• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقائد میں تقلید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا یک جائزہ

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
عقائد میں تقلید

فارسی کاایک شعر اوراس کا ایک مصرعہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتاہے"چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدنند"جب حقیقت معلوم نہیں ہوتی تولوگ افسانہ تراشناشروع کردیتے ہیں ۔مولانارومی کافارسی ادب میں بڑامقام ومرتبہ ہے اوران کی مثنوی معیاری فارسی کادرجہ رکھتی ہے جسے انگلش میں کلاسیکل سے تعبیرکیاجاتاہے۔بہرحال اس مثنوی کے بہت سے اشعاراورمصرعے بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اس میں سے ایک یہ بھی مصرعہ ہے۔ "ہرکسے ازظن خودشدیارمن"ہرایک ایک اپنے خیال سے میرارفیق اوریاربناہواہے۔لیکن حقیقت کیاہے وہ کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔

پوراشعر یہ ہے


ہرکسے از ظن خود شد یار من
وز درون من نہ جست اسرار من

اسی کو عربی کے ایک شعر میں اس طرح اداکیاگیاہے۔

وکل یدعی وصلابلیلی
ولیلی لاتقرلھم بذالک

ہرایک لیلی سے وصل کامدعی ہے لیکن لیلیٰ کی جانب سے مدعی کے دعوے پر اقرار نہیں ہے۔


مشہور سائنس داں نیوٹن نے لکھاہے کہ کبھی ہم کائنات کا کوئی پیچیدہ حل تلاش کررہے ہوتے ہیں لیکن اس کا قریبی حل ہمارے پاس موجود ہوتاہےاورہم اس سے غافل رہتے ہیں۔

عقائد میں تقلید کا باب بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔حالانکہ اگریہ غورکرلیاجاتاکہ احناف کے نزدیک عقائد کے ثبوت کیلئے کون سی دلیل درکار ہے توشاید نہ سوال کی ضرورت پڑتی اورنہ یہاں وہاں کے جواب کی اورقیل وقال کی۔

طالب الرحمن نے الدیوبندیہ کتاب لکھی۔ کتاب پر جتنی زیادہ حیرت نہیں ہوئی اس سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوئی جنہوں نے اس کی تردید میں کتابیں لکھیں اورمختلف حوالہ جات پیش کئے ۔حالانکہ کتاب کے اسلوب استدلال اوراحناف کے ثبوت عقائد کو سامنے رکھ دیاجاتاتومعاملہ دواوردوچار کی طرح صاف تھا۔
الدیوبندیہ زلزلہ نامی ایک بریلوی عالم ارشدالقادری کی کتاب کا چربہ ہے اس میں ترمیم صرف اتنی ہے کہ جہاں کرامت کے بعد بریلوی عالم نے دیوبندی حضرات کے فتاوی پیش کئے ہیں۔ ان کی جگہ طالب الرحمن نے سعودی علماء کے فتاوی رکھ دیئے ہیں۔سعودی علماء کے فتاوی کیوں رکھے۔اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔

اولاًسعودی حضرات کی خوشنودی حاصل کرنا
دوسرے برصغیر کے اپنے علماء پر عدم اعتماد کااظہار​

ورنہ فی نفسہ سعودی عرب کے علماء میں ایسے کوئی پر لگے ہوئے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کی بات زیادہ قابل قدرہوجائے ۔اور سعودی علماء کوئی حنفی بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ کہاجائے کہ ایسابطورالزام وحجت کیاگیاہے۔

بہرحال عرض یہ کررہاتھاکہ الدیوبندیہ کی تردید کیلئے دورازکار راستے اختیار کرنے کے بجائے صرف اتناکہاجائے کہ احناف کے نزدیک اثبات عقائد کیلئے خبرواحد کفایت نہیں کرتی توکسی کتاب میں کسی کرامت کے لکھے ہونے سے یاکسی عالم کے لکھ دینے سے وہ عقیدہ میں تبدیل نہیں ہوجاتا۔جب خبرواحد اثبات عقائد کیلئے ناکافی ہے تومحض کسی عالم کے لکھ دینے سے خواہ ان کی جلالت شان کچھ بھی ہو لیکن وہ عقیدہ نہیں بن سکتا۔

عقائد میں تقلید پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ کچھ بات تقلید کے تعلق سے واضح کیاجائے کہ کن چیزوں میں تقلید نہیں ہے اوراہل حدیث حضرات بھی اسے تسلیم کرتے ہیں یانہیں۔

حدیث نبوی اورتقلید

بیشتر فقہاء اوراصولیین نے ا سکی تشریح کی ہے کہ تقلید اس امر میں ہوتی ہے جہاں پر نص نہ ہو،اجماع نہ ہو ۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں

فلیس الرجوع الی النبی والاجماع منہ

تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرنا(احادیث پر عمل کرنا)تقلید اوراسی طرح اجماع کو تسلیم کرنا تقلید نہیں ہے۔

ابن ہمام کی التحریر کی شرح ان کے شاگرد ابن امیرالحاج نے بھی لکھی ہے۔ چنانچہ اپنے استاد محترم کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
فلیس الرجوع الی النبی ﷺ والاجماع منہ ای من التقلید علی ھذالان کلامنہاحجۃ شرعیۃ من الحجج الاربع وکذالیس منہ علی ھذا عمل العامی بقول المفتی وعمل القاضی بقول العدول لان کلامنہا وان لم یکن احدی الحجج فلیس العمل بہ بلاحجۃ شرعیۃ لایجاب النص اخذ العامی بقول العدول
التقریر والتحبیرفی علم الاصول
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث اوراجماع کو تسلیم کرنا تقلید اس لئے نہیں ہے کہ یہ حجج اربعہ شرعیہ میں سے ہے۔اورعامی کاعالم سے پوچھ کرعمل کرنا اورقاضی کاعادل گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنابھی تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کوقرآن وحدیث نے واجب کیاہے۔
یہاں تک ابن امیرالحاج کی یہ عبارت تو زبیر علی زئی نے بھی نقل کی ہے لیکن اس سے آگے کا حصہ انہوں نے حذف کردیاحذف کا مقصد اورمنشاء بہت واضح ہے ۔

تنبیہ

علامہ ابن امیرالحاج یہاں ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگرعامی کامفتی اورعالم سے سوال کرناتقلید نہیں ہے توپھر دنیا میں تقلید کاکہیں وجود ہی نہیں ہے۔کیونکہ مکلفین کی دوہی قسمیں ہیں۔مجتہد مقلد
ایک مجتہد ہے تودلائل شرعیہ سے معلوم کرلے گایہ شق تقلید کے دائرہ سے ہی خارج ہے اوراگر مقلد ہے تومفتی سے معلوم کرے گامفتی اگرخود مجتہد ہے تو اجتہاد کرکے بتادے گا اس صورت میں بھی یہ تقلید نہ ہوئی اوراگرمفتی خود مجتہد نہیں ہے تومجتہدین کاقول نقل کردے گا یہ شق بھی تقلید کے دائرہ سے باہر ہے تودنیا میں کہیں تقلید کا ظہور اوروجود رہاکہاں؟

بَلْ عَلَى هَذَا لَا يُتَصَوَّرُ تَقْلِيدٌ فِي الشَّرْعِ لَا فِي الْأُصُولِ وَلَا فِي الْفُرُوعِ فَإِنَّ حَاصِلَهُ اتِّبَاعُ مَنْ لَمْ يَقُمْ حُجَّةً بِاعْتِبَارِهِ، وَهَذَا لَا يُوجَدُ فِي الشَّرْعِ فَإِنَّ الْمُكَلَّفَ إمَّا مُجْتَهِدٌ فَمُتَّبِعٌ لِمَا قَامَ عِنْدَهُ بِحُجَّةٍ شَرْعِيَّةٍ، وَإِمَّا مُقَلِّدٌ فَقَوْلُ الْمُجْتَهِدِ حُجَّةٌ فِي حَقِّهِ فَإِنَّ اللَّهَ - تَعَالَى - أَوْجَبَ الْعَمَلَ عَلَيْهِ بِهِ كَمَا أَوْجَبَ عَلَى الْمُجْتَهِدِ بِالِاجْتِهَادِ فَلَوْ جَازَ تَسْمِيَةُ الْعَامِّيِّ مُقَلِّدًا جَازَ تَسْمِيَةُ الْمُجْتَهِدِ مُقَلِّدًا
التقریر والتحبیر علی تحریالکمال ابن الھمام3/340
غیرمقلدین کا نظریہ تقلید اوراحناف
اگرمجتہد کے اجتہاد کو مانناتقلید ہے تو روات پر کلام بھی محدثین کرام کے اجتہاد کانتیجہ ہواکرتی ہے اس کومانناتقلید کیوں نہیں ہے۔ اس کے تعلق سے کچھ نصوص یہاں ملاحظہ کیجئے۔
علم جرح وتعدیل اجتہادی اورظنی ہے

بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی لیکن اس کو واضح کرنااس لئے ضروری تھاکہ غیرمقلدین کے فکر ونظرکا دوہراپن کھل کر سامنے آسکے اورواضح ہوسکے کہ جس تقلید پر یہ لوگ کفر شرک کی گردان یاد کئے بیٹھے ہیں وہ توسرے سے تقلید ہی نہیں بلکہ نص اورحجت شرعیہ کی اتباع ہے۔

مسلم الثبوت فقہ حنفی کی ایک قابل قدر کتاب ہے اس میں تقلید پر گفتگوکرتے ہوئے کہاگیاہے کہ حدیث رسول کوتسلیم کرناتقلید نہیں ہے۔
فالرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوالی الاجماع فلیس منہ
مسلم الثبوت ص289

مسلم الثبوت کی شرح علامہ عبدالعلی جوبحرالعلوم کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے فواتح الرحموت کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں وہ مسلم الثبوت کی مذکورہ عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فانہ رجوع الی الدلیل
یعنی کتاب وسنت اوراجماع کی جانب رجوع کرناتقلید اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہ دلیل کی جانب رجوع ہے کیونکہ کتاب وسنت اوراجماع حجت شرعیہ ہیں۔

زبیر علی زئی کی خیانت

ان کی ایک علمی خیانت ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہے۔ایک اورذکر کی جارہی ہے۔

بحرالعلوم یہ لکھنے کے بعد کہ اسی طرح عامی کا مفتی اورقاضی کا عادل گواہوں کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اس کو" نص "نے واجب کیاہے۔اس کو لکھنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہاں تک تو نص کا اقتضاء ہے کہ عامی اہل علم سے مسئلہ دریافت کرے لیکن اہل علم سے مسئلہ دریافت کرنے کے بعد عامی جوعمل کرے گااسی کوتقلید کہیں گے۔ عامی کوکوئی مسئلہ درپیش ہوا وہ کسی مفتی کے پاس گیا اورمسئلہ دریافت کیا۔ یہاں تک نص پرعمل ہےلیکن مسئلہ دریافت کرنے کے بعد وہ دلیل کی پرکھ کئے بغیر اس پرعمل کررہاہے یہی تقلید ہے۔

بحرالعلوم لکھتے ہیں۔
لیس ھذاالرجوع نفسہ تقلیداوان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنابذاتہ تقلید نہیں ہے لیکن رجوع کے بعد اس کے بتائے ہوئے پر عمل کرنا تقلید ہے۔
زبیرعلی زئی نے
وان کان العمل بمااخذوابعدہ تقلیدا
کا ترجمہ یہ کیاہے۔
اگرچہ بعدوالوں نے اس عمل کو تقلیدقراردیاہے۔

حالانکہ ترجمہ وہ صحیح ہے جو راقم الحروف نے ماقبل میں کیاہے یہ محض زبیر علی زئی کی دفع الوقتی ہے کیونکہ اس عبارت سے ان کی لکھی گئی کتاب"دین میں تقلید کا مسئلہ"کی بنیاد منہدم ہورہی ہے اس لئے انہوں نے ترجمہ ہی غلط کردیا۔جیسے بریلوی آیت کریمہ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَکاترجمہ یہ کرتے ہیں ۔تاکہ اللہ آپ کے اگلوں اورپچھلوں کے گناہ معاف کردے ،حالانہ صحیح ترجمہ آپ کے اگلے اورپچھلے گناہ ہیں۔


اسی طرح کشاف اصطلاحات الفنون کے مصنف قاضی محمد اعلیٰ تھانوی لکھتے ہیں۔

وعلی ھذافلایکون الرجوع الی الرسول علیہ الصلوٰۃ والسلام تقلیدالہ(2/1178)
اوراس بنیاد پر رسول پاک کی جانب رجوع(احادیث کو تسلیم کرنا)تقلید میں شمار نہیں ہوگا۔

کشف الاسرار میں ہے۔

وَلَيْسَ اتِّبَاعُ الْأُمَّةِ صَاحِبَ الْوَحْيِ وَلَا رُجُوعَ الْعَامِّيِّ إلَى قَوْلِ الْمُفْتِي وَلَا الْقَاضِي إلَى قَوْلِ الْعُدُولِ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ(کشف الاسرار3/388)
اس طرح دیگر مولفین نے بھی اپنی کتابوں میں یہ بات صاف سیدھے انداز میں کہاہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مانناتقلید میں شمار نہیں کیاجاسکتاکیونکہ وہ دلائل اربعہ میں سے ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
غیرمقلدین کااس اصول کو تسلیم کرنا

یہ بات کہ حدیث نبویؐ کے ماننے کو تقلید نہیں کہاجاسکتاغیرمقلدین نے بھی تسلیم کیاہے چنانچہ وہ تقلید پر لکھی گئی کتابوں میں یہ بات بڑے زوروشور سے دوہراتے ہیں کہ حدیث کوتسلیم کرنے کو تقلید نہیں کہاجاسکتا۔
پہلی مثال

میاں نذیر حسین صاحب غیرمقلدین حضرات کے شیخ الکل فی الکل ہیں۔ انہوں نےکسی کے جواب میں معیارالحق نامی کتاب لکھی ہے۔اس میں تقلید کو انہوں نے واجب مباح،مکروہ اورحرام کے خانوں میں تقسیم کیاہے۔ اورتقلید شخصی کو مباح کے ضمن میں رکھاہے۔یہ اوربات ہے کہ آج کے اہل حدیث کی نئی جنریشن میاں صاحب کے مباح پر شرک وکفر کا فتوی لگاتی ہے۔جیساکہ صاحب حقیقۃ التقلید واقسام المقلدین نے تقلید شخصی کو کفروشرک کاعنوان دیاہے۔

میاں صاحب کااصل مقصد یہ تھاکہ یہ ثابت کیاجائے کہ عامی کامفتی یاعالم سے سوال کرناتقلید نہیں ہے اسی پر انہوں نے زوردیاہے لیکن جوحوالے اصولین کی عبارتوں کے نقل کئے ہیں اس میں وضاحت ہے کہ حدیث کو ماننااوراجماع کو مانناتقلید نہیں ہے۔چنانچہ پہلاحوالہ ملاحسن شرنبلالی کی عقدالفرید کا دیاہے۔

حقیقۃ التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج الاربعۃ الشرعیۃ بلاحجۃ منہافلیس الرجوع الی النبی ﷺ والاجماع من التقلیدلان کلامنہاحجۃ شرعیۃ فی الحجج الشرعیۃ الخ
اس کاخلاصہ ماقبل میں گزرچکاہے کہ حدیث وسنت کو ماننااوراجماع کو مانناتقلید میں شامل نہیں کیوں کہ دونوں حجت شرعیہ ہیں۔
دوسراحوالہ ملافضل قندھاری کی مغتنم الحصول کاہے۔ملاصاحب بھی یہی بات کہتے ہیں۔
فرجوع الی النبیﷺ اوالی الاجماع لیس منہ الخ
خلاصہ وہی ہے جوماقبل میں مذکور ہوا۔اس پر چونکہ میاں صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کیاہے لہذا اس پر بھی ان کا اتفاق سمجھناچاہئے۔

دوسری مثال

زبیر علی زئی" دین میں تقلید کامسئلہ "میں کتب اصول فقہ سے تقلید اصطلاحی کی تعریفات نقل کرکے خلاصہ کے تحت لکھتے ہیں۔
2:قرآن ،حدیث اوراجماع پر عمل کرناتقلید نہیں ہے۔ جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنااورقاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ ص14)

دیگرمثالیں

نتائج التقلید حقیقتۃ التقلید واقسام المقلدین کے مولف اوردیگراس موضوع پر لکھنے والوں نے بھی حدیث رسول کے تسلیم کو تقلید سے خارج رکھاہے اگرکہاجائے کہ اس پر غیرمقلدین کا اجماع ہے توشاید غلط نہ ہوگا۔
خلاصہ کلام حنفیوں اور غیرمقلدین کا اس پراتفاق ہے کہ حدیث رسول کے تسلیم کو تقلید نہیں کہاجائے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
خبرواحد اورعقیدہ

