یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
کہ
کہ
چور کو چور نہ کہو اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہو
اور
غلیظ ترین کافرانہ عقائد کے انبار رکھنے والے کو کافر نہ کہو
شیعہ مذہبی کتب کی ان عبارات اور عقائد و نظریات کو پڑھنے کے بعد صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ شیعہ کافر ہے بلکہ آپ تسلیم کریں گے کہ
شیعہ کائنات کا بدترین کافر ہے
اور یہ حقیقت آپ پر یقینا روز روشن کی طرج اب واضح ہوچکی ہے کہ ہم
شیعہ کو ’’ کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟
ہفت روزہ
الا عتصام
جلد۴۲-شمارہ ۲۹--------۲۶ذوالحجۃ ۱۴۱۰ھ-۲۰ جولائی۱۹۹۰ء جمعۃ المبارک
حافظ صلاح الدین یوسف
فسادات کے اسباب و عوامل اور ان کے انسداد کی ضرورت
ماہ محرم الحرام کی آمد آمد کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں کی دھرکنیں تیز ہو جاتی ہیں ۔لوگ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو جاتے ہیں اورفتنہ و فساد کے مہیب خطرات ملک کے افق پر منڈلانے لگتے ہیں ۔
کیوں ؟
محض اس لئے کہ محرم کے تصور کے ساتھ فتنہ و فساد ایک لازمی چیز بن گئے ہیں ۔مذہبی فساد کے بغیر محرم کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔
ان مذہبی فسادات کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کے طورپر محرم سے بہت پہلے سے ’’ امن کمیٹیاں ‘‘ قائم کردی جاتی ہیں شیعہ سنی علماء کے مشترکہ اجتماعات بلاکر ان سے اتحاد کی اپیلیں کی جاتی ہیں اور علماء و ذاکرین حضرات بھی اس کے جواب میں اتحاد و یگانگت کے قائم رکھنے کا عہد کرتے ہیں اورفرقہ وارانہ کشیدگی سے اجتناب کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں ۔
لیکن ا س کے باوجود ہرسال کا مشاہدہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تنازعات اور مذہبی فسادات کم یا بیش ضرور رونما ہو کر رہتے ہیں ۔ حکومت کی کوششوں کی علی الرغم ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ بہرصورت مذہبی تلخیوں اور کشیدگیوں کی آماجگاہ بن کر رہتا ہے اور کہیں نہ کہیں خونی تصادم یا کم از کم سنگ زنی وخشت بازی ضرور ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ محرم اورفسادات لازم و ملزوم کیوں بن گئے ہیں ؟ مسلمانوں کے سال نو کا آغاز ماردھاڑ اورقتل و غارت گری سے کیوں ہوتا ہے؟
اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ ایک فرقے نے مسلمانوں کے اکابر پرست و شتم اور اصحاب رسولﷺ پر تبرا کرنے کو اپنا مذہبی شعار بنالیا ہے ۔ نیز اپنے سیاسی و تبلیغی مراسم کو عباد ت کا نام دے کر امام باڑوں کی بجائے سڑکوں اورکوچہ و بازاورں میں بجالانے پراصرا رکرنا ہے۔
حالانکہ موٹی سی بات ہے کہ سّب رشتم کسی بھی مذہب کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح سڑکیں اور بازار بھی اگر نوحہ و ماتم اور سینہ کوبی و زنجیر زنی عبادت ہے ۔ مراسم عبادت بجا لانے کی جگہیں نہیں ہیں ۔ مذہبی مراسم کی ادائیگی کے لئے ہر فرقہ و مذہب میں عبادت گاہیں ہی عبادت کے لئے ہوتی ہیں ، نہ کہ کوچہ و بازار اور سڑکیں اور چوراہے۔
