• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرس ،میلے ، غیر اللہ کی نذر ،اور مزارات پر مرد وزن کے مخلوط اجتماعات

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شہداء احد کی قبروں پر جانے والی روایت "مرسل" ہے، پھر اس روایت میں اجتماع، قرآن خوانی، مجلس وعظ کرنے اور گلاب کے عرق سے غسل دینے کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے جو کہ عرس کے لوازمات سے ہیں۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ حنفی فرماتے ہیں:
لا يجوز ما يفعله الجهال بقبور الأولياء والشهداء من السجود والطواف حولها واتخاذ السرج والمساجد عليها ومن الاجتماع بعد الحول كالاعياد ويسمونه عرسا
جاہل لوگ حضرات اولیاء شھداء کے مزارات کے ساتھ جو معاملات کرتے ہیں، وہ سب ناجائز ہیں مثلاً ان کو سجدہ کرنا، ان کے گرد طواف کرنا، ان کی قبر پر چراغاں کرنا، ان کی طرف سجدہ کرنا، ہر سال بعد ان کی قبروں پر میلوں کا منعقد کرنا جس کا نام "عرس" ہے۔
التفسير المظهري ج۲ ص ۶۵

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ حنفی کا ایک اور فتوی ملاحظہ ہو:
آنچہ برقبور اولياء عمارت ہاۓ رفیع بنامی کنند و چراغان روشن کنند وازيں قبیل ہر چہ می کنند حرام است یا مکروہ
وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے یا مکروہ۔
مالا بد منه ۷۸
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عرس ،میلے رچانے ،اور مزارات پر اجتماعات
عرس میلے 2.jpg

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
تفسیر در منثور علامہ جلال الدین سیوطی (المتوفی 911ھ) کی ہے ،یعنی وہ روایات دوسرے مصادر سے لیتے ہیں ،
یہ روایت بھی انہوں نے امام محمد بن جریر الطبریؒ کی تفسیر سے نقل کی ہے ، اور تفسیر طبری میں اسناد کے ساتھ حسب ذیل ہے ؛
وجاء في تفسير الطبري: ج13 ص142 ط دار الفكر بيروت: بسنده قال: حدثني المثنى قال، حدثنا سويد قال: أخبرنا ابن المبارك، عن إبراهيم بن محمد، عن سُهَيْل بن أبي صالح، عن محمد بن إبراهيم قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي قبور الشهداء على رأس كل حول فيقول:"السلام عليكم
بما صبرتم فنعم عقبى الدار").


اور یہی روایت طبریؒ سے علامہ ابن کثیرؒ نے نقل فرمائی ہے :
وفي تفسير ابن كثير: ج2 ص512 ط دار الفكر: (وقد جاء في الحديث أن رسول الله (صلى الله عليه وآله) كان يزور قبور الشهداء في رأس كل حول فيقول لهم: سلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار).
ایک روایت میں ہے کہ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے آخر پر شہداء کی قبروں پر آتے اور کہتے «سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ» ۱؎ (13-الرعد:24) اور اسی طرح ابوبکر عمر عثمان بھی رضی اللہ عنہم بھی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:20344:مرسل و ضعیف)
یہ سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1 المثنّٰی بن ابراہیم الآملی کے حالات ِ زندگی نہیں مل سکے ۔
2 یہ روایت ”مرسل” ہے ۔ محمد بن ابراہیم شاید محمد بن ابراہیم بن الحارث بن خالد التیمی ہیں ۔ یہ تابعی ہیں
۔ تابعی بغیر کسی واسطہ کے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرے تو روایت ”مرسل” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہوتی ہے ۔
یہ تو اس روایت کی اسنادی پوزیشن ہے ۔ رہا اس سے عرس اور میلے کا جواز نکالنا تو کسی ہوش مند انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بریلوی مولوی غیر اللہ کی نذر و نیاز کا دفاع کرتے مغالطہ دے کر کہتا ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭٭٭
جواب
اولیاء اللہ کے نام کی نذر و نیاز شرعی میزان میں

علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی جائز ہے۔مخلوق کے نام پر نذر کرنا حرام اور شرک ہے۔
اگر کوئی انسان کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت یا نذر کرتا ہے، صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے صاحب ِقبر کا تقرب حاصل ہو جائے گا، وہ اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے گا یا اس کی فریاد رسی یا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرے گا، یا وہ اس کی قبر سے فیض پائے گا۔بلاشک و شبہ یہ شرک فی العبادت ہے، جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
{وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْـاَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَائِہِمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ}
(الأنعام 6 : 136)
’’انہوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپائیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر بزعمِ خویش کہنے لگے:یہ اللہ کے لیے ہے، اور یہ ہمارے دیوتائوں کے لیے ہے،پھر ان کے دیوتائوں کا حصہ تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، لیکن اللہ کا حصہ ان کے دیوتائوں کے پاس پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کس قدر برافیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (البقرۃ 2 : 173)
’’اوروہ چیز(بھی حرام ہے)جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔‘‘

مزاروں اور آستانوں پر نذر کے نام پر مشرکانہ و ہندوانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اس کے باوجود بعض لوگوں نے عوام کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے قبروں پر نذر و نیاز کا جواز پیش کیا ہے۔ایسی ہی کوشش کرتے ہوئے امامِ بریلویت مولوی احمد یار خان نعیمی(1391-1324ھ)لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،یہ نذر شرعی نہیں،نذر لغوی ہے،جس کے معنیٰ ہیںنذرانہ،جیسے کہ میں اپنے استاذ سے کہوں کہ یہ آپ کی نذر ہے،یہ بالکل جائز ہے۔ اور فقہاء اس کو حرام کہتے ہیں،جو کہ اولیاء کے نام کی نذر شرعی مانی جائے۔اس لیے فرماتے ہیں تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ۔نذر شرعی عبادت ہے، وہ غیر اللہ کے لیے ماننا یقینا کفر ہے۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
حالانکہ یہ کہنا کہ’’ اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،وہ نذر شرعی نہیں،لغوی ہے‘‘، محض ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کر کے اسباب ِ شکم پروری کو دوام بخشنے کی نامراد کاوش ہے۔نذر کی لغوی اور اصطلاحی تقسیم ایسی قبیح بدعت ہے،جو اہل سنت والجماعت کی کتب میں کہیں مذکور نہیں۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی بزرگ ہستی مخلوق میں موجود ہے؟ اور کیا صحابہ کرام ] رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں رکھتے تھے،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بعد والے بزرگوں سے ہے؟کیا کبھی کسی قبرپرست نے غور کیا کہ اگر غیر اللہ اور فوت شدگان کے نام پر نذر ونیاز جائز ہوتی،تو صحابہ کرام اس کار ِخیر سے کبھی محروم نہ رہتے۔کیا کوئی شخص صحابہ کرام] میں کسی سے بھی ایسا کوئی عمل پیش کر سکتا ہے؟
عام لوگوں کا تحفہ اور ہدیہ کے لیے نذرانے کا لفظ استعمال کرنا اس کی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ قبروں اور مردوں کے پجاری ان کے لیے جو نذر پیش کرتے ہیں، وہ اس عقیدے سے پیش کرتے ہیں کہ وہ دافع البلاء ہیں۔ان کے پیش نظر لغوی نہیں، شرعی اور عرفی نذر ہوتی ہے۔تب ہی تو اس کے بارے میں ’’نذر اللہ اور نیاز حسین‘‘ کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ اگر مجھے مقدمہ میں فتح یابی ہوئی یا مرض سے شفا ہوئی یا دشمن زیر ہو گیا یا مجھے اولادِ نرینہ مل گئی یا میرا کاروبار چمک گیا،تو فلاں مزار پر جا کر نذر ونیاز کا لنگر چڑھاؤں گا،ننگے پاؤں جا کر سلام کروں گا،مزار پر ٹاکی باندھوں گا،وغیرہ۔
منصف مزاج لوگ بتائیں کہ کیا یہ سب کچھ لغوی نذر و نیاز کے لیے کیا جاتا ہے؟یہ سب امور تعظیم و تقرب کے نقطۂ نظر سے کیے جاتے ہیں،جس میں نذر ماننے والا اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔تحفہ و ہدیہ میں ایسی صورت موجود نہیں ہوتی۔
شیخ الاسلام ثانی،عالمِ ربانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیں :
فَمَا أَسْرَعَ أَہْلُ الشِّرْکِ إِلَی اتِّخَاذِ الأَْوْثَانِ مِنْ دُونِ اللّٰہِ، وَلَوْ کَانَتْ مَا کَانَتْ، وَیَقُولُونَ : إِنَّ ہٰذَا الْحَجَرَ، وَہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ، وَہٰذِہِ الْعَیْنَ، تَقْبَلُ النَّذَرَ، أَيْ تَقْبَلُ الْعِبَادَۃَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّ النَّذَرَ عِبَادَۃٌ وَّقُرْبَۃٌ، یَتَقَرَّبُ بِہَا النَّاذِرُ إِلَی الْمَنْذُورِ لَہٗ ۔
’مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی چیز کو معبود ٹھہرانے میں کتنے جلد باز واقع ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں : یہ پتھر،یہ درخت اور یہ شخص نذر و نیاز کے لائق ہے۔دوسرے لفظوں میں ان مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ یہ شخص بھی عبادت کے لائق ہے،کیونکہ نذرونیاز عبادت وتقرب ہے،جس کے ذریعے نذر دینے والا کسی کا تقرب حاصل کرتا ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 212/1)
علامہ،احمد بن عبد الرحیم،المعروف بہ شاہ ولی اللہ دہلوی(1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّہُمْ یَسْتَعِینُونَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فِي حَوَائِجِہِمْ مِنْ شِفَائِ الْمَرِیضِ وَغِنَائِ
الْفَقِیرِ، وَیَنْذُرُونَ لَہُمْ، یَتَوَقَّعُونَ إِنْجَاحَ مَقَاصِدِہِمْ بِتِلْکَ النُّذُورِ، وَیَتْلُونَ أَسْمَائَہُمْ رَجَائَ بَرَکَتِہَا، فَأَوْجَبَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِم أَنْ یَّقُولُوا فِي صَلَاتِہِمْ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ 1 : 5)، وَقَالَ تَعَالٰی : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا}(الجنّ 72 : 18)، وَلَیْسَ الْمُرَادُ مِنَ الدُّعَائِ الْعِبَادَۃُ، کَمَا قَالَہُ الْمُفَسِّرُونَ، بَلْ ہُوَ الِاسْتِعَانَۃُ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) ۔

’’مشرکین اپنی حاجات،مثلاً مرض میں شفا اور فقیری میں خوشحالی کے لیے غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس نذرونیاز کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔وہ برکت کی امید پر غیراللہ کے ناموں کا ورد بھی کرتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرنماز میں یہ کہنا فرض کیا ہے کہ : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحۃ 1 : 5)(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)۔نیز فرمایا : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (الجنّ 72 : 18) (تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔اس آیت ِکریمہ میں دعا سے مراد عبادت نہیں،جیسا کہ (عام)مفسرین نے کہا ہے،بلکہ یہاں استعانت مراد ہے ،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) (بلکہ تم [سخت مصیبت کے وقت]اسی[اللہ] کو پکارتے ہو،چنانچہ وہ تمہاری مصیبتوں کو دُور فرماتا ہے)۔‘‘
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 185/1، طبعۃ السلفیّۃ)

