کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
عقيدہ عذابِ قبراور اس كى ضرورى تفصيلات۔قسط اول
اسلامى عقائد ميں سے ايك عقيدہ عذابِ قبر كا بهى ہے جو نہ صرف قرآنِ مجيد بلكہ صحيح اور متواتر احاديث سے قطعيت كے ساتھ ثابت ہے، نيز عام اہل سنت كا اس پر اجماع ہے كہ مرنے كے بعد ہرانسان سے عالم برزخ ميں سوالات ہونے ہيں، خواہ اسے قبر ميں دفن كيا جائے يا نہيں، اسے درندے كها جائيں يا پهر آگ ميں جلا كر ہوا ميں اُڑا ديا جائے يا وہ پانى ميں ڈوب كر مرجائے اور اسے مچهلياں اپنى خوراك بناليں- ہرانسان سے اس كے ايمان كے متعلق محاسبہ ہونا ہى ہے، پهر اگر وہ ايماندار ہوگا تو قبر (برزخ) ميں اسے كاميابى اور ثابت قدمى نصيب ہوگى، اور اگر وہ كافر يا منافق ہو تو اسے قبر ميں قطعاً ثابت قدمى نصيب نہيں ہوگى-
1۔قرآنِ كريم ميں اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ في الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ في الاٰخِرَةِ وَيُضِلُّ الله الظّٰلِمِيْنَ وَيَفْعَلُ الله مَا يَشَآءُ﴾ (ابراهيم: ١٤/٢٧)
”ايمان والوں كو اللہ تعالىٰ پكى بات كے ساتھ مضبوط ركهتا ہے، دنياكى زندگى ميں بہى اور آخرت ميں بهى -البتہ ناانصاف لوگوں كو اللہ بہكا ديتا ہے، اللہ جو چاہے كر گزرے-“
تمام مفسرين، محدثين اور علما كا اس بات پر اتفاق ہے كہ يہ آيت عذابِ قبر كے بارے ميں نازل ہوئى- خود ناطقِ وحى جناب محمد ﷺ سے بهى اس آيت كى تفسيرميں يہى منقول ہے-
چنانچہ سيدنابرا بن عازب سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:
((إذا أقعد المؤمن في قبره أتى،ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله،فذلك قوله ﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ …﴾
”موٴمن جب اپنى قبر ميں بٹهاياجاتاہے تو اس كے پاس فرشتے آتے ہيں، پهر وہ شہادت ديتا ہے كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور محمد (ﷺ)۔ اللہ كے رسول ہيں- پس يہى مطلب ہے اللہ كے اس قول: ﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ… الآية﴾ كا-“ ( بخارى: رقم٤٦٩٩)
محمد بن بشار كى روايت كے الفاظ يہ ہيں: ”﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا …﴾ نزلت في عذاب القبر)) ”يعنى يہ آيت عذابِ قبر كے بارے ميں نازل ہوئى ہے-“ (بخارى، كتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، رقم :١٣٦٩)
2۔اسى طرح ايك دوسرے مقام پر ربّ العالمين كا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى فَإنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ أعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىْ أَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ كَذَلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَها وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى﴾ (طهٰ:١٢٤تا١٢٦)
”اور جس نے ميرے ذكر سے منہ پهيرا يقينا اس كے لئے تنگ زندگى ہوگى اور ہم اس كو قيامت كے دن اندها كركے اُٹهائيں گے- وہ كہے گا: اے ميرے ربّ! تو نے مجهے اندہا كيوں اٹهايا جبكہ (اس سے پہلے) تو ميں بلاشبہ ديكهنے والا تها- وہ (اللہ) فرمائے گا: اسى طرح تيرے پاس ہمارى نشانياں آئيں ليكن تو نے انہيں فراموش كرديا، اس طرح آج كے دن تجهے فراموش كرديا جائے گا-“
اس آيت ميں مَعِيْشَةً ضَنْكًا كى تفسير صاحب ِقرآن محمد ﷺ نے يوں بيان فرمائى- سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((وإن الكافر إذا أتى من قبل رأسه لم يوجد شيء ثم أتى عن يمينه فلا يوجد شيء ثم أتى عن شماله فلا يوجد شيء ثم أتى من قبل رجليه فلا يوجد شيء. يقال له: اجلس فيجلس خائفا مرعوبا فيقال له: أرأيتك هذا الرجل الذي كان فيكم ماذا تقول فيه وماذا تشهد به عليه؟ فيقول: أي رجل؟ فيقال: الذي كان فيكم. فلا يهتدي لاسمه حتى يقال له: محمد. فيقول: ما أدري سمعت الناس قالوا قولا فقلت كما قال الناس. فيقال له: على ذلك حييتَ وعلى ذلك متَّ وعلى ذلك تُبعث إن شاء الله.ثم يفتح له باب من أبواب النار فيقال له: هذا مقعدك من النار وما أعد الله لك فيها. فيزداد حسرة وثبورا ثم يفتح له باب من أبواب الجنة فيقال له: ذلك مقعدك من الجنة وما أعد الله لك فيه لو أطعته. فيزداد حسرة و ثبورا ثم يُقيَّض عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه فتلك المعيشة الضنكة التي قال الله: ﴿فَإِنَّ لَه مَعِيْشَة ضَنْكًا﴾)) (صحيح ابن حبان كتاب الجنائز، رقم :١٣٠٣ ’حسن‘ كما قاله الالبانى)
”اور بے شك كافر كو (عذاب دينے كے لئے فرشتے) اس كے سر كى طرف سے آتے ہيں- وہ (ايمان اور عمل صالح كى) كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے دائيں جانب سے آتے ہيں پس وہ كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ بائيں طرف سے آتے ہيں، ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے پاؤں كى جانب سے آتے ہيں تو ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں ملتى- پهر اس(كافركو) كہا جاتا ہے: بيٹھ جا- وہ خوف زدہ اور سہما ہوا بيٹھ جاتا ہے- فرشتے پوچهتے ہيں: جو شخص تم ميں (رسول بناكر) بهيجا گيا تها، اس كے بارے ميں تيرى كيا رائے ہے اور اس كے متعلق تو كيا گواہى ديتا ہے؟ جواب ميں كافر كہتا ہے: كون سا آدمى؟ فرشتے كہتے ہيں: جو تم ميں بهيجا گيا تها- اسے آپ كے نام كے متعلق كچھ پتہ نہيں چلتا يہاں تك كہ اسے بتايا جاتا ہے كہ محمدﷺ (كے متعلق پوچها جارہا ہے)- وہ كافر كہتا ہے: ميں تو نہيں جانتا (البتہ) ميں نے لوگوں كو (آپ كے متعلق) كچھ كہتے ہوئے سنا تها- پهر ميں نے بهى لوگوں كى طرح ہى كہہ ديا- فرشتے كہتے ہيں: اس شك پر تو زندہ رہا اور اسى پر مرا اور ان شاء اللہ اسى پر تو اُٹهايا جائے گا- پهر جہنم كے دروازوں ميں ايك دروازہ اس كے لئے كهول ديا جاتا ہے اور ساتھ ہى اسے يہ بهى بتا ديا جاتا ہے كہ تيرا ٹهكانہ يہ آگ ہے (اور دوسرے عذاب) جو اللہ نے تيرے لئے تيار كرركهے ہيں- پس (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں اضافہ ہوتا ہے- پهر اس كے لئے جنت كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ كهول ديا جاتا ہے اور اسے بتايا جاتا ہے كہ اگر تو (اللہ اور اس كے رسول كى) اطاعت كرتا تو يہ جنت تيرا ٹهكانہ ہوتى اور (دوسرى نعمتيں) جو اللہ نے تيرے لئے اس ميں تيار كرركهى تهيں- (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں مزيد اضافہ ہوتا ہے- پهر اس پر اس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے، يہاں تك كہ اسكى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں- پس يہ ہے معيشة ضنكا(كى تفسير) جسكے متعلق اللہ نے فرمايا ہے:﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾“