دورحاضر میں چند مصنفین نے جن کو بعض امور میں نہایت زیادہ غلو ہے۔اس عنوان کولے کر احناف پرعموماطعن کیاہے کیونکہ احناف خبرواحد کو عقیدہ کے اثبات کیلئے کافی نہیں سمجھتے۔البانی صاحب ان میں سے ایک ہیں۔ ان کا شاید اس عنوان پر ایک رسالہ بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ احکام اورعقائددونوں مین خبرواحد حجت ہے۔ البانی صاحب کابعض امور میں تشدد معلوم ہے۔

بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں جن کاتشدد اورغلو امتداد زمانہ سے پھیکااوردھیماپڑجاتاہے اورآخرعمر میں اپنے موقف میں وہ لچک پیداکرلیتے ہیں۔ابن تیمیہ کا ایک فتوی جسے کفایت اللہ صاحب نے فورم پر پیش کیاہے کہ اگرکوئی شخص تعین کے ساتھ کسی شخص کی تقلید کوضروری اورواجب سمجھے تو اس سے توبہ کرایاجائے اوراگرتوبہ نہ کرے توقتل کردیاجائے۔حافظ ذہبی ابن تیمیہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے آخر عمر میں ان سے سناکہ ہروہ شخص جونماز کی پابندی کرتاہے میں اس کو مومن سمجھتاہوں کیونکہ حدیث میں آیاہے کہ نماز کی محافظت صرف مومن ہی کرتاہے۔

امام ابوالحسن الاشعری کی زندگی کا بیشتر حصہ مناظرہ اورفرق باطلہ کی تردید میں گزرا۔ ان سے بھی آخر عمر میں یہی منقول ہے کہ میں اہل قبلہ میں سے کسی کوبھی کافر نہیں کہتا۔
حافظ ذہبی سیراعلام النبلا میں امام ابوالحسن اشعری کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔

رایت للاشعری کلمۃ اعجبتنی وھی ثابتۃ رواھاالبہیقی، سمعت اباحازم العبدوی،سمعت زاہر بن احمد السرخسی یقول :لماقرب حضوراجل ابی الحسن الاشعری فی داری ببغداد،دعانی فاتیتہ ،فقال،اشھد علی انی لااکفر احدا من اھل القبلہ ،لان الکل یشیرون الی معبود واحد،وانما ھذاکلہ اختلاف العبارات۔
قلت(الذہبی)وبنحوھذاادین،وکذاکان شیخناابن تیمیہ فی اواخرایامہ یقول:انالااکفر احدامن الامۃ ،ویقول قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم،لایحافظ علی الوضو الامومن ،فمن لازم الصلوات بوضو فھو مسلم۔وھویدعو،ویستغفر لکل من طلب الحق باخلاص،ویرجولہ الرحم فمن ذلک قولہ :فکل من قصدالحق من ھذہ الامۃ فاللہ یغفرلہ ،اعاذنااللہ من الھوی والنفس(سیراعلام النبلا 15/8


لیکن البانی صاحب اس کے برعکس ان لوگوں میں سے ہیں جو عمر رفتہ کے ساتھ اپنے موقف میں مزید شدید ہوجاتے ہیں۔اورجوں جوں زندگی کی گھڑیاں آگے بڑھتی ہیں اسی تناسب سے انکا تشدد اورغلوبھی منزلیں طے کرنے لگتاہے۔بہرحال ابھی ہمارایہ موضوع نہیں ہے لہذا اس باب میں ہم حافظ المغرب ابن عبدالبر کاحوالہ دے کراپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔بشرط زندگی اورصحت پھرکبھی اس موضوع سے انصاف کیاجائے گا۔
وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ فِي خَبَرِ الْوَاحِدِ الْعَدْلِ هَلْ يُوجِبُ الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِيعًا أَمْ يُوجِبُ الْعَمَلَ دُونَ الْعِلْمِ وَالَّذِي عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ أَنَّهُ يُوجِبُ الْعَمَلَ دُونَ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَجُمْهُورُ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالنَّظَرِ وَلَا يُوجِبُ الْعِلْمَ عِنْدَهُمْ إِلَّا مَا شَهِدَ بِهِ عَلَى اللَّهِ وَقَطَعَ الْعُذْرُ بِمَجِيئِهِ قَطْعًا وَلَا خلاف فيه قَالَ قَوْمٌ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْأَثَرِ وَبَعْضُ أَهْلِ النَّظَرِ إِنَّهُ يُوجِبُ الْعِلْمَ الظَّاهِرَ وَالْعَمَلَ جَمِيعًا
(التمہید لابن عبدالبرمقدمہ)
اکثر اہل علم کا قول بشمول امام شافعی ابن عبدالبر یہ نقل کررہے ہیں کہ خبرواحد سے عمل واجب ہوتاہے یقین واجب نہیں ہوتا۔اوراعتقادات ظنی نہیں بلکہ یقینی اورقطعی ہوتے ہیں لہذا اعتقادات کے باب میں خبرواحد کفایت نہیں کرے گی۔

خود امام شافعی کاموقف بھی یہی ہے کہ خبرواحد ظن کا فائدہ دیتی ہے۔
فأما ما كان من سنة من خبر الخاصة الذي يختلف الخبر فيه، فيكون الخبر محتملاً للتأويل، وجاء الخبر فيه من طريق الانفراد: فالحجة فيه عندي أن يلزم العالمين حتى لا يكون لهم ردُّ ما كان منصوصاً منه، كما يلزمهم أن يقبلوا شهادة العدول، لا أن ذلك إحاطةٌ كما يكون نص الكتاب وخبرُ العامة عن رسول الله.ولو شك في هذا شاكّ لم نقل له: تب، وقلنا: ليس لك - إن كنت عالماً - أن تشك، كما ليس لك الا ان تقضي بشهادة الشهود العدول، وإن أمكن فيهم الغلط، ولكن تقضي بذلك على الظاهر من صدقهم، والله ولي ما غاب عنك منهم.
(الرسالہ1/441)
اصول الشاشی کے مولف لکھتے ہیں
فَنَقُول خبر الْوَاحِد هُوَ مَا نَقله وَاحِد عَن وَاحِد أَو وَاحِد عَن جمَاعَة أَو جمَاعَة عَن وَاحِد وَلَا عِبْرَة للعدد إِذا لم تبلغ حد الْمَشْهُوروَهُوَ يُوجب الْعَمَل بِهِ فِي الْأَحْكَام الشَّرْعِيَّة(1/272)
مشہور شافعی فقیہہ ابواسحق شیرازی التبصرہ فی اصول الفقہ میں لکھتے ہیں
أَخْبَار الْآحَاد لَا توجب الْعلم وَقَالَ بعض أهل الظَّاهِر توجب الْعلم وَقَالَ بعض أَصْحَاب الحَدِيث فِيهَا مَا يُوجب الْعلم كَحَدِيث مَالك عَن نَافِع عَن ابْن عمر وَمَا أشبهه(1/298)
امام سرخسی یہ لکھنے کے بعد کہ اخبار چارطرح کے ہوتے ہیں۔ چوتھی قسم وہ یہ بیان کرتے ہیں جس میں صدق وکذب دونوں کااحتمال ہو لیکن صدق کا رجحان غالب ہو۔اس چوتھی قسم کی مثال وہ بتاتے ہیں۔
وَمن هَذَا النَّوْع خبر الْعدْل المستجمع لشرائط الرِّوَايَة فِي بَاب الدّين فَإِنَّهُ يتَرَجَّح جَانب الصدْق فِيهِ بِوُجُود دَلِيل شَرْعِي مُوجب للْعَمَل بِهِ وَهُوَ صَالح للترجيح وَالْمَقْصُود هَذَا النَّوْع(اصول السرخسی1/375)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ قسم رابع کی مثال یہ ہے کہ عادل راوی کی روایت جو دین کے باب میں ہو اورتمام شرائط روایت کی جامع ہو تواس میں دلیل شرعی کی وجہ سے صدق کارجحان غالب ہوتاہے اوراس پرعمل کرناواجب ہے۔
الْقِسْمُ الثَّانِي مِنْ هَذَا الْأَصْلِ: فِي أَخْبَارِ الْآحَادِ وَفِيهِ أَبْوَابٌ الْبَابُ الْأَوَّلُ: فِي إثْبَاتِ التَّعَبُّدِ بِهِ مَعَ قُصُورِهِ عَنْ إفَادَةِ الْعِلْمِ.
(المستصفی116)
أما الثَّانِي الَّذِي يُوجب الْعَمَل دون الْعلم فَهُوَ خبر الْوَاحِد الْمُطلق عَمَّا ينْفَرد بِعِلْمِهِ وَقَالَ قوم إِنَّه يُوجب الْعلم وَالْعَمَل كالخبر الْمُتَوَاتر وَهَذَا إِنَّمَا صَارُوا إِلَيْهِ بشبهتين دخلتا عَلَيْهِم إِمَّا لجهلهم بِالْعلمِ وَإِمَّا لجهلهم بِخَبَر الْوَاحِد فَإنَّا بِالضَّرُورَةِ نعلم امْتنَاع حُصُول الْعلم بِخَبَر الْوَاحِد وَجَوَاز تطرق الْكَذِب والسهو عَلَيْهِ
(المحصول لابن العربی116)
مشہور حنفی اصولی علامہ بزدودی کہتے ہیں۔
(بَابُ خَبَرِ الْوَاحِدِ)وَهُوَ الْفَصْلُ الثَّالِثُ مِنْ الْقِسْمِ الْأَوَّلِ، وَهُوَ كُلُّ خَبَرٍ يَرْوِيهِ الْوَاحِدُ أَوْ الِاثْنَانِ فَصَاعِدًا لَا عِبْرَةَ لِلْعَدَدِ فِيهِ بَعْدَ أَنْ يَكُونَ دُونَ الْمَشْهُورِ وَالْمُتَوَاتِرِ، وَهَذَا يُوجِبُ الْعَمَلَ وَلَا يُوجِبُ الْعِلْمَ يَقِينًا عِنْدَنَا
کشف الاسرارشرح اصول البزدوی2/370)
اصول البزدوی کے شارح علاء الدین البخاری لکھتے ہیں۔
(وَهَذَا) أَيْ خَبَرُ الْوَاحِدِ يُوجِبُ الْعَمَلَ، وَلَا يُوجِبُ الْعِلْمَ يَقِينًا أَيْ لَا يُوجِبُ عِلْمَ يَقِينٍ، وَلَا عِلْمَ طُمَأْنِينَةٍ، وَهُوَ مَذْهَبُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَجُمْلَةِ الْفُقَهَاءِ.
(المصدرالسابق)
علامہ ابن ہمام نے اوران کے شاگرد ابن امیرالحاج نے بڑی طویل بحث اس پر کی ہے اورآخر میں خلاصہ یہی بیان کیاہے کہ خبرواحد سے یقین حاصل نہیں ہوتاہے۔
اگرچہ اوربھی حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن اتنے پر ہی اکتفاء کرتاہوں۔

