڑبڑ ہوئی ہے، ایسی باتیں بھی سُننے میں آ رہی ہیں کہ کچھ فراڈیے اردن میں قائم شامی لوگوں کے مہاجر کیمپوں میں جا کر دھوکے سے عارضی شادیا ں کر رہے ہیں۔ نکاح کے بعد بیوی کو کیمپ کے قریب کرائے کے مکان میں ٹھرایا۔ دو چار ھفتے گزارنے کے بعد "میں ابھی آیا" کہ کر اپنے ملک سے طلاق یہ کہ کر بھجوا دی کہ "امّی نہیں مانتیں"!!۔

مصر میں شادی کا رواج باقی عرب سے کچھ مختلف ہے ۔ وہاں مکان لڑکے کی ذمہ داری اور مکان میں فرنیچر وغیرہ ڈالنا لڑکی والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی لیے جن اصحاب کے گھر لڑکیاں ہوتی ہیں، وہ ہماری طرح ہی جہیز اکٹھا کرنے میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ملک سے باہر رہنے والے مصر ی لوگوں میں بھی آہستہ آہستہ غیرملکی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کا رواج آ رہا ہے۔ ایک مصری دوست بتا رہے تھے کہ اُن کے ایک دوست نے دبئی میں ایک فلیپائن کی دوشیزہ سے بیاہ رچا رکھا ہے تاکہ وطن میں شادی کے کوہ ہمالیہ نما خرچے سے بچا جا سکے۔یہ اب جب بھی اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں تو اُس کے فلپائنی نقوش والے بچوں کو فر فر مصری لہجے میں عربی بولتےدیکھ کر کافی حیران ہوتے رھتے ہیں۔ (ان کے یہ دوست کافی شریف آدمی لگتے ہیں۔ ورنہ عموماً فلپائنی خواتین سے ویاہ نامی رسم کا تکلف ذرا کم کم لوگ کرتے ہیں)۔

کچھ لوگ شادی کے لیے مراکو یعنی مراکش کا بھی رُخ کرتے ہیں۔ کہیں پر بات ہو رہی تھی تو میں نے تذکرہ کیا کہ فلاں لوکل کولیگ کی بیگم مراکش کی ہے۔ میرے اتنا کہنے پر خاموشی چھا گئی اور اچانک محفل میں موجود تمام عرب حضرات نے کچھ اِس انداز میں سر کے اوپر ہاتھ اٹھائے جیسے وہ اس بات سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاھتے۔ بعد میں ایک صاحب سے لوگوں کے اِس ایکشن کا شان نزول پوچھا تو معلوم ہوا کہ عربوں میں مراکشی عورتوں کی ریپوٹیشن اتنی اچھی نہیں۔ ان پر طوائف ہونے یعنی پرائے مرد پھانسنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ مراکش میں کالا جادو (و تعویذ گنڈا ) کافی عام ہے ۔ عربوں میں مشہور ہے کہ مراکشی عورت پرائے مرد پر کالا جادو کر کے اُن کو اپنے لیے اس قدر دیوانہ کر دیتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان ، بیوی بچوں کو چھوڑ جاتا ہے اور اپنی ساری دولت اُس پر لٹا دیتا ہے۔ اسی لیے عرب خواتین (خاص طور پرپہلی بیگمات) اِن پر بھروسہ نہیں کرتے اور اُن کو گھر یا خاوند کے دفتر میں ملازمت دینے سے بھی جھجکتی ہیں۔

بہت سی ہندوستانی/پاکستانی خواتین بھی عربوں کے ساتھ بیاہی ہوئی ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ خواتین عرب معاشروں اور گھرانوں میں قبول کی جاتی ہونگی کہ نہیں۔ لیکن کم از کم ایک مثال ایسی دیکھی ہے جس میں ہندوستانی خاتون سارہ بلہاسہ کو اس کے لوکل شوہر نے مکمل سپورٹ کیا ۔ یہ حیدرآبادی خاتون یہاں کے مشہور کاروباری خاندان بلہاسہ کے ایک فرد سے بیاہی ہوئی ہیں اور بڑھ چڑھ کر فیشن بزنس میں حصہ لیتی ہیں۔ دبئی فیشن ویک کے انتظام میں بھی اِن کا میجر رول ہے۔ پاکستان کے تما م فیشن ڈیزائنرعموماً انہی کے ذریعے یہاں پر اپنی نمائشیں وغیرہ کرواتے ہیں۔