علامہ،محمودبن عبد اللہ،آلوسی،حنفی(1270-1217ھ)فرماتے ہیں :
وَفِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)إلخ إِشَارَۃٌ إِلٰی ذَمِّ الْغَالِینَ فِي أَوْلِیَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَیْثُ یَسْتَغِیثُونَ بِہِمْ فِي الشِّدَّۃِ غَافِلِینَ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَیَنْذُرُونَ لَہُمُ النُّذُورَ، وَالْعُقَلَائُ مِنْہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّہُمْ وَسَائِلُنَا إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَإِنَّمَا نَنْذُرُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَنَجْعَلُ ثَوَابَہٗ لِلْوَلِيِّ، وَلَا یَخْفٰی أَنَّہُمْ فِي دَعْوَاہُمُ الْـأُولٰی أَشْبَہُ النَّاسِ بِعَبَدَۃِ الْـأَصْنَامِ، الْقَائِلِینَ : إِنَّمَا نَعْبُدُہُمْ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، وَدَعْوَاہُمُ الثَّانِیَۃُ لَا بَأْسَ بِہَا لَوْ لَمْ یَطْلُبُوا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ شِفَائَ مَرِیضِہِمْ أَوْ رَدَّ غَائِبِہِمْ أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَالظَّاہِرُ مِنْ حَالِہِمُ الطَّلَبُ، وَیُرْشِدُ إِلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ قِیلَ : انْذُرُوا لِلّٰہِ تَعَالٰی وَاجْعَلُوا ثَوَابَہٗ لِوَالِدَیْکُمْ، فَإِنَّہُمْ أَحْوَجُ مِنْ أُولٰئِکَ الْـأَوْلِیَائِ لَمْ یَفْعَلُوا، وَرَأَیْتُ کَثِیرًا مِّنْہُمْ یَسْجُدُ عَلٰی أَعْتَابِ حَجَرِ قُبُورِ الْـأَوْلِیَائِ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّثْبُتُ التَّصَرُّفَ لَہُمْ جَمِیعًا فِي قُبُورِہِمْ، لٰکِنَّہُمْ مُّتَفَاوِتُونَ فِیہِ حَسَبَ تَفَاوُتِ مَرَاتِبِہِمْ، وَالْعُلَمَائُ مِنْہُمْ یَحْصُرُونَ التَّصَرُّفَ فِي الْقُبُورِ فِي أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ، وَإِذَا طُولِبُوا بِالدَّلِیلِ قَالُوا : ثَبَتَ ذٰلِکَ بِالْکَشْفِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، مَا أَجْہَلَہُمْ وَأَکْثَرَ افْتَرَائَہُمْ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّزْعَمُ أَنَّہُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْقُبُورِ وَیَتَشَکَّلُونَ بِأَشْکَالَ مُخْتَلِفَۃٍ، وَعُلَمَاؤُہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّمَا تَظْہَرُ أَرْوَاحُہُمْ مُّتَشَکَّلَۃً وَّتَطُوفُ حَیْثُ شَائَ تْ، وَرُبَّمَا تَشَکَّلَتْ بِصُورَۃِ أَسَدٍ أَوْ غَزَالٍ أَوْ نَحْوَہٗ، وَکُلُّ ذٰلِکَ بَاطِلٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَکَلَامِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ، وَقَدْ أَفْسَدَ ہٰؤُلَائِ عَلَی النَّاسِ دِینَہُمْ، وَصَارُوا ضِحْکَۃً لِّأَہْلِ الْـأَدْیَانِ الْمَنْسُوخَۃِ فِي الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، وَکَذَا لِأَہْلِ النِّحَلِ وَالدَّہْرِیَّۃِ، نَسْأَلُ اللّٰہُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ ۔
’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)(بلاشبہ جن کو[اے مشرکو] تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے)۔اس آیت ِکریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے،جو اولیاء اللہ کے بارے میں غلوّ کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں ان اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیںاور ان کے نام پر نذرونیاز دیتے ہیں۔ان میں سے ’دانشور‘لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اولیاء تو ہمارے لیے اللہ کی طرف وسیلہ ہیں اوریہ نذرونیاز تو ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں،البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پہلے دعوے میں بالکل ان بت پرستوں جیسے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔رہا دوسرا دعویٰ تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ بزرگوں سے اپنے مریضوں کے لیے شفاء اور غائب ہونے والوں کی واپسی وغیرہ کا مطالبہ نہ کرتے[حالانکہ شرعاً یہ بھی ناجائز ہے۔ناقل]۔ان کی حالت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کے لیے ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی نذرونیاز دو اور اس کا ثواب (اولیائ)کی بجائے اپنے والدین کو پہنچاؤ،کیونکہ تمہارے والدین ان اولیاء سے بڑھ کر ثواب کے محتاج ہیں،تو یہ مشرکین ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے،[اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد بزرگوں سے مانگنا ہی ہوتا ہے]۔میں نے بہت سے مشرکین کو دیکھاہے کہ اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔بعض مشرکین تو سب اولیاء کے لیے ان کی قبروں میں تصرف (قدرت)بھی ثابت کرتے ہیں،البتہ مراتب کے اعتبار سے یہ تصرف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ان مشرکین کے ’اہل علم‘قبروں میں اولیاء کے لیے چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں،لیکن جب ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ چیز کشف سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ وبرباد کرے،یہ کتنے جاہل اور جھوٹے لوگ ہیں!ان میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں،جبکہ ان کے ’اہل علم‘ کا کہنا ہے کہ اولیاء کی صرف روحیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ان کے بقول بسااوقات اولیاء کی روحیں شیر، ہرن وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں،کتاب و سنت اور اسلاف ِامت کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ان مشرکین نے (سادہ لوح)لوگوں کا دین بھی برباد کر دیا ہے۔ایسے لوگ یہود و نصاریٰ ،دیگر ادیانِ باطلہ کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے (دین و دنیا کی )عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(روح المعاني : 213-212/2)
نیز فرماتے ہیں : وَمِنْ أُولٰئِکَ عَبَدَۃُ الْقُبُورِ، النَّاذِرُونَ لَہَا، الْمُعْتَقِدُونَ لِلنَّفْعِ وَالضَّرِّ، مِمَّنِ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِحَالِہٖ فِیہَا، وَہُمُ الْیَوْمَ أَکْثَرُ مِنَ الدُّودِ ۔
’’ان مشرکوں میں سے بعض وہ ہیں جو قبروں کے پجاری ہیں،ان پر نذرونیاز دیتے ہیں اور ان لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قبر میں جن کی حالت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔موجودہ دور میں ایسے مشرکین کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
(روح المعاني : 67/17)
علامہ،محمد بن علی،حصکفی،حنفی(1088-1021ھ)اپنے اکثر عوام کی اصلاح میں لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّذَرَ الَّذِي یَقَعُ لِلْـأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ، وَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِہَا إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، فَہُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ ۔
’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذونیاز دیتے ہیں اور جو رقوم،چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں،وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔‘‘(الدرّ المختار، ص : 155، ردّ المحتار : 439/2)
مشہور حنفی امام،محمد امین بن عمر،ابن عابدین، شامی(1252-1198ھ)اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں : کَأَنْ یَّقُولَ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! إِنْ رُّدَّ غَائِبِي أَوْ عُوفِيَ مَرِیضِي أَوْ قُضِیَتْ حَاجَتِي، فَلَکَ مِنَ الذَّہَبِ أَوِ الْفِضَّۃِ أَوْ مِنَ الطَّعَامِ أَوِ الشَّمْعِ أَوِ الزَّیْتِ کَذَا، (قَوْلُہٗ : بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ) لِوُجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّہٗ نَذَرَ لِمَخْلُوقٍ، وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لاَ یَجُوزُ، لِأَنَّہٗ عِبَادَۃٌ، وَالْعِبَادَۃُ لَا تَکُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَمِنْہَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَہٗ مَیِّتٌ، وَالْمَیِّتُ لَا یَمْلِکُ، وَمِنْہُ أَنَّہٗ ْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَتَصَرَّفُ فِي الْـأُمُورِ دُونَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَاعْتِقَادُہٗ ذٰلِکَ کُفْرٌ ۔
’’اولیاء کے لیے نذرونیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے : اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آ گیا یا میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا تو اتنا سونا، اتنی چاندی ،اتنا کھانایا چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔یہ نذرو نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے ؛ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذرونیاز ہے،حالانکہ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر ونیاز دی جا رہی ہوتی ہے،وہ مُردہ ہوتا ہے اور مُردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔تیسری وجہ یہ کہ نذرونیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر اس ولی کے امور میں تصرف کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ اس کا اعتقاد کفر ہے۔‘‘(ردّ المحتار المعروف بہ الفتاوی الشامي : 439/2)
مشہور حنفی،قاسم بن قطلوبغا (879-802ھ)لکھتے ہیں :
فَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَغَیْرِہَا، وَیُنْتَقَلُ إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، مُحَرَّمٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ ۔
’’جو رقوم،شمعیں اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر ان کے تقرب کے لیے لائی جاتی ہیں،ان کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘
(البحر الرائق لابن نجیم : 298/2، الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاوی عالمگیری : 216/1، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص : 378)
حنفی مذہب کی معتبرو مستند کتاب میں لکھا ہے :
وَالنَّذْرُ الَّذِي یَقَعُ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ بِأَنْ یَّأْتِيَ إِلٰی قَبْرِ بَعْضِ الصُّلَحَائِ، وَیَرْفَعَ سِتْرَہٗ قَائِلًا : یَا سَیِّدِي فُلَانٌ ! إِنْ قَضَیْتَ حَاجَتِي فَلَکَ مِنِّي مِنَ الذَّہَبِ مَثَلًا کَذَا، بَاطِلٌ إجْمَاعًا ۔
’’اکثر عوام جو اس طرح نذر مانتے ہیں کہ کسی نیک شخص کی قبر پر آ کر یوں فریاد کرتے ہیں: اے میرے فلاں پیر! اگر تُومیری یہ ضرورت پوری کر دے تو میری طرف سے اتنا سونا تیری نذر۔یہ اجماعی طور پر حرام ہے۔‘‘(الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 216/1)
علامہ برکوی حنفی،علامہ ابوشامہ (م : 665ھ)سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثُمَّ یَتَجَاوَزُونَ ہٰذَا إِلٰی أَنْ یُّعَظِّمَ وَقْعَ تِلْکَ الْـأَمَاکِنِ فِي قُلُوبِہِمْ، فَیُعَظِّمُونَہَا، وَیَرْجُونَ الشِّفَائَ لِمَرْضَاہُمْ وَقَضَائَ حَوَائِجِہِمْ، بِالنَّذْرِ لَہُمْ، وَہِيَ مِنْ بَیْنِ عُیُونٍ وَّشَجَرٍ وَّحَائِطٍ وَّحَجَرٍ ۔
’’پھر یہ مشرکین اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں اور اپنے دلوں میں ان مقامات کی تعظیم بٹھا لیتے ہیں۔وہ ان جگہوں کی تعظیم بھی کرتے ہیں اور ان پر نذرونیاز چڑھا کر اپنے بیماروں کی شفا اور اپنی حاجات کی برآری کی امید بھی کرتے ہیں۔ایسی جگہیں درختوں،پتھروں، باغات اور چشموں پر واقع ہوتی ہیں۔‘‘
(زیارۃ القبور، ص : 547-546، طبعۃ الکردیّۃ، وفي نسخۃ دار الإفتائ، ص : 52)

فقہ حنفی اور احمدیار خان نعیمی بریلوی:
قارئین کرام! اہل سنت کے علمائے کرام،کتب ِفقہ اور فقہائے احناف کے اقوال کی روشنی میں آپ نے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز کا حرام اور شرک ہونا ملاحظہ فرما لیا۔اتنی وضاحت و صراحت کے باوجود بعض ناعاقبت اندیش اس نذرونیاز کو جائز ثابت کرنے کے لیے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں۔
اس کی ایک مثال جناب احمد یار خان نعیمی بریلوی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کوئی کہتا ہے کہ یا حضور غوث پاک! آپ دُعا کریں،اگر میرا مریض اچھا ہو گیا،تو میں آپ کے نام کی دیگ پکاؤں گا۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ میرے خدا ہیں،اس مریض کے اچھا ہونے پر میں آپ کی یہ عبادت کروں گا،بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں پلاؤ کا صدقہ کروں گا اللہ کے لیے۔اس پر جو ثواب ملے گا،آپ کو بخشوں گا، جیسے کوئی شخص کسی طبیب سے کہے کہ اگر بیمار اچھا ہو گیا تو پچاس روپیہ آپ کی نذرکروں گا۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
واہ کیا خوب فقاہت ہے،جو اپنی ہی فقہ حنفی کی دھجیاں اڑائے جا رہی ہے۔

