• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10247272_1508258702750301_6999164367703449812_n (1).jpg


ذوالحجہ کے دنوں میں مطلق اور مقید تکبیرات !

سوال: عید الاضحی کے موقع پر مطلق تکبیرات کے بارے میں ہے، تو کیا ہر نماز کے بعد کہی جانے والی تکبیرات مطلق تکبیرات میں شامل ہیں یا نہیں؟ اور انکا شرعی حکم سنت ہے یا مستحب،یا پھر بدعت؟

الحمد للہ:

عید الاضحی کی تکبیرات ذوالحجہ کی ابتدا سے لیکر 13 ذوالحجہ کے آخر تک کہنا شرعی عمل ہے، اس بارے میں فرمان باری تعالی ہے:

{لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ}

ترجمہ: تا کہ وہ اپنے فائدے کی چیزوں کا مشاہد ہ کریں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں[الحج : 28]


یہاں " أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ " سے مراد عشرہ ذو الحجہ [ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن] ہیں۔

اور دوسری جگہ فرمان باری تعالی:

{وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ}

ترجمہ: اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کا ذکر کرو [البقرة : 203]


اور " أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ "سے مراد ایام تشریق ہیں۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(ایام تشریق کھانے پینے، اور ذکر الہی کے دن ہیں)مسلم

جبکہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں معلق سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما عشرہ ذوالحجہ میں بازار جا کر تکبیرات کہتے، تو لوگ بھی انکی تکبیروں کے ساتھ تکبیرات کہتے۔

اور عمر بن خطاب، آپکے صاحبزادے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منی کے دنوں میں مسجد، اور خیمہ ہر جگہ بلند آواز سے تکبیرات کہتے، حتی کہ پورا منی تکبیروں سے گونج اٹھتا۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ساتھ متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ وہ عرفہ کے دن [9 ذوالحجہ]کی نماز فجر سے لیکر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پانچوں نمازوں کے بعد تکبیرات کہتے تھے، یہ عمل ان لوگوں کیلئے ہے جو حج نہیں کر رہے، جبکہ حجاج کرام اپنے احرام کی حالت میں یوم النحر [10 ذوالحجہ] کو جمرہ عقبہ [بڑے جمرہ]پر رمی کرنے تک تلبیہ کہتے رہیں گے، اور اسکے بعد تکبیرات کہیں گے، چنانچہ یہ تکبیرات مذکورہ جمرہ کو پہلی کنکری مارنے سے شروع ہونگی، اور اگر تلبیہ کیساتھ تکبیرات بھی کہتا رہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (عرفہ کے دن تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے، اور انہیں کوئی نہیں ٹوکتا تھا، اور تکبیرات کہنے والے تکبیرات کہتے، انہیں بھی کوئی نہیں ٹوکتا تھا)بخاری، لیکن احرام والے شخص کیلئے افضل تلبیہ ہی ہے، جبکہ مذکورہ دنوں میں احرام کھلنے کے بعد تکبیرات افضل ہیں۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پانچ دنوں میں تکبیر مطلق اور تکبیر مقید اکٹھی ہوجاتی ہیں، اور یہ پانچ دن یوم عرفہ، یوم نحر، اور ایام تشریق کے تین دن[یعنی: 9 ذوالحجہ سے 13 ذوالحجہ تک] اور آٹھ ذو الحجہ اور اس سے پہلے والے ایام میں تکبیرات ابتدائے ذوالحجہ ہی سے مطلق ہیں مقید نہیں ہیں، جیسے کہ گزشتہ آیت اور آثار میں یہ بات گزر چکی ہے، اور مسند احمد میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی نیک عمل کسی دن میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا محبوب اور معظم نہیں جتنا ان دس دنوں میں محبوب اور معظم ہے ، چنانچہ ان دنوں میں کثرت کیساتھ "لا الہ الا اللہ"، "اللہ اکبر"اور "الحمد للہ" کہا کرو) او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم .

