بریلوی مولوی غیر اللہ کی نذر و نیاز کا دفاع کرتے مغالطہ دے کر کہتا ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭٭٭
جواب
اولیاء اللہ کے نام کی نذر و نیاز شرعی میزان میں
علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی جائز ہے۔مخلوق کے نام پر نذر کرنا حرام اور شرک ہے۔
اگر کوئی انسان کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت یا نذر کرتا ہے، صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے صاحب ِقبر کا تقرب حاصل ہو جائے گا، وہ اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے گا یا اس کی فریاد رسی یا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرے گا، یا وہ اس کی قبر سے فیض پائے گا۔بلاشک و شبہ یہ شرک فی العبادت ہے، جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
{وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْـاَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَائِہِمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ}
(الأنعام 6 : 136)
’’انہوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپائیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر بزعمِ خویش کہنے لگے:یہ اللہ کے لیے ہے، اور یہ ہمارے دیوتائوں کے لیے ہے،پھر ان کے دیوتائوں کا حصہ تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، لیکن اللہ کا حصہ ان کے دیوتائوں کے پاس پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کس قدر برافیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (البقرۃ 2 : 173)
’’اوروہ چیز(بھی حرام ہے)جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔‘‘
مزاروں اور آستانوں پر نذر کے نام پر مشرکانہ و ہندوانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اس کے باوجود بعض لوگوں نے عوام کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے قبروں پر نذر و نیاز کا جواز پیش کیا ہے۔ایسی ہی کوشش کرتے ہوئے امامِ بریلویت مولوی احمد یار خان نعیمی(1391-1324ھ)لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،یہ نذر شرعی نہیں،نذر لغوی ہے،جس کے معنیٰ ہیںنذرانہ،جیسے کہ میں اپنے استاذ سے کہوں کہ یہ آپ کی نذر ہے،یہ بالکل جائز ہے۔ اور فقہاء اس کو حرام کہتے ہیں،جو کہ اولیاء کے نام کی نذر شرعی مانی جائے۔اس لیے فرماتے ہیں تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ۔نذر شرعی عبادت ہے، وہ غیر اللہ کے لیے ماننا یقینا کفر ہے۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
حالانکہ یہ کہنا کہ’’
اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،وہ نذر شرعی نہیں،لغوی ہے‘‘، محض ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کر کے اسباب ِ شکم پروری کو دوام بخشنے کی نامراد کاوش ہے۔نذر کی لغوی اور اصطلاحی تقسیم ایسی قبیح بدعت ہے،جو اہل سنت والجماعت کی کتب میں کہیں مذکور نہیں۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی بزرگ ہستی مخلوق میں موجود ہے؟ اور کیا صحابہ کرام ] رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں رکھتے تھے،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بعد والے بزرگوں سے ہے؟کیا کبھی کسی قبرپرست نے غور کیا کہ اگر غیر اللہ اور فوت شدگان کے نام پر نذر ونیاز جائز ہوتی،تو صحابہ کرام اس کار ِخیر سے کبھی محروم نہ رہتے۔کیا کوئی شخص صحابہ کرام] میں کسی سے بھی ایسا کوئی عمل پیش کر سکتا ہے؟
عام لوگوں کا تحفہ اور ہدیہ کے لیے نذرانے کا لفظ استعمال کرنا اس کی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ قبروں اور مردوں کے پجاری ان کے لیے جو نذر پیش کرتے ہیں، وہ اس عقیدے سے پیش کرتے ہیں کہ وہ دافع البلاء ہیں۔ان کے پیش نظر لغوی نہیں، شرعی اور عرفی نذر ہوتی ہے۔تب ہی تو اس کے بارے میں ’’نذر اللہ اور نیاز حسین‘‘ کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ اگر مجھے مقدمہ میں فتح یابی ہوئی یا مرض سے شفا ہوئی یا دشمن زیر ہو گیا یا مجھے اولادِ نرینہ مل گئی یا میرا کاروبار چمک گیا،تو فلاں مزار پر جا کر نذر ونیاز کا لنگر چڑھاؤں گا،ننگے پاؤں جا کر سلام کروں گا،مزار پر ٹاکی باندھوں گا،وغیرہ۔
منصف مزاج لوگ بتائیں کہ کیا یہ سب کچھ لغوی نذر و نیاز کے لیے کیا جاتا ہے؟یہ سب امور تعظیم و تقرب کے نقطۂ نظر سے کیے جاتے ہیں،جس میں نذر ماننے والا اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔تحفہ و ہدیہ میں ایسی صورت موجود نہیں ہوتی۔
شیخ الاسلام ثانی،عالمِ ربانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیں :
فَمَا أَسْرَعَ أَہْلُ الشِّرْکِ إِلَی اتِّخَاذِ الأَْوْثَانِ مِنْ دُونِ اللّٰہِ، وَلَوْ کَانَتْ مَا کَانَتْ، وَیَقُولُونَ : إِنَّ ہٰذَا الْحَجَرَ، وَہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ، وَہٰذِہِ الْعَیْنَ، تَقْبَلُ النَّذَرَ، أَيْ تَقْبَلُ الْعِبَادَۃَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّ النَّذَرَ عِبَادَۃٌ وَّقُرْبَۃٌ، یَتَقَرَّبُ بِہَا النَّاذِرُ إِلَی الْمَنْذُورِ لَہٗ ۔
