• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عظمت اسلام کانفرنس (مکمل رپورٹ) صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئ

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔امابعد :
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی ،گلری

اسلام کی عظمت اور حقانیت کو واضح کرنے اور اسے لوگوں کے ذہن و دماغ میں راسخ کرنےکے لیے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ نے جامع مسجد اہل حدیث بائیکلہ مومن پورہ میں بتاریخ ٣٠/دسمبر ٢٠١٨ء بروز اتوار بمطابق ٢٢/ربیع الثانی ١٤٤٠ھ کو " عظمت اسلام کانفرنس" کا انعقاد کیا ۔
پروگرام کی پھلی نشست کی صدارت فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالحمید مدنی حفظہ اللہ (بحرین)نے کی ۔اور نظامت کا فریضہ شیخ انصار زبیر محمدی حفظہ اللہ نے انجام دیا۔
عظمت اسلام کانفرنس کی پھلی نشست صبح ساڑھے دس بجے بتوفیق من اللہ و فضلہ شروع ہوئی ۔جس میں علماء کرام ،اساطین علم و فن،ائمہ ودعاۃ ،منبرومحراب کے ائمہ و خطباء اور عوام نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
تلاوت کلام پاک سے نشست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
سب سے پھلے مہمان خطیب فضیلۃ الشیخ مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی حفظہ اللہ استاد خدیجۃ الکبریٰ جھنڈا نگر وایڈیٹر مجلہ نورتوحید کا خطاب ہوا۔
شیخ محترم نے "اسلوبِ دعوت " کے موضوع پر خطاب کیا۔
دوران خطاب سب سے پھلے صراط مستقیم کی وضاحت بڑے ہی مدلل انداز میں بیان کیا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام کی عظمت صراط مستقیم پر عمل کرنے میں ہے ۔مزید آپ نے ائمہ و دعاۃ کے روبرو دعوت الی اللہ کی اہمیت وفضیلت کو بین دلائل و براہین کی روشنی میں کی .
اور یہ بیان کیا کہ دعوت کا کام کیسے کیا جائے ؟
نیز اسے غیر مسلموں تک عام کس طرح کیا جائے ؟
مزید آپ نے داعی الی اللہ کی بنیادی ضرورتوں کی نشاندھی کرتے ہوئے کہا :
کہ داعی اپنے قول وعمل،اخلاق و معاملات میں سچا اور اچھا ہو اور اپنی باتیں مدلل انداز میں پیش کرے۔
داعی کے الفاظ و انداز اور اسلوب وادا بھتر ہوں اور احترام سے اپنے کلمات بیان کرے ۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئےکہا : حدثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو الصادق والمصدوق "
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی احترام کے کلمات ادا کرتے تھے۔
رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کذا وکذا" ۔
ان تمام قیمتی باتوں سے آپ نے سامعین کو مستفید کرتے ہوئے کہا : کہ ہم اہل حدیث اسلام کی عظمت کے قائل اور بساط بھر عامل ہیں ۔
اخیر میں دعائیہ کلمات کے ذریعے رخصت لی۔
آپ کے بعد دوسرا اہم خطاب فضیلۃ الشیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی حفظہ اللہ کا "رؤیت ہلال اور اجتماعیت"کے موضوع پر تھا ۔
شیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی حفظہ اللہ نے چاند کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مطلوب شرعی کی وضاحت کی کہ اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں۔شریعت کے معانی و مقاصد کو غلط نہ کریں اتحاد واتفاق کے دشمن نہ بنیں ۔
مزید آپ نے مختلف قسم کی تمناؤں اس کی قسموں کو بیان کیا۔ اور اس بات کی بین وضاحت کی کہ صحابہ وتابعین چاند دیکھنے کا کس قدر اہتمام کرتے تھے۔یہاں تک کہ بعض سلف چاند دیکھنے کے لیے مغرب کی نماز مؤخر کردیتے تھے مگر آج ہماری تساھلی اس حد تک پہونچ گئی کہ ہم نے چاند دیکھنے کی سنت کو چھوڑ کر سعودی سے خبر آگئی یا نٹ پر دیکھ لیا کافی ہوگیا۔
[emoji278] چاند کے متعلق تمام اعتراضات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا مدلل انداز میں دفاع بھی کیا۔اور مختلف مثالوں کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی کہ سعودی عرب کی رؤیت ہمارے لیے معتبر نھیں۔
اور اگر ہم سعودی کی رؤیت کو مان لیں تو اس سے قرآن وحدیث کی مخالفت لازم آئے گی۔
فرمان الٰہی "فمن شھد منکم الشھر"
اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم " صوموا لرؤیتہ"
پر عمل نہ ہوسکے گا ۔
مزید شیخ محترم نے اپنے بیان میں اجتماعیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چاند کے مسئلے پر تشدد نہ کریں جماعتی کاموں پر نظر رکھتے ہوئے اختلاف سے بچنے کی کوشش کریں ۔پھر دعائیہ کلمات کے ذریعے اپنے بیان کو مکمل کیا۔
فضیلۃ الشیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی حفظہ اللہ کے بعد تیسرا اہم خطاب ملک و بیرون ملک میں معروف و مشہور داعی فضیلۃ الشیخ ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ وتولاہ کا رہا۔
آپ نے "اخوانیت" کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی جو کہ ایک اہم اور حساس موضوع ہے ۔کیونکہ اکثر لوگ سلفیت ،اخوانیت اور تبلیغیت میں فرق نہیں جانتے ۔
آپ نے مختلف اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے سلف کے طریقے کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ۔" فإنه من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیرا "
مزید آپ نے سلف اور سلف کے متبعین خلف کے طریقے پر عمل کرنے کے لیے ابھارا ۔
اور قرآن کی روشنی میں تینوں قسم کی اطاعتوں "يايها الذين آمنوا اطيعوا الله واطيعواالرسول و أولي الأمر منكم "
(١) اللہ تعالیٰ کی اطاعت
(٢) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
(٣) اولو الامر کی اطاعت (حکمراں و اہل علم )
کاذکر کرتے ہوئے اولو الامر کی اطاعت پر زور دیا۔اور فرمایا سلف کے خلف سے علم حاصل کرو ۔
"فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون "
مستند علماء سے علم حاصل کریں۔
پھر آپ نے اخوانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اخوانیت زدہ لوگوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔
شیخ محترم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کا ذکر کیا اور کہا کہ جب یہ جماعت نکلی تو بہت سارے کرسچن اس میں شامل ہویے تو عیسائیوں نےیہ دیکھ کر کہا کہ اس جماعت کا نام "اخوان المصریون " رکھ دیں ۔
اسلامی بیداری کے نام پر جو فتنے پیدا ہوئے رافضیوں ومنافقوں کی طرف سے اس کا بھی آپ نے حوالوں کے ساتھ تذکرہ کیا۔
آپ نے مصر کے ان علماء کا بھی تذکرہ کیا جن کا عقیدہ و منہج مسلم تھا اور پورے علماء کے لیے مرجع خلائق بنے ہوئے تھے خاص طور سے علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے اس موقع پر اپنا رد عمل ظاہر کیا۔
مزید آپ نے حسن البنا ء اور ان کے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے دعوت اسلامی کے نام پر اسلام کا بیڑا غرق کیا۔
مزید آپ نے کہا کہ شرک پر خاموشی اختیار کرنا گویا کہ اسے پسند کرنا ہے۔
مصر میں اخوان المسلمون کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے برصغیر میں اخوان المسلمون (جماعت اسلامی ) کا ذکر کیا ۔اور یہاں اخوانیت کیسے پہونچی اور اس میں سرفہرست کون رہے ان کا بھی تذکرہ کیا۔
اخیر میں دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنے بیان کو مکمل کیا۔
عظمت اسلام کانفرنس کی اس خصوصی نشست میں چوتھا اور آخری صدارتی خطاب مہمان خصوصی فضیلۃ الشیخ عبداللہ عبدالحمید مدنی حفظہ اللہ کا تھا آپ نے اپنے قیمتی کلمات میں سب سے پہلے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا شکریہ ادا کیا اس کے بعد اخوان المسلمون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک میں جس جماعت کو "اخوان المسلمون" کھا جاتا ہے وہی ہندوستان میں" جماعت اسلامی" کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ہندوستان میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی رحمہ اللہ تھے ۔
آپ نے اثناء خطاب اخوانیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک سنیوں کا قتل کارثواب سمجھا جاتا ہے ۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے بحرین کے ایک جنازے کا تذکرہ کیا کہ جنازہ لے جایا جارہا تھا کہ اس دوران ایک آدمی نے کہا : اس میت کے حق میں دعائے مغفرت کرو اس نے پوری زندگی کسی سنی سے بات نہیں کی ۔
مزید حسن البناء اور مودودی رحمہ اللہ دونوں کے روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب مصر میں اس جماعت کی بنیاد ڈالی اس موقع پر مودودی رحمہ اللہ نے ایک وفد بھیجی ۔
اس جماعت کے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کا نظریہ اسلامی حکومت کا قیام تھا اور یہ باور کرانا تھا کہ ہمارے اور یہودیوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ اس نظریے کی قرآن نے تردید کی ۔
ساتھ ہی ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے کفار و مشرکین مکہ نے کہا تھا کہ ایک دن آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں ایک دن ہم آپ کے معبودوں کی عبادت کریں گے اور ایک بات کہ آپ ہمارے معبودوں کو برابھلا نہ کہیں اور ہم آپ کے معبود کو بھی برا بھلا نھیں کہیں گے یعنی مکمل صلح کلی ۔ فورا اس عقیدے کی نفی کی گئی
"وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (سورۃ القلم :٠٩) "
کہ وہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے نرم پڑجائیں تو وہ کفار و مشرکین بھی ان کے لیے نرم پڑ جائیں گے۔
مگر آپ نے صلح کلی نھیں کی اگر اس طرح کے عقیدے سے صلح کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا۔
اسی طرح مہمان خصوصی نے اپنے کلمات میں اخوان المسلمون "جماعت اسلامی" کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا : کہ آپ ان سے سعودیہ عربیہ کی کبھی تعریف نہیں سنیں گے ،ان کی دشمنی سلفیوں ،اہل حدیثوں اور ان کے عقیدے توحید سے ہے ۔یہ جماعت سعودیہ عربیہ کی خوشی میں خوشی محسوس نہیں کرتی ۔
اللہ تعالیٰ ہدایت دے ۔
پھر آپ نے دعائیہ کلمات کے ذریعے خطاب کو مکمل کیا۔
بحمدللہ عظمت اسلام کانفرنس کی پھلی نشست صد فیصد کامیاب رہی۔اس کے بعد نماز ظھر ادا کی گئی اور تمام مدعوئییین کےلیے کھانے کوپیش کیا گیا الحمدللہ ماحضر سب نے کثیر تعداد میں کھانا تنا ول فرما کر خدمت کا موقع دیا۔
اس کے بعد کچھ احباب قیلولہ کی سنت ادا کرنے لگے اور بقیہ افراد اپنے احباب کے ساتھ نماز عصر تک گفتگو ہوئے نظر آئے۔
اس دوران کئی معروف و معتبر شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔
فللہ الحمد علی ذلک