اسی بارے میں جناب غلام رسول سعیدی بریلوی لکھتے ہیں :
’’آج کل جس طرح اَن پڑھ عوام اپنی حاجات میں اولیاء اللہ کی نذریں اور منتیں مانتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کے بعد مزارات پر نذریں پیش کرتے ہیں۔اور بعض لوگ اس کو لغوی نذر کہہ کر سند ِجواز پیش کرتے ہیں،اس کا قرآنِ مجید،احادیث ِصحیحہ اور آثارِ صحابہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔کتب ِ فتاویٰ میں اس نذر کو حرام کہا گیا ہے۔یہ ایک خالص فقہی مسئلہ ہے۔اس میں کتب فقہیہ کو چھوڑ کر بعض غیر معصوم اور غیر معروف صوفیوں کے اقوال اور احوال سے استدلال کرنا کوئی فقاہت نہیں ہے،بلکہ عدل و انصاف سے بعید ہے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 543/4)
ایک بریلوی عالم نے ہی نعیمی صاحب کو ناانصاف اور غیرفقیہ قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ قرآن وسنت،افعالِ صحابہ کرام اور فقہ حنفی کے رُو سے بزرگوں کے نام کی نذرونیاز حرام ہے۔
غوروفکر کا مقام ہے کہ جن افعال پر قرآن وحدیث نے کوئی نص قائم نہیں کی اور جن سے سلف صالحین،یعنی صحابہ وتابعین بے خبر تھے ،ان کو شرعی جواز فراہم کرنا کتنی زبردست بددیانتی ہے۔غیر اللہ کے نام کی نذرونیاز دینا اہل بدعت اور اہل شرک کا وطیرہ ہے،اہل سنت اور اہل حق نہ کبھی ایسا کرتے تھے،نہ کرتے ہیں،نہ کریں گے۔عام لوگ جب شیخ عبد القادر جیلانی کے نام کی گیارہویں دیتے ہیں،ان کے قصدونیت میں ان کی نیاز پیش کرنا ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی کہتاہے کہ میں فلاں بزرگ کے نام کی دیگ پکاؤں گا تو اس کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس کے نام کی نذرونیاز دے گا اور نذرونیاز عبادت ہے،جو غیر اللہ کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے۔
نعیمی صاحب صرف ’’پلاؤ‘‘کے لیے غیر اللہ کی عبادت کو سند ِجواز دے رہے ہیں اور دین میں نئے کام داخل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ان کے نزدیک ایک طبیب کو علاج معالجہ پر اجرت دینے اور شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نام کی نیاز دینے میں کوئی فرق نہیں۔کیا کبھی کسی نے طبیب کے نام پر دیگ پکائی اور ’’پلاؤ‘‘کا صدقہ کر کے اس کا ثواب طبیب کو پہنچایا؟
یہ لوگ مُردوں سے مانگنے اور ان کے متعلق مدد کرنے کا اعتقاد رکھتے ہیں،حالانکہ آج تک کسی صاحب ِقبر نے ان کو کچھ نہیں دیا،البتہ اس ڈھونگ سے انہوں نے اپنے جاہل عوام سے بہت کچھ لے لیا ہے۔
مُردوں کا تصرف !
ایک باطل اعتقاد یہ بھی ہے کہ مُردے سنتے،دیکھتے،اُمور میں تصرف کرتے،غیب جانتے،دعائیں سنتے اور نوازتے ہیں۔
امامِ بریلویت’’اعلیٰ حضرت‘‘احمد رضا خان بریلوی(1340-1272ھ)کہتے ہیں :
’’سیدی عبد الوہاب اکابر اولیائے کرام میں سے ہیں۔حضرت سیدی احمد بدوی کبیر کے مزار پر ایک تاجر کی کنیز پر نگاہ پڑی۔وہ آپ کو پسند آئی۔جب مزار شریف میں حاضر ہوئے تو صاحب ِمزار نے ارشاد فرمایا: عبد الوہاب! وہ کنیز تمہیں پسند ہے؟ عرض کیا : ہاں! شیخ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہیے۔ارشاد فرمایا : اچھا ہم نے وہ کنیز تم کو ہبہ کی۔آپ سکوت میں ہیں کہ کنیز تو اس تاجر کی ہے اور حضور ہبہ فرماتے ہیں۔وہ تاجر حاضرہوا اور اس نے وہ کنیز مزارِ اقدس کی نذر کی،خادم کو ارشاد ہوا۔ انہوں نے آپ کی نذر کر دی۔(صاحب ِ مزار نے)ارشاد فرمایا : اب دیر کاہے کی ہے؟ فلاں حجرہ میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو۔‘‘
(ملفوظات احمد رضا، ص : 276-275)
مفتی نعیمی صاحب تو ’’پلاؤ‘‘پر رال ٹپکانے لگے ہیں،لیکن یہاں تو ماجرا ہی عجیب ہے کہ مزاروں پر جو کچھ ہوتا ہے،وہ بزرگوں کی ایما پر ہوتا ہے!مفتی صاحب اس نذر کو بھی ’’لغوی نذر‘‘قرار دے کر زنا اور بدکاری کو عام کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول اہل قبور سے ان کی گفتگو ہوتی ہے،وہ ان کے دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں، موج میلے میں اپنے مریدوں کو بھی شریک کرتے ہیں اور قبروں میں پڑے امور ِدنیا کی انجام دہی بھی کرتے ہیں۔اس سارے جھوٹ اور ساری بے حیائی کو یہ لوگ ’’خدائی عطا‘‘کا نام دیتے ہیں۔کیا اب بھی یہ لوگ دینِ محمدی سے منحرف نہیں اور شرک و کفر کی دلدل میں پھنسے اور دھنسے نہیں ہوئے؟کیا ایسے لوگ مشرکین مکہ سے بدتر عقیدہ نہیں رکھتے اور اہل سنت والجماعت کے سخت مخالف نہیں ہیں؟قرآن و سنت کی من پسند تاویلات میں انہوں نے اہل کتاب کو بھی مات کر دیا ہے۔
ایک بے تُکی تاویل !
مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’شامی(439/2)نے کتاب الصوم، بحث اموات میں اس طرح بیان فرمایا : بِأَنْ تَکُونَ صِیغَۃُ النَّذْرِ لِلّٰہِ تَعَالٰی لِلتَّقَرُّبِ إِلَیْہِ، وَیَکُونَ ذِکْرُ الشَّیْخِ مُرَادًا بِہٖ فُقَرَائُہٗ ۔ ’صیغہ نذر کا اللہ کی عبادت کے لیے ہو اور شیخ کی قبر پر رہنے والے فقراء اس کا مصرف ہوں۔‘ یہ محض جائز ہے تو یوں سمجھو کہ یہ صدقہ اللہ کے لیے، اس کے ثواب کا ہدیہ روحِ شیخ کے لیے،اس صدقہ کا مصرف مزارِ بزرگ کے خدام فقراء جیسے کہ حضرت مریم کی والدہ نے مانی تھی کہ اپنے پیٹ کا بچہ خدایا تیرے لیے نذر کرتی ہوں، جو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف ہو گا۔نذر اللہ کی اور مصرف بیت المقدس۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
کہاں وہ نذر جو سیدہ مریم[کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی اور قرآنِ کریم نے بطور مدح اس کا ذکر کیا اور کہاں مُردوں کے نام کی وہ نذرونیاز جو قرآن وسنت ،اجماعِ امت، فقہائے احناف اور سب مسلمانوں کے نزدیک باطل اور حرام ہے۔سیدہ مریم[ کی والدہ ماجدہ نے جو نذر مانی تھی کہ میرے بطن میں جو بچہ ہے،میں نے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔انہوں نے یہ نذر پوری کی،تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
{فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ} (آل عمران 3 : 37)
’’چنانچہ اس کے ربّ نے اسے بہت اچھی طرح قبول فرما لیا۔‘‘

قبروں پر نذرونیاز اور حدیث ِنبوی:
رہا اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مان کر اسے قبر وں کے پجاریوں پر خرچ کرنا،تو یہ شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔یہ صریحاً شریعت ِمطہرہ کی خلاف ورزی ہے،جیسا کہ :
صحابی ٔرسول،سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِّنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ ؟‘ قَالُوا : لَا، قَالَ : ’ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِہِمْ ؟‘، قَالُوا : لَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإِنَّہٗ لَا وَفَائَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ‘ ۔
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں بُوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میں نے بوانہ مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مان لی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس جگہ جاہلیت کے استہانوں میں سے کوئی استہان تھا،جس کی عبادت کی جاتی ہو؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کیا اس جگہ اہل جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا : نہیں۔فرمایا : اپنی نذر کو پورا کر لو۔ بلاشبہ اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3313، المعجم الکبیر للطبراني : 75/2،76، ح : 340، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا کردم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں نبوی الفاظ یہ ہیں :
’ہَلْ بِہَا وَثَنٌ أَوْ عِیدٌ مِّنْ أَعْیَادِ الْجَاہِلِیَّۃِ ؟‘ ۔
’’کیا اس جگہ کوئی بت یا جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ تھا؟‘‘
(سنن أبي داوٗد : 3315، وسندہٗ حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو کر ایک صحابیہ نے عرض کیا : إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا وَکَذَا، مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیہِ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَ ’لِصَنَمٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ ’لِوَثَنٍ ؟‘، قَالَتْ : لَا، قَالَ : ’أَوْفِي بِنَذْرِکِ‘ ۔
’’میں نے فلاں جگہ پر جانور ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔اس جگہ پر اہل جاہلیت جانور ذبح کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : وہ کسی بت کے لیے ذبح کرتے تھے؟ صحابیہ نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا : کسی مُورتی کے لیے ذبح کرتے تھے؟ عرض کیا : نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کر لو۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 3312، وسندہٗ حسنٌ)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جن جگہوں پر شرک اور کفر ہوتا ہو،وہاں جائز نذر پوری کرنا بھی ممنوع اور حرام ہو جاتا ہے،بلکہ شرک تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ان احادیث میں کسی جگہ نذر کو پورا کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سوال پوچھے؛
1 کیا وہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے؟
2 کیا وہاں مشرکوں کا سالانہ اکٹھ یا میلہ ہوتا ہے؟

دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی اثبات میں مل جاتا تو اس صورت میں اجازت ممکن نہیں تھی،کیونکہ ایسا کرناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ کسی جگہ نذر پورا کرنے کے بارے میں یہی نبوی ضابطہ آج بھی برقرار ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قبرپرست بزرگوں کی قبروں پر جو نذرونیاز پیش کرتے ہیں، اسے وہ بزرگوں کی بجائے اللہ ہی کے نام کرتے ہیں،تو ایسا کرنا بھی شریعت ِاسلامیہ میں حرام اور ممنوع ہے،چہ جائیکہ ان کی نیت ہی غیراللہ کی نذرونیاز کی ہوتی ہے،جیسا کہ گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔
شیخ الاسلام،علامہ،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الذَّبْحَ بِمَکَانِ عِیدِہِمْ وَمَحَلِّ أَوْثَانِہِمْ مَعْصِیَۃُ اللّٰہِ ۔
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کی میلہ گاہوں اور ان کے استہانوں پر جانور ذبح کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم : 495/1)
نیز فرماتے ہیں : وَإِذَا کَانَ تَخْصِیْصُ بُقْعَۃِ عِیدِہِمْ مَحْذُورًا، فَکَیْفَ بِنَفْسِ عِیدِہِمْ ؟ ’’جب مشرکین کے میلے کی جگہ جانور ذبح کرنا ممنوع ہے، تو خاص ان کے میلے میں جانور ذبح کرنا کیسے جائز ہو گیا؟‘‘(أیضًا : 497/1)
تنبیہ 1 : جناب احمد یار خان نعیمی نے مذکورۃ الصدر حدیث یوں ذکر کی ہے :
’’مشکوٰۃ باب النذور میں ہے کہ کسی نے نذر مانی تھی کہ میں بوانہ مقام میں اونٹ ذبح کروں گا،تو فرمایا گیا کہ اگر کوئی وہاں بت وغیرہ نہ ہو،تو نذر پوری کرو۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
یعنی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والے میلے کے الفاظ ’’مفتی‘‘ صاحب نے ڈکار لیے!
تنبیہ 2 : ’’مفتی‘‘ صاحب نے ایک حدیث یوں لکھی ہے :
’’ایک شخص نے نذر مانی تھی کہ میں بیت المقدس میں چراغ کے لیے تیل بھیجوں گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نذر کو پورا کرو۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308-307/1)
لیکن یہ روایت ذخیرۂ حدیث میں موجود نہیں۔’’مفتی‘‘صاحب تو فوت ہو گئے ہیں، اب بریلوی حضرات ہی اس کا کوئی ثبوت اور ماخذ فراہم کر دیں،ورنہ مان لیں کہ ۔۔۔
قبرپرستی کی بنیاد فقہ حنفی کا یہ گمراہ کن مسئلہ بنا ہے کہ تقرب الی اللہ کے لیے مزاروں اور قبروں پر نذر پوری کرنا جائز ہے۔اس حوالے سے ان کا دامن دلیل سے بالکل خالی ہے۔ اس سارے کاروبار کا اصل مقصود تو قبر اور صاحب ِقبر کی تعظیم ہوتا ہے۔باقی رہا مال تو اسے سجادہ نشین،مجاور اور ملنگ ڈکار جاتے ہیں۔مجاوری کون سا شرعی اقدام ہے؟ یہ بھی تو نِری کفار کی نقالی ہے۔