بہرحال اس بحث کا خلاصہ یہ نکالا کہ خبرواحد سے یقین حاصل نہیں ہوتا۔
ایک سوال تمام حضرات سے

فروعات فقہیہ میں مجتہد کے ادلہ چارہوتے ہیں۔قرآن،سنت،اجماع قیاس،پھرفروعات فقہیہ میں مجتہد کے اپنے اجتہاد اورفکر ونظرکوبھی داخل ہوتاہے​

لیکن کیاایمان اورعقائد میں بھی قیاس کایامجتہد کے اجتہاد کادخل ہے یااس کا تعلق صرف کتاب وسنت سے ہے بالخصوص وہ لوگ جوخبرواحد کومفید للعلم نہیں سمجھتے توان کے نزدیک توخبرواحد بھی عقائد میں ناکافی ہے۔یعنی کسی امر کے عقیدہ ہونے کیلئے ضروری ہے اس کاثبوت خبرواحد سے بھی زیادہ مضبوط طریقہ سے ہو۔کیاجوچیز خبرواحد سے زیادہ مضبوط طریقہ سے ہوگی وہ سوائے خبرمشہوراورخبرمتواتر کے اورکیاہوسکتی ہے۔خواہ یہ تواتر احادیث سے حاصل ہو یاپھر قرآن پاک کی آیات بینات سے۔



ایک اشکال


کسی کے ذہن میں یہ بات کھٹک سکتی ہے کہ عقائد کی کتابوں میں بہت سی ایسی باتیں جس کا ثبوت محض خبرواحد سے بلکہ اس سے بھی کم تردرجہ کے ثبوت سے ہے پھربھی عقیدہ کی کتابوں میں اس کاذکر ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ
اسلام کا بنیادی عقیدہ توصرف یہ ہے کہ
آمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ رسلہ والقدرخیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعدالموت۔
یہ گویاایمان کا متن ہے۔اس کی شرح بہت سارے حضرات نے لکھی ہے۔ جب باطل فرقے پیداہوئے توان سے اہل سنت کوجوچیزیں ممتاز کررہی تھیں اس کوبھی ایمان میں داخل کردیاگیامثلامسح علی الخفین وغیرہ
پھرجب علم کلام کا دور آیاتوکلامی قسم کے مباحث کوبھی ایمان میں داخل کردیاان حضرات کی نیت بخیرتھی اوران کااجرعنداللہ انشاء اللہ محفوظ ہے لیکن غلو کسی بھی چیز کو بگاڑدیتی ہے اورحسن میں بدصورتی پیداکرتی ہے کلامی مسائل کے غلو کا نتیجہ یہ ہواہے کہ جوایمان ایک سطر میں لکھاجاسکتاتھااس پرمناظرے اورمجادلے شروع ہوگئے۔جس کی وجہ سے اب ایمان کے باب میں دفاتر بھی ناکافی ہونے لگے اورکہنے والے کہنے لگے
سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے
ایمان اول دور میں جتناسادہ اورمختصر تھامتاخرین کے نزدیک اتناہی پیچیدہ اورمطول ہوگیا۔
سمٹے تودل عاشق پھیلے توزمانہ ہے
اس تطویل کے ذمہ دار صرف متکلمین ہی نہیں ہیں بلکہ بعض وہ لوگ بھی ہیں جن کا اوڑھنابچھوناکتاب وسنت ہواکرتاہے۔انہوں نے بھی ان مسائل پرمناظرے اورردوکدکامعرکہ شروع کیا۔مثلاحوادث لااول لہ کا ایمان اوراعتقاد سے کیاتعلق ہے لیکن اس کوبھی حضرت ابن تیمیہ عقائد کے باب میں ذکرکرکے سلف کی مہرلگادیتے ہیں۔

بہرحال گزارش کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے باب میں محدثین حضرات کے ہاں آخری درجہ خبرواحد کاہے اورفقہاء کرام کے یہاں خبرواحد بھی عقائد کے باب میں ثبوت کے لحاظ سے کافی نہیں ۔پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ حدیث کے قبول کرنے کو تقلید نہیں کہاجائے گا۔نتیجہ دواوردو چار کی طرح یہ برآمد ہواکہ عقائد پر تقلید کااطلاق کرناہی جہالت اورغلط ہے خواہ احناف کے اصول کے لحاظ سے دیکھیں یاغیرمقلدین اپنے اصول کے لحاظ سے دیکھیں لیکن عقائد کے باب میں تقلید کا لفظ لاناہی غلط ہوگا۔

دوسراجواب یہ ہے کہ جیساکہ ماقبل میں نقل کیاگیاہے اوربھی اصول فقہ پر لکھنے والوں نے یاتقلید کی تعریف کرنے والوں میں سے 95فیصد نے تقلید کی تعریف مین العمل بقول الغیروغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔یہ حقیقت تقریباتمام ہی اصولیین بیان کرتے ہیں کہ تقلید کی حقیقت میں "عمل "شامل ہے۔
سلم الثبوت میں تقلید کی تعریف میں لکھا ہے
(التقلید: العمل بقول الغیر۔۔۔ الخ)
یعنی تقلید غیر کے قول پر عمل کا نام ہے۔
مسلم الثبوت ص 289

فواتح الرحموت میں اسکی شرح میں لکھا ہے
(فصل: التقلید: العمل بقول الغیر من غیر حجۃ) متعلق بالعمل
فواتح الرحموت ج2ص400
یعنی جو تقلید ہے وہ عمل سے متعلق ہے