عظمت اسلام کانفرنس کی دوسری نشست بعد نمازِ عصر مدرسہ سلفیہ جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ کے متعلم انصاری ریان کی تلاوت قرآن کریم سے ہوئی ۔بعدہ انصاری سعید احمد نے اسلام کی عظمت پر ایک اچھا نظم اچھے انداز میں پڑھا۔
دوسری نشست کی نظامت شیخ ظہیر الدین سنابلی حفظہ اللہ نے کی ۔
سب سے پھلا خطاب پونہ سے آئے مہمان خطیب شیخ ابو زید ضمیر حفظہ اللہ وتولاہ کا تھا۔
مومن کے اوصاف کو موصوف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل بیان کیا ۔
مومن کیسا ہو ؟
مومن کن اوصاف کا حامل ہو ؟
قول و عمل کے اعتبار سے اس کے اندر کیا خیر پائی جاتی ہو؟
ان سب نکات پر مدلل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایمان ایک انسان کی زندگی کو تبدیل کرتا ہے اس لیے ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لینا چاہیے ۔
ہمارے اندر ان تمام اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔
(1) اللہ تعالیٰ کا خوف ہو ۔
(2) اللہ تعالیٰ کی باتوں کی ان سنی نہ ہو ۔
(3) زندگی کے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل ہو۔
(4) نماز وروزہ کا قیام ہو ۔
(5) زکاۃ کی ادائیگی ہو ۔
(6) غیب پر ایمان ہو ۔
(7) اللہ تعالیٰ سے ربط رکھیں کیونکہ مومن اپنا دل دنیا سے نھیں جوڑتا ہے۔
(8) صبروشکر کا حامل ہو ۔
(9) اپنی غلطیوں کا ارتکاب دوبارہ نہ کریں۔
(10) پچھلے انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں اور پچھلی قوموں کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں۔
(11) لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ۔
(12) ایک مومن دوسرے مومن کو طاقت و قوت پھونچائے۔
(13) ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں ان کو نفع پھونچائیں ۔
(14) اپنے زبان اور ہاتھ سے دوسروں کو تکلیف نہ دیں اور ظلم سے اپنے کو روک لیں ۔
ان سب نکات پر کھل کر گفتگو کی۔
اخیر میں دعائیہ کلمات کے ذریعے رخصت لی ۔

دوسری نشست میں شیخ ابو زید ضمیر حفظہ اللہ کے بعد فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ نے عظمت اسلام کانفرنس کے تعلق سے اپنا صدارتی خطاب پیش کیا ۔
حمدو صلاۃ کے بعد

مہمانان عظام ،علماءکرام،عمائدین جماعت وملت اور نوجوانان اسلام اور پردہ نشین خواتین :
ہم سب سے پھلے اللہ تعالیٰ کی تعریف و حمدوثنا کرتے ہیں جس کے فضل وتوفیق سے اس مبارک مجلس میں اسلام کی عظمت و ہدایت کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
آپ نے اس موقع پر ڈاکٹر سعید احمد فیضی حفظہ اللہ مالیگاؤں کا استقبال کیا۔
اس کے بعد جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ بائیکلہ کے تمام محسنین و معاونین اور کانفرنس کے تمام شرکاء کا بھی شکریہ ادا کیا ۔اور پروگرام کے مقاصد پر تفصیلی گفتگو کی۔اور اللہ سے دعا کرتے ہوئےکہا کہ اللہ تعالیٰ اس پروگرام کو بامقصد اور کامیاب بنائے آمین
آپ نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ :
اسلام کی عظمت عدل و انصاف وسچائی میں ہے ۔اسلام اپنوں غیروں ،دوستوں و دشمنوں سب کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کا حکم دیتا ہے ۔
دینی بھائیو اور بہنو : اسلام کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اسلام کے نظام رحمت پر غور کریں ۔
فتنوں کی کثرت کے موقع پر ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی فکر کریں اور صبر سے کام لیں ۔