اسى طرح سيدنا ابوہريرہ سے مروى ايك دوسرى حديث يوں ہے كہ
”نبىﷺ نے صحابہ سے پوچها: أتدرون فيما أنزلت هٰذه الآية﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيَامَةِ أعْمٰى﴾ أتدرون ما المعيشة الضنكة؟كيا جانتے ہو كہ يہ آيت﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ كس چيز كے متعلق نازل ہوئى؟ كيا تم جانتے ہوكہ معيشة ضنكة كيا ہے؟ صحابہ كرام نے كہا: اللہ تعالىٰ اور اس كا رسول ہى بہتر جانتا ہے- آپﷺ نے فرمايا:
عذاب الكافر في قبره والذي نفسي بيده أنه يسلط عليه تسعة وتسعون تنينا.أتدرون ما التنين؟ سبعون حية لكل حية سبع روٴوس يلسعونه ويخدشونه إلى يوم القيامة (صحيح ابن حبان، كتاب الجنائز، رقم:٣١١٢،٣١٠٩ حسنه الالبانى)
”(معيشة ضنكًا سے مراديہ ہے كہ) كافر كو اس كى قبر ميں عذاب ديا جاتا ہے-اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! كافر پر ننانوے تنين مسلط كر ديے جاتے ہيں-جانتے ہو كہ تنين سے كيا مراد ہے؟ اس سے ستر سانپ (مراد) ہيں اور ہر سانپ كے سات سرے (منہ) ہيں جن كے ساتھ وہ قيامت تك كافر كو كاٹتے رہيں گے- “
اسى آيت كى تفسير ميں امام قرطبى فرماتے ہيں:
وقول رابع وهو الصحيح أنه عذاب القبر قاله أبوسعيد الخدري وعبدالله بن مسعود وروٰى أبوهريرة مرفوعًا عن النبي ! وقد ذكرنا في كتاب ’التذكرة‘ قال أبوهريرة يضيق على الكافر قبره حتى تختلف فيه أضلاعه وهوالمعيشة الضنك (تفسير قرطبى:١١/٢٥٩، طبع ايران)
” چوتها قول اوريہى صحيح ہے كہ بے شك معيشة الضنك (سے مراد) عذابِ قبر ہے-يہ قول ابوسعيد خدرى اور عبداللہ بن مسعود كا بهى ہے اور ابوہريرہ نے نبىﷺ سے مرفوع بيان كياہے جسے ہم نے اپنى كتاب التذكرة ميں ذكر كياہے- ابوہريرہ فرماتے ہيں كہ كافر پراس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے يہاں تك كہ اس كى پسلياں اِدهر اُدهر ہوجاتى ہيں يہى معيشة ضنك ہے-“
علامہ شوكانى نے اپنى بہى اپنى تفسير ميں ا س سلسلے ميں مروى متعدد روايات درج كرنے كے بعد يہى قرار ديا ہے كہ معيشة ضنك سے مراد عذاب ِقبر ہى ہے- (تفسير فتح القدير:٣/٣٩٢)
سيد احمد حسن دہلوى نے بهى اس بارے ميں سلف كے بعض اقوال ذكر كرنے كے بعد مسند بزار ميں حضرت ابوهريرہ كى سند سے مروى ايك معتبر حديث كى بناپر يہى قرار ديا ہے كہ خود صاحب ِوحى ﷺ نے معيشة ضنك كى تعريف عذابِ قبر فرمائى ہے- (احسن التفاسير:٤/١٩٩ )
اسى طرح اللہ تعالىٰ كا ايك اور ارشاد ہے:
﴿فَوَقٰه الله سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بَاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ۔اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن:٤٥،٤٦)
”پس اسے (آلِ فرعون ميں سے موٴمن آدمى كو) اللہ نے تمام سازشوں سے محفوظ ركہ ليا جو اُنہوں (فرعونيوں)نے سوچ ركهى تهيں اور فرعونيوں پربُرى طرح كا عذاب اُلٹ پڑا- (يعنى) آگ ہے جس كے سامنے يہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہيں اور جس دن قيامت قائم ہوگى (حكم ہوگا كہ)آلِ فرعون كو سخت ترين عذاب ميں ڈالو-“
عذابِ قبر كے اثبات ميں ان آيات ميں دو بڑى واضح دليليں موجود ہيں: قيامت قائم ہونے سے پہلے قومِ فرعون كو صبح و شام آگ پر پيش كيا جاتا ہے اور قيامت سے پہلے اُنہيں جس عذاب پر پيش كيا جارہا ہے، وہى عذابِ قبر ہے- ياد رہے كہ آگ پر پيشى آلِ فرعون كے ساتھ ہى خاص نہيں بلكہ اس ميں تمام مجرمين شامل ہيں- چنانچہ حديث ميں ہے :
((إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي،إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة)) (بخارى: كتاب الجنائز، رقم:١٣٧٩)
”بے شك جب تم ميں سے كوئى شخص مرجاتا ہے تو اس كا ٹهكانا اسے صبح و شام دكهايا جاتا ہے، اگر وہ جنتى ہے تو جنت والوں ميں، اور اگر وہ دوزخى ہے تو دوزخ والوں ميں، پهر كہا جاتاہے يہ تيراٹهكانا ہے يہاں تك كہ قيامت كے دن اللہ تعالىٰ تجھ كو اٹهائے گا-“
معلوم ہوا كہ صبح وشام آگ پر پيشى صرف آلِ فرعون كے ساتھ ہى خاص نہيں بلكہ اس ميں وہ سب لوگ شامل ہيں جن كے اعمال فرعون اور آلِ فرعون جيسے ہوں-
دوسرى دليل اس آيت ميں يہ ہے كہ قيامت كے دن فرشتوں سے كہا جائے گا كہ قومِ فرعون كو زيادہ سخت عذاب ميں داخل كرو- اس سے يہ معلوم ہوا كہ اس سے پہلے جو ان كو كم عذاب ديا گياتها، وہ عذابِ برزخ تها كيونكہ روزِ محشر تو اُنہيں أشد العذاب ہوگا- اس كے مقابلے ميں پہلے والا عذاب اتنا سخت نہيں تها، اسى لئے ﴿سُوْءُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا﴾ فرمايا اور پهر بعد ميں ﴿اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ فرما كر اس بات كى طرف اشارہ كرديا كہ قيامت سے قبل جو عذاب ديا گيا تها، وہ تہا تو عذاب ہى مگر قيامت كے سخت عذاب كے مقابلے ميں كچھ بهى نہيں تھا-
امام فخرالدين رازى اس آيت كے متعلق لكهتے ہيں:
احتج أصحابنا بهذه الآية على إثبات عذاب القبر. قالوا: الآية تقضي عرض النار عليهم غدوا وعشيا،وليس المراد منه: يوم القيمة؛ لأنه قال: ﴿ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ وليس المراد منه أيضا: الدنيا؛ لأن عرض النار عليهم غدوا وعشيا ما كان حاصلا في الدنيا؛ فثبت أن هذا العرض إنما حصل بعد الموت وقبل يوم القيمة، وذلك يدل على إثبات عذاب القبر في حق هولاء، وإذا ثبت في حقهم ثبت في حق غيرهم؛ لأنه لا قائل بالفرق (بحواله تحفة الاحوذى:٩/٢٦٦ طبع جديد)