سلطان المحقیقین شیخ الاسلام علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے
(مسالۃ: التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج۔۔ الخ)
مسئلہ: تقلید اس شخص کے قول پر عمل کا نام ہے جس کا قول دلائل میں سے نہیں
علم الاصول ج3ص453

قاضی محمد اعلٰی تھانوی رحمہ اللہ نےتقلید کی تعریف میں لکھا ہے
العمل بقول الغیر۔۔۔الخ
غیر کے قول پر عمل تقلید ہے۔
کشاف اصطلاحات الفنون ج2ص1178

محمد بن عبد الرحمٰن عید المحلاوی تقلید کی تعریف میں فرماتے ہیں
التقلید۔۔ وفی الاصطلاح ھوالعمل بقول الغیر۔۔۔۔الخ
تقلید اصطلاح میں غیر کے قول پر عمل کو کہتے ہیں
(تسھیل الوصول الی علم الاصول)

علامہ ابن حاجب النحوی المالکی رحمہ اللہ تقلید کی تعریف میں فرماتے ہیں
فالتقلید العمل بقول غیرک۔۔۔۔الخ
پس تقلید، تیرے غیر کے قول پر عمل کا نام ہے
(منتھٰی الوصول والآمل فی علمی الاصول والجدل ص218)

علامہ آمدی الشافعی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اما (التقلید) فعبارۃ عن العمل بقول الغیر ۔۔۔ الخ
تقلید غیر کے قول پر عمل سے عبارت ہے۔
الاحکام فی اصول الحکام ج4 ص227
اوریہ واضح ہے کہ احناف اعمال کو ایمان میں شامل نہیں مانتے اگرچہ یہ قرآن وسنت سے ثابت ہے جیساکہ خود حدیث جبرئیل میں ہے کہ جب حضورنے فرمایاکہ ماالایمان توحضرت جبرئیل نے عقائد کے تعلق سے بتایااورجب حضورپاکﷺ نے دریافت کیاکہ ماالاسلام تواعمال کے تعلق سے بتایا۔بہرحال یہ ہمارے تھریڈ کاموضوع نہیں ہے لہذا اس میں نہ الجھتے ہوئے آمدم برسرمطلب
تقلید کا تعلق عمل سے ہے
ایمان وعقائد کا تعلق عمل سے نہیں ہے(عندالاحناف)
توایمانیات وعقائد پر تقلید کااطلاق کیسے کیاجاسکتاہے؟
یہ جواب حبیب زردان صاحب نے دیاہے انہی کے شکریہ کے ساتھ یہ بات یہاں نقل کی جارہی ہے جزاہ اللہ خیراً
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تیسراجواب

عقائد محدود اورمتعین ہیں اورفروعات فقہیہ غیرمتعین اورغیرمحدود ہیں اس میں ہرلحظہ نیاشان نئی تجلی ہے ہردم نئے نئے حوادث کا ظہور اوروقوع ہے لہذا ایک انسان کیلئے یہ آسان ہے کہ وہ ایمانیات کا قرآن وحدیث سے علم حاصل کرے لیکن فروعات فقہیہ پر حاوی ہونااورقرآن حدیث سے ان مسائل کے دلائل اوراس کی پرکھ کرناآسان نہیں ہے۔

خطیب بغدادی اسی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وَالْأَحْكَامُ عَلَى ضَرْبَيْنِ عَقْلِيٍّ وَشَرْعِيٍّ، فَأَمَّا الْعَقْلِيُّ: فَلَا يَجُوزُ فِيهِ التَّقْلِيدُ , كَمَعْرِفَةِ الصَّانِعِ تَعَالَى وَصِفَاتِهِ وَمَعْرِفَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِدْقِهِ , وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحْكَامِ الْعَقْلِيَّةِ
احکام دوقسم کے ہیں عقلی اورشرعی ۔عقلی میں تقلید جائز نہیں ہے جیسے اللہ اوراس کے صفات کی معرفت،رسول اللہ صلی اللہ علیہ اوران کی سچائی کی پہچان اوراس کے علاوہ دیگر احکام عقلیہ۔
آگے چل کر خطیب مزید کہتے ہیں کہ شرعی احکام دوقسم کے ہیں ایک تو وہ جوبالبداہت اوربالضرورت ہرایک کومعلوم ہیں۔جیسے کہ پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ نماز کی تعداد رکعات،زکوۃ فرض ہے۔ حج فرض ہے۔ رمضان کے روزے فرض ہیں وغیرہ وغیرہ۔تواس میں بھی تقلید نہیں ہوسکتی۔
وَأَمَّا الْأَحْكَامُ الشَّرْعِيَّةُ , فَضَرْبَانِ: أَحَدُهُمَا: يُعْلَمُ ضَرُورَةً مِنْ دِينِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ , وَالزَّكَوَاتِ , وَصَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ , وَالْحَجِّ , وَتَحْرِيمِ الزِّنَا وَشُرْبِ الْخَمْرِ , وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَهَذَا لَا يَجُوزُ التَّقْلِيدُ فِيهِ , لِأَنَّ النَّاسَ كُلَّهُمْ يَشْتَرِكُونَ فِي إِدْرَاكِهِ , وَالْعِلْمِ بِهِ , فَلَا مَعْنَى لِلتَّقْلِيدِ فِيهِ
اب تقلید کس میں ہوسکتی ہے اورکیوں ہوسکتی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ تقلید فروعات فقہیہ میں ہی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ کثیرالجہت والجوانب ہے اس کے فروعات کی کوئی حد نہیں ہے اوراگر تمام افراد پر فروعات فقہہیہ میں کتاب وسنت سے استنباط یادلائل کی معرفت اورپرکھ کو لازم قراردیاجائے تونظام عالم درہم برہم ہوجائے گا۔
وَضَرْبٌ آخَرُ: لَا يُعْلَمُ إِلَّا بِالنَّظَرِ وَالِاسْتِدْلَالِ: كَفُرُوعِ الْعِبَادَاتِ , وَالْمُعَامَلَاتِ , وَالْفُرُوجِ , وَالْمُنَاكَحَاتِ , وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحْكَامِ , فَهَذَا يُسَوَّغُ فِيهِ التَّقْلِيدُ , بِدَلِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: 43] وَلِأَنَّا لَوْ مَنَعْنَا التَّقْلِيدَ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الَّتِي هِيَ مِنْ فُرُوعِ الدِّينِ لَاحْتَاجَ كُلُّ أَحَدٍ أَنْ يَتَعَلَّمَ ذَلِكَ , وَفِي إِيجَابِ ذَلِكَ قَطْعٌ عَنِ الْمَعَايِشِ , وَهَلَاكُ الْحَرْثِ وَالْمَاشِيَةِ , فَوَجَبَ أَنْ يَسْقُطَ
(الفقیہ والمتفقہ2/131)
ہوسکتاہے کہ کوئی صاحب سوال کرناشروع کردیں کہ یہ توخطیب کی تنہامثال ہے اورہوسکتاہے کہ یہ انفرادی رائے ہوان کی ۔توایسے حضرات کی تسلی خاطراطمینان قلب کیلئے ہم کچھ دیگر حوالہ جات بھی پیش کرتے ہیں۔

قاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء فقہ حنبلی کے مایہ نازفقیہہ ہیں۔ فقہ حنبلی کی ترتیب وتہذیب میں ان کا نمایاں حصہ ہے بلکہ یہاں تک کہاگیاہے کہ ان کے بعد کے حنبلی فقہاء کے خوان فقہ کے خوشہ چیں ہیں۔ان کی ایک کتاب اصول فقہ پر" العدۃ فی اصول الفقہ" کے نام سے ہے۔انداز بیان بہت سہل سادہ اوردل میں اترجانے والاہے۔