’
’مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی چیز کو معبود ٹھہرانے میں کتنے جلد باز واقع ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں : یہ پتھر،یہ درخت اور یہ شخص نذر و نیاز کے لائق ہے۔دوسرے لفظوں میں ان مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ یہ شخص بھی عبادت کے لائق ہے،کیونکہ نذرونیاز عبادت وتقرب ہے،جس کے ذریعے نذر دینے والا کسی کا تقرب حاصل کرتا ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 212/1)
علامہ،احمد بن عبد الرحیم،المعروف بہ شاہ ولی اللہ دہلوی(1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّہُمْ یَسْتَعِینُونَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فِي حَوَائِجِہِمْ مِنْ شِفَائِ الْمَرِیضِ وَغِنَائِ
الْفَقِیرِ، وَیَنْذُرُونَ لَہُمْ، یَتَوَقَّعُونَ إِنْجَاحَ مَقَاصِدِہِمْ بِتِلْکَ النُّذُورِ، وَیَتْلُونَ أَسْمَائَہُمْ رَجَائَ بَرَکَتِہَا، فَأَوْجَبَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِم أَنْ یَّقُولُوا فِي صَلَاتِہِمْ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ 1 : 5)، وَقَالَ تَعَالٰی : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا}(الجنّ 72 : 18)، وَلَیْسَ الْمُرَادُ مِنَ الدُّعَائِ الْعِبَادَۃُ، کَمَا قَالَہُ الْمُفَسِّرُونَ، بَلْ ہُوَ الِاسْتِعَانَۃُ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) ۔
’’مشرکین اپنی حاجات،مثلاً مرض میں شفا اور فقیری میں خوشحالی کے لیے غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس نذرونیاز کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔وہ برکت کی امید پر غیراللہ کے ناموں کا ورد بھی کرتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرنماز میں یہ کہنا فرض کیا ہے کہ : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحۃ 1 : 5)(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)۔نیز فرمایا : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (الجنّ 72 : 18) (تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔اس آیت ِکریمہ میں دعا سے مراد عبادت نہیں،جیسا کہ (عام)مفسرین نے کہا ہے،بلکہ یہاں استعانت مراد ہے ،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) (بلکہ تم [سخت مصیبت کے وقت]اسی[اللہ] کو پکارتے ہو،چنانچہ وہ تمہاری مصیبتوں کو دُور فرماتا ہے)۔‘‘
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 185/1، طبعۃ السلفیّۃ)
علامہ،محمودبن عبد اللہ،آلوسی،حنفی(1270-1217ھ)فرماتے ہیں :
وَفِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)إلخ إِشَارَۃٌ إِلٰی ذَمِّ الْغَالِینَ فِي أَوْلِیَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَیْثُ یَسْتَغِیثُونَ بِہِمْ فِي الشِّدَّۃِ غَافِلِینَ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَیَنْذُرُونَ لَہُمُ النُّذُورَ، وَالْعُقَلَائُ مِنْہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّہُمْ وَسَائِلُنَا إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَإِنَّمَا نَنْذُرُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَنَجْعَلُ ثَوَابَہٗ لِلْوَلِيِّ، وَلَا یَخْفٰی أَنَّہُمْ فِي دَعْوَاہُمُ الْـأُولٰی أَشْبَہُ النَّاسِ بِعَبَدَۃِ الْـأَصْنَامِ، الْقَائِلِینَ : إِنَّمَا نَعْبُدُہُمْ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، وَدَعْوَاہُمُ الثَّانِیَۃُ لَا بَأْسَ بِہَا لَوْ لَمْ یَطْلُبُوا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ شِفَائَ مَرِیضِہِمْ أَوْ رَدَّ غَائِبِہِمْ أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَالظَّاہِرُ مِنْ حَالِہِمُ الطَّلَبُ، وَیُرْشِدُ إِلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ قِیلَ : انْذُرُوا لِلّٰہِ تَعَالٰی وَاجْعَلُوا ثَوَابَہٗ لِوَالِدَیْکُمْ، فَإِنَّہُمْ أَحْوَجُ مِنْ أُولٰئِکَ الْـأَوْلِیَائِ لَمْ یَفْعَلُوا، وَرَأَیْتُ کَثِیرًا مِّنْہُمْ یَسْجُدُ عَلٰی أَعْتَابِ حَجَرِ قُبُورِ الْـأَوْلِیَائِ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّثْبُتُ التَّصَرُّفَ لَہُمْ جَمِیعًا فِي قُبُورِہِمْ، لٰکِنَّہُمْ مُّتَفَاوِتُونَ فِیہِ حَسَبَ تَفَاوُتِ مَرَاتِبِہِمْ، وَالْعُلَمَائُ مِنْہُمْ یَحْصُرُونَ التَّصَرُّفَ فِي الْقُبُورِ فِي أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ، وَإِذَا طُولِبُوا بِالدَّلِیلِ قَالُوا : ثَبَتَ ذٰلِکَ بِالْکَشْفِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، مَا أَجْہَلَہُمْ وَأَکْثَرَ افْتَرَائَہُمْ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّزْعَمُ أَنَّہُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْقُبُورِ وَیَتَشَکَّلُونَ بِأَشْکَالَ مُخْتَلِفَۃٍ، وَعُلَمَاؤُہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّمَا تَظْہَرُ أَرْوَاحُہُمْ مُّتَشَکَّلَۃً وَّتَطُوفُ حَیْثُ شَائَ تْ، وَرُبَّمَا تَشَکَّلَتْ بِصُورَۃِ أَسَدٍ أَوْ غَزَالٍ أَوْ نَحْوَہٗ، وَکُلُّ ذٰلِکَ بَاطِلٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَکَلَامِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ، وَقَدْ أَفْسَدَ ہٰؤُلَائِ عَلَی النَّاسِ دِینَہُمْ، وَصَارُوا ضِحْکَۃً لِّأَہْلِ الْـأَدْیَانِ الْمَنْسُوخَۃِ فِي الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، وَکَذَا لِأَہْلِ النِّحَلِ وَالدَّہْرِیَّۃِ، نَسْأَلُ اللّٰہُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ ۔
