امام محمد ناصرالدین الالبانی سے جماعت المسلمین کے متعلق استفسار
امام محمد ناصر الدین الالبانی موجودہ دور کے عظیم محدث اورفن اسماء الرجال کے ماہر ہیں فقہ حدیث میں بھی ان کو مکمل بصیرت حاصل ہے غرض علوم الحدیث کے ہرفن پر وہ مکمل دسترس رکھتے ہیں علاوہ ازیں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے احادیث صحیحہ کو احادیث ضعیفہ اور موضوعہ سے الگ کرنا شروع کردیا ہے اور اس کے لئے انہوں نے احادیث صحیحہ اور احادیث ضعیفہ وموضوعہ کے الگ الگ سلسلے شروع کر رکھے اور کتب احادیث پر تحقیق اور تخریج کا سلسلہ اس کے علاوہ ہے اور صحاح ستہ کی کتابوں کو بھی انہوں نے دو حصوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیاہے مثلا صحیح ابو داؤد )، ضعیف ابو داؤود وغیرہ ان سے پہلے ایسا کارنامہ کسی محدث نے انجام نہیں دیا ۔ موصوف خود ثقہ اورقابل اعتماد ہیں بلاشبہ موجودہ دور کے امام الحدیث ہیں اللہ پاک ان کو لمبی عمر عطا کرے اورصحت وتندرستی کے ساتھ ذہنی صلاحیتیں پورے عروج و کمال کے ساتھ عطا فرمائے اورپوری توجہ اورانہماک کے ساتھ خدمت حدیث کی توفیق عطا فرمائے آمین
امام موصوف کے یہ سوال و جواب عربی زبان میں تھے اور اسے اردو کے قالب میں میرے عزیز دوست اورجواں سال ساتھی معراج النبی صاحب نے ڈھالا ہے ۔ معراج النبی صاحب ایک اچھے عالم دین ہیں اور کتاب وسنت میں عمدہ بصیرت رکھتے ہیں موصوف نے پہلے امام صاحب سے سوال و جواب کے عربی الفاظ کو صفحہ قرطاس پرمنتقل کیا اور پھر اس کو اردو کا جامہ پہنایا ۔ ہم اسی تعاون کیلئے موصوف کے شکرگزار ہیں ۔ ہم نے طوالت کے خوف سے عربی الفاظ کو خذف کر دیا ہے اوراردو پر نظر ثانی کرکے آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔
امام محمد ناصر الالبانی سے جماعت المسلمین کے سلسلہ میں ایک سوال پوچھا گیا تھا۔ سائل نے پوچھا کہ ایسی جماعت کے متعلق جو پاکستان میں جماعت المسلمین کے نام سے قائم پائی جاتی ہے کیا حکم ہے اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہے اور بس وہی جماعت ہی حق پر ہے اور دیگر جماعتں حق پر نہیں ہیں چاہے ان جماعتوں میں سے جماعت اہل حدیث ہی کی کیوں نہ ہو۔ اور اہل الحدیث اورسلفی نام وغیرہ رکھنا بدعت ہیں ۔اصل نام مسلم ہے اور وہ اس آیت سے دلیل لاتے ہیں ۔ ہو سماکم المسلمین یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے نیز صحیح بخاری میں ہے :
تلزم جماعۃ المسلمین وامامہم یعنی جماعت المسلمین اور اس کے امام کے ساتھ رہو ۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان جماعتوں میں سے کسی جماعت کے آدمی کو یہاں تک کہ اہل الحدیث ہی کیوں نہ ہو سلام نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کی سلام کا جواب دیا جائے اور ن کی اقتداء میں نماز ادا نہ کی جائی اور تقلید کو بھی شرک کہتے ہیں ۔