ہم مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی عظمت کی جڑ مضبوط ہو اور ہم ثابت کریں کہ ہم اسلام کے زندہ نمونہ ہیں ۔
اپنے کردار سے اسلام کی عظمت پر داغ و دھبہ نہ پڑنے دیں ۔
جو اسلام کی عظمت ،دعوت ،مشن کو ناکام کرے ۔
اس بات کی ہمیں فکر ہونی چاہیئے کہ اسی عظمت اسلام مشن کا حصہ یہ" عظمت اسلام کانفرنس" ہے۔جو اس جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ بائیکلہ کے زیر اہتمام منعقد ہے ۔
ایک چھوٹا پیغام یہ ہے کہ اسلام عظیم ہے اب آپ بتائیں کہ اس کی عظمت ہمارے دلوں میں کتنی ہے ؟
ہم کسی چیز کو عظیم مانتے ہیں تو اس کے لیے وسائل اختیار کرتے ہیں ۔
پریس والوں کو بھی میرا یہ پیغام ہے کہ اسلام کی عظمت کے پہلو کو اٹھائیں ،اس کی عظمت پر داغ نہ لگائیں ،عظمت اسلام کےسچے نمائندے بنیں ۔
مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : مسلمان یہ کوشش کریں کہ مسلمان اپنے رخ زیبا کو کسی بھی بداخلاقی اور جاہلیت سے نقصان نہ پہنچائیں ۔
اخیر میں دعائیہ کلمات سے اپنے صدارتی خطاب کو ختم کیا۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر دے اور اس پروگرام کو ملک و ملت کے لیے مفید بنائے اور ہم سب کی کوششوں کو قبول فرمائے اور اسے تمام معاونین و محاضرین کے لیے باعث سعادت و قوت بنائے آمین ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ وتولاہ امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے بعد مہمان خصوصی ڈاکٹر سعید فیضی حفظہ اللہ وتولاہ ( مالیگاوں )نے صدر مجلس ،علماء کرام ،سامعین کو مخاطب کرتے ہوئےمختصر خطاب کیا دوران خطاب ذکر کرتے ہوئے کھا :
کہ میں ابھی ابھی سفر سے پہونچا ہوں
میں مبارکباد دیتا ہوں مقامی جماعت بائیکلہ اور صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کو جنہوں نے اس طرح عظمت اسلام کانفرنس کا انعقاد کیا ۔
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
جس طرح دیگر ادیان میں برتر اسلام ہے اسی طرح مسلمانوں میں اہل حدیث حضرات ممتاز ہیں ۔
ہم دوسروں کو اہل حدیث کب کریں گے ؟
ہم تو اہل حدیث کو اہل حدیث بنانے میں جڑے رہتے ہیں ۔
ہم مثالی کردار ادا کریں ،ہمیں علم حاصل کرکے ایک مثالی مومن کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
اخیر میں دعائیہ کلمات کے ذریعے اپنے ناصحانہ کلمات کو مکمل کیا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سچا پکا مومن بنائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو ۔آمین۔
دوسری نشست مغرب کے وقت تک جاری رہی ۔