نذر کی لغوی،عُرفی اور شرعی تقسیم!
جناب احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں : ’’مشکوٰۃ باب مناقب عمر میں ہے کہ بعض بیویوں نے نذر مانی تھی کہ اگر حضور علیہ السلام جنگ ِاُحد سے بخیریت واپس آئے تو میں آپ کے سامنے دَف بجاؤں گی۔یہ نذر بھی عُرفی تھی نہ کہ شرعی،یعنی حضورکی خدمت میں خوشی کا نذرانہ۔غرضیکہ لفظ ِنذر کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی اور شرعی۔لغوی معنیٰ سے نذر بزرگانِ دین کے لیے جائز ہے،بمعنیٰ نذرانہ۔جیسے طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ لغوی معنیٰ اس کے پاس گھومنا اور شرعی رب تعالیٰ فرماتا ہے : {وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} ’پرانے گھر کا طواف کریں‘۔یہاں طواف شرعی معنیٰ میں ہے اور فرماتا ہے : {یَطُوْفُوْنَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ آنٍ} یہاں طواف بمعنیٰ لغوی ہے۔آنا،جانا،گھومنا۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 308/1)
اس حدیث میں کسی سیاہ رنگ کی لونڈی کی طرف سے یہ نذر ماننے کا ذکر ہے،لیکن ’’مفتی‘‘صاحب نے اس کا خود ساختہ ترجمہ ’’بعض بیویوں‘‘کر دیا ہے۔نیز اس حدیث کے الفاظ [بَعْض مَغَازِیہِ]کا ترجمہ ’’جنگ ِاُحد‘‘ کرنا بھی غلط ہے۔
یہ روایت سنن ترمذی،مسند احمد وغیرہ میں آتی ہے۔اس کو ذکر کر کے امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)فرماتے ہیں : وَہٰذَا لِأَنَّہٗ أَمْرٌ مُّبَاحٌ، وَفِیہِ إِظْہَارُ الْفَرَحِ بِظُہُورِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرُجُوعِہٖ سَالِمًا، فَأَذِنَ لَہَا فِي الْوَفَائِ بِنَذْرِہَا، وَإِنْ لَّمْ یَجِبْ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نذر کو پورا کرنے کی اجازت اس لیے دی کہ یہ ایک جائز کام تھا۔ اس سے مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جیت اور صحیح و سلامت واپسی پر خوشی کا اظہار تھا۔یہ نذر پوری کرنا اگرچہ ضروری نہیں تھا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورا کرنے کی اجازت دے دی۔‘‘
(السنن الصغیر، تحت الحدیث : 3209، السنن الکبرٰی للبیہقي : 77/10)

شرعاً جائز نذر کو لغوی نذر قرار دے کر ناجائز اور حرام نذر کو جائز قرار دینا بہت بڑی بدبختی ہے۔حدیث کے بارے میں محدثین کرام کا فہم معتبر ہے۔صحابیہ کا مقصد یہ تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحیح و سلامت اور مظفر و منصور واپس لوٹیں گے تو میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت ِجلیلہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دَف بجا کر خوشی کا اظہار کروں گی۔اس کا اولیاء اللہ کے نام کی نذرونیاز اور منت منوتی سے کیا تعلق؟ ’’مفتی‘‘صاحب کا اس حدیث سے ’’حضور کی خدمت میں خوشی کا نذرانہ‘‘ ثابت کرنا ان کی کوتاہ فہمی کی واضح دلیل ہے۔
رہا ’’مفتی‘‘صاحب کا یہ کہنا کہ طواف کے دو معنیٰ ہیں؛ ایک لغوی و عرفی اور دوسرا شرعی،تو دور ِحاضر کے مشرکین قبروں کا بھی طواف کرتے ہیں،شاید وہ لغوی طواف ہی کرتے ہوں۔اس طرح کل کلاں لغوی رکوع،لغوی سجدہ،لغوی نماز اور لغوی حج بھی مخلوق کے لیے جائز ہو جائے گا؟ لغت کا سہارا لے کر مخلوق کے لیے عبادات کو جائز قرار دینا ظلم عظیم ہے۔
اہل حدیث کے ممتاز عالم،حافظ خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ (م : 1997ئ)فرماتے ہیں :
’’مفتی صاحب کا یہ استدلال تب درست ہو سکتا ہے، اگر اولاً وہ یہ ثابت کر دیں کہ زندہ یا مردہ اولیاء کرام کی قبروں کا طواف لغوی معنوں میں جائز ہے یا لغوی معنوں میں انہیں سجدہ جائز ہے۔مفتی صاحب نے لغوی لغوی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔بریلویوں کو چاہیے کہ اپنے عوام کو بتلا دیں کہ ان کے مذہب کا سارا تانا بانا لغوی ہے،شرعی نہیں۔عبادات اور شرعی اصطلاحات کو لغوی معنیٰ پہنا کر غیر اللہ کے لیے جائز کر دینے کو مذہبی تخریب کاری کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟یہ دین کی خدمت نہیں،ہندوانہ سازش ہے۔‘‘(معرکہ حق و باطل، ص : 635)

اسی سلسلے میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی لکھتے ہیں :
’’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی حاجت کے وقت اولیاء اللہ کی نذر اس طرح مانے ؛ ’اے داتا! اگر تو نے میری یہ حاجت پوری کر دی تو میں تیرے لیے ایک بکرا پیش کروں گا۔‘ تو یہ نذر جائز ہے،کیونکہ یہ نذر لغوی ہے۔اور جو نذر غیراللہ کی حرام ہے،وہ نذرِ فقہی یا نذر ِشرعی ہے۔اور نذرِ لغوی اور نذر ِشرعی میں ان لوگوں کے نزدیک صرف یہ فرق ہے کہ نذر ِشرعی میں اللہ کی نذر مانی جاتی ہے اور نذرِ لغوی میں اولیاء اللہ کی نذر مانی جاتی ہے۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس طرح غیر اللہ کے لیے سجدہ،طواف،روزہ اور دیگر عبادات بھی جائز ہو جائیں گی،مثلاً کوئی شخص کسی ولی کو سجدہ کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی سجدہ ہے،کوئی شخص کسی ولی کی قبر کا طواف کرے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی طواف ہے اور کوئی شخص کسی ولی کے لیے روزے رکھے گا اور کہے گا کہ یہ لغوی روزہ ہے اور اسی طرح لغت کے سہارے غیر اللہ کے لیے تمام عبادات کا دروازہ کھل جائے گا،کیونکہ جس طرح نذر بالاتفاق عبادت ہے،لیکن لغوی نذر غیراللہ کے لیے شرعاً مانی جا سکتی ہے،تو اسی طرح غیر اللہ کے لیے لغوی نماز پڑھی جا سکتی ہے،غیراللہ کے لیے لغوی روزے رکھے جا سکتے ہیں اور لغوی حج کیے جا سکتے ہیں۔علی ہذا القیاس!‘‘(شرح صحیح مسلم : 542-541/4)

ایک اور دھوکہ !
’’مفتی‘‘صاحب ایک اور طرح سے دھوکہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’دیکھو ! غیر اللہ کی قسم کھانا شرعاً منع ہے اور خود قرآنِ کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسمیں کھائیں؛ {وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ ٭ وَطُورِ سِیْنِیْنَ} وغیرہ اور حضور علیہ السلام نے فرمایا : أَفْلَحَ، وَأَبِیہِ (اس کے باپ کی قسم! وہ کامیاب ہو گیا)۔مطلب یہی ہے کہ شرعی قسم جس پر احکامِ قسم کفارہ وغیرہ جاری ہو،وہ خدا کے سوا کسی کی نہ کھائی جاوے،مگر لغوی قسم جو محض تاکید ِکلام کے لیے ہو،وہ جائز۔یہی نذر کا حال ہے۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)
اس کے ردّ میں جناب غلام رسول سعیدی،بریلوی کا جواب پیش خدمت ہے :
’’یہ دلیل متعدد وجود سے صحیح نہیں ہے۔پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ غیراللہ کے لیے قسم کا ذکر قرآن اور حدیث میں آ گیا،اس لیے اس میں تاویل کی ضرورت ہے اور غیر اللہ کے لیے نذر ماننے کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے،اس لیے اس کو تاویل سے غیراللہ کے لیے جائز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘(شرح صحیح مسلم : 542/4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اولیاء کے نام پر جانور ذبح کرنے کی شرعی حیثیت