امام محمد ناصر الدین نے جوا ب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : یہ ظاہریوں کی ایک جماعت ہے اوریہ کوئی نئی جماعت نہیں ہے ۔ ہم سمجھتے تھے کہ عام مسلمانوں کو کافر کہنے والے لوگ اب دنیا میں موجود نہیں رہے لیکن اس جماعت کے کفر کے فتوی نے ہمارے لئے نئی معلومات فراہم کردی ہیں جس سے معلو م ہوا کہ ایسی جماعت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب بھی موجود ہے جو اس درجہ غلو کئے ہوئے ہے سور یا اور اردن میں اسی نظریہ کے حامل لوگوں سے مری ملاقات ہوئی اور کافی بحث و مباحثہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اکثر کو ہدایت عطا فرمائی ۔ چنانچہ اس مسئلہ پر ان کے امیر اور ان کے پیروکاروں سے مسلسل تین راتوں تک ہماری گفتگو ہوتی رہی ۔ پہلی رات نماز مغرب کی بعد سے عشاء کی اذان تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا جب اذان کا وقت ہوا تو ہم نیا یک ساتھی سے اذان کہنے کیلئے کہا اس نے اذان دی تو امیر جماعت وہاں سے چل دیا اور یہ کس کی سنت ہے؟ (کہ اذان سن کرانسان نماز پڑھے بغیر چلا جائے) یہ تو شیطان کی سنت ہے کہ جب وہ اذان سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھا گ جاتا ہے اس کے جانے کیساتھ اس کے پیروکار بھی چلے گئے ۔ وہ اسی لئے چلے گئے کہ وہ مسلمین کی جماعت کی ساتھ نماز ادا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس طرح وہ جمعہ کی نماز میں بھی شریک نہیں ہوتے تھے ۔یہ وہی جماعت ہے جس کا حال تمہارے سامنے بیا ن ہو رہا ہے ہم نے بھی کہا کہ اگر آپ لوگ جانا چاہتے ہیں تو جائیں ۔ دوسری ملاقات کل رات میرے گھر پرہوگی جہاں میں رہائش پذیر ہوں ۔اس ملاقات کا وقت مغرب کی نماز کے بعد سے آدھی رات تک ہوگا خلاصہ یہ کہ وہ لوگ اپنے موقف سے پھر گئے اور ہماری اقتداء میں نماز پڑھنے لگے ۔ الحمد اللہ ۔
ایک شخص نے کہا کہ ان (کراچی کی جماعت المسلمین والوں ) سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے بحث کے دوران کہا کہ علامہ البانی کے علاوہ اس دنیا میں جس قدرعلماء ہیں وہ سب کافر ہیں اس پر الشیخ مسکرائے ۔ سائل نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان سے کہا وہ تو سلفی ہیں اہل حدیث نہیں انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سلفی اور اہل حدیث نہیں ہیں وہ تو مسلم ہیں ۔
امام البانی نے جواب دیتے ہوئے فرمایا الحمد اللہ میں سلفی اور اہل حدیث ہوں ۔ نیز میرا اعتقاد ہے کہ جس شخص کا منہج سلفیت نہیں وہ حق سے منحرف ہے سوال کی روشنی میں یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ یہ لوگ مقلدین کو کافر سمجھتے ہیں جب کہ میرا نظریہ یہ ہے کہ تقلید نہ دین ہے اور نہ اس کو دین سمجھنا چاہئیے ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جو مذہبیت کے حامل ہیں یہی فرق ہے جبکہ مذہبیت کے قائل تقلید کو دین قرار دیتے ہیں لیکن ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلام میں کسی متعین عالم کی تقلید نہ صرف یہ کہ واجب نہیں بلکہ حرام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ’’ اگرتم نہیں جانتے تو علماء سے دریافت کر لو‘‘ اگرچہ آیت مذکورہ میں گزشتہ لوگوں کی حکایت بیان ہوئی ہے لیکن حکم سب کے لئے یکساں ہے ہر امت میں لوگ زمان و مکان کے لحاظ سے دو قسم کے ہوتے ہیں : کچھ علم والے اور کچھ وہ کہ جن کے پاس علم نہیں ہوتا پس جن کے پاس علم نہیں ان کیلئے ضروی ہے کہ اہل علم سے دریافت کریں اور جو لوگ اہل علم ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والوں سے دریافت کریں جبکہ تقلید سے مقصود ایسی مذہبیت ہے جس میں سوچ کے کواڑ بند ہوں ۔ جیسا کہ بعض قدیم مذاہب کے لوگوں میں یہ چیز موجود ہے اوربعض نئی جماعتیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں و ہ جماعتی تعصب میں اس قدر انتہا پسند ہیں کہ عقل کے لحاظ سے اندھے ہو چکے ہیں وہ کسی دوسری اسلامی جماعت کے ساتھ نہ صرف یہ کہ وہ تعاون کرنے کو آمادہ نہیں بلکہ مفاہمت کے لئے بھی آمادہ نہیں ہیں جب تک کہ وہ خود کو اس میں مدغم نہ کریں اور اپنی انفرادی حیثیت کو ختم نہ کریں پس وہ جماعت جو دیگر مسلمین سے الگ تھلگ ہے اپنے علاوہ سب پر کفر کے فتوے لگارہی ہے مصر میں بھی اسد طرح کی جماعت کا وجود پایا جاتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جماعت معدوم ہو چکی ہے لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں بھی اس کو پھیلانیکی کوشش کی جارہی ہے اس سلسلہ میں اب تک کچھ باتیں ہمیں پہنچی ہیں چنانچہ عمان میں بھی اس کی تنظیم موجود ہے اور اب آب کی وساطت سے ہمیں علم ہوا کہ آپ کے ہاں (پاکستان میں ) بھی اس جماعت کی تنظیم موجود ہے اس جماعت کے بارے میں پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان میں جہالت ہے ۔ دوسرا خدسہ یہ ہے کہ اس تنظیم سے مقصود دنیوی لالچ ہے ان کی جہالت پرمیں ایک دلیل پیش کرتا ہوں ذرا غور سے سنیں یہ لوگ حذیفہ بن یما ن رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرے علاوہ لوگ رسول اللہﷺ سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپﷺ سے شر کے بارے میں سوال کرتا کہ کہیں میں اسمیں مبتلا نہ ہو جاؤں اس حدیث میں آگے چل کر ایک جملہ موجود ہے جس کا ذکر وہ نہایت خوشی کے عالم میں کرتے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے مسلمین کی ایک جماعت اور ان کے امام کا ساتھ دینا ہوگا ۔ اس بات پر ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ بتائیں مسلمین کا امام کہاں ہے؟ تاکہ ہم اس کے ساتھ مل جائیں اور اس کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں لیکن وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمین کی ایک جماعت تو نہیں ہے بلکہ بہت کثر ت کے ساتھ جماعتیں ہیں ۔ مصر میں ایک جماعت کا لیڈر جس کا نام مصطفی شکری ہے جس کے ہاتھ پر ان لوگوں نے بیعت کر رکھی اور اللہ ہی ان کا محاسبہ فرمائے گا۔
ان کے خیال کے مطابق کسی کی کچھ قیمت نہیں سب مکھیوں کی مانند حقیر ہیں تو ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کس بنا پر فرمایا کہ تم مسلمین اوران کے امام کے ساتھ خود کو مربوط رکھنا۔ سخت افسوس کا مقام ہے کہ اب نہ تو مسلمانوں کی کوئی (مجتمع) جماعتہ ہے نہ ان کا کوئی متفقہ امام ہے بلکہ کثرت کے ساتھ جماعتیں ہیں اور کثرت کے ساتھ حکام بھی ہیں پس اس حدیث سے ان کا استدلال دو چیزوں میں ایک کا متقاضی ہے کہ وہ کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لائیں اور دوسرے حصہ کے ساتھ کفر کریں یعنی وہ اس حدیث سے جماعت کا نام تو اخذ کرلیں پس یہ تو صرف جماعت کا نام ہی ہوا لیکن ان کا وہ امام کہاں ہے؟ کہ جس کے ہاتھ میں زمام اقتدار (۱) ہو (اور مسلمین کا خلیفہ یا بادشاہ ہو) تم نے کس امام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے؟ تم نے جس کے ہاتھ پربھی بیعت کی ہے کیا اس سے لازم آتا ہے کہ جو تمہارے امام کی بیعت نہیں کرتا وہ کافر اورگمراہ ہے ان کی جہالت کو دیکھتے ہوئے اور ان کی باتوں کو سننے کے بعد میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ فرقہ بھی گمراہ ہے ان فرقوں میں سے جو ناصب اور خارجی ہیں جنہوں نے علی رضی اللہ عہ کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی تھی اوربعض وہ احادیث جن میں نبوت کی بعض نشانیوں کا ذکر ہے ان میں مذکور ہے کہ ہر صدی میں اس طرح کی جماعت معرض وجود میں آتی ہے رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد گرامی بالکل درست ہے چنانچہ اولاً تو مصر میں ان نظریات کی حامل جماعت کا پتہ چلتا ہے
(۱) ہم نے پچھلے اوراق میں تفصیل کیساتھ بحث کی ہے اورثابت کیا ہے کہ جماعت المسلمین سے مسلمین کی حکومت مراد ہے اوریہاں امام البانی نے بھی اسی بات کی وضاحت بیان فرمائی ہے۔
اوراب تمہارے ہاں بھی ان نظریات کی حامل جماعت موجود ہے چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ
جماعت المسلمین سے مراد وہ جماعت ہے جس کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے :
من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل زبیحتنا فلہ مالنا وعلیہم ما علینا جو شخص ہماری نماز ادا کرتا ہے ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے ہمارا ذبیحہ کھاتا ہے اس کے اسلام میں وہی حقو ق ہیں جو ہمارے ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں ہیں جو ہم پر ہیں ۔ پس مسائل میں اختلاف رائے کا ہونا اس بات کو ہرگز مستلزم نہیں کہ مخالف رائے رکھنے والا مسلمیں کی جماعتہ سے خارج ہے البتہ ہم اس کو خطا کار کہہ سکتے ہیں اورمبالغہ کی حد تک گمراہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہے ۔ لیکن جماعۃ المسلمین سے ان کو خارج نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ جماعۃ المسلمین کے عنوان میں کسی گروہ کو خاص نہیں کیا جا سکتا اوردوسرے گروہ کو اس سے خارج نہیں قرار دیا جا سکتا۔
دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ خود کو اہل حدیث اور سلفی کہلانا بدعت ہے اس کا کیا جواب ہے ؟
الشیخ علامہ البانی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ سوال ان کی جہالت کا پتہ دیتا ہے ۔ بھائیو! جن بدعات سے ہمیں رسول اللہﷺ نے روکا ہے ہمیں ڈرایا گیا ہے کہ دین اسلام میں بدعات کو داخل نہ ہونے دیں ۔ جب بدعا ت کے ساتھ تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہے اس لحاظ سے بدعات کا تعلق وسائل سے نہیں ہے بلکہ مقاصد شرعیہ کے ساتھ ہے یعنی بدعت سے اللہ کے قرب میں اضافہ ہوتا ہے اوریہ بات رسول اللہﷺ کی مشہور حدیث کیخلاف ہے ارشاد نبویﷺ ہے من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد ۔ جس شخص نے بھی ہمارے دین میں کسی نئے کام کو داخل کیا تو وہ نیا کام مردود ہے اس مضمون کی دوسری احادیث معروف ہیں ۔