”ہمارے اَصحاب نے اس آيت سے عذابِ قبر كى دليل پكڑى ہے، اُنہوں نے فرمايا كہ يہ آيت ان (آلِ فرعون) پر صبح و شام آگ پيش كرنے كا تقاضا كرتى ہے، اور اس (پيشى) سے مراد نہ تو قيامت كا دن ہے، كيونكہ اس كے لئے ﴿ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ”اور جس دن قيامت قائم ہوگى تو (حكم ہوگا) كہ آلِ فرعون كو سخت عذاب ميں داخل كرو-“فرمايا ہے: اور نہ ہى اس سے مراد دنيا (كا دن) ہے، كيونكہ صبح وشام ان پرآگ كى پيشى دنيا ميں حاصل نہيں ہوئى- پس ثابت ہوگيا كہ بے شك يہ پيشى صرف اور صرف موت كے بعد اور قيامت سے پہلے ہى حاصل ہوگى اور يہ (آيت) ان فرعونيوں كے بارے ميں عذابِ قبر كے برحق ہونے پر دلالت كرتى ہے- جب ان (فرعونيوں) كے بارے ميں (عذابِ قبر) ثابت ہوگيا تو دوسروں كے بارے ميں بهى ثابت ہوگيا- اس لئے كہ (اللہ تعالىٰ كا) فرمان سب كے لئے يكساں ہے-“
يہى بات حسن بن محمد نيسا پورى بهى فرماتے ہيں :
وفي الآية دلالة ظاهرة على إثبات عذاب القبر،لأن تعذيب يوم القيمة يجيء في قوله: ﴿يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ﴾ (ايضاً)
اس آيت ميں اثبات عذاب قبر كى واضح دليل ہے، كيونكہ قيامت كے دن عذاب دينے كا (ذكر تو ) اس فرمان ميں ہے: ﴿وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ…﴾
امام ابن كثير فرماتے ہيں: ”ہر صبح و شام ان كى روحيں جہنم كے سامنے لائى جاتى ہيں- قيامت تك اُنہيں يہ عذاب ہوتارہے گا، اور قيامت كے دن ان كى روحيں جسم سميت جہنم ميں ڈال دى جائيں گى، اور اس دن ان سے كہا جائے گا :اے آلِ فرعون! سخت، دردناك اور بہت تكليف دہ عذاب ميں چلے جاؤ- يہ آيت اہل سنت كے اس مذہب كى كہ عالم برزخ (يعنى قبروں) ميں عذاب ہوتا ہے- بہت بڑى دليل ہے- (تفسير ابن كثير، مترجم اُردو :٤/٥٢٩)
علامہ جلال الدين سيوطى لكهتے ہيں: ذهب الجمهور أن هذا العرض هو في البرزخ:﴿ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ يدل دلالة واضحة على أن ذلك العرض هو في البرزخ (تفسير درّ منشور:٤/٤٩٥، قديم)
”جمہور كا مذہب (يہ) ہے كہ بے شك (آگ پر) يہ پيشى برزخ ہى ميں ہے- ﴿ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ واضح طور پر دلالت كررہا ہے كہ بيشك يہ (آگ پر) پيش كياجانابرزخ ہى ميں ہوتا ہے-“
منكرين عذاب قبر كى طرف سے اس آيت پر عموماً يہ اعتراض كيا جاتا ہے كہ آلِ فرعون صبح و شام قيامت تك صرف آگ پرپيش كئے جاتے رہيں گے، آگ ميں ڈالے نہيں جائيں گے- آگ پر پيش كيا جانا اور آگ ميں ڈالا جانا دونوں مساوى نہيں-
وضاحت: منكرين عذابِ قبر آل فرعون كا آگ پر پيش كيا جانا تو مانتے ہيں، جيسا كہ اس آيت سے واضح ہے، اب بات صرف اتنى ہے كہ كيا آگ پر پيشى عذاب ہے يا نہيں؟
اس بات كا فيصلہ ہر صاحب ِعقل بخوبى كرسكتا ہے - معمولى سى بهى سمجھ بوجہ ركهنے والا انسان بهى دنيا كى آگ سے يہ اندازہ لگا سكتا ہے كہ آگ پرپيش كيا جانا عذاب ہے يا راحت؟
نبى كريمﷺكا فرمان ہے:
((ناركم هذه التي يوقد ابن آدم جزء من سبعين جزء من حر جهنم. قالوا: والله إن كانت لكافية يا رسول الله؟ قال: فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزء كلها مثل حرها)) (صحيح مسلم، رقم:٧١٦٥، طبع دارالسلام)
”تمہارى يہ (دنيا كى) آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے، جہنم كى آگ كا سترہواں حصہ ہے- صحابہ كرام نے عرض كى: واللہ! اے اللہ كے رسولﷺ (انسانوں كو جلانے كے لئے) يہى كافى تهى؟ آپ نے فرمايا: ليكن وہ تو دنيا كى آگ سے اُنہتر(٦٩) درجہ زيادہ گرم ہے اور اس كا ہر حصہ اس دنيا كى آگ كے برابر ہے-“
اس اُنہتر گنا كم حرارت والى آگ كے سامنے جب ہم بيٹهتے ہيں (آگ ميں داخل نہيں بلكہ صرف سامنے بيٹهے ہيں) تو اس كى تپش اور حرارت اس قدر ہوتى ہے كہ اس كى طرف ديكها بهى نہيں جاتا، چہ جائيكہ آگ پر پيش كيا جائے-يہ بات آپ ان حضرات سے اچهى طرح پوچھ سكتے ہيں جو تنور يا كسى آگ كى بهٹى پرسخت گرمى ميں كهڑے ہوكر كام كرتے ہيں يا پهر گوشت كو ہى لے ليں جسے آگ پر صرف پيش ہى كيا جاتا ہے پهر ديكھ ليں كہ گوشت كا كيا حال ہوتا ہے؟ جب ہمارى اس دنيا كى آگ كا يہ حال ہے تو آخرت كى آگ جو اس سے اُنہتر درجہ زيادہ ہے، اس پر پيش ہونے والوں كا كيا حشر ہوتا ہوگا- العياذ باللہ
سيد بديع الدين شاہ راشدى فرماتے ہيں : ” آگ پر پيش ہونا تو خود عذاب ہے، كيونكہ جہنم كے صرف پانى كا يہ حال ہے كہ ﴿وَإنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهلِ يَشْوِىْ الْوُجُوْه﴾(الكہف:٢٩)”اگر وہ فرياد رسى چاہيں گے تو ان كى فرياد رسى اس پانى سے كى جائے گى جو تيل كى تلچهٹ جيسا ہوگا جو چہرے بهون دے گا-“ پس جب جہنم كے پانى كى گرمى اور تيزى اتنى ہے كہ اسكے قريب سے منہ جل جائے گاتو پهر آگ كا كيا كہنا؟ پيش ہونا تو خود عذاب ہے-“ (عذابِ قبر كى حقيقت: ص ٣٠)
بالفرض چند لمحوں كے لئے مان بهى ليا جائے كہ آگ پر پيشى عذاب نہيں تو اب منكرين عذابِ قبر ہى بتائيں كہ اسے كيا نام ديں گے- ياد رہے كہ اللہ تعالىٰ نے آلِ فرعون كى آگ پراس پيشى كو ہى سوء العذاب قرارديا ہے- (المومن : ٤٥)
قبر ميں ہونے والا عذاب كى بعض تفصيلات اوپر ذكر ہوئيں، اس كى مزيد تفصيلات مضمون كے آخر ميں فرامين نبوى ﷺ كے حوالے سے درج كى گئى ہيں- ان سطور ميں ہم بخوفِ طوالت انہى آيات اور احاديث پر اكتفا كرتے ہيں، وگرنہ قرآنِ مجيداور احاديث ِصحيحہ ميں اس مسئلے پر دلائل كے انبار موجود ہيں، جن سے ثابت ہوتا ہے كہ عذاب ِقبر برحق ہے بلكہ ايك حديث تو صاف ان الفاظ ميں ہے: ((عذاب القبرحق))
”عذابِ قبر برحق ہے-“ (صحيح بخارى، كتاب الجنائز، رقم:١٣٧٢)
عذاب قبر اور علماے سلف
آج بهى الحمدللہ اہل سنت كا موقف عذاب قبر كے برحق ہونے كا ہے اور جس كسى نے بهى ان كى اس مسئلے ميں مخالفت كى ہے، اسے سوائے گمراہى كے اور كچھ نہيں ملا- ذيل ميں ہم اہل سنت كے چند ممتاز علما كى آرا بهى اثباتِ عذابِ قبر پر پيش كرتے ہيں:
شارح صحيح مسلم امام نووى فرماتے ہيں:
اعلم أن مذهب أهل السنة إثبات عذاب القبر،وقد تظاهرت عليه دلائل الكتاب والسنة: قال الله تعالىٰ ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا… الآية﴾ وقد تظاهرت به الأحاديث الصحيحة عن النبي من رواية جماعة في مواطن كثيرة، ولا يمتنع في العقل أن يعيد الله تعالىٰ في جزء من الجسد ويعذبه، وإذا لم يمنعه العقل وورد الشرع به، وجب قبوله واعتقاده ( المنهاج شرح صحيح مسلم:٢/٣٨٥،٣٨٦ درسى)