تحریر: ابوعبداللہ صارم حفظ اللہ
بت پرستی اصل میں اولیاء پرستی ہی تھی۔ مشرکین مکہ کے بت اولیاء اللہ کے نام اور ان کی صورتوں پر ہی مشتمل تھے۔ قرآنِ کریم نے صاف طور پر اس کا ردّ کیا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی بت پرستی کو مٹانے کے لیے تشریف لائے۔ اسلام کی اساس بت پرستی کے قلع قمع ہی پر قائم ہوئی، لیکن بدقسمتی سے اسی بت پرستی کو بعد کے بعض مسلمانوں نے عقیدت و محبت اولیاء کا نام دے کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا۔ آج اسلام کے نام لیواؤں نے مشرکین مکہ سے بہت سے مشرکانہ افعال مستعار لے لیے ہیں۔
اولیاء اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس طرح مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کے ناموں اور مورتیوں پر مبنی بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے تھے، ان کی تقلید میں آج کے بعض مسلمان بھی بزرگوں سے منسوب کر کے جانورچھوڑتے ہیں۔ یہ نامزد جانور عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتے، بلکہ ان لوگوں کے نزدیک وہ بڑی ’’ حرمت “ والے ہوتے ہیں۔ وہ جس کھیت میں گھس جائیں، اس کے مالک کے خیال میں اس کے ’’ وارے نیارے “ ہو جاتے ہیں۔ وہ جدھر چاہیں جائیں، کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ ان سے کوئی کام بھی نہیں لیا جاتا اور ان کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے۔ لوگ جانتے ہوتے ہیں کہ یہ فلاں درگاہ یا فلاں مزار کا جانور ہے۔
کیا فرق ہے کہ کسی جانور کو اساف، نائلہ، منات وغیرہ سے موسوم کر دیا جائے اور اسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام کا نام دے دیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ یہ اونٹ اور گائے اجمیر کی ’’ چھٹی شریف “ کے لیے مختص ہے، یا کہہ دیا جائے کہ یہ گیارہویں کا بکرا ہے یا یہ فلاں کی منت اور نیاز ہے ؟ قدیم زمانے میں بھی یہ بزرگوں کی خوشنودی اور ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا تھا اور آج بھی یہ سب کچھ اولیاء کی تعظیم اور ان کے تقرب کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان اولیاء کو خدائی طاقتوں کا مظہر سمجھ لیا گیا اور کہہ دیا گیاکہ میرا یہ کام ہو گیا تو میں فلاں مزار پر کالا بکرا ذبح کروں گا یا کالے مرغ کی منت اور چڑھاوا چڑھاؤں گا۔
غیراللہ کے نام سے منسوب کرنا اور ان کے نام پر ذبح کرنا شرک و کفر ہے۔ ایسے
جانوروں اور ایسی اشیاء کو کھانا حرام ہے۔ یہ جانور اور یہ روپیہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا واجب حق ہے کہ یہ چیزیں اسی کے نذرانے اور شکرانے میں صرف ہوں۔
✿ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ٭ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ٭ [الأنعام 6 : 163,162]
’’ (اے نبی !) کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے مطیع ہونے والا ہوں۔ “
↰ ان آیات ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا کہ میں نماز، جو کہ دین کا ستون اور رکن ہے، قلبی عبادات، جیسے خشوع اور توجہ الی اللہ، قولی عبادات، جیسے تکبیر و تحمید، قرآنِ کریم کی تلاوت، وغیرہ، عملی عبادات، جیسے قیام، رکوع، سجدہ، جلوس وغیرہ، خالص اللہ رب العالمین کے لیے ادا کرتا ہوں۔ میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتا ہوں، مشرکین کی طرح انصاب و اصنام کے لیے نہیں۔ میں ساری زندگی اپنے اللہ کی بندگی اور نیاز مندی میں گزاروں گا اور اسی پر مر جاؤں گا۔ میں اقراری ہوں کہ عبادات کی تمام انواع و اقسام میں اللہ رب العالمین کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔
◈ اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں حافظ، ابوالفداء، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ ) نے کیا خوب لکھا ہے :
يأمره تعالٰي أن يخبر المشركين، الذين يعبدون غير الله ويذبحون لغير اسمه، أنه مخالف لهم فى ذٰلك، فإن صلاته لله، ونسكه على اسمه، وحده لا شريك له، وهٰذا كقوله تعالٰي : ﴿فصل لربك وانحر﴾ [الكوثر 108 : 2] ، أى : أخلص له صلاتك وذبيحتك، فإن المشركين كانوا يعبدون الـأصنام ويذبحون لها، فأمره الله تعالٰي بمخالفتهم، والانحراف عما هم فيه، والإقبال بالقصد والنية والعزم على الإخلاص للٰه تعالٰي .
’’ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہے ہیں کہ وہ غیراللہ کی عبادت کرنے والے اور اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنے والے مشرکوں کو بتا دیں کہ آپ ان کاموں میں اُن کے مخالف ہیں۔ مشرکین مکہ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ اور ان کے لیے جانوربھی ذبح کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ آپ ان کی مخالفت کریں، ان کی اس رَوَش سے باز رہیں اور اپنی نیت و قصد اور عزم کے ساتھ اس بات پر قائم رہیں کہ ہر کام خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرناہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 128/3 ]
↰ عبادات کی تمام انواع جیسے دعا و پکار اور التجا، محبت، خوف، امید و رجا، توکل و بھروسہ، رغبت و رہب، خشوع و خضوع، رجوع و انابت، استعانت و استغاثہ، ذبح اور نذر و نیاز خالص اللہ کے لیے بجا لانی چاہئیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے واجب حق ہیں، جو اسی کے لیے پورے کیے جانے ضروری ہیں۔ تاحیات ان پر ڈٹے رہنا اور تازیست ان کی دعوت دینا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔

❀ خلیفہ چہارم، سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن الله من ذبح لغير الله
’’ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کچھ ذبح کرتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ “ [صحيح مسلم : 1978 ]
غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا باعث ِ لعنت کام ہے۔ یہ مشرکوں اور کافروں کا شعار ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کی تعظیم و تقرب کے لیے کچھ ذبح کرنا شرک ہے اور ایسا ذبیحہ حرام، یعنی اس کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ [البقرة 2 : 173]
’’ اور جو کچھ، پکارا جائے اوپر اس کے واسطے غیراللہ کے۔ “ (ترجمہ شاہ رفیع الدین )
اس آیت ِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ :
➊ کسی جانور یا کسی اور چیز کو غیراللہ کے لیے نامزد کیا جائے، خواہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ پکاراجائے، تب بھی حرام ہے۔
➋ ذبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا جائے، تب بھی حرام ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ کہہ کر ذبح کیا جائے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا جائے کہ اے اللہ ! فلاں ولی یا بزرگ کے تقرب کے لیے یہ جانور ذبح کیا گیا ہے، تب بھی حرام ہے۔
➍ اللہ کے لیے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح نام غیر اللہ کا پکاراجائے، تب بھی حرام ہے۔
➎ ذبح اللہ کے لیے کیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک نام کے ساتھ غیراللہ کا نام شامل کر دیا جائے، تب بھی حرام ہے۔
◈ فقہ حنفی بھی یہی کہتی ہے۔ حنفی مذہب کی مستند و معتبر کتابوں میں لکھا ہوا ہے :
يقول : بسم الله، واسم فلان، أو يقول : بسم الله وفلان، أو بسم الله ومحمد رسول الله، فتحرم الذبيحة، لأنه أهل به لغير الله .
’’ اگر کوئی بندہ بوقت ِ ذبح کہے : بِسْمِ اللّٰهِ، وَاسْمِ فُلَانٍ اللہ کے نام کے ساتھ اور فلاں کے نام کے ساتھ، یا بِسْمِ اللّٰهِ، وَفُلَانٍ اللہ اور فلاں کے نام کے ساتھ، یا بِسْمِ اللّٰهِ وَمُحَمَّدِ رَّسُولِ اللّٰهِ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ، تو ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے، کیونکہ اس پر غیر اللہ کا نام پکار دیا گیا ہے۔ “ [بدائع الصنائع للكاساني : 48/5، الهداية للمرغيناني : 435/2 ]

شبہات اور ان کا ازالہ
اس مسئلے میں بریلوی مکتب ِ فکر کا موقف ہے کہ اگر کسی جانور کو اولیاء کے نام سے منسوب کر دیا جائے اور وقت ِ ذبح اللہ کا نام لے لیا جائے تو وہ حلال ہے۔ اس لیے وہ آیت ِ کریمہ وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کی تفسیر و تاویل یہ کرتے ہیں کہ وہ جانور حرام ہے، جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا جائے، حالانکہ اس آیت ِ کریمہ کو وقت ِ ذبح کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس آیت ِ کریمہ کے مطابق کسی جانور پر کسی بھی وقت غیراللہ کا نام پکارنے سے وہ حرام ہو جاتا ہے۔ وقت ِ ذبح بھی اسی حرمت کا ایک موقع اور محل ہے۔

➊ وقت ِذبح کی قید نہیں :
إِهْلَال كے معنيٰ رَفْعُ الصَّوْتِ یعني آواز بلند کرنا ہے، یعنی ذبح کے وقت یا ذبح سے پہلے، کسی بھی وقت اس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے تو جانور حرام ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مفسرین نے ذبح کے وقت نام پکارنے کو إِهْلَال کہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عام اوقات میں جانور کو غیراللہ کے نام منسوب کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ مشرکین کی عام عادت یہ تھی کہ جو جانور انہوں نے غیراللہ، یعنی بزرگوں کے بتوں کے تقرب و تعظیم میں چھوڑے ہوتے تھے، ذبح کے وقت ان پر ان ہی کا نام پکارتے تھے۔ لہٰذا اگر کسی جانور پر بغرضِ تعظیم و تقرب کسی کا نام پکارا جائے اور وقت ِ ذبح اللہ کا نام لے کر ذبح کر دیا جائے تو بھی وہ حرام ہی ہو گا۔
اس لیے مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (م : 1391ھ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ : ’’ پکارنے سے مراد وقت ِ ذبح پکارنا ہے۔ “ [ ’’جاء الحق‘‘ : 359/1]
یہی نظریہ ملا جیون، ماتریدی، حنفی (م : 1130ھ) کا ہے، وہ لکھتے ہیں :

ومن هٰهنا علم أن البقرة المنذورة للـأولياء، كما هو الرسم فى زماننا، حلال طيب، لأنه لم يذكر اسم غير الله عليها وقت الذبح، وإن كانوا ينذرونها له .
’’ اس سے معلوم ہوا کہ وہ گائے جسے اولیاءکے لیے نذر مانا گیا ہے، جیسا کہ ہمارے زمانے میں رواج ہے، وہ حلال اور پاکیزہ ہے، کیونکہ بوقت ِ ذبح اس پر غیراللہ کا نام نہیں لیا گیا، اگرچہ اسے غیراللہ کی نذر کیا گیا ہے۔ “ [ التفسيرات الأحمديّة، ص : 45 ]