مغرب کی نماز سے فراغت کے فوراً بعد عظمت اسلام کانفرنس کی تیسری اور آخری نشست منعقد ہوئی پروگرام کی نظامت فضیلۃ الشیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہ اللہ نے کی۔
پروگرام کے باقاعدہ آغاز کے لیے شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی حفظہ اللہ نے قاری ہدایت اللہ صاحب کو مدعو کیا ۔موصوف نے اپنے اچھے انداز میں چند آیات کی تلاوت کی ۔
تلاوت کلام پاک کے بعد شیخ عبدالمنان مفتاحی حفظہ اللہ نے عظمت اسلام پر ایک خوبصورت نظم پیش کیا۔
مومن ہے جو رکھتا ہے دلوں میں اسلام
ہم لوگ ہیں شیدائے رخ عظمت اسلام
آپ کے بعد شیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی حفظہ اللہ نے تذکیری کلمات کہے اور اسلام سے قبل (جاہلیت) کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے برصغیر کے حالات اور جاہلی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے بے جا رسوم و رواج کو ختم کرنے پر زور دیا۔
تاکہ دنیا میں امن و سلامتی قائم ہو ،ہمارے بزرگوں کی محنتوں کا بھی ذکر خیر کیا جنھوں نے ان سارے رسوم و رواج کو ختم کیا جسے ختم کرنا آسان نہ تھا ۔
شیخ رضاء اللہ عبدالکریم مدنی حفظہ اللہ کے بعد فضیلۃ الشیخ محمد مقیم فیضی حفظہ اللہ نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ نے بہترین انداز میں خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔
صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ کے امیر محترم شیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ اور تمام ذمہ داران و اراکین و مدعوئیین و مہمان خصوصی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بہت سارے مسائل کی طرف توجہ دلائی جو ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں ۔
بھت سارے فتنوں کا بھی ذکر کیا جو نوجوانوں کے سامنے پیش ہیں ۔
لھذا ان فتنوں کے دور میں دین کو سیکھیں ،مستند علماء سے علم حاصل کریں ،اسلام کی تعلیمات سے جڑیں ،علماء کی رہنمائی کے بغیر کوئی کام نہ کریں ،موجودہ الیکٹرانک وسائل وایجادات کے فتنوں سے بچیں ۔اور اسلام کے ہر مسئلے پر بولنے کی کوشش نہ کریں بلکہ جو اس کے متخصص ہیں ان کے حوالے کردیں ۔
اور یہ واضح کرتے ہوئے کہاکہ سلفی منھج جذبات سے نھیں چلتا دلائل سے چلتا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ابوجھل یا ابو لہب کا پتلا نھیں جلایا ۔
لھذا دین پر قائم و دائم رہیں ۔اخیر میں سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعائیہ کلمات کے ذریعے رخصت لی ۔
خطبہ استقبالیہ کے بعد " مسلم خواتین اور عصر جدید کے چیلنجز " کے موضوع پر فضیلۃ الشیخ عبد العظیم عمری مدنی حفظہ اللہ کا خطاب ہوا ۔
شیخ محترم نے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے کہا : کہ آج انسان جس قدر ترقیوں کی طرف جارہا ہے اسی قدر اخلاقیات کا بگاڑ بھی بنتا جا رہا ہے۔یہ دنیا شہوتوں کا بازار ہے جہاں ا‌نسانی زندگی درندگی کا شکار ہے۔
آج کے چیلنجز سے مسلم خواتین کو آگاہ کرتے ہوئے کہا:
کہ آج مساوات مرد و زن کا نعرہ لگایا جاتا ہے
آزادی نسواں کا نعرہ
اختلاط
اس تہذیب نے صنف نازک کو درندگی کا شکار بنایا ۔
اسلام منصفانہ تقسیم کی بات کرتا ہے ۔اسلام میں خرچ کا ذمہ دار ہمیشہ مرد ہوتا ہے ۔
اسلام نے خواتین کا خیال رکھنے پر زور دیا ۔
آج کے دور پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ محترم نے کہا :
کہ آج عورت کا عورت باقی رہنا ایک چیلنج ہوگیا ہے ۔
آج کے مرد داڑھی چھیل کر اور بال لمبے کرکے عورت بننے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ عورتیں بال چھوٹے کرکے مرد بننے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں۔
جب کہ اسلام نے انھیں گھروں میں قرار پکڑنے اور نماز و روزہ کا حکم دیا ۔مگر مغربی تہذیب نے ان کو سڑکوں ،چوراہوں،اعلانات واشتہارات پر لا کھڑا کیا۔
آج عورت نے اگر گھر کو قید سمجھا تو پورا گھر ختم کردیا۔
شیخ محترم نے پردے پر بہی تفصیلی گفتگو کی۔
مزید عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا :
کہ مساجد،ہفتہ واری دروس،دینی اجتماعات میں شرکت کریں ۔
ہم ان خواتین کو آئیڈیل مانیں جو امہات المومنین ہیں ۔
آپ نے دعا کے ذریعے اپنے موضوع کو سمینٹا اور جمعیت و جماعت کا بھی شکریہ ادا کیا ۔
اللہ تعالیٰ امت کے جوانوں ،خواتین ،اور سارے افراد کو اعتقادی و اخلاقی بگاڑ سے بچائے ۔آمین

فضیلۃ الشیخ عبد العظیم عمری مدنی حفظہ اللہ کے بعد فضیلۃ الشیخ محمد رحمانی حفظہ اللہ کا" امن و امان کے قیام میں مسلک اہل حدیث کا کردار " کے موضوع پر بہترین خطاب ہوا ۔
شیخ محترم نے امن و امان کی اہمیت اور اس کے قیام میں سلف کا کیا رول رہا ؟
اس مسئلے پر کھل کر گفتگو کی۔
اور کہا کہ آج کے دور میں نوجوانوں کو اسلاف کی قربانیوں کو پڑھنا ہوگا ۔ان کے کارناموں کو ذہن و دماغ میں رکھنا ہوگا۔
آج تمام مسائل میں ہم ماضی کی تاریخ کو پڑھیں کہ اسلاف نے کس قدر مہنت کی اور انھیں تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔
لھذا سنت رسول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر مسئلے میں سامنے رکھیں ۔آپ نے آزادی ہند اور اس کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی اور چھوٹی وبڑی سبھی قربانیوں کا ذکر کیا۔