وہ تقلید کے باب میں لکھتے ہیں۔

كذلك يُقبل قولُ الرسول، ولا يقال: تقليد؛ لأن قوله وفتواه حجةٌّ ودليلٌّ على الحكم
اسی طرح رسول کا قول قبول کیاجائے گااوراس کو تقلید نہیں کہاجائے گاکیونکہ رسول کاقول اورفتوی حجت اورحکم پر دلیل ہے
وہ تقلید کے تعلق سے تفریق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تقلید کی دوقسمیں ہیں
ایک میں تقلید جائز ہے
اورایک میں تقلید جائز نہیں ہے
جس میں تقلید جائز نہیں ہے وہ ہے
فما لا يسوغ فيه التقليد: معرفة الله تعالى، وأنه واحد، ومعرفة صحة الرسالة وإنما قلنا: لا يقلد في هذا، بل على الكل معرفةُ ذلك بغير تقليد: لقوله (1) تعالى: (وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِلَّذِينَ ءامَنُواْ اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطاياهُم مِن شَىْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ) (2) .وهذا أعلى منازل التقليد: أن يضمنَ (3) المقلَّدُ للمقلِّد دركَ ما قلَّده فيه، وأن يتحمل عنه إثمه، فقد ذمة الله تعالى عليه وكذَّبه فيه: ثبت أن التقليد فيه لا يجوز.ولأن كل واحد يمكنه معرفة الله تعالى؛ لأنه يشترك فيها العامي والعالم
(العدۃ فی اصول الفقہ4/1218)

امام الحرمین لکھتے ہیں
فَلَا يسوغ " لأحد " أَن يعول فِي معرفَة الله عَالَى، و " فِي معرفَة " مَا يجب لَهُ من الْأَوْصَاف، " و " يجوز عَلَيْهِ ويتقدس عَنهُ " على " التَّقْلِيد.وَكَذَلِكَ القَوْل فِي جملَة قَوَاعِد العقائد.
(التلخیص فی اصول الفقہ3/428)
محمد امین المعروف امیربادشاہ حنفی ایمان میں تقلید کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں
لِأَن التَّقْلِيد إِنَّمَا هُوَ الْعَمَل بقول الْغَيْر من غير حجَّة، وَقد تحقق الْحجَّة بِالنّظرِ الْمَذْكُور: فعلى هَذَا أَكثر الْعَوام لَيْسُوا بمقلدين فِي الْإِيمَان لأَنهم علمُوا بِالنّظرِ، وَإِن عجزوا عَن تَرْتِيب الْمُقدمَات على طَريقَة أهل الْعلم كَمَا عرف
تقلید غیرکے قول کو بلا(مطالبہ)دلیل کے قبول کرنے کانام ہے اوریہاں حجت نظر(استدلال) سے ثابت ہے اس بناء پر اکثرعوام ایمان میں مقلدنہیں ہے کیونکہ اس کو انہوں نے غوروفکر سے جاناہے۔یہ اوربات ہے کہ وہ اہل علم کی طرح مقدمات اوراستدلال کی ترتیب پر قادرنہیں ہیں۔

بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایمان محدود اورمختصر ہے اورایک شخص چاہے تو اس کا علم حاصل کرسکتاہے۔اس میں نہ قطع معاش ہے اورنہ نظام عالم کے بگڑنےکا خدشہ واندیشہ ۔


ایمان کی حقیقت اورخلاصہ توبس لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ
اس کے آگے جایئے توایمان مجمل کویاد کرلیجئے
اس کے آگے جایئے توایمان مفصل کویاد کرلیجئے
اس کے آگے جایئے توامام طحاوی کی عقیدۃ الطحاویہ کو پڑھ لیجئے
اوراس کے بھی آگے جاناہوتوپھرایمان پر لکھی گئی متاخرین کی پراستدلال کتابوں کامطالعہ کیجئے
قلندرجزدوحرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا


لطیفہ


یہ کفایت اللہ صاحب کا طرزعمل ہے کہ پوسٹ میں لطیفہ شروع کردیتے ہیں ۔انہی کے طرز پر غیرمقلدین کی دورنگی بلکہ سہ رنگی کا کچھ تماشادیکھئے۔
فروعات فقہیہ میں تقلید پر توہم پر کفروشرک کے فتوے کسے جاتے ہیں اوراس کو اربابامن دون اللہ سے تعبیر کیاجاتاہے۔آباء واجداد کی کفر پرتقلید کو اس تقلید پر چسپاں کیاجاتاہے اوربہت کچھ جس سے غیرمقلدین حضرات کی تقلید پر لکھی گئی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

لیکن تعجب ہے کہ وہ لوگ جوفروعات فقہیہ کے ساتھ ساتھ ایمان میں بھی تقلید کے مدعی ہیں ان کے بارے میں ہمارے مہربان خاموشی اختیار کرلیتے ہیں کہ کہیں سرکار والاتبارناراض نہ ہوجائیں۔
جوزبان اورقلم یہاں شعلے اگلتی ہے وہ ان فضیلۃ الشیخ اورمعالی الشیخ کے حق میں سکوت مرگ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

شیخ ابن عثیمین الاصول من علم الاصول (87)میں لکھتے ہیں۔
يكون التقليد في موضعين:
الأول: أن يكون المقلِّد عاميًّا لا يستطيع معرفة الحكم بنفسه ففرضه التقليد؛ لقوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: من الآية43] ، ويقلد أفضل من يجده علماً وورعاً، فإن تساوى عنده اثنان خير بينهما.الثاني: أن يقع للمجتهد حادثة تقتضي الفورية، ولا يتمكن من النظر فيها فيجوز له التقليد حينئذ

تقلید دومقام پر جائز ہے ۔ایک تویہ کہ عامی کیلئے کیونکہ قرآن پاک میں اہل علم سے سوال کرنے کاحکم مذکور ہے اوردوسرے ایسے مجتہد کیلئے جس کے سامنے کوئی مسئلہ درپیش ہو اوراجتہاد کیلئے وقت اورگنجائش نہ ہو تواس وقت وہ مجتہد بھی دوسرے مجتہد کی تقلید کرسکتاہے۔

شیخ ابن عثیمین آگے لکھتے ہیں۔
اشترط بعضهم لجواز التقليد أن لا تكون المسألة من أصول الدين التي يجب اعتقادها؛ لأن العقائد يجب الجزم فيها، والتقليد إنما يفيد الظن فقط. والراجح أن ذلك ليس بشرط؛ لعموم قوله تعالى: {فَاسْأَلوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ} [النحل: من الآية43] والآية في سياق إثبات الرسالة، وهو من أصول الدين، ولأن العامي لا يتمكن من معرفة الحق بأدلته، فإذا تعذر عليه معرفة الحق بنفسه لم يبق إلا التقليد؛ لقوله تعالى: {فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} [التغابن: من الآية16] .
(المصدرالسابق88)
بعض لوگوں نے تقلید کے جواز کی یہ شرط رکھی ہے کہ اس کا تعلق اصول دین(عقائد)سے نہ ہو کیونکہ عقائد میں جزم(یقین)ضروری ہے اورتقلید سے صرف غلبہ ظن حاصل ہوتاہے۔جب کہ راجح بات یہ ہے کہ یہ (تقلید عقائد میں نہ ہونا)شرط نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول فاسئلوااہل الذکر عام ہے اوراس کاماقبل بھی اثبات رسالت سے تعلق رکھتاہے جو کہ اصول دین میں سے ہے اوراس لئے بھی کہ حق کی معرفت دلائل کے ساتھ عامی کیلئے ممکن نہیں ہے اورجب حق کیمعرفت اس کیلئے مشکل ہوگئی تواب ایک ہی شکل بچتی ہے کہ وہ عقیدہ میں بھی تقلید کرے۔

ہے کسی کے زبان اورقلم میں یارااورتب وتاب !ہے کوئی جو سماحۃ الشیخ کے اس فرمان ذیشان پر واضح طورپرتنقید کی جرات رکھتاہو؟

ایک دوسرے فضیلۃ الشیخ کیالکھتے ہیں وہ بھی دیکھتے چلیں۔
المشهور من المذهب أنه لا يجوز التقليد في أصول الدين، وذهب بعض الحنابلة والشافعية وهو اختيار تقي الدين ابن تيمية إلى أنه يجوز التقليد في مسائل أصول الدين (1) .والقول بالجواز هو الراجح، وقد استدل له الشيخ العثيمين - رحمه الله - في "شرح السفارينية" (ص/311) بما يلي:1 - أن الله أحال على سؤال أهل العلم في مسألة من مسائل الدين التي يجب فيها الجزم، فقال: (وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) [النحل: 43] ونسألهم لنأخذ بقولهم، ومعلوم أن الإيمان بأن الرسل رجال من العقيدة ومع ذلك أحالنا الله فيه إلى أهل العلم.2 - وقال تعالى: (فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ) [يونس: 94] ، ويسألهم ليرجع إليهم، وإذا كان الخطاب هذا للرسول ولم يشك فنحن إذا شككنا في شيء من أمور الدين نرجع إلى الذين يقرؤون الكتاب إلى أهل العلم لنأخذ بما يقولون، إذن هذا عام يشمل مسائل العقيدة.
3 - أننا لو ألزمنا العامي بمنع التقليد والتزام الأخذ بالاجتهاد لألزمناه بما لا يطيق، وقد قال تعالى: (لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا) [البقرة: 286]
فالصواب المجزوم به القول الثاني: أن ما يطلب فيه الجزم يكتفي فيه بالجزم سواء عن طريق الدليل، أو عن طريق التقليد) .