اس شبہ کے ردّ و جواب میں عالم اسلام کے عظیم سکالر، ممتاز اہل حدیث عالم، علامہ، ڈاکٹرشمس الدین، سلفی، افغانی (م :1420ھ/1997ء) فرماتے ہیں :
لقد أجاب علمائ الحنفية عن هٰذه الشبهة، أن العبرة فى النذر لغير الله تعالٰي للنية، لا لذكر اسم غير الله عند ذبح المنذور، فمن نذر بقرة لميت، مثلا، فقد أشرك بمجرد نذره إياه له، سوائ ذكر اسم الله عند ذبحها، أو ذكر اسم ذٰلك الميت، فإن العبرة لنية هٰذا الناذر، المتقرب إلٰي ذٰلك الميت، الطالب بنذره له كشف المعضلات، وجلب الخيرات منه، لقوله تعالٰي :﴿وما اهل به لغير الله﴾ [البقرة 2 : 173] ، وقوله تعالٰي : ﴿وما اهل لغير الله به﴾ [المائدة 5 : 3، والنحل 16 : 115] ، وقوله تعالٰي : ﴿او فسقا اهل لغير الله به﴾ [الأنعام 6 : 145] ، فما أهل به لغير الله أعم من المذبوح باسم غير الله، فإن ما أهل به لغير الله قد يكون من قبيل المشروبات، أو الملبوسات، أو المشمومات، بل قد يكون من المعادن، كالذهب، والفضة، والياقوت، والمرجان، ونحوها، وقد يكون من المطعومات التى لا تحتاج إلى الذبح، كالسمك، والزيت، والسمن، والعسل، ونحوها، لأن (الإهلال) هو رفع الصوت بالشيئ، وليس معناه الذبح، فمن زعم أن معنٰي قوله : ﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، ما ذبح باسم غير الله، بأن يذكر اسمه عليه وقت الذبح، فقد غلط غلطا مبينا، وقيد مطلق الكتاب، وخصص عامه بدون دليل مسوغ، وتقول على اللغة العربية ما لا يعرفه العرب، فإن الإهلال لم يعرف عند العرب بمعني الذبح، وأما ما ذكره بعض المفسرين فى تفسير هٰذه الآية : وما ذبح للـأصنام والطواغيت، ونحو ذٰلك، فليس هٰذا معناها اللغوي الكامل، بل قصدهم بيان فرد من أفراد ﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، فإن المشركين السابقين كانوا عادة إذا نذروا شيئا من الـأنعام لآلهتهم ذبحوه بأسمائها، بخلاف القبورية فى هٰذه الـأمة، فإنهم إذا نذروا بقرة، مثلا، لأوليائهم الـأموات، مثلا، ذبحوها باسم الله تعالٰي لسانا وظاهرا، حيلة منهم، ولٰكن هٰذا المنذور المذبوح يكون مذبوحا فى الحقيقة باسم ذٰلك الولي الميت، فهم، وإن لم يذكروا اسم هٰذا الولي المنـذور له ظاهرا علٰي ألسنتهم عند ذبح ذٰلك الحيوان المنذور، لٰكنهم يذكرون اسم وليهم باطنا فى قلوبهم قبل ذبحه، وعند ذبحه، وبعد ذبحه، دل علٰي ذٰلك نذرهم له، ونيتهم، وتقربهم إليه، واستعطافهم إياه لدفع الملمات، وجلب الخيرات، إذا لا تأثير لذكر اسم الله تعالٰي عليه عند الذبح، ما دام المنذور لغير الله تعالٰي، فذبحهم باسم الله تعالٰي ليس إلا حيلة قبورية، لا تنجيهم من الشرك والتحريم، لأن العبرة للنية، لا لذكر اسم الله تعالٰي على اللسان، فهٰذا الناذر مشرك، وهٰذا المنذور حرام، وإن ذكر اسم الله عليه وقت الذبح .
’’ علمائے احناف نے اس شبہے کا جواب یہ دیا ہے کہ غیراللہ کی نذر ماننے میں اعتبار نیت کا ہو گا، نہ کہ نذر کیے گئے جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کرنے کا۔ جس شخص نے کسی میت کے لیے کوئی گائے نذر مانی تو وہ محض نذر کرنے ہی سے مشرک ہو جائے گا، خواہ وہ اسے ذبح کرتے وقت اس میت کا نام لے یا نہ لے۔ اعتبار تو اس نذر ماننے والے کی نیت کا ہے جو اس میت کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس نذر کے ذریعے میت سے مشکلات کو دُور کرنے اور بھلائیوں کو قریب کرنے کا طالب ہے، کیونکہ وما اهل به لغير الله [البقرة 2 : 173] ”اور جس کو غیراللہ کے لیے پکارا جائے“، و وما اهل لغير الله به [المائدة 5 : 3، والنحل 16 : 115] ”اور جس کو غیراللہ کے لیے پکارا جائے“، او فسقا اهل لغير الله به [الأنعام 6 : 145] یا وہ فسق ہو کہ اس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا گیاہو۔ ان سب فرامین باری تعالیٰ میں غیراللہ کے لیے پکارا جانا عام ہے، خواہ اسے غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ جس چیز پر غیراللہ کا نام پکارا جائے، وہ بسا اوقات مشروبات یا ملبوسات یا عطریات سے تعلق رکھتی ہوتی ہے، بلکہ بسا اوقات معدنیات، مثلاً سونا، چاندی، یاقوت و مرجان وغیرہ کی ہوتی ہے اور کبھی تو کھانے کی ایسی چیز ہوتی ہے، جسے ذبح کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، جیسا کہ مچھلی، تیل، گھی اور شہد وغیرہ (تو کیا غیراللہ کی ایسی نذر جائز ہو جائے گی ؟)۔ اِ هلال کا معنی آواز بلند کرنا ہے، ذبح کرنا نہیں۔ جس نے یہ دعویٰ کیا کہ فرمانِ باری تعالیٰ : وما اهل به لغير الله [البقرة 2 : 173] سے مراد وہ جانور ہے جس پر بوقت ِ ذبح غیراللہ کا نام لیا جائے، اس نے بڑی فحش غلطی کی ہے اور قرآنِ کریم کی ایک مطلق آیت کو بغیر کسی دلیل کے مقید اور ایک عام آیت کو بغیر دلیل کے خاص کر دیا ہے، اس نے عربی زبان میں ایسی بات شامل کرنے کی کوشش کی ہے، جسے عرب لوگ جانتے تک نہیں۔ اہل عرب کے ہاں اهلال ذبح کے معنی میں نہیں ہوتا۔ بعض مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں جو اس طرح کی بات کہی ہے کہ ایساجانور جو بتوں اور طاغوتوں کے لیے ذبح کیا جائے۔۔۔، تو انہوں نے اس لفظ کا پورا لغوی معنی نہیں کیا، بلکہ ان کا مقصود اس آیت ِ کریمہ میں مراد لی گئی چیزوں میں سے ایک چیز کو بیان کرنا تھا، کیونکہ پہلی امتوں کے مشرکین جب کسی جانور کو اپنے معبودوں کے لیے نذر کرتے تھے تو عموماً اسے انہی معبودوں کا نام لے کر ذبح کرتے تھے۔ اس امت کے قبر پرست اپنی قبر پرستی کے لیے حیلہ کرتے ہوئے اولیاء کی نذر کیے گئے جانور کو ظاہری طور پر اللہ کے نام پر ذبح کر دیتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ جانور اسی مردہ ولی کے نام پر ذبح ہوتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ ظاہری طور پر اپنی زبان سے اس ولی کا نام نہیں لیتے، لیکن ان کے دلوں میں اس جانور کو ذبح کرنے سے پہلے، ذبح کرتے وقت اور ذبح کرنے کے بعد اسی کا ذکر ہوتا ہے۔ ان کا اس جانور کو میت کی نذر کرنا، دل میں جانور کو اس میت سے منسوب کرنا، جانور کا نذرانہ پیش کر کے اس ولی کے تقرب کے حصول کی کوشش اور اس سے مصائب کو دُور کرنے اور آسائشوں کو قریب لانے کی فریاد کرنا، یہ سب چیزیں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ معلوم ہوا کہ جب جانور کو غیر اللہ کی نذر کیا گیا ہو، اس وقت زبانی طور پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا تو قبر پرستی کا ایک حیلہ ہے، جو انہیں شرک کرنے اور حرام کھانے سے بری نہیں کر سکتا، کیونکہ اعتبار تو نیت کا ہے نہ کہ زبانی طور پر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کا۔ ایسی نذر ماننے والا مشرک ہے اور ایسا نذر کیا گیا جانور حرام ہے، اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کیا جاتارہے۔ “ [جهود علماء الحنفيّة فى إبطال عقائد القبوريّة : 1561/3، 1562]

◈ شیخ الاسلام، ابوالعباس، احمد بن عبدالحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ ) فرماتے ہیں :
فإن قوله تعالٰي : ﴿وما اهل لغير الله به﴾ [المائدة 5 : 3] ظاهره أنه ما ذبح لغير الله، مثل أن يقال : هٰذا ذبيحة لكذا، وإذا كان هٰذا هو المقصود، فسوائ لفظ به أو لم يلفظ، وتحريم هٰذا أظهر من تحريم ما ذبحه للحم، وقال فيه : باسم المسيح، ونحوه، …، فإذا حرم ما قيل فيه : باسم المسيح، أو الزهرة، فلـأن يحرم ما قيل فيه : لأجل المسيح والزهرة، أو قصد به ذٰلك، أولٰي، وهٰذا يبين لك ضعف قول من حرم ما ذبح باسم غير الله، ولم يحرم ما ذبح لغير الله، …، وعلٰي هٰذا، فلو ذبح لغير الله متقربا به إليه لحرم، وإن قال فيه : بسم الله، كما يفعله طائفة من منافقي هٰذه الـأمة، الذين يتقربون إلى الـأوليائ والكواكب، بالذبح، والبخور، ونحو ذٰلك .
’’ فرمانِ باری تعالیٰ وما اهل لغير الله به [المائدة 5 : 3] اور جو غیراللہ کے لیے ذبح کیا جائے، مثلاً کہا یہ جانور فلاں کے لیے ذبح کیا گیا ہے۔ جب مقصد یہ ہو تو زبان سے ادا کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی حرمت اس جانور کی حرمت سے زیادہ واضح ہے جسے گوشت کھانے کی نیت سے ذبح کیا جائے، لیکن ذبح کرتے وقت اس پر مسیح کا نام لیا جائے۔۔۔ جب مسیح یا کسی ستارے کا نام لے کر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے تو وہ جانور بالاولیٰ حرام ہے جس کے بارے میں کہہ دیاجائے کہ یہ مسیح یا کسی ستارے کے لیے ہے یا ایسی نیت کر لی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بات کمزور ہے جو کہتے ہیں کہ غیراللہ کے نام لے کر ذبح کیا گیاجانور تو حرام ہے، لیکن غیراللہ کے لیے ذبح کیا گیا جانور حرام نہیں۔۔۔ اس لیے جو جانور کسی غیراللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے، وہ حرام ہے، اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا جائے۔ جیسا کہ اس امت کے منافقوں کا ایک گروہ کرتا ہے، یہ لوگ اولیاء اللہ یا ستاروں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور عطریات وغیرہ کے ذریعے ان کی نذریں مانتے ہیں۔ “ [اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 64/2 ]

◈ شارحِ صحیح بخاری، حافظ، احمد بن علی، ابن حجر رحمہ اللہ ( 852-773ھ) فرماتے ہیں :
﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، أى ما ذبح لغيره، وأصله رفع الذابح صوته بذكره من ذبح له .
’’ اس فرمانِ باری تعالیٰ سے مراد وہ جانور ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ذبح کیا جائے۔ اہلال کا اصل معنی یہ ہے کہ ذبح کرنے والا اس ہستی کا بلند آواز سے ذکر کرے، جس کے لیے جانور ذبح کیا جا رہا ہو۔ “ [هُدي الساري مقدّمة فتح الباري، ص : 202]

◈ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہوا ہے :
ذبح لقدوم الـأمير، ونحوه، كواحد من العظمائ، يحرم، لـأنه أهل به لغير الله، ولو ذكر اسم الله تعالٰي .
’’ امیر یا اس طرح کے کسی بڑے کی آمد پر جانور ذبح کرنا حرام ہے، کیونکہ اس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہے، اگرچہ اس پر (بوقت ِ ذبح ) اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کیا گیا ہو۔ “ [الدر المختار للحصكفي : 320/2، الدر المختار مع رد المحتار لابن عابدين : 195/6، وفي نسخة : 309/6، مجموعة الفتاوي لعبد الحئ اللكنوي الحنفي : 306/2، 223/3]
◈ معلوم ہوا کہ غیراللہ کا تقرب مقصود ہو تو ذبح کیا گیا جانورحرام ہوتا ہے، خواہ ذبح کے وقت غیراللہ کا نام نہ پکارا جائے، بلکہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے۔
ان عبارتوں سے اہلال کا معنی واضح ہو جاتا ہے، یعنی وہ جانور حرام ہے جس کے متعلق غیراللہ کی تعظیم کی نیت ہو، وقت ذبح کی کوئی قید نہیں۔

◈ شاہ عبدالعزیزدہلوی حنفی بن شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی (1239-1159ھ) لکھتے ہیں :
’’ اگر یہ نیت ہو کہ غیراللہ کا تقرب حاصل ہو تو اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں، تب بھی وہ ذبیحہ حرام ہو گا۔ “ [فتاوي عزيزيه : 47/1]

◈ جناب احمد سرہندی، الملقب بہ ’’ مجدد الف ثانی “ (م : 1034ھ) فرماتے ہیں :
’’ بزرگوں کے لیے جو نذریں حیوانات کی مانتے ہیں اور ان کو قبروں پر لے جا کر ذبح کرتے ہیں، فقہی روایات نے اس عمل کو شرک میں داخل کیا ہے۔ “ [مكتوبات امام رباني، ص : 73، مكتوب نمبر 41، دفتر : 3 ]

علامہ، محمد بن علی، شوکانی، یمنی رحمہ اللہ (1250-1173ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
والمراد هنا ما ذكر عليه اسم غير الله، كاللات، والعزٰي، إذا كان الذباح وثنيا، والنار، إذا كان الذابح مجوسيا، ولا خلاف فى تحريم هٰذا وأمثاله، ومثله ما يقع من المعتقدين للـأموات، من الذبح علٰي قبورهم، فإنه مما أهل به لغير الله، ولا فرق بينه وبين الذبح للوثن .
’’ اس آیت ِ کریمہ میں وہ جانور مراد ہے جس پر غیراللہ کا نام لیا جائے، جیسا کہ اگر ذبح کرنے والا بت پرست ہو تو وہ لات و عزی کا نام لے گا اور اگر وہ مجوسی ہو تو آگ کا۔ اس طرح کے جانوروں کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ مردہ پرستوں کی طرف سے قبروں پر جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں، وہ بھی اسی طرح حرام ہیں، کیونکہ ان پر بھی غیراللہ کا نام پکارا گیا ہوتا ہے۔ قبروں پر اور بتوں کے استہانوں پر جانور ذبح کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ “ [فتح القدير الجامع بين فنّي الرواية والدراية من علم التفسير : 196/1]
↰ معلوم ہوا کہ جو جانور بتوں، دیویوں، دیوتاؤں، آستانوں، قبروں اور اولیاء اللہ کے لیے نامزد ہو گیا، اسے بسم اللہ پڑھ کر بھی ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہی رہتا ہے، کیونکہ اس کو غیر اللہ کے لیے مقرر کرنے والے کا مقصد گوشت نہ تھا، بلکہ غیراللہ کا تقرب تھا۔

’’ مفتی “ احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب ایک اشکال ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ اگر کسی نے جانور میت کے نام پر پالا، بعد میں اس سے تائب ہو گیا اور خالص نیت سے اس کو ذبح کیا تو یہ بالاتفاق حلال ہے، حالانکہأُهِلَّ میں تو یہ بھی داخل ہو گیا۔ اگر ایک بار بھی غیراللہ کا نام اس پر بول دیا مَا أُهِلَّ کی حد میں آ گیا۔ اب ماننا پڑا کہ وقت ذبح اللہ کا نام پکارنا معتبر ہے، نہ کہ قبل کا۔ [’’جاء الحق‘‘ : 364-363/1]