’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)(بلاشبہ جن کو[اے مشرکو] تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے)۔اس آیت ِکریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے،جو اولیاء اللہ کے بارے میں غلوّ کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں ان اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیںاور ان کے نام پر نذرونیاز دیتے ہیں۔ان میں سے ’دانشور‘لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اولیاء تو ہمارے لیے اللہ کی طرف وسیلہ ہیں اوریہ نذرونیاز تو ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں،البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پہلے دعوے میں بالکل ان بت پرستوں جیسے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔رہا دوسرا دعویٰ تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ بزرگوں سے اپنے مریضوں کے لیے شفاء اور غائب ہونے والوں کی واپسی وغیرہ کا مطالبہ نہ کرتے[حالانکہ شرعاً یہ بھی ناجائز ہے۔ناقل]۔ان کی حالت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کے لیے ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی نذرونیاز دو اور اس کا ثواب (اولیائ)کی بجائے اپنے والدین کو پہنچاؤ،کیونکہ تمہارے والدین ان اولیاء سے بڑھ کر ثواب کے محتاج ہیں،تو یہ مشرکین ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے،[اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد بزرگوں سے مانگنا ہی ہوتا ہے]۔میں نے بہت سے مشرکین کو دیکھاہے کہ اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔بعض مشرکین تو سب اولیاء کے لیے ان کی قبروں میں تصرف (قدرت)بھی ثابت کرتے ہیں،البتہ مراتب کے اعتبار سے یہ تصرف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ان مشرکین کے ’اہل علم‘قبروں میں اولیاء کے لیے چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں،لیکن جب ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ چیز کشف سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ وبرباد کرے،یہ کتنے جاہل اور جھوٹے لوگ ہیں!ان میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں،جبکہ ان کے ’اہل علم‘ کا کہنا ہے کہ اولیاء کی صرف روحیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ان کے بقول بسااوقات اولیاء کی روحیں شیر، ہرن وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں،کتاب و سنت اور اسلاف ِامت کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ان مشرکین نے (سادہ لوح)لوگوں کا دین بھی برباد کر دیا ہے۔ایسے لوگ یہود و نصاریٰ ،دیگر ادیانِ باطلہ کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے (دین و دنیا کی )عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(روح المعاني : 213-212/2)
نیز فرماتے ہیں :
وَمِنْ أُولٰئِکَ عَبَدَۃُ الْقُبُورِ، النَّاذِرُونَ لَہَا، الْمُعْتَقِدُونَ لِلنَّفْعِ وَالضَّرِّ، مِمَّنِ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِحَالِہٖ فِیہَا، وَہُمُ الْیَوْمَ أَکْثَرُ مِنَ الدُّودِ ۔
’’ان مشرکوں میں سے بعض وہ ہیں جو قبروں کے پجاری ہیں،ان پر نذرونیاز دیتے ہیں اور ان لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قبر میں جن کی حالت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔موجودہ دور میں ایسے مشرکین کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
(روح المعاني : 67/17)
علامہ،محمد بن علی،حصکفی،حنفی(1088-1021ھ)اپنے اکثر عوام کی اصلاح میں لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّذَرَ الَّذِي یَقَعُ لِلْـأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ، وَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِہَا إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، فَہُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ ۔
’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذونیاز دیتے ہیں اور جو رقوم،چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں،وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔‘‘(الدرّ المختار، ص : 155، ردّ المحتار : 439/2)