اور فرمایا :
ہم اسی سلفی مسلک ،اسی وہابی تحریک ،انھیں مسلمانوں کا حصہ ہیں جنھوں نے اسی ہندوستان میں پانچ لاکھ کی تعداد میں جام شہادت نوش کیا۔
اسی وہابی تحریک کے خلاف 36/ مقدمے چلائے گئے ۔
مزید آپ نے امن و سلامتی کے دومحور کا بھی تذکرہ کیا۔
(1) توحید باری تعالیٰ
یہ توحید ایک رب کائنات کی طرف لے جاتی ہے۔
(2) اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم
فضیلۃ الشیخ محمد رحمانی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے آئیڈیل وہ ہیں جنھوں نے صفہ چبوترے پر علم حاصل کیا ۔
اور امن و سلامتی کے قیام پر بولتے ہوا کہا کہ آج قانونی کارروائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
ہماری مصیبت تب رکے گی جب ہم اسلاف کے طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ کا سہارا لیں گے۔
ہمارا رول رہا کہ سوسائڈ خودکشی حرام ہے۔
پانی کی فضول خرچی حرام ہے
بڑوں کا احترام کریں ۔
ایک دوسرے کے جان کی حفاظت کریں ۔
قانونی دائرے میں کسی پارٹی کا ساتھ دیں ۔
مال کی حفاظت کریں ۔
چوری ،کرپشن کے خلاف آواز اٹھائیں ۔
عزت و ناموس کی حفاظت کریں ۔
نشہ آور چیزوں کے استعمال سے بچیں ۔
پیار ومحبت کے ماحول کو بنانے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپنائیں ۔
ظلم کی حرمت کو سمجھیں ۔کسی کو ضرر و نقصان نہ پہونچائیں یہ حرام ہے ۔
معصوم کی جان کو نقصان پہنچا نا حرام ہے۔
ہتھیار نہ اٹھائیں ،عہد و پیمان کی پابندی کریں ،عورتوں اور بچوں کے قتل سے بچیں ،پھلدار درخت کو نہ کاٹیں ،کسی آباد جگہ کو ویران نہ کریں،جانوروں کو ضرورت سے زیادہ ذبح نہ کریں ،کٹیا نشینوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے ،رات کے وقت دشمنوں پر حملہ نہ کریں یہ اسلام کا دستور ہے اور امن و سلامتی کے بھترین اصول ہیں ۔
ہمارے علماء ان ٹوٹے پھوٹے چٹائیوں پر یہی درس دیتے ہیں ۔
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پوری انسانیت کو جو درس دیا وہ ہمارے لیے نمونہ ہیں ۔
یہ سب امن و سلامتی کے لیے ضروری ہیں ۔

آپ نے دعائیہ کلمات کے ذریعے اپنی تقریر مکمل کی ۔کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم صحیح انداز سے زندگی اختیار کریں ۔

فضیلۃ الشیخ محمد رحمانی حفظہ اللہ کے بعد عظمت اسلام کانفرنس کی تیسری نشست کے آخری خطیب فضیلۃ الشیخ ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ تھے ۔
آپ نے
"اسلام کی عظمت کیا ہے اور یہ عظمت کس بنا پر ہے" ؟
اس موضوع پر شاندار و جاندار خطاب کیا ۔اور اسلام کی عظمت کو بھت ساری مثالوں سے مدلل بیان کیا ۔
اور فرمایا کہ اسلام کی عظمت کو مٹایا تو ہمیں نے مٹایا ۔ابھی کرسمس گزرا کیک کاٹ دیا ۔
دیکھو اسلام کی عظمت
توحید
اتباع سنت
اقامت صلاۃ
ایتاء زکاۃ
یہ سب اسلام کی عظمت ہیں ،اس عظمت کو ہمیں نے پامال کیا ۔
جب سے فرقہ بندی اور اختلافات شروع ہوئے وہیں سے ہمارے اسلام کی عظمت ختم ہوئی ۔
آپ نے فرمایا : کہ آج امت مسلمہ کا بہت بڑا گروہ عید میلاد النبی اور درگاہوں سے عظمت چاہتا ہے ۔
اگر اسلام کے عظمت کی سب سے پہلے پاسبانی کی تو محدثین اور جماعت اہل حدیث نے کی ۔
شروع سے آخر تک جہاں اسلام پر آنچ آئی اپنی زبان وقلم اور اپنے مال سے اسلام کی پاسبانی کی ۔
آپ نے خطاب کے اخیر میں 1943ء کے پرتاپ گڑھ کے ایک مقدمے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کہ نماز کے مسئلے کو لیکر کچھ بھائیوں کی طرف سے کورٹ تک معاملہ پہونچا کہ یہ لوگ اس طرح نماز نھیں پڑھتے ہیں !
جج نے پوچھا کس طرح آپ لوگ نماز پڑھتے ہیں؟
تو کہا گیا ہم جس طرح نماز پڑھتے ہیں ویسے ہی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بہی نماز پڑھی ہے تو جج نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس طریقے پر نماز پڑھی اس کو میں رد نہیں کرسکتا ۔
شیخ نے بھت زبردست خطاب کیا ۔اخیر میں دعائیہ کلمات کے ذریعے اپنے بیان کو مکمل کیا ۔

