• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصمت، شرط ولایت نہیں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عصمت، شرط ولایت نہیں

ولی اللہ کے لیے معصوم ہونا یا خطا اور غلطی سے مبرّا ہونا شرط نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علمِ شریعت کی بعض باتیں اس پر مخفی ہوں اور دین کے بعض امور میں بھی اسے مغالطہ لگا ہو اور یہ سمجھنے لگے کہ فلاں امور کا اللہ نے حکم دیا ہے، حالانکہ دراصل اللہ نے اس سے منع کیا ہو اور بعض خوارقِ عادات کو اولیاء اللہ کی کرامات خیال کرے حالانکہ دراصل وہ شیطانی حرکات ہوں اور شیطان نے اس کا درجہ گھٹانے کے لیے اس پر یہ تلبیس کی ہو اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ یہ شیطان کی طرف سے ہیں۔ اس کے باوجود ہوسکتا ہے کہ وہ ولایت کے درجے سے خارج نہ ہو کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت سے خطا، نسیان اور ایسی باتوں سے جو ان سے بوجہ مجبوری سرزد ہوں معاف رکھا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المکرہ والناس۔ ۲۰۴۵۔ مستدرک حاکم ج ۲، ص ۱۹۸)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِوَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖغُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٢٨٥﴾ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًاإِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَاتُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَاإِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَاتُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَاوَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴿٢٨٦﴾البقرہ
’’اللہ تعالیٰ نے جو کچھ رسول کی طرف نازل کیا، اس پر رسول اور مومنین سب ایمان لائے، سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیں ہم پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور عرض کرتے ہیں کہ ہم نے تیرا ارشاد سنا اور تسلیم کیا، اے ہمارے پروردگار! بس تیری ہی مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اسی قدر جس کی اٹھانے کی اس کو طاقت ہو۔ جس نے اچھے کام کیے تو ان کا نفع بھی اس کے لیے ہے اور جس نے برے کام کیے ان کا وبال بھی اسی پر ہے۔ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا چُوک جائیں تو ہم کو نہ پکڑ اور اے ہمارے پروردگار! جو لوگ ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں، جس طرح ان پر تو نے بوجھ ڈالا تھا، ویسا بوجھ ہم پر نہ ڈال اور اے ہمارے پروردگار! اتنا بوجھ جس کے اٹھانے کی ہم کو طاقت نہیں ہم سے نہ اٹھوا اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر اور ہمارے گناہوں کو معاف کر اور ہم پر رحم کر، تو ہی ہمارا والی ہے تو ان کے مقابلے میں جو کہ کافر ہیں، ہماری مدد کر۔‘‘
صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کر لیا اور فرمایاکہ میں نے یہ کر دیا۔
چنانچہ صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی:
وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُيُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّـهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗوَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴿٢٨٤﴾البقرہ
’’اگر تم ظاہر کرو اس چیز کو جو کہ تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپائے رکھو، اللہ تعالیٰ اس کا حساب لے ہی لے گا اور جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
تو ان کے دلوں کو کچھ اس قسم کا غم لاحق ہوا کہ اس سے پہلے اس قدر سخت گھبراہٹ اور غم انہیں کبھی لاحق نہ ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہہ دو:
سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاوَسَلَّمْنَا
’’ہم نے سنا ہم نے مانا اور سرتسلیم خم کر دیا۔‘‘
ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان و تسلیم کا القا کیا اور یہ آیت نازل فرمائی:
’’لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا الخ۔
جب انہوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا {قَدْفَعَلْتُ}(میں نے ایسا کر دیا یعنی معاف کر دیا پھر انہوں نے کہا) اے اللہ! ہم پر ان لوگوں جیسا بوجھ نہ ڈال جو کہ ہم سے پہلے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا {قَدْفَعَلْتُ} یعنی میں نے تمہاری دعا قبول کر لی۔ (پھر انہوں نے کہا) اے ہمارے پروردگار! ہم پر اتنابوجھ نہ ڈال جس کی ہم کو طاقت نہ ہو، ہم سے درگذر کر ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہم پر رحم کر تو ہمارا والی ہے اور تو کافروں کی قوم کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔اس کے جواب میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا {قَدْفَعَلْتُ} کہ میں نے تمہارے کہنے کے مطابق کر دیا۔
(مسلم کتاب الایمان باب بیان انہ سبحانہ و تعالیٰ لم یکلف الامایطاق رقم الحدیث ۱۲۶۔ ترمذی کتاب التفسیر فی تفسیر سورۃ البقرۃ برقم (۲۹۹۲))
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِوَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ﴿٥﴾ الاحزاب
’’اور نہیں ہے تم پر گناہ اس بات میں کہ جو بھول چوک سے ہوجائے، لیکن اس میں گناہ ہے جس کو تمہارے دل جان بوجھ کر کریں۔‘‘
صحیحین میں ابوہریرہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی مرفوع روایت سے ثابت ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اِذَا اجْتَھَدَ الْحَاکِمُ فَاَصَابَ فَلَہ اَجْرَانِ وَاِنْاَخْطَأَ فَلَہ اَجْرٌ۔
(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب اجرالحاکم،اذا اجتھد فاصاب اواخطا۔ رقم : ۷۳۵۲، مسلم۔ کتاب الاقضیۃ، باب بیان اجرالحکم، رقم: ۴۴۸۷))
’’جب حاکم اجتہاد کرے اور اجتہاد درست نکلے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر غلط نکلے تو اس کا ایک اجر ہے۔‘‘
خطا کرنے والے مجتہد کو گناہ گار نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کے لیے ایک اجر رکھا جو کہ اجتہاد کرنے کا صلہ ہے اور اس کی خطا معاف کر دی لیکن وہ مجتہد جس کا اجتہاد ٹھیک نکلے دو اجر حاصل کرتا ہے چنانچہ وہ پہلے سے افضل ہے۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top