مشہور حنفی امام،محمد امین بن عمر،ابن عابدین، شامی(1252-1198ھ)اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں
: کَأَنْ یَّقُولَ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! إِنْ رُّدَّ غَائِبِي أَوْ عُوفِيَ مَرِیضِي أَوْ قُضِیَتْ حَاجَتِي، فَلَکَ مِنَ الذَّہَبِ أَوِ الْفِضَّۃِ أَوْ مِنَ الطَّعَامِ أَوِ الشَّمْعِ أَوِ الزَّیْتِ کَذَا، (قَوْلُہٗ : بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ) لِوُجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّہٗ نَذَرَ لِمَخْلُوقٍ، وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لاَ یَجُوزُ، لِأَنَّہٗ عِبَادَۃٌ، وَالْعِبَادَۃُ لَا تَکُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَمِنْہَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَہٗ مَیِّتٌ، وَالْمَیِّتُ لَا یَمْلِکُ، وَمِنْہُ أَنَّہٗ ْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَتَصَرَّفُ فِي الْـأُمُورِ دُونَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَاعْتِقَادُہٗ ذٰلِکَ کُفْرٌ ۔
’’اولیاء کے لیے نذرونیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے : اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آ گیا یا میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا تو اتنا سونا، اتنی چاندی ،اتنا کھانایا چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔یہ نذرو نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے ؛ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذرونیاز ہے،حالانکہ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر ونیاز دی جا رہی ہوتی ہے،وہ مُردہ ہوتا ہے اور مُردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔تیسری وجہ یہ کہ نذرونیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر اس ولی کے امور میں تصرف کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ اس کا اعتقاد کفر ہے۔‘‘(ردّ المحتار المعروف بہ الفتاوی الشامي : 439/2)
مشہور حنفی،قاسم بن قطلوبغا (879-802ھ)لکھتے ہیں :
فَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَغَیْرِہَا، وَیُنْتَقَلُ إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، مُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ ۔
’’جو رقوم،شمعیں اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر ان کے تقرب کے لیے لائی جاتی ہیں،ان کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘
(البحر الرائق لابن نجیم : 298/2، الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 216/1، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص : 378)
حنفی مذہب کی معتبرو مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَالنَّذْرُ الَّذِي یَقَعُ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ بِأَنْ یَّأْتِيَ إِلٰی قَبْرِ بَعْضِ الصُّلَحَائِ، وَیَرْفَعَ سِتْرَہٗ قَائِلًا : یَا سَیِّدِي فُلَانٌ ! إِنْ قَضَیْتَ حَاجَتِي فَلَکَ مِنِّي مِنَ الذَّہَبِ مَثَلًا کَذَا، بَاطِلٌ إجْمَاعًا ۔
’’اکثر عوام جو اس طرح نذر مانتے ہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر پر آ کر یوں فریاد کرتے ہیں: اے میرے فلاں پیر! اگر تُومیری یہ ضرورت پوری کر دے تو میری طرف سے اتنا سونا تیری نذر۔یہ اجماعی طور پر حرام ہے۔‘‘(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 216/1)
علامہ برکوی حنفی،علامہ ابوشامہ (م : 665ھ)سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثُمَّ یَتَجَاوَزُونَ ہٰذَا إِلٰی أَنْ یُّعَظِّمَ وَقْعَ تِلْکَ الْـأَمَاکِنِ فِي قُلُوبِہِمْ، فَیُعَظِّمُونَہَا، وَیَرْجُونَ الشِّفَائَ لِمَرْضَاہُمْ وَقَضَائَ حَوَائِجِہِمْ، بِالنَّذْرِ لَہُمْ، وَہِيَ مِنْ بَیْنِ عُیُونٍ وَّشَجَرٍ وَّحَائِطٍ وَّحَجَرٍ ۔
’’پھر یہ مشرکین اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور اپنے دلوں میں ان مقامات کی تعظیم بٹھا لیتے ہیں۔وہ ان جگہوں کی تعظیم بھی کرتے ہیں اور ان پر نذرونیاز چڑھا کر اپنے بیماروں کی شفا اور اپنی حاجات کی برآری کی امید بھی کرتے ہیں۔ایسی جگہیں درختوں،پتھروں، باغات اور چشموں پر واقع ہوتی ہیں۔‘‘
(زیارۃ القبور، ص : 547-546، طبعۃ الکردیّۃ، وفي نسخۃ دار الإفتائ، ص : 52)
فقہ حنفی اور احمدیار خان نعیمی بریلوی:
قارئین کرام! اہل سنت کے علمائے کرام،کتب ِفقہ اور فقہائے احناف کے اقوال کی روشنی میں آپ نے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز کا حرام اور شرک ہونا ملاحظہ فرما لیا۔اتنی وضاحت و صراحت کے باوجود بعض ناعاقبت اندیش اس نذرونیاز کو جائز ثابت کرنے کے لیے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کوئی کہتا ہے کہ یا حضور غوث پاک! آپ دُعا کریں،اگر میرا مریض اچھا ہو گیا،تو میں آپ کے نام کی دیگ پکاؤں گا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ میرے خدا ہیں،اس مریض کے اچھا ہونے پر میں آپ کی یہ عبادت کروں گا،بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں پلاؤ کا صدقہ کروں گا اللہ کے لیے۔اس پر جو ثواب ملے گا،آپ کو بخشوں گا، جیسے کوئی شخص کسی طبیب سے کہے کہ اگر بیمار اچھا ہو گیا تو پچاس روپیہ آپ کی نذرکروں گا۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
