• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں فکری انحراف کی بنیادیں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
عصر حاضر میں فکری انحراف کی بنیادیں
ایک وقت تھا فکری ونظری بحث ومباحثہ کے لیے خاص مجالس و محافل منعقد ہوا کرتی تھیں، اس قسم کی بحثوں کے لیے خاص اہلیت کی ضرورت سمجھی جاتی تھی، جو ہر کس وناکس کے بس کی بات نہ تھی، پھر کیا ہوا ، میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ جیسی سہولیات اپنے ساتھ معلومات کا سیلاب لے کر آئیں، اور ہر چوک چوراہا فکری مباحث کی آماجگاہ بنتا ہوا نظر آنے لگا۔ عصر حاضر میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے، ظاہر ہے مسلمانوں کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں، لہذا اس ترقی میں کہیں بھی اسلام سے مناسبت یا مسلمانوں سے خیرخواہی کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے، یہ جدید پلیٹ فارم مسلمانوں کے اندر فکری انحراف کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال ہوئے اور ہورہے ہیں، گویا اب مسلمانوں اور صحیح الفکر لوگوں میں سے بھی ایک ٹھیک ٹھاک طبقہ بالمقابل صف آراء ہوچکا ہے۔
لہذا اس طبقہ نے لادینیت، اسلامی تعلیمات سے انحراف، شریعت سے روگردانی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا، اس پر سروے کیے، رپورٹس تیار ہوئیں، اور انہوں نے فکری انحراف کا خلاصہ نکال کر عوام کے سامنے رکھ دیا، اس کی رگ رگ کو الگ کردکھایا، بظاہرخوشنما نظر آنے والی اصطلاحات کے اندر چھپے زہر سے آگاہ کیا، علم وتحقیق کے غلاف میں لپٹی کج بحثی کو بھانپ کر لوگوں کو اس سے خبر دار کیا۔
ایک طرف تو پختہ فکر مفکرین فکری انحراف کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں، لیکن دوسری طرف انہوں نے فکری انحراف جن بنیادوں پر کھڑا ہے، ان کی نشاندہی کی، تاکہ انحراف کے تناور درخت کا جڑوں سے ہی تدارک کرلیا جائے۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جتنے لادین اور منحرف قسم کے لوگ ہیں، وہ اپنی تقریر و تحریر میں کچھ ایسے اقوال اور ضرب الامثال نما چیزوں پر اعتماد کرتے نظر آتے ہیں، جو بظاہر بہت بھلی محسوس ہوتی ہیں، اور یہ مقولات عوام و خاص میں شعوری لاشعوری طور پر ’مسلمات‘ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
مثلا ہمیں قرآن کریم کافی ہے، قرآن ہر چیز پر مقدم ہے ، یہ مسئلہ اختلافی ہے، یہ عقل یا سائنس کے خلاف ہے، شریعت کی اصل روح یہ ہے، دنیا بدل گئی ہے، تمام لوگ یہ کر رہے ہیں، اسلام آزادی کا حامی ہے،شریعت ایک مقدس چیز ہے، جبکہ سیاست گند، لہذا دین میں سیاست کے متعلق کوئی بات نہیں، معتدل دین تو یہ ہے، آپ لوگوں کے ذمہ دار نہیں، اللہ کی رحمت کسی مخلوق کے پاس نہیں، ایمان دل میں ہوتا ہے، تو پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟ دین میں جبر نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
آپ ذرا آنکھیں بند کرکے ماضی میں نظر دوڑائیں تو آپ کو اس قسم کی کئی ایک باتیں سننے پڑھنے کو ملی ہوں گی۔

ان اقوال و اصطلاحات کی خوبیاں:
(1) شہرت:یہ اقوال زبان زدِ عالم ہیں، اور یہ علاقائی ہونے کی بجائے عالمی سطح پر رائج ہیں، ہر مسلک و مذہب، پیشہ و فکر کے ہاں ان کو یکساں اہمیت حاصل ہے۔
(2)
اختصار:یہ اقوال بالکل مختصر ہیں، کہ انہیں اہتمام سے یاد کرنے کی حاجت ہی نہیں، بلکہ یہ خود بخود لوحِ دماغ پر محفوظ رہتے ہیں۔
(3)
تاثیر:ان اقوال میں کشش و تاثیر اس قد ر ہے کہ قاری وسامع ان کے سامنے گھائل ہوجاتا ہے، اس کے ذہن میں یہ سوچ تک نہیں آتی کہ وہ ان کی تحقیق کرے۔
(4)
سہولت:یہ اقوال بالکل واضح اور آسان ہیں، ان میں کوئی دقیق وعمیق چیز نہیں کہ بہت سارے لوگوں کے شعور و ادراک سے ہی ماوراہوں، بلکہ ہر کوئی حسب ِ ضرورت بلا تکلف ان سے استدلال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
(5)