ماخوذ از کتاب: " مجموع فتاوى ومقالات " از :سماحۃ الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز - رحمہ الله – (13/17)"
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
540941_352930541468479_1558487197_n.jpg


بسم اللہ الرحمن الرحیم

عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت كے متعلق سوال

كيا ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس دنوں كو دوسرے سب ايام پر فضيلت حاصل ہے ؟

اور ان دس دنوں ميں كونسے ايسے اعمال صالحہ ہيں جو كثرت سے كرنا مستحب ہيں ؟


الحمد للہ:

اطافت وفرمانبردارى كے موسموں ميں سے ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس يوم بھي ہيں جنہيں اللہ تعالى نے باقى سب ايام پر فضيلت دى ہے:

ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے " صحیح بخاری ( 2 / 457 )

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزيادہ اجروالا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا " سنن دارمی ( 1 / 357 ) اس کی سند حسن ہے دیکھیں الارواء الغلیل ( 3 / 398 ) ۔

مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پردلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 5 / 412 ) ۔

لھذا مسلمان شخص كو چاہئے كہ وہ ان دس دنوں كي ابتدا اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كے ساتھ كرے اور پھر عمومى طور پر كثرت سے اعمال صالحہ كرے اور پھر خاص كر مندرجہ ذيل اعمال كا خيال كرتے ہوئے انہيں انجام دے:


1 - روزے ۔

مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

( ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ) ، صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1805 ) ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔

سنن نسائي ( 4 / 205 ) سنن ابوداود ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2 / 462 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

2 - تکبیریں، الحمد اللہ اور سبحان اللہ كثرت سے کہنا :

ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلاالہ الااللہ ، اورالحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تواونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اپنے فائدے حاصل کرنے کوآجائيں ، اوران مقرردنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کانام یاد کریں جوپالتوہیں } الحج ( 28 ) ۔

جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں ۔

عبد اللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو" اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے: ديكھيں: مسند احمد ( 7/ 224 ) .

اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :

الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد

اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔

اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں ۔

یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں توسننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گیں ، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کوبھی اس سے یاد دہانی ہو۔

ابن عمر اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آئيں اور ہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کردے ، اس سے یہ مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز تکبیریں کہيں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہيں ہے

اورجس سنت کوچھوڑا جاچکا ہویا پھر وہ تقریبا چھوڑی جارہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب پایا جاتا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :

( جس نے بھی میری مرد سنت کوزندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي )

اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے : دیکھیں سنن ترمذي ( 7 / 443 ) یہ حدیث اپنے شواھد کے ساتھ حسن درجہ تک پہنچتی ہے ۔


3 - حج وعمرہ کی ادائيگي :

ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لھذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں ) ۔

4 - قربانی :

عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں مال خرچ کیا جائے ۔

لھذا ہميں ان فضيلت والے ايام سے فائدہ اٹھانا چاہئے يہ ہمارے لئے بہترين اور سنہري موقع ہے، قبل اس كے كہ ہم اپنى كوتاہى پر نادم ہوں، اور قبل اس كے كہ ہم واپس دنيا ميں آنے كا سوال كريں ليكن اس كي شنوائى نہ ہو.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/49042
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12033073_738130459653405_3329766092606849401_n (1).png




First 10 Days in Zilhajjah


ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه من العمل فيهن من هذه العشر، فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد

It was narrated from ‘Abdullah ibn ‘Umar (may Allah be pleased with him) that the Prophet (peace be upon him) said: “There are no days that are greater before Allah or in which good deeds are more beloved to Him, than these ten days, so recite a great deal of Tahleel, Takbeer and Tahmeed during them.”

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک کوئی عمل اتنا با عظمت اور محبوب نہیں، جتنا وہ عمل ہے جو ان دس دنوں میں کیا جائے۔ پس تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کرو۔

[Narrated by Ahmad, 7/224, Hadith: 5446; isnaad graded as Sahih by Ahmad Shaakir]
 
Top