واہ کیا خوب فقاہت ہے،جو اپنی ہی فقہ حنفی کی دھجیاں اڑائے جا رہی ہے۔
اسی بارے میں جناب غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں :
’’آج کل جس طرح اَن پڑھ عوام اپنی حاجات میں اولیاء اللہ کی نذریں اور منتیں مانتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کے بعد مزارات پر نذریں پیش کرتے ہیں۔اور بعض لوگ اس کو لغوی نذر کہہ کر سند ِجواز پیش کرتے ہیں،اس کا قرآنِ مجید،احادیث ِصحیحہ اور آثارِ صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔کتب ِ فتاویٰ میں اس نذر کو حرام کہا گیا ہے۔یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے۔اس میں کتب فقہیہ کو چھوڑ کر بعض غیر معصوم اور غیر معروف صوفیوں کے اقوال اور احوال سے استدلال کرنا کوئی فقاہت نہیں ہے،بلکہ عدل و انصاف سے بعید ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 543/4)
ایک بریلوی عالم نے ہی نعیمی صاحب کو ناانصاف اور غیرفقیہ قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ قرآن وسنت،افعالِ صحابہ کرام اور فقہ حنفی کے رُو سے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز حرام ہے۔
غوروفکر کا مقام ہے کہ جن افعال پر قرآن وحدیث نے کوئی نص قائم نہیں کی اور جن سے سلف صالحین،یعنی صحابہ وتابعین بے خبر تھے ،ان کو شرعی جواز فراہم کرنا کتنی زبردست بددیانتی ہے۔غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز دینا اہل بدعت اور اہل شرک کا وطیرہ ہے،اہل سنت اور اہل حق نہ کبھی ایسا کرتے تھے،نہ کرتے ہیں،نہ کریں گے۔عام لوگ جب شیخ عبد القادر جیلانی کے نام کی گیارہویں دیتے ہیں،ان کے قصدونیت میں ان کی نیاز پیش کرنا ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی کہتاہے کہ میں فلاں بزرگ کے نام کی دیگ پکاؤں گا تو اس کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس کے نام کی نذرونیاز دے گا اور نذرونیاز عبادت ہے،جو غیر اللہ کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے۔
نعیمی صاحب صرف ’’پلاؤ‘‘کے لیے غیر اللہ کی عبادت کو سند ِجواز دے رہے ہیں اور دین میں نئے کام داخل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ان کے نزدیک ایک طبیب کو علاج معالجہ پر اجرت دینے اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی نیاز دینے میں کوئی فرق نہیں۔کیا کبھی کسی نے طبیب کے نام پر دیگ پکائی اور ’’پلاؤ‘‘کا صدقہ کر کے اس کا ثواب طبیب کو پہنچایا؟
یہ لوگ مُردوں سے مانگنے اور ان کے متعلق مدد کرنے کا اعتقاد رکھتے ہیں،حالانکہ آج تک کسی صاحب ِقبر نے ان کو کچھ نہیں دیا،البتہ اس ڈھونگ سے انہوں نے اپنے جاہل عوام سے بہت کچھ لے لیا ہے۔
مُردوں کا تصرف !
ایک باطل اعتقاد یہ بھی ہے کہ مُردے سنتے،دیکھتے،اُمور میں تصرف کرتے،غیب جانتے،دعائیں سنتے اور نوازتے ہیں۔
امامِ بریلویت’’اعلیٰ حضرت‘‘احمد رضا خان بریلوی(1340-1272ھ)کہتے ہیں :
’’سیدی عبد الوہاب اکابر اولیائے کرام میں سے ہیں۔حضرت سیدی احمد بدوی کبیر کے مزار پر ایک تاجر کی کنیز پر نگاہ پڑی۔وہ آپ کو پسند آئی۔جب مزار شریف میں حاضر ہوئے تو صاحب ِمزار نے ارشاد فرمایا: عبد الوہاب! وہ کنیز تمہیں پسند ہے؟ عرض کیا : ہاں! شیخ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہیے۔ارشاد فرمایا : اچھا ہم نے وہ کنیز تم کو ہبہ کی۔آپ سکوت میں ہیں کہ کنیز تو اس تاجر کی ہے اور حضور ہبہ فرماتے ہیں۔وہ تاجر حاضرہوا اور اس نے وہ کنیز مزارِ اقدس کی نذر کی،خادم کو ارشاد ہوا۔ انہوں نے آپ کی نذر کر دی۔(صاحب ِ مزار نے)ارشاد فرمایا : اب دیر کاہے کی ہے؟ فلاں حجرہ میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو۔‘‘
(ملفوظات احمد رضا، ص : 276-275)
مفتی نعیمی صاحب تو ’’پلاؤ‘‘پر رال ٹپکانے لگے ہیں،لیکن یہاں تو ماجرا ہی عجیب ہے کہ مزاروں پر جو کچھ ہوتا ہے،وہ بزرگوں کی ایما پر ہوتا ہے!مفتی صاحب اس نذر کو بھی ’’لغوی نذر‘‘قرار دے کر زنا اور بدکاری کو عام کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول اہل قبور سے ان کی گفتگو ہوتی ہے،وہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں، موج میلے میں اپنے مریدوں کو بھی شریک کرتے ہیں اور قبروں میں پڑے امور ِدنیا کی انجام دہی بھی کرتے ہیں۔اس سارے جھوٹ اور ساری بے حیائی کو یہ لوگ ’’خدائی عطا‘‘کا نام دیتے ہیں۔کیا اب بھی یہ لوگ دینِ محمدی سے منحرف نہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں پھنسے اور دھنسے نہیں ہوئے؟کیا ایسے لوگ مشرکین مکہ سے بدتر عقیدہ نہیں رکھتے اور اہل سنت والجماعت کے سخت مخالف نہیں ہیں؟قرآن و سنت کی من پسند تاویلات میں انہوں نے اہل کتاب کو بھی مات کر دیا ہے۔
ایک بے تُکی تاویل !
مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’شامی(439/2)نے کتاب الصوم، بحث اموات میں اس طرح بیان فرمایا : بِأَنْ تَکُونَ صِیغَۃُ النَّذْرِ لِلّٰہِ تَعَالٰی لِلتَّقَرُّبِ إِلَیْہِ، وَیَکُونَ ذِکْرُ الشَّیْخِ مُرَادًا بِہٖ فُقَرَائُہٗ ۔ ’صیغہ نذر کا اللہ کی عبادت کے لیے ہو اور شیخ کی قبر پر رہنے والے فقراء اس کا مصرف ہوں۔‘ یہ محض جائز ہے تو یوں سمجھو کہ یہ صدقہ اللہ کے لیے، اس کے ثواب کا ہدیہ روحِ شیخ کے لیے،اس صدقہ کا مصرف مزارِ بزرگ کے خدام فقراء جیسے کہ حضرت مریم کی والدہ نے مانی تھی کہ اپنے پیٹ کا بچہ خدایا تیرے لیے نذر کرتی ہوں، جو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف ہو گا۔نذر اللہ کی اور مصرف بیت المقدس۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
کہاں وہ نذر جو سیدہ مریم[کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی اور قرآنِ کریم نے بطور مدح اس کا ذکر کیا اور کہاں مُردوں کے نام کی وہ نذرونیاز جو قرآن وسنت ،اجماعِ امت، فقہائے احناف اور سب مسلمانوں کے نزدیک باطل اور حرام ہے۔سیدہ مریم[ کی والدہ ماجدہ نے جو نذر مانی تھی کہ میرے بطن میں جو بچہ ہے،میں نے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔انہوں نے یہ نذر پوری کی،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ} (آل عمران 3 : 37)
’’چنانچہ اس کے ربّ نے اسے بہت اچھی طرح قبول فرما لیا۔‘‘
قبروں پر نذرونیاز اور حدیث ِنبوی:
رہا اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مان کر اسے قبر وں کے پجاریوں پر خرچ کرنا،تو یہ شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔یہ صریحاً شریعت ِمطہرہ کی خلاف ورزی ہے،جیسا کہ :
صحابی ٔرسول،سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ ؟‘ قَالُوا : لَا، قَالَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِہِمْ ؟‘، قَالُوا : لَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإِنَّہٗ لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ‘ ۔
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں بُوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مان لی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس جگہ جاہلیت کے استہانوں میں سے کوئی استہان تھا،جس کی عبادت کی جاتی ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کیا اس جگہ اہل جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا : نہیں۔فرمایا : اپنی نذر کو پورا کر لو۔ بلاشبہ اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3313، المعجم الکبیر للطبراني : 75/2،76، ح : 340، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا کردم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں نبوی الفاظ یہ ہیں :
’ہَلْ بِہَا وَثَنٌ أَوْ عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِ الْجَاہِلِیَّۃِ ؟‘ ۔
’’کیا اس جگہ کوئی بت یا جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ تھا؟‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3315، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر ایک صحابیہ نے عرض کیا :
إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا، مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیہِ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ ’لِصَنَمٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ ’لِوَثَنٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ : ’أَوْفِي بِنَذْرِکِ‘ ۔
’’میں نے فلاں جگہ پر جانور ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔اس جگہ پر اہل جاہلیت جانور ذبح کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہ کسی بت کے لیے ذبح کرتے تھے؟ صحابیہ نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کسی مُورتی کے لیے ذبح کرتے تھے؟ عرض کیا : نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کر لو۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 3312، وسندہٗ حسنٌ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جن جگہوں پر شرک اور کفر ہوتا ہو،وہاں جائز نذر پوری کرنا بھی ممنوع اور حرام ہو جاتا ہے،بلکہ شرک تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ان احادیث میں کسی جگہ نذر کو پورا کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سوال پوچھے؛
1 کیا وہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے؟
2 کیا وہاں مشرکوں کا سالانہ اکٹھ یا میلہ ہوتا ہے؟
دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اثبات میں مل جاتا تو اس صورت میں اجازت ممکن نہیں تھی،کیونکہ ایسا کرناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ کسی جگہ نذر پورا کرنے کے بارے میں یہی نبوی ضابطہ آج بھی برقرار ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قبرپرست بزرگوں کی قبروں پر جو نذرونیاز پیش کرتے ہیں، اسے وہ بزرگوں کی بجائے اللہ ہی کے نام کرتے ہیں،تو ایسا کرنا بھی شریعت ِاسلامیہ میں حرام اور ممنوع ہے،چہ جائیکہ ان کی نیت ہی غیراللہ کی نذرونیاز کی ہوتی ہے،جیسا کہ گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔
شیخ الاسلام،علامہ،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الذَّبْحَ بِمَکَانِ عِیدِہِمْ وَمَحَلِّ أَوْثَانِہِمْ مَعْصِیَۃُ اللّٰہِ ۔
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کی میلہ گاہوں اور ان کے استہانوں پر جانور ذبح کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم : 495/1)
نیز فرماتے ہیں : وَإِذَا کَانَ تَخْصِیْصُ بُقْعَۃِ عِیدِہِمْ مَحْذُورًا، فَکَیْفَ بِنَفْسِ عِیدِہِمْ ؟ ’’جب مشرکین کے میلے کی جگہ جانور ذبح کرنا ممنوع ہے، تو خاص ان کے میلے میں جانور ذبح کرنا کیسے جائز ہو گیا؟‘‘(أیضًا : 497/1)
تنبیہ 1 : جناب احمد یار خان نعیمی نے مذکورۃ الصدر حدیث یوں ذکر کی ہے :
’’مشکوٰۃ باب النذور میں ہے کہ کسی نے نذر مانی تھی کہ میں بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا،تو فرمایا گیا کہ اگر کوئی وہاں بت وغیرہ نہ ہو،تو نذر پوری کرو۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
یعنی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والے میلے کے الفاظ ’’مفتی‘‘ صاحب نے ڈکار لیے!