اجمال:ان اقوال وافکار کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہ مجمل ہیں، ان میں موجود باطل و منحرف فکر ان کی تفصیل میں جانے سے معلوم ہوتی ہے، ورنہ بظاہر یہ کئی ایک لوگوں کو درست معلوم ہوتے ہیں، اسی لیے وہ ان کے سحر میں آجاتے ہیں۔
انحراف ولادینیت کے لیےبنیاد کی حیثیت رکھنے والے ان اقوال و افکار کی حقیقت کو سمجھنا کیوں ضروری ہے؟
کیونکہ ان سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سارے لوگ شرعی مصادر و مناہج کے ساتھ کھلواڑ میں مبتلا ہورہے ہیں، کئی ایک شرعی احکامات یا مکمل شریعت کا انکار پروان چڑھ رہا ہے۔ ایسے افکار ونظریات کی ترویج کی سعی کی جارہی ہے، جو واضح طور پر مسلماتِ شریعت سے متصادم ہیں۔ لوگوں کے دلوں سے ’دین اور اہل دین ‘ کی اہمیت ختم کی جارہی ہے، دین جو ایمان ویقین کی نعمت سے مالا مال کرتا ہے، بہت سارے لوگ ان افکار ونظریات کی وجہ سے ایمان وایقان کی اس نعمت سے محروم ہو کر شکوک وشبہات کی آگ میں جل رہے ہیں۔ لوگوں کے دلوں سے معصیت و برائی کا تصور مٹ رہا ہے، برائی ہونا اتنی بڑی بات نہیں کہ تمام بنی آدم خطار کار ہیں، لیکن بڑی بات یہ ہے کہ گناہ گار گناہ پر مطمئن ہوجائے، اس کے لیے حیلے بہانے تراش لے، اور ’توبہ‘ سے ہی محروم ہوجائے، کیونکہ توبہ کا خیال تو تبھی آتا ہے، جب گناہ کا احساس موجود ہو۔
فکری انحراف سے بچنے کا طریقہ:
فکری انحراف کی بنیادوں کو سمجھنا زیادہ مشکل کام نہیں، لیکن بہرصورت اس کے لیے غور وفکر ،صبر وتحمل اور اخلاصِ نیت کے ساتھ چند صلاحتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جن سے انسان فورا حقیقتِ حال جان لیتا ہے۔ ہمیں کوشش کرکے خود کو درج ذیل چیزوں کی عادت ڈال لینی چاہیے۔
· مشکوک افکار ونظریات کو کھولیں، ان کا آپریشن کریں، ان کے مختلف اجزاء کا ٹیسٹ کریں، اس میں موجود حق وباطل میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی، اور ہمارے لیے اس کی خوبی خامی کو پہچاننا چنداں مشکل نہ رہے گا۔
· شہرت کا غلاف اتار پھینکیں، کیونکہ بعض دفعہ کچھ نقلی چیزیں رائج ہو جانے کی وجہ سے ہمیں اصلی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہیں، لہذا ہر قول و فکر کو اس کی شہرت سے کاٹ کر الگ سے دیکھنے کی کوشش کریں کہ اس میں کتنا دم خم ہے۔
· میک اپ کو اتار دیں، کچھ افکار ونظریات کی قباحت لفظوں کا میک اپ کرکے چھپائی گئی ہوتی ہے، کیونکہ بعض دفعہ لفاظی جادو کا کام کرتی ہے، لہذا لفظوں کی میناکاری سے آزاد ہو کر اس فکر یا نظریے کو دیکھیں۔
· اگر کوئی قول یا فکر مختلف مقدمات کا ملغوبہ ہے، تو ان تمام مقدمات اور اجزا کو چیک کریں، بعض دفعہ جو مقولہ ہمیں بہت حسین نظر آرہا ہوتا ہے، تفصیل سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلط مقدمات پر کھڑا ہوا ہے۔
· قول کے سحر سے آزاد رہیں، تاکہ اس کو پرکھتے ہوئے آپ کو اس سے ہٹ کر بھی غلط صحیح آپشن نظر آرہے ہوں، بعض دفعہ کوئی بات اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اس میں غلط صحیح کے دیے گئے دونوں آپشن ہی درست نہیں ہوتے، بلکہ کوئی تیسرا یا چوتھا آپشن درست ہوتا ہے، لہذا اس قسم کی چالاکی و جادوگری سے بچ کر رہیں۔
· سیاق و سباق کو پہچانیں، بعض اقوال بذات خود ردست ہوتے ہیں، لیکن انہیں کسی خاص پسِ منظر میں رکھ کر ان سے غلط مطلب کشید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
· نتائج ولوازم پر نظر رکھیں، کسی مقولے کو پرکھتے ہوئے اس کے نتائج وعواقب کو بھی مد نظر رکھیں، ممکن ہے وہ آپ کو آہستہ آہستہ کھینچ کر حق سے دور لے جائے۔
· مقولہ کے اندر جھانک کر دیکھیں، بعض دفعہ کوئی فکر ونظریہ بذات خود برا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی حیثیت ایک برتن کی طرح ہوتی ہے، چاہے آپ اس میں دودھ ڈالیں یا شراب، لہذا یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ آپ کو اس برتن کے ذریعے کیا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
(عربی کتاب’زخرف القول‘ سے اقتباس واختصار)
حافظ خضر حیات، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
یوم الخمیس، 6 محرم، 1441ھ
 
Top