”جان لو ! اہل سنت كا مذہب يہ ہے كہ عذابِ قبر برحق ہے اور اس پر كتاب وسنت كے واضح دلائل موجود ہيں، جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے فرمايا ہے:﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا… ﴾ وہ آگ ہے جس پر وہ (لشكر ِفرعون) صبح و شام پيش كئے جاتے ہيں- ايسے ہى نبى1 سے عذاب كے بارے ميں بہت سى احاديث ِصحيحہ موجود ہيں، جنہيں صحابہ كرام كى ايك جماعت نے بہت سے موقعوں پر بيان كيا ہے-يہ امر عقلاً بهى محال نہيں كہ اللہ تعالىٰ جسم كے كسى حصہ ميں زندگى لوٹا دے اور اسے سزا دے اور شرع ميں بهى اس كا ثبوت موجود ہے- چنانچہ اس كو قبول كرنا اور اس پراعتقاد ركهناواجب ہے-“
امام ابن قيم فرماتے ہيں:
ومما ينبغي أن يعلم أن عذاب القبر هو عذاب البرزخ، فكل من مات وهو مستحق للعذاب، ناله نصيبه منه، قُبِر أولم يُقبر، فلو أكلته السباع أو حرِّق حتى صار رمادا أو نسف في الهواء أو صلب أو غرق في البحر، وصل إلى روحه وبدنه من العذاب ما يصل إلى المقبور (كتاب الروح: ص٥٦)
”اس امر كا علم ركهنا ضرورى ہے كہ عذابِ قبر اصل ميں عذابِ برزخ ہى كا دوسرا نام ہے- ہر مرنے والے كو جو عذاب كا مستحق ہو، اس كا حصہ پہنچ جاتاہے، خواہ اسے قبر ميں دفن كيا جائے يا نہ، اسے درندے كہا گئے ہوں يا وہ آگ ميں جلا ديا گيا ہو، اس كى راكھ ہوا ميں اُڑا دى گئى ہو ياوہ پهانسى دے ديا گيا ہو ياسمندر ميں ڈوب مرا ہو- (ان سب حالات ميں) اس كى رُوح اور اس كے بدن كو وہ عذاب پہنچ كررہے گا جو قبر والوں كو ہوتا ہے-“
حافظ ابن حجر صحيح بخارى كے باب ماجاء في عذاب القبر كے تحت لكهتے ہيں:
واكتفى بإثبات وجوده خلافا لمن نفاه مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسي ومن وافقهما وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السنة وغيرهم (فتح البارى:٣/٢٩٦، دارالسلام)
”امام بخارى نے يہاں صرف اثباتِ عذاب قبر پر ہى اكتفا كيا ہے تاكہ اس سے ان خارجيوں اور معتزلہ كا ردّ كريں جنہوں نے مطلقاً عذابِ قبر كى نفى كى ہے، جيسے ضرار بن عمرو، بشر مريسى اور ان كے ہم خيال لوگ- البتہ اكثر معتزلہ اور اہل سنت نے اس مسئلے ميں ان كى مخالفت كى ہے-“
علامہ عينى لكهتے ہيں:
إثبات عذاب القبر وهو مذهب أهل السنة والجماعة، وأنكر ذلك ضرار بن عمرو و بِشر المُريسي وأكثر المتأخرين من المعتزلة . (عمدة القارى شرح صحيح البخارى: ٦/١٦١)
”اہل سنت والجماعت كا موقف عذابِ قبر كے اثبات كا ہے، جب كہ ضرار بن عمرو اور بشر مريسى اور متاخرين معتزلہ ميں سے اكثر نے اس كا انكار كيا ہے-“
شيخ الاسلام ابن تيميہ فرماتے ہيں:
ومن الإيمان باليوم الآخر الإيمان بكل ما أخبر به النبي ﷺ مما يكون بعد الموت فيؤمنون بفتنة القبر وبعذاب القبر ونعيمه . (شرح العقيدة الواسطية: ص١٤٠)
”اور آخرت پر ايمان لانے ميں يہ بات بهى شامل ہے كہ نبىﷺ نے موت كے بعد كے احوال كے متعلق جو بهى خبر دى ہے، ان سب پرايمان لاتے ہوئے انسان فتنہٴ قبر ، عذابِ قبر اور ثواب قبر پربہى ايمان ركهے-“
اُستاذِ محترم جناب ڈاكٹر ابوجابر عبدالله دامانوى حفظہ اللہ رقم طراز ہيں:
”احاديث ِرسول پر سچے دل سے ايمان لانے كے بعد اب جو شخص بهى ان احاديث كا مطالعہ كرے گا تو وہ اس حقيقت كو پالے گا كہ قبر كا عذاب ايك حقيقت ہے- عذابِ قبر كا تعلق چونكہ مشاہدے سے نہيں بلكہ اس كا تعلق ايمان بالغيب سے ہے، اس لئے حواس اس كا ادراك نہيں كرسكتے، بس يوں سمجھ ليں كہ جيسے فرشتوں، جنات، جنت اور دوزخ كو ہم اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول كے كہنے سے تسليم كرتے ہيں، اسى طرح عذابِ قبر كو بهى ہميں تسليم كرلينا چاہئے كيونكہ عذاب قبر كے متعلق بے شمار احاديث ِصحيحہ موجود ہيں جو درجہ تواتر تك پہنچ چكى ہيں ان احاديث كا انكار گويا قرآن كريم كے انكار كے مترادف ہے“ (عقيدئہ عذاب قبر:ص٢٠)
مولانا محمد يوسف لدہيانوى ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں:
”پورى جزا سزا تو آخرت ميں ہى ملے گى جب ہر شخص كا فيصلہ اس كے اعمال كے مطابق چكايا جائے گا، ليكن بعض اعمال كى كچھ جزا و سزا دنيا ميں بهى ملتى ہے، جيسا كہ بہت سى آيات واحاديث ميں يہ مضمون آيا ہے اور تجربہ و مشاہدہ بهى اس كى تصديق كرتا ہے- اسى طرح بعض اعمال پر قبر ميں بهى جزا و سزا ہوتى ہے اور يہ مضمون بهى احاديث ِمتواترہ ميں موجود ہے-“
آخر ميں فرماتے ہيں:
”بهرحال قبر كا عذاب و ثواب برحق ہے، اس پر ايمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر موٴمن كو پناہ مانگتے رہنا چاہئے- حضرت عائشہ فرماتى ہيں كہ آنحضرتﷺ ہر نماز كے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تهے- “ (آپ كے مسائل اور ان كا حل:١/٣٠٥)
خلاصہ نكات:مذكورہ بالا بحث سے يہ حقيقت واضح ہوتى ہے كہ
1 قرآن و سنت كى نصوص كى روشنى ميں جملہ اہل سنت والجماعت كے عقيدے كا لازمى حصہ ہے كہ عذابِ قبر كو برحق مانا جائے اور اس پر ايمان لايا جائے-
2 موت كے بعد انسان جہاں كہيں بهى ہو اور جس حالت ميں بهى ہو، اسے عذاب يا راحت پہنچتى ہے-اس كے لئے قبر ميں ہونا لازمى نہيں -
3 عذابِ قبر كا انكار خوارج،بعض معتزلہ اور ان كے بعض پيروكاروں نے كيا ہے، جب كہ يہ لوگ اہل سنت والجماعت سے خارج ہيں اور بالاتفاق گمراہ ہيں-
4 عذابِ قبر كا تعلق مشاہدے سے نہيں بلكہ ايمان بالغيب سے ہے، اس لئے ہمارى عقل اس كا اِدراك نہيں كرسكتى-
5 ہر موٴمن كے لئے ضرورى ہے كہ وہ عذابِ قبر سے پناہ مانگے، كيونكہ رسول اللہﷺ بهى اس سے پناہ مانگا كرتے تهے-
ياد رہے كہ اگر مرنے والا نيك ہو تو قبر اس كے لئے انعاماتِ اُخرويہ كا زينہ اوّل ثابت ہوتى ہے اور اگر وہ نافرمان ہو تو پهر قبر آخرت كے عذاب كا نقطہ آغاز بنتى ہے-
عالم ’برزخ‘سے كيا مراد ہے؟
اصطلاح ميں بَرْزَخ اس مدت اور زمانے كا نام ہے جو دنيا اور آخرت كے درميان ہے، يعنى موت كے وقت سے لے كر قيامت تك كا درميانى ’وقفہ‘ برزخ كہلاتا ہے-