اسلام کی مسلمہ شخصیتوں بالخصوص حضرت ابو بکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عثمانؓ غنی ، حضرت عمرو بن العاصؓ ،حضرت معاویہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ و حفصہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو طعن و تشنیع کا ہدف بنانا اور اس طرح ان مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کرنا جن کے نزدیک ان کی عزت و توقیر دین و ایمان کا حصہ ہے ، ذرا سوچئے ایک ایسے ملک میں اس بدزبانی کا جواز کیوں کرہو سکتا ہے جس کی اکثریت مذکورہ اکابرکو اپنا دینی رہنما و پیشوا سمجھتی ہے اور جن کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو عین سعادت ؟
یہ حضرات کس طرح مسلمانوں کے اکابر کے خلاف خبیث باطنی اوربدزبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اس کا اندازہ کرنے کے لئے ہم آج اپنے سینے پر پتھر رکھ کر ، نقل کفر کفر نہ باشد- کے مصداق صرف ایک مصنف کی کتابوں سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
یہ مصنف ہے:۔
’’ حجۃ الاسلام مولانا غلام حسین نجفی (فاضل عراق) سرپرست ادارہ تبلیع اسلام و مدرس مدرسہ جامع المنتظر ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور ‘‘
ان صاحب کی ایک کتاب
’’ سہم مسموم فی جواب نکاح ام کلثوم ‘‘ ہے جو ۴۴۰ صفحات پر مشتمل ہے اس میں حضرت عمرؓ کے بارے میں جو جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں ۔
٭ شیخ سُو بڈھا خبیث (ص ۱۴۸)
٭ کئی مرتبہ نبی کی نافرمانی کی۔ ہم جناب عمر کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے (ص ۲۲)
٭ جناب عمر کی آخری غذا شراب تھی۔
٭ جناب عمر مرض ابنہ یعنی علت للشائخ (…مردانے) میں مبتلا تھے۔
(ص ۲۴۳-۲۴۶-۴۱۶)
٭ جناب عمر نبی کی بیویوں پر آوازے کستا تھا۔
٭ جناب عمر شراب حرام ہونے کے بعد بھی شراب پیتے رہے۔
٭ جناب عمر کا ایمان پر مرنا مشکوک ہے۔
٭ جناب عمر جہنم کا تالا ہے۔
٭ جناب عمراپنی بیوی سے غیر فطری طریقے سے ہم بستری کرتا تھا ۔
(ص ۴۳۲)
٭ جناب عمر اپنی غلط کاریوں کے حساب سے قبر میں بارہ سال کے بعد فارغ ہوئے (۴۳۴)
٭ جناب عمر حالت جنابت میں بھی نماز پڑھا دیا کرتے تھے۔ (ص ۴۳۶)
اسی کتاب میں ام المومنین حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کی بابت لکھا ہے کہ :-
’’ جناب عائشہ اور جناب حفصہنے جو کردارنوع اور لوط علیہم السلام کی بیویوں نے ان نبیوں کے خلاف ادا کیا تھا وہی کردار جناب عائشہ بنت ابی بکر اور جناب حفصہبنت عمر نے اپنے شوہر پیغمبر اسلام کے خلاف ادا کیا ہے ۔ (ص ۲۰)
’’ جس طرح جناب نوح اورلوط کی بیویاں طیبات میں داخل نہیں اسی طرح جناب عائشہ اور حفصہبھی طیبات میں داخل نہیں ۔ ص ۲۱ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کتاب میں ’’مکار پیشوا ‘‘ کہا گیا ہے ۔ ص ۴۴۰
اس کی ایک دوسری کتاب ہے۔
’’ کیا ناصبی مسلمان ہیں ؟‘‘
اس میں درج ذیل غلاظتیں ملاحظہ ہوں ۔
٭ نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ مرتد ہوگئے تھے۔
’’ صحابیت کی چادرمیں اتنے سوراخ ہیں کہ تمہاری ماں تمام زندگی ٹاکیاں لگاتی رہے تو پوری نہیں آئے گی‘‘۔ (ص ۵۳)