(المعتصرمن شرح مختصرالاصول من علم الاصول)
خلاصہ وہی ہے جو ماقبل میں بیان ہوابس صرف اتنی بات زیادہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی اسی کی جانب مائل ہیں کہ تقلید عقائد میں بھی ہوسکتی ہے۔
کیااب بھی کفروشرک کے فتوی کی گولہ باری جاری رہے گی یاابن تیمیہ کواحناف کے محاذ پر دیکھ کر ہمارے مہربان اپنے زبان وقلم پرکنٹرول کریں گے ۔ورنہ کہیں ایسانہ ہو کہ ان کے ہی فتوی کے نشتروں سے شیخ الاسلام کی ذات والاصفات مجروح ہوجائے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ایک اشکال:

ایک سوال یہاں ہوسکتاہے کہ پھر مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے المہند میں احناف کے اشعری اورماتریدی ہونے کاذکر کیاہے اس کی کیاحقیقت ہے۔ جب کہ آپ کا موقف عقائدمیں تقلید نہیں کرنے کاہے۔
اس کاالزامی جواب یہ ہے کہ جب ہم عقائد میں امام ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرتے توپھرمولاناخلیل احمد سہارنپوری اوردارالعلوم دیوبند کے مفتی کاتذکرہ ہی فضول ہے۔
دوسراجواب یہ ہےکہ ہم کسی کے اشعری اورماتری ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ وہ اس کی تقلید کرتاہے۔شاہ ولی اللہ کے زیردرس رہنے والاان کے ہاتھ سے لکھاگیاحجۃ اللہ البالغہ کاجومخطوطہ پٹنہ کے خدابخش لائبریری میں موجود ہے اس میں شاہ ولی اللہ اپنے بارے میں رکھے لکھتے ہیں۔
العمری نسبا،الدھلوی وطنا،الاشعری عقیدۃ الصوفی طریقۃ،الحنفی عملاً،والحنفی الشافعی تدریساً،خادم التفسیر والحدیث والفقہ والعربیۃ والکلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23شوال 1159
اس تحریر کے نیچے حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمہ اللہ نے یہ عبارت لکھی ہے۔ "بیشک یہ تحریر بالامیرے والد محترم کے قلم کی لکھی ہوئی ہے"۔(بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغۃ1/56)

توجوتوجیہہ غیرمقلدین حضرات حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے اشعری ہونے کے تعلق سے کریں گے وہی بات مولاناخلیل احمد سہارنپوری کی جانب سے بھی سمجھ لی جائے۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ مولاناخلیل احمد نے تقلید کا لفظ استعمال نہیں کیابلکہ انہوں نے اتباع کا لفظ استعمال کیاہے کہ عقائد میں ہم امام شعری اورامام ابومنصورماتریدی کی اتباع کرتے ہیں۔
غیرمقلدین جن کایہ کہتے گلانہیں سوکھتاکہ عامی کا فریضہ تقلید نہیں ہے اتباع ہے وہ اس جگہ اتباع کے لفظ سے تقلید کیوں کشید کررہاہے۔
یاتواسے واضح کرناچاہئے کہ اتباع بھی تقلید کا مترادف ہے اوریایہ کہ ہم اگرچہ نام اتباع کالیتے ہیں لیکن دراصل یہ تقلید ہی ہے۔
بالخصوص جب کہ مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے کلام میں ہی اس کاقرینہ موجود ہے کہ انہوں نے اتباع سے تقلید مراد نہیں لیاہے کیونکہ اس سے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ
ہم فروعات فقہیہ میں امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اورعقائد میں امام ابوالحسن الاشعری اورامام ابومنصورماتریدی کی پیروی کرتے ہیں

چوتھاجواب
اگرمان لیاجائے کہ مولاناخلیل احمد کے اتباع کےلفظ سے تقلید ہی مراد ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کریہ بھی مان لیاجائے کہ انہوں نے تقلید کا لفظ ہی استعمال کیاہے۔پھربھی ہماراعدم تقلید کابھی دعویٰ درست ہوگا اورمولاناکی تقلید کی بات بھی غلط نہ ہوگی۔
چونکہ عقائد کتاب وسنت پر مبنی ہیں لہذا اس کو تقلید نہیں کہاجاسکتا۔جیساکہ اس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی لیکن لیکن قرآن کے عجائبات کی انتہاء نہیں اورحضورپاک کوجوامع الکلم عطاکیاگیاتھالہذا اس کی صحیح مراد معلوم کرناجوفہم سلف کے منشاء ومراد کے موافق ہو۔اس کو ثابت کرنے میں جن دلائل اوراصول سے کام لیاجاتاہے اس کی سمجھ اورپرکھ عامی کے بس کی بات نہیں لہذا اس فہم اورسمجھ میں ان کی تقلید کی جاتی ہے۔
جتنے گمراہ فرقے گزرے سبھوں نے اپنے عقائد کے اثبات کیلئے قرآن وسنت سے دلیل تلاش صحیح اورغلط طورپر۔ایسے میں اہل سنت کے علماء بھی ان باطل فرقوں کا استیصال کرنے اٹھے اورانہوںنے اہل سنت والجماعت کے عقائد کومبرہن اورمدلل کرنے کے ساتھ باطل فرقوں پر زوردار ضرب لگائی۔ اس سلسلے میں دونام نمایاں ہیں۔ایک امام ابوالحسن الاشعری اوردوسرے امام ابومنصورماتریدی۔چونکہ امام ابومنصورماتریدی بغداد سے دورسمرقند میں رہائش پذیر تھے لہذاان کانام اورکام گوشہ گمنامی کی نذرہوگیا۔بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک آدمی اس بات پر یقین رکھتاہے کہ حضورپاک نے آمین بالجہر کی ہےلیکن آمین بالجہر کا حدیث سے استدلال کا طریق کار کیاہے۔مخالف روایتوں کا جواب کیاہے اس روایت کو راجح کہنے کی وجوہ ترجیح کیاہیں۔ اس میں وہ مجتہد کی تقلید کرتاہے۔اب آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ تقلید کررہاہے کیونکہ جس بات میں وہ تقلید کررہاہے وہ حدیث سے ثابت ہے اوریہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ تقلید نہیں کررہاہے کیونکہ بہرحال وہ مجتہد کی بات کو تسلیم کررہاہے اس کی دلیل کو سمجھے بوجھے اورجانے بغیر۔
یہ کسی حد تک منطق کی اصطلاح میں لاعین ولاغیرکی مثال ہے ۔یعنی ایک ہی چیز ایسی ہوسکتی ہے کہ آپ اس کومکمل طورپر نہ اس خانے میں رکھ سکتے ہیں اورنہ اُس خانے میں۔
اس کی ایک مثال لیں:​
آپ کے پاس ٹیپ ریکارڈ ہے۔آپ نے کسی تلاوت کی ریکارڈنگ لگائی اورتلاوت سننے لگے۔ آواز کم زیادہ کرتے ہیں۔ اس وقت یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ بعینہ قاری کی آواز ہے اوریہ کہناتومشکل ہے ہی کہ یہ قاری صاحب کی آواز نہیں ہے۔

ایک مزید مثال ملاحظہ ہو:

اب عقائد کے تعلق سے جوحدیثیں مروی ہیں اس کے معنی ومفہوم میں بہت گنجائش رہتی ہے۔ایسے مین حدیث کو تسلیم کرنے کے بعد اسکے معنی ومفہوم میں جواختلاف ہوتاہے اس میں بھی توعامی کسی نہ کسی کی بات تسلیم کرے گا۔اسی کو تقلید سے تعبیر کیاگیاہے۔مثلاایک حدیث ہے۔