تنبیہ 2 : ’’مفتی‘‘ صاحب نے ایک حدیث یوں لکھی ہے :
’’ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ میں بیت المقدس میں چراغ کے لیے تیل بھیجوں گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نذر کو پورا کرو۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308-307/1)
لیکن یہ روایت ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں۔’’مفتی‘‘صاحب تو فوت ہو گئے ہیں، اب بریلوی حضرات ہی اس کا کوئی ثبوت اور ماخذ فراہم کر دیں،ورنہ مان لیں کہ ۔۔۔
قبرپرستی کی بنیاد فقہ حنفی کا یہ گمراہ کن مسئلہ بنا ہے کہ تقرب الی اللہ کے لیے مزاروں اور قبروں پر نذر پوری کرنا جائز ہے۔اس حوالے سے ان کا دامن دلیل سے بالکل خالی ہے۔ اس سارے کاروبار کا اصل مقصود تو قبر اور صاحب ِقبر کی تعظیم ہوتا ہے۔باقی رہا مال تو اسے سجادہ نشین،مجاور اور ملنگ ڈکار جاتے ہیں۔مجاوری کون سا شرعی اقدام ہے؟ یہ بھی تو نِری کفار کی نقالی ہے۔
نذر کی لغوی،عُرفی اور شرعی تقسیم!
جناب احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’مشکوٰۃ باب مناقب عمر میں ہے کہ بعض بیویوں نے نذر مانی تھی کہ اگر حضور علیہ السلام جنگ ِاُحد سے بخیریت واپس آئے تو میں آپ کے سامنے دَف بجاؤں گی۔یہ نذر بھی عُرفی تھی نہ کہ شرعی،یعنی حضورکی خدمت میں خوشی کا نذرانہ۔غرضیکہ لفظ ِنذر کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی اور شرعی۔لغوی معنیٰ سے نذر بزرگانِ دین کے لیے جائز ہے،بمعنیٰ نذرانہ۔جیسے طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی معنیٰ اس کے پاس گھومنا اور شرعی رب تعالیٰ فرماتا ہے : {وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} ’پرانے گھر کا طواف کریں‘۔یہاں طواف شرعی معنیٰ میں ہے اور فرماتا ہے : {یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ آنٍ} یہاں طواف بمعنیٰ لغوی ہے۔آنا،جانا،گھومنا۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
اس حدیث میں کسی سیاہ رنگ کی لونڈی کی طرف سے یہ نذر ماننے کا ذکر ہے،لیکن ’’مفتی‘‘صاحب نے اس کا خود ساختہ ترجمہ ’’بعض بیویوں‘‘کر دیا ہے۔نیز اس حدیث کے الفاظ [بَعْض مَغَازِیہِ]کا ترجمہ ’’جنگ ِاُحد‘‘ کرنا بھی غلط ہے۔
یہ روایت سنن ترمذی،مسند احمد وغیرہ میں آتی ہے۔اس کو ذکر کر کے امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذَا لِأَنَّہٗ أَمْرٌ مُّبَاحٌ، وَفِیہِ إِظْہَارُ الْفَرَحِ بِظُہُورِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرُجُوعِہٖ سَالِمًا، فَأَذِنَ لَہَا فِي الْوَفَائِ بِنَذْرِہَا، وَإِنْ لَّمْ یَجِبْ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نذر کو پورا کرنے کی اجازت اس لیے دی کہ یہ ایک جائز کام تھا۔ اس سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیت اور صحیح و سلامت واپسی پر خوشی کا اظہار تھا۔یہ نذر پوری کرنا اگرچہ ضروری نہیں تھا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورا کرنے کی اجازت دے دی۔‘‘
(السنن الصغیر، تحت الحدیث : 3209، السنن الکبرٰی للبیہقي : 77/10)
شرعاً جائز نذر کو لغوی نذر قرار دے کر ناجائز اور حرام نذر کو جائز قرار دینا بہت بڑی بدبختی ہے۔حدیث کے بارے میں محدثین کرام کا فہم معتبر ہے۔صحابیہ کا مقصد یہ تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح و سلامت اور مظفر و منصور واپس لوٹیں گے تو میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت ِجلیلہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دَف بجا کر خوشی کا اظہار کروں گی۔اس کا اولیاء اللہ کے نام کی نذرونیاز اور منت منوتی سے کیا تعلق؟ ’’مفتی‘‘صاحب کا اس حدیث سے ’’حضور کی خدمت میں خوشی کا نذرانہ‘‘ ثابت کرنا ان کی کوتاہ فہمی کی واضح دلیل ہے۔