عربى لغت كى مشہوركتاب ’الصحاح‘ كے مصنف علامہ جوہرى فرماتے ہيں:
البرزخ الحاجز بين الشيئين والبرزخ ما بين الدنيا والآخرة من وقت الموت إلى البعث فمن مات فقد دخل في البرزخ ( تفسير قرطبى:١٢/١٣٥)
”برزخ (لغت ميں) اس ركاوٹ كا نام ہے جو دو چيزوں كے درميان ہوتى ہے،جبكہ (اصطلاح ميں) برزخ وہ عرصہ ہے جو دنيا اور آخرت كے درميان ہے؛ موت كى گهڑى سے لے كر قيامت تك- پس جو شخص مرگيا وہ برزخ ميں چلا گيا-“
امام ابن زيد فرماتے ہيں :
البرزخ ما بين الموت إلى البعث (تفسير طبرى: ج١٨/ ص٦٢)
”برزخ موت اور قيامت كے درميانى عرصے كو كہتے ہيں-“
برزخ كے متعلق چند ضرورى باتيں:فوت شدہ انسان كے لئے برزخ ظرفِ زمان ہے، مرنے كے بعد انسان عالم برزخ ميں چلا جاتا ہے- جو ميت چارپائى پر پڑى ہو، وہ بهى عالم برزخ ميں داخل ہوچكى ہے، جس كو لوگ كندہوں پر اُٹهائے ہوئے ہوتے ہيں، وہ بهى عالم برزخ ميں ہى ہے اور جس كو قبر ميں دفن كرديا گيا ہو، وہ بهى برزخ ميں ہے- الغرض فوت شدہ انسان جہاں اور جس حالت ميں بهى ہو، وہ عالم برزخ ميں ہى ہے كيونكہ موت كے وقت سے اس كا عالَم(زمانہ) تبديل ہوگيا- پہلے وہ ’عالم دنيا‘ ميں تها اور اب وہ ’عالم برزخ‘ ميں داخل ہوگيا ہے، اگرچہ وہ وہيں چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑا ہوا ہو-
يادرہے كہ وقت اور زمانے كى تبديلى كے لئے جگہ كى تبديلى ضرورى نہيں مثلاً ايك شخص نے عصر كى نماز مسجد ميں ادا كى اور پهر اسى مسجد اور اسى مصلىٰ پر ہى بيٹها رہاحتىٰ كہ سورج غروب ہوگيا اور مغرب ہوگئى تو وہ شخص وہاں بيٹهے بيٹهے ہى رات ميں داخل ہوچكا ہے- حالانكہ وہ ايك ہى مقام پر بيٹها رہا اور اس نے كوئى جگہ نہيں بدلى ليكن زمانہ تبديل ہوگيا- عصر كے وقت وہ دن ميں تها اور مغرب كے وقت رات ميں پہنچ گيا- اسى طرح مرنے سے پہلے آدمى عالم دنيا ميں ہوتا ہے اور مرنے كے بعد عالم برزخ ميں چلا جاتا ہے خواہ چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑا ہو يا جہاں بهى ہو ، اب اس كا زمانہ تبديل ہوگيا ہے-
برزخ والے دنيا والوں كے حالات سے بے خبر ہيں- وہ يہ نہيں جانتے كہ اس وقت دنيا ميں كيا كچھ ہورہا ہے اور ہمارے اہل و عيال پر كيا بيت رہى ہے، اگرچہ ميت چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑى ہو- بالكل ايسے ہى دنيا والوں كى مثال ہے كہ وہ بهى مرنے والے كے ساتھ ہونے والى كارروائى سے ناآشنا ہيں- فرشتے مرنے والے كى پٹائى كررہے ہوں يا اسے جنت كى بشارتيں سنا رہے ہوں يا ميت چيخ و پكار كررہى ہو، أين تذهبون كى صدا يا قَدِّمُوْنِيْ قَدِّمُوْنِيْ پكار رہى ہو، دنيا والوں كو كچھ نظر نہيں آتا اور وہ سب اس سارى كارروائى سے بے خبر ہوتے ہيں- اس لئے كہ اب دونوں كا زمانہ مختلف ہے- ايك عالم دنيا ميں ہے اور دوسرا عالم برزخ ميں ہے- اختلافِ عالم كے سبب يہ كيسے ممكن ہوسكتا ہے كہ دنيا والے برزخيوں كے حالات يا اہل برزخ دنيا والوں كے حالات سے آگاہ ہوسكيں-
عالم دنيا ميں ہر انسان كو راحت ولذت اور عذاب وسزا كا پہنچنا ايك مسلم حقيقت ہے جس سے كسى كو بهى انكار نہيں ليكن آپ ديكهيں كہ بسا اوقات انسان كو اس زمين كے بجائے فضاوٴں (جيسے ہوائى جہاز وغيرہ) ميں آرام يا سزا ملتى ہے- اب اس شخص كو دليل بنا كر كسى نے بهى زمين پر ملنے والى سزاوٴں كا انكار نہيں كيا كيونكہ اوّلا زمين پر سزاوٴں كاملنا اَغلب واكثر ہے - ثانياً: ہوائى سزا بهگتنے والا بهى بالآخر كسى نہ كسى وقت زمين پر آ ہى جائے گا- بعينہ عالم برزخ ميں بهى ثواب وعذاب كاملنا برحق ہے، خواہ كسى كو يہ زمينى گڑہے (قبر) ميں ملے يا نہ ملے؟جس فوت شدہ شخص كو يہ زمينى قبر نہ ملے، اسے دليل بنا كر اس زمينى قبر ميں ہونے والى كارروائى كا انكار كر كے كسى نئى قبر (جيسے فرقہ عثمانيہ نے برزخى قبر كا تصور پيش كيا ہے) ميں عذاب يا ثواب ديے جانے كا نظريہ قائم نہيں كيا جا سكتا-
جہاں تك برزخ ميں ہونے والے عذاب كو عذابِ قبر كہنے كى بات ہے تواس كى وجہ يہ ہے كہ اوّلاً قبروں ميں مردوں كا دفن ہونا اَغلب واكثر ہے، ثانياً: جنہيں فى الوقت قبر نہيں ملى، كسى تابوت يا چارپائى پر ركها گيا ہے وہ بهى ايك نہ ايك دن اسى زمين ميں چلے جائيں گے جو آخركار ان كے ليے قبر بن جائے گى اور پهر حشر كے دن سارے اسى زمينى قبروں سے ہى اُٹهائے جائيں گے:﴿مِنْها خَلَقْنَاكُمْ وَفِيْها نُعِيْدُكُمْ وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرٰى﴾(طهٰ:٥٥) اسى (زمين) سے ہم نے تمہيں پيداكيا اور اسى ميں لوٹائيں گے اور اسى سے دوبارہ (قيامت كے دن ) ہم تمہيں نكاليں گے -“
عالم برزخ عالم آخرت ہى كا حصہ ہے، كتاب و سنت ميں اس كے بے شمار دلائل موجود ہيں- رسول اللہﷺ نے موٴمن بندے كى موت كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا: ((وإن العبد المومن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال الآخرة)) (صحيح بخارى:رقم ٤٤٥١)
”بے شك موٴمن بندہ جب دنيا سے كوچ كرنے لگتا ہے اور آخرت كى طرف روانہ ہوتا ہے-“
ايك اور فرمانِ نبوى ہے: ((ان القبر أول منزل من منازل الآخرة))
”بے شك قبر آخرت كى گهاٹيوں ميں سے پہلے گهاٹى ہے-“ (ترمذى، كتاب الزہد، رقم ٢٣٠٨)
معلوم ہوا كہ عالم برزخ عالم آخرت ہى كا حصہ ہے، اسى لئے عالم برزخ كو آخرت كا مقدمہ بهى كہا جاتا ہے- عالم آخرت يا عالم برزخ ميں ہونے والى سارى كارروائى كا تعلق پردئہ غيب سے ہے، اور غيب كى خبروں كا علم وحى الٰہى كے بغير ناممكن ہے، اس ليے بحيثيت ِمسلمان ہم سب پر ضرورى ہے كہ احوالِ آخرت كے بارے جس قدر اللہ تعالىٰ نے اپنے آخرى نبى حضرت محمد ﷺ كے ذريعے ہميں علم ديا ہے، اس پر بلا چوں چرا ، من وعن بغير كسى تحريف ،تمثيل اور كيفيت كے ايمان لايا جائے،كيونكہ ربّ العالمين نے نيك لوگوں كى پہلى صفت ہى يہ بيان فرمائى ہے كہ ﴿يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ (البقرة:٣) ”وہ غيب پر ايمان ركهتے ہيں-“
البتہ اس حد تك عالم برزخ كى كيفيت كا تذكرہ جو خود زبانِ رسالت سے ہميں علم ہواہے، اس كى تفصيلات ہم آگے اپنے مقام پر پيش كريں گے-(تحریر محمدارشدکمال)