خلق اللہ آدم علی صورتہ

اس بارے میں حمیدی سے منقول ہے کہ انہوں نے سفیان بن عیینہ کی موجودگی میں اس حدیث کے ظاہر کے مطابق عقیدہ نہ رکھنے والوں کے بارے میں سب وشتم کیا۔
وسمعت أبا عبد الله يقول لقد سمعت الحميدي يحضره سفيان بن عيينة فذكر هذا الحديث خلق الله آدم على صورته فقال من لا يقول بهذا فهو كذا وكذا يعني من الشتم وسفيان ساكت لا يرد عليه شيئاً (بیان تلبیس الجھمیہ 6/416)
اس کے بالمقابل سفیان بن عیینہ کے عہد سے تھوڑاہی متاخر حضرت امام ابن خزیمہ کااس حدیث کے سلسلے میں یہ قول دیکھئے۔
قال ابن خزيمة توهم بعض من لم يتبحر العلم أن قوله على صو رته يريد صورة الرحمن عز وجل عن أن يكون هذا معنى الخبر بل معنى قوله خلق آدم على صورته الهاء في هذا الموضع كناية عن اسم المضروب والمشتوم أراد أن الله خلق آدم على صورة هذا المضروب الذي أمر الضارب باجتناب وجهه بالضرب والذي قبح وجهه فزجر صلى الله عليه وسلم أن يقول ووجه من أشبه وجهك لأن وجه آدم شبيه وجوه بنيه فإذا قال الشاتم لبعض بني آدم قبح الله وجهك ووجه من أشبه وجهك كان مقيحاً وجه آدم صلوات الله عليه الذي وجوه بنية شبيهة بوجه أبيهم فتفهموا رحمكم الله معنى الخبر لا تغلطوا ولا تغالطوا فتضلوا عن سواء السبيل وتحملوا على القول بالتشبيه لذي هو ضلال(بیان تلبیس الجھمیہ)
حدیث ایک ہے لیکن اس کے معنی ومفہوم کو سمجھنے میں دوائمہ حدیث مختلف الخیال ہیں۔
اسی طرح عقائد کے باب میں ہم حدیث پر ایمان رکھتے ہوئے اس معنی ومفہوم کواخذ کرتے ہیں جوامام ابوالحسن الاشعری اورامام ابوالمنصورالماتریدی اوردیگرائمہ اہل سنت نے سمجھاہے۔
مولاناقاری طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں۔
یہی اعتدال مسلک کی صورت کلام اورمتکلمین کے بارے میں بھی ہے۔ نصوص صریحہ سے ثابت شدہ عقائد تقریباسب کے یہاں متفق علیہ ہیں۔ اس لئے ان میں علاوہ نص کتاب وسنت کے اجماع بھی شامل ہے۔ لیکن استنباطی یافروعی عقائد یاقطعی عقیدوں کی کیفیات وتشریحات میں ارباب فن کے اختلافات بھی ہیں۔ اس لئے ان میں یکسوئی حاصل کرنے کیلئے متکلمین کے بابصیرت ائمہ میں سے کسی کادامن سنبھالنااسی طرح ضروری تھا۔(علماء دیوبندی کادینی رخ ومسلکی مزاج ص151)
اس بحث کو ایک مزید مثال دے کر ہم ختم کرناچاہیں گے۔
اعمال ایمان کاحصہ ہیں یانہیں ہیں۔اس سلسلے میں دونوں فریق کے کتاب وسنت سے اپنے اپنے دلائل ہیں۔اگرچہ ابن تیمیہ نے اس کو انجام کارایک ماناہے لیکن قول پر بدعت کااطلاق کیاہے جب کہ دیگر صاحبان علم نے اسکو نزاع لفظی ماناہے کیونکہ انجام کار دونوں کامفاد ایک ہی رہتاہے۔
اب قرآن وحدیث سے دونوں فریق دلیل پیش کرتے ہیں۔ ایک عامی چاہے امام ابوحنیفہ کی صف میں آئے یامحدثین کی صف میں کھڑاہو۔لیکن بہرحال دلائل کے موازنہ سے وہ عاری ہے ۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس قول کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے۔لہذا اسکو من وجہ تقلید بھی کہہ سکتے ہیں اورمن وجہ عدم تقلید بھی کیونکہ یہ قول بھی کتاب وسنت سے منسلک ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے قول کہ عقائدمیں تقلید نہیں ہوتی اورمولانا خلیل احمد سہارنپوری کے اس قول کہ ہم عقائد میں امام اشعری اورماتریدی کے (بالفرض مان لیاجائے )مقلد ہیں میں کوئی تعارض اورتناقض نہیں ہے کیونکہ من وجہ یہ بھی درست ہے اورمن وجہ وہ بھی درست ہے۔

جیسے کہ ایک شخص بیٹا ہے یہ بھی درست اوروہ باپ ہے یہ بھی درست کہ وہ من وجہ یعنی اپنے والد کے مقابلہ میں بیٹاہے اوراپنے بچون سے جب تقابل کیاجائے توباپ ہے۔

اسی لحاظ سے اگرہم یہ دیکھیں کہ عقائد کی بنیاد نصوص کتاب وسنت پر ہے تویہ عدم تقلید ہے جیساکہ غیرمقلدین کاخود بھی اعتراف ہے اوراگریہ دیکھیں کہ معنی ومفہوم کو سمجھنے میں امام ابوالحسن الاشعری اورامام منصورماتریدی کو واسطہ اورذریعہ بنایاگیاہے تویہ تقلید ہے۔

والسلام
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
محترم جمشید صاحب! آپ کی درج بالا تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا میرے خیال میں آپ طالب الرحمان صاحب کی کتاب میں اٹھائے گئے اعتراضات میں سے کسی ایک اعتراض کا جواب دے رہے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر آپ دوٹوک الفاظ میں اپنا مؤقف بیان کر دیتے۔

دوسری گزارش یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بات اگر مختصر اور اصل مطلب کی ہو جایا کرے تو کہتے ہیں زیادہ مفید ہوتی ہے بجائے اس کے اسے مدلل بنانے کی کوشش میں انسان لگا رہے۔چلیں ذیل میں آ پ کی چند ایک معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
1۔ آپ نےفرمایاکہ عقائد میں تقلیدہوتی ہی نہیں کیونکہ یہ سب نص سے ثابت ہوتےہیں اورتقلید کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے۔

درست کہا آپ نے کیونکہ یہ علم اصول فقہ کی اصطلاح ہے لیکن یہ بات ایک حقیقت ہےکہ احناف عقیدے میں ماتریدی منہج پر چلتے ہیں۔ اب اس منہج کے مطابق صفات الہیہ کےباب میں جو رائے اپنائی جائےگی اس کےخلاف کوئی نص آجائے تو احناف اپنے منہج کو عزیز سمجھیں گے۔

2۔ آپ نے فرمایا کہ جو مجتہد نہیں وہ تقلید ہی کرے گا۔

درست کہا آپ نے، لیکن جب اجتہاد کے مخالف نص آجائے گی تو رائے بدلنا ہوگی۔

3۔ ویسے عرض کرتا چلا جاؤں کہ عقائد میں تقلید کے حوالے سے علمائے دیوبند مختلف رائے رکھتے ہیں وہ اس اصطلاح کو یہاں استعمال کرتے ہوئے بعض کہتےہیں عقائد میں تقلید ہونی چاہیے اور بعض اس کے برعکس ہیں۔

4۔ عقائد کے باب میں آپ خبر واحد کو حجت نہیں مانتے اور اس باب میں آپ صراحت بھی فرماتے ہیں کہ عقائد کی تفصیلات کی بات ہورہی ہےجیسےمسح علی الخفین وغیرہ اوربنیادی عقائد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ نص قطعی سے ثابت ہیں بات ان کی نہیں

درست کہا آپ نے، لہٰذا جب عقائد کی تفصیلات میں آپ خبر واحد کی حجیت کےقائل ہیں تو پھر بنیادی عقائد کی بات رہ گئی۔ اور وہ ویسے ہی نص قطعی سے ثابت ہیں۔ لہٰذا اس باب میں صرف ایک فرضی اختلاف رہ گیا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
گیلانی صاحب!
یہ تحریر دراصل شاکر صاحب کی فرمائش پر لکھی گئی ہے کیونکہ انہوں نے سوال کیاتھاکہ احناف ایک جانب عقائد میں عدم تقلید کے مدعی ہیں اوردوسری جانب وہ امام ابومنصور ماتریدی اورامام ابوالحسن اشعری کی پیروی کرتے ہیں ۔ اسی الجھن کے حل کیلئے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔
 
Top