سدرہ منتہا
رکن
- شمولیت
- ستمبر 14، 2011
- پیغامات
- 114
- ری ایکشن اسکور
- 576
- پوائنٹ
- 90
کہیں شادی بیاہ یا کھانے کے دعوت ہوتی تھی تو ماں بچوں کو روکھے سوکھے روٹی کے ٹکڑے بھی زبردستی ضرور کھلا کر بھیجتی تھی۔
ہر بار ایسا ہونے سے ایک بار بچے نے تنگ آکر پوچھے لیا ۔
ماں یہ کیا مصیبت وہاں مزے مزے کے کھانے ملتے ہیں اور آپ ہمیں گھر سے ضرور کھانا کھلا کر بھیجتی ہیں۔
ماں صرف مسکرا کر خاموش ہوگئی ۔
جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو ماں سے کہا کھانا کھا کر جانا ہے آج دعوت ہے۔
ماں نے کہا دعوت پر جا رہے ہو گھر سے کھا کر جانے کی کیا ضرورت؟
حیران ہو کے پو چھا گیا ماں یہ کیا کہہ رہی ہیں؟
جب چھوٹے تھے اور غربت بھی تھی اس وقت تو کھانا کھلا کر بھیجتی تھیں اور آج کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ تو لمبا چوڑا تضاد ہے!
اب روزے رکھتے ہو کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟
نہیں ماں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہوتی۔
ماں بولی۔
ماں کا کام تربیت کرنا ہے۔غربت افلاس کوئی بری شے نہیں بلکہ غربت تو اچھی شے ہے۔ اللہ زیادہ یاد آتا ہے ،اور اسے جتنا یاد کرو وہ بھی بہت یاد رکھتا ہے۔
اگر کھانے کی دعوت پر بھوکا بھیج دیتی تو اس کے دو نقصان ہوتے اور ان وقتی نقصانات سے تمہاری ساری زندگی کا کردار پختہ ہو جاتا جو کہ قابلِ فخر نہیں ہو سکتا تھا۔
جن کے گھر کھانا کھانے جاتے جب وہ کھانا سامنے رکھتے تو بھوک کی وجہ سے ندیدوں کی طرح کھانے پر پل پڑتے !
جس سے میزبان کی نظر میں تم بے وقار ہو جاتے! لیکن تم اپنے وقار کے کھونے کا احساس نہ کر پاتے کہ تمہارا دماغ پیٹ کی سنتا اور تم کھانا کھانے میں مشغول رہتے۔
اگر کسی وجہ سے دعوت میں کھانا نہ ملتا تو بھوکے گھر واپس آتے جتنی دیر بھوکے رہتے اتنی دیر میزبان اور دعوت جس میں کھانا نہ مل سکا اس کے مطلق سوچتے اور اپنے اندر غصہ جمع رکھتے ،ایک برا محسوس کرنے کا احسا س، کسی سے نفرت کا احساس، دوسروں کا الزام دینے کی عادت جیسی بری باتیں تمہارے کردار میں شامل ہو جاتیں۔اپنی غلطی نہ ماننا جھوٹے حیلے بہانے کرنا جیسی بری عادات بھی بن جاتیں۔
پیٹ کی بھوک سے تمہارے کردار میں ایسی بری باتیں شامل ہو جاتیں جس سے تم عزت نفس کی ذلت محسوس کرنے سے معذور رہ جاتے۔
اور جس کی اپنی نظر میں ہی اپنے عزت نفس کی کوئی وُقت نہ رہے یا اسے محسوس کرنے سے عاری ہو جائے تو
وہ دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کو بھی کوئی خاص بات نہیں سمجھتا۔
اپنی عزت خود کرو اور ہر اچھے برے کے ساتھ عزت والا معاملہ کرو۔۔بس یہ چند باتیں تم لوگوں کے کردار میں شامل کرنا چاہتی تھی جو اولاد کی تربیت کرنے والی ہر ماں کا فرض ہوتا ہے۔
ہر بار ایسا ہونے سے ایک بار بچے نے تنگ آکر پوچھے لیا ۔
ماں یہ کیا مصیبت وہاں مزے مزے کے کھانے ملتے ہیں اور آپ ہمیں گھر سے ضرور کھانا کھلا کر بھیجتی ہیں۔
ماں صرف مسکرا کر خاموش ہوگئی ۔
جب بچے کچھ بڑے ہوئے تو ماں سے کہا کھانا کھا کر جانا ہے آج دعوت ہے۔
ماں نے کہا دعوت پر جا رہے ہو گھر سے کھا کر جانے کی کیا ضرورت؟
حیران ہو کے پو چھا گیا ماں یہ کیا کہہ رہی ہیں؟
جب چھوٹے تھے اور غربت بھی تھی اس وقت تو کھانا کھلا کر بھیجتی تھیں اور آج کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ تو لمبا چوڑا تضاد ہے!
اب روزے رکھتے ہو کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو؟
نہیں ماں کوئی خاص دقت محسوس نہیں ہوتی۔
ماں بولی۔
ماں کا کام تربیت کرنا ہے۔غربت افلاس کوئی بری شے نہیں بلکہ غربت تو اچھی شے ہے۔ اللہ زیادہ یاد آتا ہے ،اور اسے جتنا یاد کرو وہ بھی بہت یاد رکھتا ہے۔
اگر کھانے کی دعوت پر بھوکا بھیج دیتی تو اس کے دو نقصان ہوتے اور ان وقتی نقصانات سے تمہاری ساری زندگی کا کردار پختہ ہو جاتا جو کہ قابلِ فخر نہیں ہو سکتا تھا۔
جن کے گھر کھانا کھانے جاتے جب وہ کھانا سامنے رکھتے تو بھوک کی وجہ سے ندیدوں کی طرح کھانے پر پل پڑتے !
جس سے میزبان کی نظر میں تم بے وقار ہو جاتے! لیکن تم اپنے وقار کے کھونے کا احساس نہ کر پاتے کہ تمہارا دماغ پیٹ کی سنتا اور تم کھانا کھانے میں مشغول رہتے۔
اگر کسی وجہ سے دعوت میں کھانا نہ ملتا تو بھوکے گھر واپس آتے جتنی دیر بھوکے رہتے اتنی دیر میزبان اور دعوت جس میں کھانا نہ مل سکا اس کے مطلق سوچتے اور اپنے اندر غصہ جمع رکھتے ،ایک برا محسوس کرنے کا احسا س، کسی سے نفرت کا احساس، دوسروں کا الزام دینے کی عادت جیسی بری باتیں تمہارے کردار میں شامل ہو جاتیں۔اپنی غلطی نہ ماننا جھوٹے حیلے بہانے کرنا جیسی بری عادات بھی بن جاتیں۔
پیٹ کی بھوک سے تمہارے کردار میں ایسی بری باتیں شامل ہو جاتیں جس سے تم عزت نفس کی ذلت محسوس کرنے سے معذور رہ جاتے۔
اور جس کی اپنی نظر میں ہی اپنے عزت نفس کی کوئی وُقت نہ رہے یا اسے محسوس کرنے سے عاری ہو جائے تو
وہ دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کو بھی کوئی خاص بات نہیں سمجھتا۔
اپنی عزت خود کرو اور ہر اچھے برے کے ساتھ عزت والا معاملہ کرو۔۔بس یہ چند باتیں تم لوگوں کے کردار میں شامل کرنا چاہتی تھی جو اولاد کی تربیت کرنے والی ہر ماں کا فرض ہوتا ہے۔