اسلامى عقائد ميں سے ايك عقيدہ عذابِ قبر كا بهى ہے جو نہ صرف قرآنِ مجيد بلكہ صحيح اور متواتر احاديث سے قطعيت كے ساتھ ثابت ہے، نيز عام اہل سنت كا اس پر اجماع ہے كہ مرنے كے بعد ہرانسان سے عالم برزخ ميں سوالات ہونے ہيں، خواہ اسے قبر ميں دفن كيا جائے يا نہيں، اسے درندے كها جائيں يا پهر آگ ميں جلا كر ہوا ميں اُڑا ديا جائے يا وہ پانى ميں ڈوب كر مرجائے اور اسے مچهلياں اپنى خوراك بناليں- ہرانسان سے اس كے ايمان كے متعلق محاسبہ ہونا ہى ہے، پهر اگر وہ ايماندار ہوگا تو قبر (برزخ) ميں اسے كاميابى اور ثابت قدمى نصيب ہوگى، اور اگر وہ كافر يا منافق ہو تو اسے قبر ميں قطعاً ثابت قدمى نصيب نہيں ہوگى-
1۔قرآنِ كريم ميں اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ في الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ في الاٰخِرَةِ وَيُضِلُّ الله الظّٰلِمِيْنَ وَيَفْعَلُ الله مَا يَشَآءُ﴾ (ابراهيم: ١٤/٢٧)
”ايمان والوں كو اللہ تعالىٰ پكى بات كے ساتھ مضبوط ركهتا ہے، دنياكى زندگى ميں بہى اور آخرت ميں بهى -البتہ ناانصاف لوگوں كو اللہ بہكا ديتا ہے، اللہ جو چاہے كر گزرے-“
تمام مفسرين، محدثين اور علما كا اس بات پر اتفاق ہے كہ يہ آيت عذابِ قبر كے بارے ميں نازل ہوئى- خود ناطقِ وحى جناب محمد ﷺ سے بهى اس آيت كى تفسيرميں يہى منقول ہے-
چنانچہ سيدنابرا بن عازب سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:
((إذا أقعد المؤمن في قبره أتى،ثم شهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله،فذلك قوله ﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ …﴾
”موٴمن جب اپنى قبر ميں بٹهاياجاتاہے تو اس كے پاس فرشتے آتے ہيں، پهر وہ شہادت ديتا ہے كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور محمد (ﷺ)۔ اللہ كے رسول ہيں- پس يہى مطلب ہے اللہ كے اس قول: ﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ… الآية﴾ كا-“ ( بخارى: رقم٤٦٩٩)
محمد بن بشار كى روايت كے الفاظ يہ ہيں: ”﴿يُثَبِّتُ الله الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا …﴾ نزلت في عذاب القبر)) ”يعنى يہ آيت عذابِ قبر كے بارے ميں نازل ہوئى ہے-“ (بخارى، كتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، رقم :١٣٦٩)
2۔اسى طرح ايك دوسرے مقام پر ربّ العالمين كا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِى فَإنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيٰمَةِ أعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِىْ أَعْمٰى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا قَالَ كَذَلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَها وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى﴾ (طهٰ:١٢٤تا١٢٦)
”اور جس نے ميرے ذكر سے منہ پهيرا يقينا اس كے لئے تنگ زندگى ہوگى اور ہم اس كو قيامت كے دن اندها كركے اُٹهائيں گے- وہ كہے گا: اے ميرے ربّ! تو نے مجهے اندہا كيوں اٹهايا جبكہ (اس سے پہلے) تو ميں بلاشبہ ديكهنے والا تها- وہ (اللہ) فرمائے گا: اسى طرح تيرے پاس ہمارى نشانياں آئيں ليكن تو نے انہيں فراموش كرديا، اس طرح آج كے دن تجهے فراموش كرديا جائے گا-“
اس آيت ميں مَعِيْشَةً ضَنْكًا كى تفسير صاحب ِقرآن محمد ﷺ نے يوں بيان فرمائى- سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((وإن الكافر إذا أتى من قبل رأسه لم يوجد شيء ثم أتى عن يمينه فلا يوجد شيء ثم أتى عن شماله فلا يوجد شيء ثم أتى من قبل رجليه فلا يوجد شيء. يقال له: اجلس فيجلس خائفا مرعوبا فيقال له: أرأيتك هذا الرجل الذي كان فيكم ماذا تقول فيه وماذا تشهد به عليه؟ فيقول: أي رجل؟ فيقال: الذي كان فيكم. فلا يهتدي لاسمه حتى يقال له: محمد. فيقول: ما أدري سمعت الناس قالوا قولا فقلت كما قال الناس. فيقال له: على ذلك حييتَ وعلى ذلك متَّ وعلى ذلك تُبعث إن شاء الله.ثم يفتح له باب من أبواب النار فيقال له: هذا مقعدك من النار وما أعد الله لك فيها. فيزداد حسرة وثبورا ثم يفتح له باب من أبواب الجنة فيقال له: ذلك مقعدك من الجنة وما أعد الله لك فيه لو أطعته. فيزداد حسرة و ثبورا ثم يُقيَّض عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه فتلك المعيشة الضنكة التي قال الله: ﴿فَإِنَّ لَه مَعِيْشَة ضَنْكًا﴾)) (صحيح ابن حبان كتاب الجنائز، رقم :١٣٠٣ ’حسن‘ كما قاله الالبانى)
”اور بے شك كافر كو (عذاب دينے كے لئے فرشتے) اس كے سر كى طرف سے آتے ہيں- وہ (ايمان اور عمل صالح كى) كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے دائيں جانب سے آتے ہيں پس وہ كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ بائيں طرف سے آتے ہيں، ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں پاتے- پهر وہ اس كے پاؤں كى جانب سے آتے ہيں تو ادہر بهى كوئى ركاوٹ نہيں ملتى- پهر اس(كافركو) كہا جاتا ہے: بيٹھ جا- وہ خوف زدہ اور سہما ہوا بيٹھ جاتا ہے- فرشتے پوچهتے ہيں: جو شخص تم ميں (رسول بناكر) بهيجا گيا تها، اس كے بارے ميں تيرى كيا رائے ہے اور اس كے متعلق تو كيا گواہى ديتا ہے؟ جواب ميں كافر كہتا ہے: كون سا آدمى؟ فرشتے كہتے ہيں: جو تم ميں بهيجا گيا تها- اسے آپ كے نام كے متعلق كچھ پتہ نہيں چلتا يہاں تك كہ اسے بتايا جاتا ہے كہ محمدﷺ (كے متعلق پوچها جارہا ہے)- وہ كافر كہتا ہے: ميں تو نہيں جانتا (البتہ) ميں نے لوگوں كو (آپ كے متعلق) كچھ كہتے ہوئے سنا تها- پهر ميں نے بهى لوگوں كى طرح ہى كہہ ديا- فرشتے كہتے ہيں: اس شك پر تو زندہ رہا اور اسى پر مرا اور ان شاء اللہ اسى پر تو اُٹهايا جائے گا- پهر جہنم كے دروازوں ميں ايك دروازہ اس كے لئے كهول ديا جاتا ہے اور ساتھ ہى اسے يہ بهى بتا ديا جاتا ہے كہ تيرا ٹهكانہ يہ آگ ہے (اور دوسرے عذاب) جو اللہ نے تيرے لئے تيار كرركهے ہيں- پس (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں اضافہ ہوتا ہے- پهر اس كے لئے جنت كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ كهول ديا جاتا ہے اور اسے بتايا جاتا ہے كہ اگر تو (اللہ اور اس كے رسول كى) اطاعت كرتا تو يہ جنت تيرا ٹهكانہ ہوتى اور (دوسرى نعمتيں) جو اللہ نے تيرے لئے اس ميں تيار كرركهى تهيں- (اس نظارے كے بعد) اس كى ندامت اور ہلاكت ميں مزيد اضافہ ہوتا ہے- پهر اس پر اس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے، يہاں تك كہ اسكى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں- پس يہ ہے معيشة ضنكا(كى تفسير) جسكے متعلق اللہ نے فرمايا ہے:﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾“