اسی کتاب میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کو بار بارحمار الٰہی اور مولانا منظور نعمانی لکھنؤ کو حلالے کی سٹ لکھا گیا ہے۔
’’ وہابی اہل حدیث عورتیں ہندوؤں کی عورتوں سے بھی زیادہ ملعون ہیں ‘‘۔ (ص ۶۶)
ا س کی ایک اور کتاب ہے۔
’’ قول مقبول فی اثبات و حدیث بنت رسولﷺ‘‘
اس میں حضرت عثمان ؓ غنی کی بابت جو گوہر افشانیاں فرمائی گئی ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :۔
٭ جناب عثمان نے مردہ بیوی سے جماع کیا ۔ (ص ۳۲۴)
٭ شہوت کا غلبہ ہوا اوربیماربیوی کو ہم بستری سے قتل کردیا ۔ پس ایسے خلیفہ کو دور سے سلام ہمارے۔ (ص ۴۲۵)
٭ امیہ خاندان کے زیادہ افراد زنا کار تھے ۔ (۴۴۰)
٭ یزید بن معاویہ نے اپنی ماں اور بہنوں سے زنا کیا ۔ (ص ۴۴۳)
یہ اقتباسات تو’’ مشتے از خردارے‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ورنہ ساری کتابیں غلاظتوں اور خباثتوں کی پوٹ ہیں ۔ جب تک ان خباثتوں اور غلاظتوں کا مکمل سد باب نہیں کیا جائے گامحض امن کمیٹیوں سے اور سرکاری درباروں سے ائرکنڈیشنڈ کمروں میں مشترکہ اجتماعات سے فتنہ و فساد کا استیصال نہیں ہو سکتا ۔ یہ طرز عمل تو ع سنک ربستند و سگاں را گزاشتند ……… کاہی آئینہ دار ہے۔
اسی طرح مذہبی جلوسوں کا سلسلہ بھی فتنہ ئو فساد کا بہت بڑا سبب ہے ، محرم میں ماتمی جلوسوں کا کوئی جواز نہیں بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ مطلقاً ہرقسم کے سیاسی و مذہبی جلوسوں پر پابندی ہونی چاہئیے یہ سب جلوس چاہے مذہب کے نا م پر ہوں یا سیاست کے نا م پر ملک میں بگاڑ اور فتنہ و فساد کے سرچشمے ہیں ۔ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اس میں ایسے جلوسوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہو سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ادوار خیرالقرون میں ان جلوسوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ یہ سب بعد کی پیداوار ہیں ۔ اور ظاہر بات ہے کہ صدیوں بعد ایجاد ہونے والے یہ جلوس اسلام کا حصہ نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام تو وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا ہے یا پیغمبر اسلام نے فرمایا، یا کرکے دکھایا ہے حتیٰ کہ ائمہ اہل بیت سے بھی ان کا ثبوت مہیا نہیں کیا جا سکتا۔
اس لئے ہم عرض کریں گے کہ جلوسوں والے دن جلوسوں کے راستوں کے مکینوں پریہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ اپنے دروازے ، کھڑکیاں بند رکھیں ، حتی کہ چھتوں پر کوئی نہ چڑھے ۔ ان جلوسوں پر ہی پابندی عائد کی جائے تاکہ_____ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مکینوں اور دکانداروں پر جو پابندی عائد کی جاتی ہے سراسر ظلم ہے ۔ دنیا میں کسی قانون میں اس قسم کی پابندی کا کوئی جواز نہیں ۔ جب کہ جلوسوں پر پابندی ، جن کے ذریعے سے فساد پھیلتا ہے ایک معمول کی کاروائی اور انتظامیہ کی منصبی ذمہ داری ہے ۔ علاوہ ازیں ان جلوسوں کے ذریعے سے نوحہ و ماتم کی جو رسمی کاروائی کرنی مقصود ہوتی ہے وہ امام باڑوں میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ اس لئے اس مفروضہ ’’ مذہبی فریضہ ‘‘ کی ادائیگی میں بھی کوئی رکاوٹ واقع نہیں ہوتی ۔
وما علینا الا لبلاغ