جس وجہ سے اس حلال جانور کا کھانا حرام ہوا تھا، جب وہ وجہ ہی ختم ہو گئی تو اس کا کھانا جائز ہو گیا۔ جب ایک شخص نے اپنے دل سے غیراللہ کی نذر و نیاز کی نیت ہی ختم کر دی تو وہ جانور غیراللہ سے منسوب رہا ہی نہیں۔ اس سے وقت ِ ذبح کی قید کیسے ثابت ہو گئی ؟
➋ نذر و نیاز والی نسبت شرک ہے :
کسی چیز کو اگر اولیاء اللہ کی طرف منسوب کیا جائے تو یہ نسبت نذر و نیاز کی ہو گی، جو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک، حرام اور ناجائز ہے۔ اس کے برعکس کوئی جانور اپنے مالک کی طرف منسوب ہو تو یہ نسبت نذر و نیاز کی نہیں بلکہ ملکیتی ہے، اسی طرح اگر اسے کسی موقع کے ساتھ منسوب کر دیاجائے، مثلاً عید کا بکرا، تو یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے لیے نذر و نیاز کی ہے، جو کہ عین عبادت ہے اور ولیمے کی گائے، وغیرہ، یہ نسبت غیراللہ کے لیے نذر و نیاز کی نہیں۔ اتنی سی بات بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔

◈ جناب ’’ مفتی “ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں :
’’ جب أُهِلَّ کے لغوی معنی مراد ہوئے، یعنی جانور پر اس کی زندگی میں یا بوقت ِ ذبح غیراللہ کا نام پکارنا جانور کو حرام کر دیتا ہے تو لازم آیا کہ جانور کے سوا دوسری اشیاء بھی غیراللہ کی طرف نسبت کرنے سے حرام ہو جاویں، کیونکہ قرآن میں آتا ہے : وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ
”ہر وہ چیز جو کہ غیراللہ کے نام پر پکاری جائے۔“ ما میں جانور کی قید نہیں۔ پھر
خواہ تقرب کی نیت سے پکارا یا کسی اور نیت سے بہرحال حرمت آنی چاہیے، تو زید کا بکرا، عمرو کی بھینس، زید کے آم، بکر کے پھل، فلاں کی بیوی۔۔۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 363/1]
ان لوگوں کو کوئی پوچھے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا شرک ہے، اس کا مصداق بھی کوئی ہے یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ جو جانور غیراللہ کے لیے نذر نیاز کی نیت سے منسوب کر کے ذبح کیا جائے گا، وہی حرام ہو گا اور یہی نسبت شرک ہو گی، اس کے علاوہ باقی ساری نسبتیں جائز ہوں گی۔
صاف ظاہر ہے کہ جو جانور یا چیزیں اصحاب ِ قبور اور اولیاءاللہ کی طرف منسوب ہوتی ہیں، وہ ان کی نذر و نیاز ہونے کی بنا پر ہی منسوب ہوتی ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ یہ غوث پاک کی گائے ہے یا یہ شیخ سدو کا بکرا ہے تو یہ غیراللہ کے لیے نذر و نیاز ہی تو ہے۔
’’ مفتی “ صاحب کی ایک تعجب خیز بات ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں :
’’ گیارہویں کا بکرا یا غوث پاک کی گائے وغیرہ، یہ شرعاً حلال ہے، جیسا کہ ولیمہ کا جانور۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 359,358/1]
حلت و حرمت کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی انسان کو اسے اپنے ہاتھ میں کرنے کی اجازت نہیں، لیکن ’’ مفتی “ صاحب شاید حلت و حرمت کو اپنی اجارہ داری سمجھ رہے ہیں !
ہمارا سوال ہے کہ ولیمہ کے جانور کی نسبت تو شریعت سے ثابت ہے، لہٰذا ولیمے کا جانور شرعاً حلال ہوا، لیکن گیارہویں کا بکرا یا غوث پاک کی گائے والی نسبت کس شریعت سے ثابت ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ نسبت شریعت ِ اسلامیہ سے ثابت ہو گی تو ہی ایسا جانور شرعاً حلال ہو گا۔
بتائیں کہ کس صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی گائے چھوڑی یا ذبح کی ؟
کہاں غیراللہ کی نذر و نیاز کے لیے ان سے جانور منسوب کرنے کا شرکیہ عمل اور کہاں ولیمہ جیسے مسنون عمل کے لیے منسوب جانور۔ جب دامن دلائل سے خالی ہو جائے تو ایسی ہی بے ربط باتیں کی جاتی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ’’ مفتی “ صاحب غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کے ثبوت کے لیے غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز ثابت کرتے، لیکن انہوں نے جاہل عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس طرح کی الٹی سیدھی باتیں شروع کر دی ہیں۔

➌ گوشت کھانا یا نہ کھانا مؤثر نہیں :
غیراللہ کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے، اس کا گوشت کھانے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اسے کھایا جائے یا نہ کھایا جائے، وہ حرام ہی ہوتا ہے۔
’’ مفتی “ صاحب فقہ حنفی کی کچھ عبارات کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ غیر خدا کو راضی کرنے کے لیے صرف خون بہانے کی نیت سے ذبح کرنا کہ اس میں
گوشت مقصود نہ ہو، جیسے کہ ہندو لوگ بتوں یا دیوی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں کہ اس سے
صرف خون دے کر بتوں کو راضی کرنا مقصود ہے۔ یہ جانور اگر بسم اللہ کہہ کر بھی ذبح کیا
جاوے، جب بھی حرام ہے، بشرطیکہ ذبح کرنے والے کی نیت بھینٹ کی ہو، نہ کہ ذبح کرانے والے کی۔ ان فقہی عبارات سے یہ ہی مراد ہے۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 365,364/1]
کیا بریلوی حضرات بزرگوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں تو ان کا مقصود گوشت کھانا ہوتا ہے ؟ کیا قبروں پر جانور ذبح کرنے والے گوشت کھانے کے لیے ایساکرتے ہیں ؟
ہم ’’ مفتی “ صاحب کی اس عبارت پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے، اسی عبارت کوحسب ِ
حال ہندو کی جگہ بریلوی اور بتوں کی جگہ قبروں وغیرہ کے الفاظ لگا کر لکھ رہے ہیں اور
فیصلہ اربابِ فکر و نظر پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود ہی انصاف کر دیں، ملاحظہ فرمائیں :
’’ غیر خدا کو راضی کرنے کے لیے صرف خون بہانے کی نیت سے ذبح کرنا کہ اس میں گوشت مقصود نہ ہو، جیسے کہ بریلوی لوگ قبروں، آستانوں اور اولیاءاللہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں کہ اس سے صرف خون دے کر اصحاب ِ قبور کو راضی کرنا مقصود ہے۔ یہ جانور اگر بسم اللہ پڑھ کر بھی ذبح کیا جاوے، جب بھی حرام ہے۔ “
رہا ’’ مفتی “ صاحب کا یہ شرط ذکر کرنا : ’’ بشرطیکہ ذبح کرنے والے کی نیت بھینٹ کی ہو، نہ کہ ذبح کروانے والے کی۔ “ تو یہ شرط فقہائے احناف کی گھڑنتل ہے۔ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ و تابعین میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ سلف صالحین اور ائمہ ھدیٰ میں سے کوئی بھی ان کا ہم خیال نہیں۔

احناف کی فقہی موشگافیاں :
حنفی مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے :
مسلم ذبح شاة المجوس، لبيت نارهم، أو الكافر، لآلهتهم، تؤكل، لأنه سمي الله تعالٰي، ويكره للمسلم .
’’ مسلمان نے مجوسی کی وہ بکری، جو ان کے آتش کدہ کے لیے تھی، یا کافر کی، ان کے
معبودوں کے لیے تھی، ذبح کی، وہ حلال ہے، کیونکہ اس مسلمان نے اللہ کا نام لیا ہے، مگر یہ کام مسلمان کے لیے مکروہ (ناپسندیدہ ) ہے۔ “ [فتاويٰ عالمگيري : 115/3]
یہ سب اپنی شکم پروری کے طریقے ہیں۔ کافروں کا حرام مال اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر یہ حیلہ تراش لیا گیا۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ؟
آئیے ذبح سے متعلق اس ’’ فقہ شریف “ کا ایک اور مسئلہ ملاحظہ فرمائیں :
وفي فتاوٰي أهل سمرقند : إذا ذبح كلبه، وباع لحمه جاز، وكذا إذا ذبح حماره، وباع لحمه، وهٰذا فصل اختلف فيه المشايخ فيه، بنائ على اختلافهم فى طهارة هٰذا اللحم بعد الذبح، واختيار الصدر الشهيد علٰي طهارته .
’’ اہل سمرقند کے فتاوی میں ہے کہ جب (کوئی حنفی ) اپنے کتے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت فروخت کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے گدھے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت فروخت کرے (تو جائز ہے )۔ اس مسئلے میں ہمارے مشایخ کا اختلاف ہے اور اس کی وجہ ذبح ہونے کے بعد اس گوشت کے پاک ہونے میں اختلاف ہے۔ صدر شہید نے اس گوشت کے پاک ہونے کو ہی اختیار کیا ہے۔ “ [فتاويٰ عالمگيري : 115/3]

اس طرح کے فتووں کا وقوع کسی انسان سے اسی وقت ہوتا ہے، جب اس کا دل تقویٰ سے خالی ہو جاتا ہے، ورنہ اللہ سے ڈرنے والے کبھی ایسی باتیں نہیں کر سکتے۔
آئیے اب آتے ہیں کلیساؤں اور آتش کدوں پر جانور ذبح کرنے کی طرف۔ فقہ حنفی نے اس حوالے سے بھی اپنے پیروکاروں کو محروم نہیں رکھا۔ فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب میں لکھا ہے :
وإن أوصي الذمي للبيعة أو للكنيسة، أن ينفق عليها فى إصلاحها، أو أوصٰي أن يبنٰي بماله بيعة، أو كنيسة، أو بيت نار، أو أوصٰي بأن يذبح لعيدهم، أو للبيعة، أو لبيت نارهم ذبيحة، جاز فى قول أبي حنيفة، ولم يجز شيئ منه فى قول أبي يوسف ومحمد .
’’ اگر ذمی شخص یہ وصیت کرے کہ کلیسے یا گرجے کی مرمت کے لیے مال خرچ کیا جائے، یا وہ وصیت کر دے کہ اس کے مال سے کلیسہ، گرجہ یا آتش کدہ بنایا جائے، یا وہ وصیت کرے کہ ذمیوں کی عید کے موقع پر یا ان کے کلیسہ کے لیے یا ان کے آتش کدے کے لیے جانور ذبح کیا جائے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق یہ کام جائز ہے، جبکہ (قاضی ) ابویوسف محمد ( بن حسن شیبانی ) نے اس میں سے کسی کام کو بھی جائز قرار نہیں دیا۔ “ [المبسوط للسرخسي : 94/28]

ایک طرف احناف کی یہ فقہ شریف کلیساؤں، گرجا گھروں اور آتش کدوں کی مرمت و تعمیر اور آگ جیسے باطل معبودوں کے لیے جانور ذبح کرنے کو بھی سندِ جواز دے رہی ہے، جبکہ دوسری طرف اس فقہ کے بعض پیروکار اہل حدیثوں کی مساجد کو منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ کیسا ایمان اور کیسا اسلام ہے ؟
حنفی فقہاء کی مذکورہ عبارات کو بنیاد بنا کر ’’ مفتی “ صاحب لکھتے ہیں :
’’ دیکھیے جانور پالنے والا کافر ہے اور ذبح بھی کراتا ہے بت یا آگ کی عبادت کی نیت سے، گویا مالک کا پالنا اور ذبح کرانا دونوں فاسد، مگر چونکہ بوقت ِ ذبح مسلمان نے بسم اللہ کہہ کر ذبح کیا ہے، لہٰذا جانور حلال ہے۔ کہیے گیارہویں یا میلاد کا بکرا اس بت پرست کے بکرے سے بھی گیا گزرا ہے کہ وہ تو حلال مگر یہ حرام ؟ والحمدللہ ! بخوبی ثابت ہوا کہ یہ گیارہویں وغیرہ کا جانورحلال ہے اور یہ فعل باعث ِ ثواب۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 361/1]