آپ کے بعد اخیر میں کانفرنس کے قرارداد اور تجاویز کو فضیلۃ الشیخ عبدالجلیل مکی حفظہ اللہ مومن پورہ بائیکلہ نے بالتفصیل بیان کیا ۔
تفصیل اس طرح ہے :

(1) یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی اپیل کرتا ہے ۔

(2) یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ توحید اسلام کی بنیاد اور عنوان ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اتباع ہی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے ۔ اس لیے ان دونوں کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھیں اور انہیں کبھی نظر انداز نہ ہونے دیں ۔

(3) یہ اجلاس اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ دین سے دوری ہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا بنیادی سبب ہے اور ان تمام مسائل ومشکلات اور الجھنوں کا حل دین کی طرف رجوع ہی میں ہے ۔

(4) 27 / دسمبر 2018 بروز جمعرات پارلیمنٹ کے اجلاس میں مسلم وومین پروٹیکشن بل (یعنی تین طلاق بل) پر بحث کے درمیان ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ کے سوال کے جواب میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب ( صدر آئی یو ڈی یو ایف آسام) نے سلفیوں کے متعلق کہا کہ *“ سلفی وہ لوگ ہیں، جن کو آج ہندوستان میں گورنمنٹ آف انڈیا دہشت گرد قرار دے چکی ہے، ہم سلفیوں کے ساتھ نہیں ہیں، ہم ان کے عقیدے کو نہیں مانتے”.“آج پورے ہندوستان میں جو دہشت گردی ہورہی ہے، وہی سلفی سیکٹر کرا رہا ہے، Prove ہورہا ہے بار بار”.*
پوری جماعت اہل حدیث اور سلفیوں کےلیے ان کا یہ بیان شدید دل آزاری اور رنج وافسوس کا باعث ہوا اور ملک وملت کے سنجیدہ اور انصاف پسند طبقے کو بھی یہ خلاف واقعہ اور بے بنیاد بات ناگوار لگی اور پورے ملک میں اس کے خلاف افراد ، تنظیموں اور اداروں کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنے اس بیان سے رجوع کرلیا اور جماعت سے معذرت کے ساتھ اپنے متنازعہ جملوں کو بحث کی کاروائی سے خارج کرنے کی درخواست دی، جماعت نے دکھ اور افسوس کے باوجود ان کی معذرت کو قبول کرلیا مگر یہ اجلاس مولانا سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ اس طرح کے بیان سے گریز کریں جس سے ملی اتحاد میں دراڑ پڑنے کا خطرہ ہو نیز اسلام دشمن طاقتیں اس سے فائدہ اٹھائیں ۔

(5) یہ اجلاس جماعت کے نوجوانوں اور بزرگوں سے گزارش کرتاہے کہ جو کچھ بھی ہواوہ اسے فراموش کرتے ہوئے مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی معذرت کو قبول کرلیں اور ان کے بیان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بند کردیں ۔

(6) اسی طرح یہ اجلاس ان عناصر سے بھی مطالبہ کرتا ہے جو مولانا بدرالدین اجمل صاحب کے خلاف ہونے والے احتجاج کے تناظر میں گروہی عصبیت کو ہوا دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اس تنازعہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے زندہ رکھنا چاہتے ہیں اورملت میں اختلاف کی فضا کو گرم رکھنے ہی میں وہ اپنا مفاد سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے باز آجائیں اور تقویٰ کے آداب کو فراموش کریں نہ آخرت کے حساب کو بھولیں ۔

(7) یہ اجلاس حکومت کی طرف سے مذکورہ بل کے پیش کیے جانے اورصوتی ووٹ سے اس کے منظور کیے جانے کے عمل کو اس کا عاجلانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام مانتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذھبی مسائل اور پرسنل لاء کے معاملے میں مداخلت نہ کرے اور اس فیصلے کو واپس لے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دی جائے، بلکہ اسے قرآن وسنت کے حقیقی اسلامی قانون پر چھوڑ دے اور زیادہ سے زیادہ یہ کرے کہ وہ مسلمانوں کو اس کا قانونی طور پر پابند بنائے ۔

(8) یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ قرآن وسنت اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی طلاق ہوتی ہے ، حلالہ مروجہ کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں اور حلالہ مروجہ زنا اور حرام ہے ، اور اسلام کا عائلی قانون اور طلاق وخلع وغیرہ کا نظام عدل کی تکمیل کا پوری طرح اہل ہے اس لیے مسلمانوں کو کسی اور قانون کی ضرورت نہیں ہے ۔