اسى طرح سيدنا ابوہريرہ سے مروى ايك دوسرى حديث يوں ہے كہ
”نبىﷺ نے صحابہ سے پوچها: أتدرون فيما أنزلت هٰذه الآية﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُه يَوْمَ الْقِيَامَةِ أعْمٰى﴾ أتدرون ما المعيشة الضنكة؟كيا جانتے ہو كہ يہ آيت﴿فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ كس چيز كے متعلق نازل ہوئى؟ كيا تم جانتے ہوكہ معيشة ضنكة كيا ہے؟ صحابہ كرام نے كہا: اللہ تعالىٰ اور اس كا رسول ہى بہتر جانتا ہے- آپﷺ نے فرمايا:
عذاب الكافر في قبره والذي نفسي بيده أنه يسلط عليه تسعة وتسعون تنينا.أتدرون ما التنين؟ سبعون حية لكل حية سبع روٴوس يلسعونه ويخدشونه إلى يوم القيامة (صحيح ابن حبان، كتاب الجنائز، رقم:٣١١٢،٣١٠٩ حسنه الالبانى)
”(معيشة ضنكًا سے مراديہ ہے كہ) كافر كو اس كى قبر ميں عذاب ديا جاتا ہے-اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! كافر پر ننانوے تنين مسلط كر ديے جاتے ہيں-جانتے ہو كہ تنين سے كيا مراد ہے؟ اس سے ستر سانپ (مراد) ہيں اور ہر سانپ كے سات سرے (منہ) ہيں جن كے ساتھ وہ قيامت تك كافر كو كاٹتے رہيں گے- “
اسى آيت كى تفسير ميں امام قرطبى فرماتے ہيں:
وقول رابع وهو الصحيح أنه عذاب القبر قاله أبوسعيد الخدري وعبدالله بن مسعود وروٰى أبوهريرة مرفوعًا عن النبي ! وقد ذكرنا في كتاب ’التذكرة‘ قال أبوهريرة يضيق على الكافر قبره حتى تختلف فيه أضلاعه وهوالمعيشة الضنك (تفسير قرطبى:١١/٢٥٩، طبع ايران)
” چوتها قول اوريہى صحيح ہے كہ بے شك معيشة الضنك (سے مراد) عذابِ قبر ہے-يہ قول ابوسعيد خدرى اور عبداللہ بن مسعود كا بهى ہے اور ابوہريرہ نے نبىﷺ سے مرفوع بيان كياہے جسے ہم نے اپنى كتاب التذكرة ميں ذكر كياہے- ابوہريرہ فرماتے ہيں كہ كافر پراس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے يہاں تك كہ اس كى پسلياں اِدهر اُدهر ہوجاتى ہيں يہى معيشة ضنك ہے-“
علامہ شوكانى نے اپنى بہى اپنى تفسير ميں ا س سلسلے ميں مروى متعدد روايات درج كرنے كے بعد يہى قرار ديا ہے كہ معيشة ضنك سے مراد عذاب ِقبر ہى ہے- (تفسير فتح القدير:٣/٣٩٢)
سيد احمد حسن دہلوى نے بهى اس بارے ميں سلف كے بعض اقوال ذكر كرنے كے بعد مسند بزار ميں حضرت ابوهريرہ كى سند سے مروى ايك معتبر حديث كى بناپر يہى قرار ديا ہے كہ خود صاحب ِوحى ﷺ نے معيشة ضنك كى تعريف عذابِ قبر فرمائى ہے- (احسن التفاسير:٤/١٩٩ )
اسى طرح اللہ تعالىٰ كا ايك اور ارشاد ہے:
﴿فَوَقٰه الله سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بَاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ۔اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن:٤٥،٤٦)
”پس اسے (آلِ فرعون ميں سے موٴمن آدمى كو) اللہ نے تمام سازشوں سے محفوظ ركہ ليا جو اُنہوں (فرعونيوں)نے سوچ ركهى تهيں اور فرعونيوں پربُرى طرح كا عذاب اُلٹ پڑا- (يعنى) آگ ہے جس كے سامنے يہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہيں اور جس دن قيامت قائم ہوگى (حكم ہوگا كہ)آلِ فرعون كو سخت ترين عذاب ميں ڈالو-“
عذابِ قبر كے اثبات ميں ان آيات ميں دو بڑى واضح دليليں موجود ہيں: قيامت قائم ہونے سے پہلے قومِ فرعون كو صبح و شام آگ پر پيش كيا جاتا ہے اور قيامت سے پہلے اُنہيں جس عذاب پر پيش كيا جارہا ہے، وہى عذابِ قبر ہے- ياد رہے كہ آگ پر پيشى آلِ فرعون كے ساتھ ہى خاص نہيں بلكہ اس ميں تمام مجرمين شامل ہيں- چنانچہ حديث ميں ہے :
((إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي،إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة)) (بخارى: كتاب الجنائز، رقم:١٣٧٩)
”بے شك جب تم ميں سے كوئى شخص مرجاتا ہے تو اس كا ٹهكانا اسے صبح و شام دكهايا جاتا ہے، اگر وہ جنتى ہے تو جنت والوں ميں، اور اگر وہ دوزخى ہے تو دوزخ والوں ميں، پهر كہا جاتاہے يہ تيراٹهكانا ہے يہاں تك كہ قيامت كے دن اللہ تعالىٰ تجھ كو اٹهائے گا-“
معلوم ہوا كہ صبح وشام آگ پر پيشى صرف آلِ فرعون كے ساتھ ہى خاص نہيں بلكہ اس ميں وہ سب لوگ شامل ہيں جن كے اعمال فرعون اور آلِ فرعون جيسے ہوں-
دوسرى دليل اس آيت ميں يہ ہے كہ قيامت كے دن فرشتوں سے كہا جائے گا كہ قومِ فرعون كو زيادہ سخت عذاب ميں داخل كرو- اس سے يہ معلوم ہوا كہ اس سے پہلے جو ان كو كم عذاب ديا گياتها، وہ عذابِ برزخ تها كيونكہ روزِ محشر تو اُنہيں أشد العذاب ہوگا- اس كے مقابلے ميں پہلے والا عذاب اتنا سخت نہيں تها، اسى لئے ﴿سُوْءُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا﴾ فرمايا اور پهر بعد ميں ﴿اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ فرما كر اس بات كى طرف اشارہ كرديا كہ قيامت سے قبل جو عذاب ديا گيا تها، وہ تہا تو عذاب ہى مگر قيامت كے سخت عذاب كے مقابلے ميں كچھ بهى نہيں تھا-
امام فخرالدين رازى اس آيت كے متعلق لكهتے ہيں:
احتج أصحابنا بهذه الآية على إثبات عذاب القبر. قالوا: الآية تقضي عرض النار عليهم غدوا وعشيا،وليس المراد منه: يوم القيمة؛ لأنه قال: ﴿ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ وليس المراد منه أيضا: الدنيا؛ لأن عرض النار عليهم غدوا وعشيا ما كان حاصلا في الدنيا؛ فثبت أن هذا العرض إنما حصل بعد الموت وقبل يوم القيمة، وذلك يدل على إثبات عذاب القبر في حق هولاء، وإذا ثبت في حقهم ثبت في حق غيرهم؛ لأنه لا قائل بالفرق (بحواله تحفة الاحوذى:٩/٢٦٦ طبع جديد)