ویسے حیدرآباد کا ذکر آیا ہے تو بہت سے بوڑھے عرب ستر اسی کی دہائی میں ازدواجی ٹورازم کے لیے حیدرآباد (انڈین) کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ اس وقت کے لگائے پودے اب تناور درخت بن گئے۔ اخباروں میں اکثر خبریں لگتی ہیں کہ عربوں کی حیدرآبادی اولاد اب یو اے ای کی نیشنیلٹی مانگتی ہے۔
اس حیدرآبادی ٹورازم کے رجحان میں اب کچھ کمی آئی ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کا زمانہ ہے۔ اپنا بچہ اپنے یا کسی کے سر منڈہے جانے کے چانسز معدوم ہوتے جارہے ہیں، سو احتیاط لازم۔
لیکن اب بھی کبھی کبھی سوڈانی حضرات کے بارے سنتے رہتے ہیں کہ حیدرآباد میں تقریباً دودھ پیتی کنواری بچیوں کے ساتھ عارضی شادی کے لیے تشریف لائے اور پولیس اسٹیشن میں سہاگ رات بسر کرنی پڑ گئی۔

آپ کی اس بارے کیا رائے و معلومات ہیں۔؟
؛)
http://alikasca.blogspot.com/2013/06/blog-post.html
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

سارے قصے دبئی سے ہیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے کوئی بھی عرب مواطن، پاکستان میں جا کر کسی پاکستانی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا اگر وہ کسی بھی طرح مل ملا کر ایسا کر بھی لے تو ایمگریشن لڑکی کو کلیئرنس نہیں دے گی، اس لئے اس پر ایسا ہوتا ھے کی لڑکی کا وزٹ ویزا حاصل کیا جاتا ھے اور اس کی شادی پھر الامارات میں ہی جا کر ہوتی ھے جس پر بعد میں لڑکی پر پاکستان آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں مگر وہ انہیں پاکستان جانے بھی نہیں دیتے شائد 10 سال بعد ایک مرتبہ، خیال رہے کہ پاکستانی لڑکی کی الاماراتی سے شادی پر کیسیز بہت ہی کم ہیں۔

حق مہر پر دبئی سے معمولی معلومات دی گئی ھے مگر ابوظہبئی شیخ زاید مرحوم کی جانب سے 90 کی دہائی سے ہی ایک ڈپارٹمنٹ بنا دی گئی تھی کہ مقامی شیخ باہر جا کر شادیاں نہ کریں اور انہیں حق مہر کے لئے حکومت کی جانب سے 1 لاکھ درھم فری میں ملے گا۔

شادی پر الگ گھر کے لئے لڑکیوں کے نخرے نہیں بلکہ میں نے اس پر حدیث مبارکہ پر جو مطالعہ کیا اس میں شادی کے بعد والدین کے ساتھ رہنے پر کوئی حدیث نہیں ملی۔

الاماراتی نیشنل لڑکی کی شادی غیر مواطن سے نہیں ہو سکتی اگر کوئی غلطی سے بھی وہاں دوستی بناتا ہوا پایا گیا تو کال کوٹھری کی اس کا مقدر ہوتی ھے، اگر کوئی لڑکی اس معاملہ میں ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو جاتی ھے تو پھر وہ واپس نہیں جا سکتی۔ عدنان سمی کا کیس مختلف نوعیت کا ھے جو اس کو سپورٹ نہیں کرتا۔

حیدرآباد میں شادی پر ان کے بچے وہاں کی نیشنیلیٹی مانگنے پر شائد درست بات نہیں لکھی گئی انہیں پیدا ہوتے ہی نیشنیلیٹی ملتی ھے جو ان کی ماں ہوتی ھے اسے نیشنیلیٹی ملنے پر کچھ وقت لگتا ھے۔
بنی یاس، یافور، الشوامخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں آپ چلے جائیں پورا حیدرآباد ہی آپکو ملے گا اور اس کی اولاد سب مواطن ہیں اور انہیں عربی کے علاوہ دوسری کوئی زبان نہیں آتی۔

اصل عرب کا رنگ سفید ہونے پر وہ زمانہ گیا جب مچھلی پکڑ کر گزارا کرتے تھے، خیر اس پر گہرائی میں یہاں بات کرنا مناسب نہیں، دبئی میں ایرانیوں پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ پہلے شیخ راشد بن سعيد آل مكتوم کی ایک بیوی ایرانی تھی جس پر ایرانیوں کو وہاں بہت سی سہولیات میسر تھیں، مگر ابوظہبئی، ایرانی کو سرکاری جاب بھی نہیں دیتا۔

والسلام
 
Top