(9) یہ اجلاس اُمت کے علماء سے اپیل کرتا ہے کہ طلاق و نکاح کے مسائل عوام میں عام کریں اور طلاق وخلع کے مسائل کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں ۔

(10) آج کا یہ اجلاس عوام اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ خطابت ، افتاء اور علمی مسائل پر اظہار خیال کے لیے غیر علماء کی حوصلہ افزائی نہ کریں اورمعتبر علماء کی تصدیق و توثیق کے بغیر ایسے لوگوں کے حوالے منبر ومحراب نہ کریں اور دینی رہنمائی صرف مستند علماء سے حاصل کریں کیونکہ اس کی پابندی نہ کرنے سے امت میں مختلف قسم کے فتنے پیدا ہوتے ہیں۔

(11) جماعتی حلقوں میں بہت سے غیر علماء اور کم پڑھے لکھے لوگ کمائی کےلیے رقیہ کو پیشہ بنارہے ہیں اور مریضوں کے ساتھ تعامل میں غیر شرعی حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں ، چونکہ ایسا پیشہ اختیار کرنا سلف سے ثابت نہیں اس لیے محقق علماء کی تصریحات کے مطابق بدعت ہے اور ایسی کمائی غیر مشروع ہے اور نادرست ہے اس لیے یہ اجلاس ان افراد کو بھی جو یہ پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں نصیحت کرتا ہے کہ اس کو ترک کردیں اور عوام سے بھی اپیل کرتا ہے کہ ایسے لوگوں سے رقیہ نہ کرائیں کیونکہ وہ خلاف شرع کام کرتے ہیں ۔

(12) یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ آپسی اتحاد واتفاق قائم رکھیں ، فروعی اور فقہی اختلاف کو آپس میں نفرت وعداوت کا سبب نہ بننے دیں ۔

(13) یہ اجلاس بلند شہر میں گئو رکشکوں کے تشدد میں مارے گئے انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ سمیت ان سارے مقتولیں کے لیے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے جو بے جا مذھبی جذبات اور تعصبات کے تحت مظلومانہ قتل کیے گئے ہیں اور ان فرقہ پرست عناصر کی پرزور مذمت کرتا ہے جو ملک میں اتحاد ویکجتہی کی فضاء کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں ۔

(14) یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے شادی بیاہ کے معاملات میں سادگی اختیار کرنے اور غیر شرعی رسومات سے بچنے کی تاکید کرتا ہے ۔

(15) یہ اجلاس مسلم معاشرے میں بڑھ رہی نشہ خوری پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور تمام مسلمانوں سے نشہ کے خلاف متحد ہونے اور حکومت سے نشہ کا کاروبار کرنے والے عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی اپیل کرتا ہے ۔

(16) یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے با جماعت نماز کی پابندی کی دعوت دیتا ہے ، کیونکہ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور اس کے بغیر مسلمانی کا تصور نامکمل ہے ۔

(17) یہ اجلاس معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی فحاشی اور بے حیائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں عفت اور پاکدامنی کے فروغ کے لیے اپنا لازمی کردار ادا کریں اور اسلامی اقدار اور اخلاقی تعلیمات پر قائم پاکیزہ معاشرے کی تشکیل میں اپنا رول ادا کریں۔

پھر شیخ محترم فضیلۃ الشیخ عبدالجلیل مکی حفظہ اللہ نےصوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ کے امیر محترم شیخ عبدالسلام سلفی حفظہ اللہ و تولاہ اور تمام ذمہ داران و اراکین و مدعوئیین و مہمانان و رضاکاران ، پولیس حکام و نوجوانان اور تمام احباب کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے پروگرام کو کامیاب بنانے میں کسی طرح کا بھی تعاون پیش کیا ۔
ساتھ ہی ساتھ ائمہ و دعاۃ و تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے " عظمت اسلام کانفرنس" کے اختتام کا اعلان کیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین و ایمان پر قائم و دائم رکھے
اور اسلام کی عظمت کو ہمارے دلوں میں مضبوط و راسخ کردے اور اس کانفرنس کے ذریعے ملک و ملت کو فائدہ پہونچائے اور کتاب وسنت کی نشرواشاعت کا ذریعہ بنائے ۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ اور اراکین و ذمہ داران اور جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ بائیکلہ کو جنھوں نے صحیح وقت پر ایک بہترین موضوع پر پروگرام کا انعقاد کیا اور اسلام کی عظمت کو اجاگر کیا ۔اور ہر سال دین حق کی نشرواشاعت پر پروگرام کرتے رہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ان سب کی خدمات کوشرف قبولیت سے نوازے اور اس عمل کو صدقہ جاریہ بنائے۔
آمین یارب العالمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم
afrozgulri@gmail.com
7379499848

Sent from my Redmi Note 7S using Tapatalk
 
Top