رہا ’’مفتی‘‘صاحب کا یہ کہنا کہ طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ ایک لغوی و عرفی اور دوسرا شرعی،تو دور ِحاضر کے مشرکین قبروں کا بھی طواف کرتے ہیں،شاید وہ لغوی طواف ہی کرتے ہوں۔اس طرح کل کلاں لغوی رکوع،لغوی سجدہ،لغوی نماز اور لغوی حج بھی مخلوق کے لیے جائز ہو جائے گا؟ لغت کا سہارا لے کر مخلوق کے لیے عبادات کو جائز قرار دینا ظلم عظیم ہے۔
اہل حدیث کے ممتاز عالم،حافظ خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ (م : 1997ئ)فرماتے ہیں :
’’مفتی صاحب کا یہ استدلال تب درست ہو سکتا ہے، اگر اولاً وہ یہ ثابت کر دیں کہ زندہ یا مردہ اولیاء کرام کی قبروں کا طواف لغوی معنوں میں جائز ہے یا لغوی معنوں میں انہیں سجدہ جائز ہے۔مفتی صاحب نے لغوی لغوی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔بریلویوں کو چاہیے کہ اپنے عوام کو بتلا دیں کہ ان کے مذہب کا سارا تانا بانا لغوی ہے،شرعی نہیں۔عبادات اور شرعی اصطلاحات کو لغوی معنیٰ پہنا کر غیر اللہ کے لیے جائز کر دینے کو مذہبی تخریب کاری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟یہ دین کی خدمت نہیں،ہندوانہ سازش ہے۔‘‘(معرکہ حق و باطل، ص : 635)
اسی سلسلے میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی لکھتے ہیں :
’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حاجت کے وقت اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانے ؛ ’اے داتا! اگر تو نے میری یہ حاجت پوری کر دی تو میں تیرے لیے ایک بکرا پیش کروں گا۔‘ تو یہ نذر جائز ہے،کیونکہ یہ نذر لغوی ہے۔اور جو نذر غیراللہ کی حرام ہے،وہ نذرِ فقہی یا نذر ِشرعی ہے۔اور نذرِ لغوی اور نذر ِشرعی میں ان لوگوں کے نزدیک صرف یہ فرق ہے کہ نذر ِشرعی میں اللہ کی نذر مانی جاتی ہے اور نذرِ لغوی میں اولیاء اللہ کی نذر مانی جاتی ہے۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس طرح غیر اللہ کے لیے سجدہ،طواف،روزہ اور دیگر عبادات بھی جائز ہو جائیں گی،مثلاً کوئی شخص کسی ولی کو سجدہ کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی سجدہ ہے،کوئی شخص کسی ولی کی قبر کا طواف کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی طواف ہے اور کوئی شخص کسی ولی کے لیے روزے رکھے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی روزہ ہے اور اسی طرح لغت کے سہارے غیر اللہ کے لیے تمام عبادات کا دروازہ کھل جائے گا،کیونکہ جس طرح نذر بالاتفاق عبادت ہے،لیکن لغوی نذر غیراللہ کے لیے شرعاً مانی جا سکتی ہے،تو اسی طرح غیر اللہ کے لیے لغوی نماز پڑھی جا سکتی ہے،غیراللہ کے لیے لغوی روزے رکھے جا سکتے ہیں اور لغوی حج کیے جا سکتے ہیں۔علی ہذا القیاس!‘‘(شرح صحیح مسلم : 542-541/4)
ایک اور دھوکہ !
’’مفتی‘‘صاحب ایک اور طرح سے دھوکہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’دیکھو ! غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً منع ہے اور خود قرآنِ کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسمیں کھائیں؛ {وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ ٭ وَطُورِ سِیْنِیْنَ} وغیرہ اور حضور علیہ السلام نے فرمایا : أَفْلَحَ، وَأَبِیہِ (اس کے باپ کی قسم! وہ کامیاب ہو گیا)۔مطلب یہی ہے کہ شرعی قسم جس پر احکامِ قسم کفارہ وغیرہ جاری ہو،وہ خدا کے سوا کسی کی نہ کھائی جاوے،مگر لغوی قسم جو محض تاکید ِکلام کے لیے ہو،وہ جائز۔یہی نذر کا حال ہے۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
اس کے ردّ میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی کا جواب پیش خدمت ہے :
’’یہ دلیل متعدد وجود سے صحیح نہیں ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ غیراللہ کے لیے قسم کا ذکر قرآن اور حدیث میں آ گیا،اس لیے اس میں تاویل کی ضرورت ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر ماننے کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے،اس لیے اس کو تاویل سے غیراللہ کے لیے جائز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘(شرح صحیح مسلم : 542/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