البتہ وسائل جن کو حقیقی مقام حاصل نہیں ہے اور وہ بعد میں دین میں آئے ہیں اگرنص صریح کے خلاف نہیں ہیں توکچھ حرج نہیں ۔ مثلاً شہروں میں ہم اپنا نام اہل حدیث رکھتے ہیں جب کہ اس نام رکھنے سے مقصود دوسروں پرطعن کرنا نہیں ہے جو خود کو اہل حدیث نہیں کہتے اس لحاظ سے اس نام رکھنے میں ہرگز بدعت کا شائبہ نہیں ہے یہ لقب تو دوسری اصطلاحات کی طرح ایک اصطلاح ہے جیسا کہ بعض لوگ سلفی کہلاتے ہی اوربعض کا انصا السنہ کہلاتے ہیں ۔ یہ صرف ایک اصطلاح ہے اور اصطلاحات میں کچھ رکاوٹ نہیں ہے لیکن ان لوگوں کا اہل حدیث کے نام کو بدعت قرار دینا ان کی جہالت پر دلالت کرنا ہے ۔
بدعات سے اصل مقصود اللہ کے قرب میں اضافہ کرنا ہے اور مطلقاً اصطلاحات کے لحاظ سے اس میں کچھ حرج نہیں البتہ اعتراضات کرنے والے ان اصطلاحات کو اپنے اعتراضات کا ہدف بناتے ہیں جو درست نہیں اس سے ان کا مقصد مخصوص وسائل کے ذریعے پھیلنا اور اپنی شہر ت چاہنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
سائل : کیا ہم سلف کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں تو اللہ کا قرب تلاش نہیں کرتے ہیں ؟
الشیخ البانی: تقرب حاصل کرنے کیلئے اسم کی طرف نسبت نہیں کرتے بلکہ مسمی کی طرف نسبت کرتے ہیں کیونکہ کبھی کوئی شخص صالح کہلاتا ہے مگر وہ طالح (بد) ہوتا ہے۔
تیسرا سوال : مذکورہ جماعت کی طرح ایک دوسری جماعت جس کا نظریہ ہے کہ جو شخص اس نظریے کا حامل ہے کہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے یا سوال جواب کے وقت اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے وہ مشرک ہے اور ان کا پہلا مشرک احمد بن حبنل ہے؟
الجواب : علامہ البانی نے سوال کرتے ہوئے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ یعنی جماعت کا کیا نام ہے ؟ حاضرین میں سے کسی نے اس جماعت کا نام توحید گروہ (پارٹی) ہے اور ان کا امیر ڈاکٹر سعو د الدین عثمانی ہے
ب ایک شخص نے کہا یہ لوگ احمد بن حنبل کو شیعہ قرار دیتے ہیں ؟
علامہ البانی نے جب یہ گستاخانہ اورکفریہ بات سنی تو بے ساختہ ان کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اوراللہ سے معافی مانگتے ہوئے
استفراللہ کہا
ج سوال کرنے والے نے مزید پوچھا کہ ابن القیم کو بھی کتاب الروح کی وجہ سے کافر کہتے ہیں ؟(غالباً اس لئے کہ میت کی طرف روح لوٹائے جانے کا عقیدہ انہوں نے اس میں نقل کیا ہے)
علامہ البانی نے حاضرین سے فرمایا کہ ان کے لئے ہدائت کی دعا کریں ۔
روح کے لوٹائے جانے کے بارے میں فرمایا کہ روح میت میں قبر کی طرف لوٹائی جاتی ہے صحیح احادیث میں یہ بات ذکر ہے ہاں دنیا کی طرف نہیں لوٹائی جاتی ۔ نیز فرمایا کہ جولوگ اما م اہلسنہ کو کافرکہتے ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تم سنت کہاں سے لیتے ہو (کیونکہ سینکڑوں احادیث ان کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہیں ) بہر حال یہ بھی گمراہی ہے ۔کاش کہ ان کے نظریات کی تفصیل ہم تک پہنچ جاتی تو پھر تردید کے لئے یہ تفصیل ہمارے لئے ممد و معاون ہوتی۔
ماخود الفرقہ الحدیہ ص ۱۸۷ تا ۱۹۲
ناشر : جماعتہ المسلمین حقیقی ۶۱۴/۳۶ فاروق اعظم روڈ کیماڑی کراچی
مکتبہ الاسلامیہ ۱۴/۲ کمرشل ایریاڈرگ کالونی چورنگی نمبر ۲ کراچی