یہ محض سینہ زوری ہے۔ حنفی فقہاءکے یہ حوالے حنفی تقلیدیوں کو ہی پیش کیے جائیں۔ انہی کے نزدیک بت پرستوں کی عبادت گاہوں اور معبودوں کے لیے ذبح کیاجانے والا جانور حلال ہو گا اور انہی کے نزدیک اس سے گیارہویں کا بکرا حلال ہو گا۔ ہمارے نزدیک نہیں۔ بت یا آگ کی عبادت کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے لیے نذر و نیاز کی نیت سے، دونوں حرام ہیں، خواہ انہیں مسلمان اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، کیونکہ یہ دونوں جانور غیراللہ کی نذر و نیاز کے لیے ذبح کیے گئے ہیں۔ نذر و نیاز عبادت ہے، جیسے نماز و روزہ عبادت ہے۔ کوئی کسی بت کے لیے نماز پڑھے یا کسی نیک ولی کے لیے، دونوں صورتوں میں شرک اور حرام ہے۔
جو لوگ مجوسیوں کے آتش کدوں اور آگ کے لیے وقف بکروں کو حلال کر لیتے ہیں، ان کے لیے گیارہویں کے بکرے کو حلال قرار دینا کوئی مشکل نہیں۔ البتہ جو لوگ قرآن و حدیث، سلف صالحین اور ائمہ دین کی پیروی کرتے ہیں، ان کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے ’’ شیخ الحدیث “ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں :
واعلم أن الإهلال لغير الله تعالٰي، وإن كان فعلا حراما، لٰكن الحيوان المهل حلال، إن ذكاه بشرائطه، وكذا الحلوان التى يتقرب بها للـأوثان أيضا، جائزة على الـأصل .
’’ جان لو کہ غیراللہ کے لیے ذبح کرنا اگرچہ حرام کام ہے، لیکن اگر اس جانور کوشرائط کے مطابق ذبح کیا جائے تو وہ حلال ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ مٹھائی جو بتوں کے تقرب کے لیے رکھی جاتی ہے، وہ بھی اصل کی بنا پر جائز ہے۔ “ [فيض الباري : 180/4]
ہم بھی حیران تھے کہ دیوبندی حضرات حرام سمجھتے ہوئے بھی مزارات کی نذر و نیاز اور گیارہویں کے حلوے کیوں ڈکار جاتے ہیں۔ اب یہ عقدہ کھلا ہے کہ اس مسئلے میں بریلوی اور دیوبندی حضرات متفق ہیں۔ شاید یہ بھی دارالعلوم دیوبندکی برکات میں سے ہے۔
یہاں کشمیری صاحب کا ایک اور کارنامہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں، لکھتے ہیں :
قال أبو المنذر : وقد بلغنا أن النبى صلى الله عليه وسلم ذكرها يوما، فقال : لقد اهتديت للعزٰي شاة عفرائ، وأنا علٰي دين قومي .
’’ ابومنذر نے کہا کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بتوں کا ذکر کیا اور فرمایا : میں نے عزی کے لیے ایک مٹیالے رنگ کی بکری کا چڑھاوا چڑھایا۔ اس وقت میں اپنی قوم (قریش ) کے دین پرتھا۔ “ [فيض الباري : 238/4]
استغفراللہ ! ان لوگوں کی جرأت اور بے باکی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی گمراہ اور مجہول شخص کی بیان کردہ انتہائی جھوٹی بات منسوب کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی دور میں مشرک بھی رہے تھے ؟ ؟ العياذبالله

فقہ حنفی اور غیر اللہ کی نذر و نیاز :
گیارہویں والے ہمارے بھائیوں کو اپنی فقہ کا یہ قول بھی ضرور یاد رکھنا چاہیے :
والنذر للمخلوق لا يجوز، لأنه عبادة، والعبادة لا تكون للمخلوق .
’’ مخلوق کے لیے نذر و نیاز جائز نہیں، کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہو سکتی۔ “ [فتاوٰي شامي : 439/2 ]

جانوروں کی غیر اللّٰہ کی طرف نسبت اور قرآن :
اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ [المائدة 5 : 3]
’’ اور جو جانور آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو۔ “
یعنی قبروں اور مزاروں پر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے، اگرچہ اس پر بوقت ِ ذبح اللہ کا نام پکار دیا جائے، اس کو کھانے سے روک دیا گیا ہے۔
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللّٰهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ [النحل 16 : 56]
’’ اور وہ اللہ کے دئیے گئے رزق سے ان (معبودانِ باطلہ ) کا حصہ مقرر کرتے ہیں، جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ اللہ کی قسم ! تم سے تمہارے جھوٹوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔ “

◈ امام اہل سنت، حافظ، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يخبر تعالٰي عن قبائح المشركين الذين عبدوا مع الله غيره من الـأصنام، والـأوثان، والـأنداد، وجعلوا لها نصيبا مما رزقهم الله، فقالوا : ﴿هٰذا للٰه بزعمهم وهٰذا لشركائنا فما كان لشركائهم فلا يصل الي الله﴾ ، بغير علم، ﴿وما كان للٰه فهو يصل الٰي شركائهم﴾ [الأنعام 6 : 136] ، أى جعلوا لآلهتهم نصيبا مع الله، وفضلوهم أيضا علٰي جانبه، فأقسم الله تعالٰي بنفسه الكريمة، ليسألنهم عن ذٰلك الذى افتروه، وائتفكوه، وليقابلنهم عليه، وليجازينهم أوفر الجزائ فى نار جهنم، فقال : ﴿تالله لتسالن عما كنتم تفترون﴾ [النحل 16 : 56]
’’ اللہ تعالیٰ مشرکین کی بدکاریوں کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جنہوں نے اس کے سوا اور معبودوں کی عبادت شروع کر رکھی تھی اور انہوں نے اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے ان معبودوں کے لیے حصہ مقرر کیا ہوا تھا۔ وہ اپنے خیال کے مطابق کہتے تھے کہ یہ حصہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا۔ وہ لاعلمی میں یہ کہتے تھے کہ جو حصہ ان کے شریکوں کا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے۔ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے معبودوں کا حصہ مقرر کر رکھا تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حق پر حاوی بھی کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات مبارکہ کی قسم اٹھائی اور فرمایا کہ انہوں نے جو افترا پردازیاں کی ہیں اور جھوٹ باندھے ہیں، ان کے بارے میں وہ ضرور ان سے پوچھے گا اور انہیں ضرور اس جرم کی سزا اور جہنم میں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ فرمانِ کی باری تعالیٰ ہے : تَاللّٰهِ لَتُسْاَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ [النحل 16 : 56] ”اللہ کی قسم! تم جو جھوٹ باندھتے تھے،اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 45/4، بتحقيق عبد الرزّاق المهدي ]

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَّلَا سَائِبَةٍ وَّلَا وَصِيلَةٍ وَّلَا حَامٍ وَّلٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ [المائدة 5 : 103]
’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام مقرر نہیں کیے، بلکہ کافر لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ “
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کے نام منسوب کیے ہوئے جانوروں کی شرعی حیثیت کی نفی کی ہے۔ کفار یہ کہتے تھے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق منسوب کیے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ غیراللہ کے نام پر جانور چھوڑنا کفار کا طرز عمل تھا۔
یاد رہے کہ اس آیت میں صرف اس تاثر کی نفی کی گئی ہے کہ غیراللہ کے نام پر جانور چھوڑنا جائز ہے، یہاں ان جانوروں کی حلت و حرمت کا کوئی تذکرہ نہیں۔

’’ مفتی “ صاحب اس پر بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ یہ چار جانور، بحیرہ وغیرہ وہ تھے، جن کو کفارِ عرب بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور
ان کو حرام سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس کو حرام سمجھنے کی تردید فرما دی، حالانکہ ان پر زندگی میں بتوں کا نام پکارا گیا تھا اور ان کے کھانے کا حکم دیا کہ فرمایا : كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ [الأنعام 6 : 142]
کھاؤ اس کو جو تمہیں اللہ نے دیا اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 362/1 ]
بحیرہ والی آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نہیں، بلکہ اس بارے میں مشرکین نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے۔ ان جانوروں کی حلت و حرمت کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جبکہ وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ والی آیت سے معلوم ہو گیا کہ یہ جانور حرام ہیں۔ ’’ مفتی “ صاحب نے جو آیت ِ کریمہ ذکر کی ہے، اس میں بحیرہ وسائبہ وغیرہ کی حلت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس آیت میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق کو کسی کے نام منسوب کر کے حرام کرنا کفار کا کام ہے، تم ایسا نہ کرنا، اگر تم کفار کی تقلید میں ایسے جانور مقرر کرو گے تو شیطان کی پیروی کرو گے۔
کسی بھی مفسر نے اس آیت ِ کریمہ کی رُو سے بحیرہ وغیرہ کو حلال قرار نہیں دیا اور یہ نہیں کہا کہ اس آیت میں بحیرہ وغیرہ کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بحیرہ وغیرہ کفار نے مقرر کیے تھے، وہ انہی کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنے بتوں کے نام کیے ہوئے تھے، مسلمانوں کو کیسے حکم دیا جا سکتا تھا کہ وہ ان کو کھائیں ؟ یہ قرآنِ کریم کی معنوی تحریف ہے اور اس سے ’’ مفتی “ صاحب کی علمی حالت عیاں ہو جاتی ہے۔
رہا ’’ مفتی “ صاحب کا اپنی تائید میں حافظ نووی رحمہ اللہ کا ایک قول ذکر کرنا تو یہ قول قرآن و سنت اور فہم سلف کے خلاف ہونے کی بنا پر ناقابل التفات ہے۔ سلف صالحین اور ائمہ دین و محدثین میں سے کوئی بھی ان کا ہمنوا نہیں۔

آخر میں ہمارا بریلوی بھائیوں سے سوال ہے کہ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین بشمول امام ابوحنیفہ سے غیراللہ کے لیے جانور چھوڑنا اور بزرگوں کی نذر کر کے انہیں ذبح کرنا ثابت ہے ؟ کیا کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کوئی جانورچھوڑا تھا ؟ کسی تابعی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سمیت کسی صحابی کے نام پر کوئی جانور چھوڑا ہو ! کسی تبع تابعی نے کسی تابعی کے نام پر یا امام ابوحنیفہ نے کسی صحابی و تابعی کے نام سے کوئی جانور منسوب کیا ہو ! اگر یہ جائز ہوتا، بلکہ بریلوی بھائیوں کے نزدیک نیکی کا کام ہے، تو صحابہ کرام سے بڑھ کر کون نیکیوں کا متلاشی تھا ؟ کیا صحابہ کرام کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں تھی، جتنی بعد کے قبر پرست لوگوں کو اپنے بزرگوں اور پیروں سے ہے ؟ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین اس ’’ کارِ خیر “ سے کیونکرمحروم رہے ؟
ہم یہاں پر بریلوی بھائیوں سے یہ بھی پوچھیں گے کہ جب غیراللہ، مثلا مردوں اور غائب پیروں کو پکارنے کی نفی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں آیات ِ قرآنیہ پیش کی جاتی ہیں تو ان کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے : ’’ یہ آیات تو بتوں کے لیے ہیں، جو آپ اولیاء اللہ پرفٹ کر رہے ہیں۔ اولیاء اللہ بھلا غیراللہ ہوتے ہیں ؟ وہ غیراللہ نہیں، بلکہ اللہ کے دوست ہیں “
وغیرہ۔ لیکن یہاں پر ان کا طرز عمل مختلف ہے۔ جب غیراللہ کے نام کے ذبیحے کی بات آتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیاجائے تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر انہیں شاید یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کے نزدیک اولیاء اللہ غیراللہ نہیں ہوتے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ذبح کرتے وقت بھی اولیاء اللہ کا نام لینا جائز قرار دے دیں، ورنہ پکار کے حوالے سے بھی اپنے غیراللہ کے نظریے پر نظرثانی کر لیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقیدۂ توحید کو سمجھنے، اسی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اسی پر مرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
Top