”ہمارے اَصحاب نے اس آيت سے عذابِ قبر كى دليل پكڑى ہے، اُنہوں نے فرمايا كہ يہ آيت ان (آلِ فرعون) پر صبح و شام آگ پيش كرنے كا تقاضا كرتى ہے، اور اس (پيشى) سے مراد نہ تو قيامت كا دن ہے، كيونكہ اس كے لئے ﴿ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ ”اور جس دن قيامت قائم ہوگى تو (حكم ہوگا) كہ آلِ فرعون كو سخت عذاب ميں داخل كرو-“فرمايا ہے: اور نہ ہى اس سے مراد دنيا (كا دن) ہے، كيونكہ صبح وشام ان پرآگ كى پيشى دنيا ميں حاصل نہيں ہوئى- پس ثابت ہوگيا كہ بے شك يہ پيشى صرف اور صرف موت كے بعد اور قيامت سے پہلے ہى حاصل ہوگى اور يہ (آيت) ان فرعونيوں كے بارے ميں عذابِ قبر كے برحق ہونے پر دلالت كرتى ہے- جب ان (فرعونيوں) كے بارے ميں (عذابِ قبر) ثابت ہوگيا تو دوسروں كے بارے ميں بهى ثابت ہوگيا- اس لئے كہ (اللہ تعالىٰ كا) فرمان سب كے لئے يكساں ہے-“
يہى بات حسن بن محمد نيسا پورى بهى فرماتے ہيں :
وفي الآية دلالة ظاهرة على إثبات عذاب القبر،لأن تعذيب يوم القيمة يجيء في قوله: ﴿يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ﴾ (ايضاً)
اس آيت ميں اثبات عذاب قبر كى واضح دليل ہے، كيونكہ قيامت كے دن عذاب دينے كا (ذكر تو ) اس فرمان ميں ہے: ﴿وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ…﴾
امام ابن كثير فرماتے ہيں: ”ہر صبح و شام ان كى روحيں جہنم كے سامنے لائى جاتى ہيں- قيامت تك اُنہيں يہ عذاب ہوتارہے گا، اور قيامت كے دن ان كى روحيں جسم سميت جہنم ميں ڈال دى جائيں گى، اور اس دن ان سے كہا جائے گا :اے آلِ فرعون! سخت، دردناك اور بہت تكليف دہ عذاب ميں چلے جاؤ- يہ آيت اہل سنت كے اس مذہب كى كہ عالم برزخ (يعنى قبروں) ميں عذاب ہوتا ہے- بہت بڑى دليل ہے- (تفسير ابن كثير، مترجم اُردو :٤/٥٢٩)
علامہ جلال الدين سيوطى لكهتے ہيں: ذهب الجمهور أن هذا العرض هو في البرزخ:﴿ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ يدل دلالة واضحة على أن ذلك العرض هو في البرزخ (تفسير درّ منشور:٤/٤٩٥، قديم)
”جمہور كا مذہب (يہ) ہے كہ بے شك (آگ پر) يہ پيشى برزخ ہى ميں ہے- ﴿ وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ واضح طور پر دلالت كررہا ہے كہ بيشك يہ (آگ پر) پيش كياجانابرزخ ہى ميں ہوتا ہے-“
منكرين عذاب قبر كى طرف سے اس آيت پر عموماً يہ اعتراض كيا جاتا ہے كہ آلِ فرعون صبح و شام قيامت تك صرف آگ پرپيش كئے جاتے رہيں گے، آگ ميں ڈالے نہيں جائيں گے- آگ پر پيش كيا جانا اور آگ ميں ڈالا جانا دونوں مساوى نہيں-
وضاحت: منكرين عذابِ قبر آل فرعون كا آگ پر پيش كيا جانا تو مانتے ہيں، جيسا كہ اس آيت سے واضح ہے، اب بات صرف اتنى ہے كہ كيا آگ پر پيشى عذاب ہے يا نہيں؟
اس بات كا فيصلہ ہر صاحب ِعقل بخوبى كرسكتا ہے - معمولى سى بهى سمجھ بوجہ ركهنے والا انسان بهى دنيا كى آگ سے يہ اندازہ لگا سكتا ہے كہ آگ پرپيش كيا جانا عذاب ہے يا راحت؟
نبى كريمﷺكا فرمان ہے:
((ناركم هذه التي يوقد ابن آدم جزء من سبعين جزء من حر جهنم. قالوا: والله إن كانت لكافية يا رسول الله؟ قال: فإنها فضلت عليها بتسعة وستين جزء كلها مثل حرها)) (صحيح مسلم، رقم:٧١٦٥، طبع دارالسلام)
”تمہارى يہ (دنيا كى) آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے، جہنم كى آگ كا سترہواں حصہ ہے- صحابہ كرام نے عرض كى: واللہ! اے اللہ كے رسولﷺ (انسانوں كو جلانے كے لئے) يہى كافى تهى؟ آپ نے فرمايا: ليكن وہ تو دنيا كى آگ سے اُنہتر(٦٩) درجہ زيادہ گرم ہے اور اس كا ہر حصہ اس دنيا كى آگ كے برابر ہے-“
اس اُنہتر گنا كم حرارت والى آگ كے سامنے جب ہم بيٹهتے ہيں (آگ ميں داخل نہيں بلكہ صرف سامنے بيٹهے ہيں) تو اس كى تپش اور حرارت اس قدر ہوتى ہے كہ اس كى طرف ديكها بهى نہيں جاتا، چہ جائيكہ آگ پر پيش كيا جائے-يہ بات آپ ان حضرات سے اچهى طرح پوچھ سكتے ہيں جو تنور يا كسى آگ كى بهٹى پرسخت گرمى ميں كهڑے ہوكر كام كرتے ہيں يا پهر گوشت كو ہى لے ليں جسے آگ پر صرف پيش ہى كيا جاتا ہے پهر ديكھ ليں كہ گوشت كا كيا حال ہوتا ہے؟ جب ہمارى اس دنيا كى آگ كا يہ حال ہے تو آخرت كى آگ جو اس سے اُنہتر درجہ زيادہ ہے، اس پر پيش ہونے والوں كا كيا حشر ہوتا ہوگا- العياذ باللہ
سيد بديع الدين شاہ راشدى فرماتے ہيں : ” آگ پر پيش ہونا تو خود عذاب ہے، كيونكہ جہنم كے صرف پانى كا يہ حال ہے كہ ﴿وَإنْ يَّسْتَغِيْثُوْا يُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهلِ يَشْوِىْ الْوُجُوْه﴾(الكہف:٢٩)”اگر وہ فرياد رسى چاہيں گے تو ان كى فرياد رسى اس پانى سے كى جائے گى جو تيل كى تلچهٹ جيسا ہوگا جو چہرے بهون دے گا-“ پس جب جہنم كے پانى كى گرمى اور تيزى اتنى ہے كہ اسكے قريب سے منہ جل جائے گاتو پهر آگ كا كيا كہنا؟ پيش ہونا تو خود عذاب ہے-“ (عذابِ قبر كى حقيقت: ص ٣٠)
بالفرض چند لمحوں كے لئے مان بهى ليا جائے كہ آگ پر پيشى عذاب نہيں تو اب منكرين عذابِ قبر ہى بتائيں كہ اسے كيا نام ديں گے- ياد رہے كہ اللہ تعالىٰ نے آلِ فرعون كى آگ پراس پيشى كو ہى سوء العذاب قرارديا ہے- (المومن : ٤٥)
قبر ميں ہونے والا عذاب كى بعض تفصيلات اوپر ذكر ہوئيں، اس كى مزيد تفصيلات مضمون كے آخر ميں فرامين نبوى ﷺ كے حوالے سے درج كى گئى ہيں- ان سطور ميں ہم بخوفِ طوالت انہى آيات اور احاديث پر اكتفا كرتے ہيں، وگرنہ قرآنِ مجيداور احاديث ِصحيحہ ميں اس مسئلے پر دلائل كے انبار موجود ہيں، جن سے ثابت ہوتا ہے كہ عذاب ِقبر برحق ہے بلكہ ايك حديث تو صاف ان الفاظ ميں ہے: ((عذاب القبرحق))
”عذابِ قبر برحق ہے-“ (صحيح بخارى، كتاب الجنائز، رقم:١٣٧٢)
عذاب قبر اور علماے سلف
آج بهى الحمدللہ اہل سنت كا موقف عذاب قبر كے برحق ہونے كا ہے اور جس كسى نے بهى ان كى اس مسئلے ميں مخالفت كى ہے، اسے سوائے گمراہى كے اور كچھ نہيں ملا- ذيل ميں ہم اہل سنت كے چند ممتاز علما كى آرا بهى اثباتِ عذابِ قبر پر پيش كرتے ہيں:
شارح صحيح مسلم امام نووى فرماتے ہيں:
اعلم أن مذهب أهل السنة إثبات عذاب القبر،وقد تظاهرت عليه دلائل الكتاب والسنة: قال الله تعالىٰ ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا… الآية﴾ وقد تظاهرت به الأحاديث الصحيحة عن النبي من رواية جماعة في مواطن كثيرة، ولا يمتنع في العقل أن يعيد الله تعالىٰ في جزء من الجسد ويعذبه، وإذا لم يمنعه العقل وورد الشرع به، وجب قبوله واعتقاده ( المنهاج شرح صحيح مسلم:٢/٣٨٥،٣٨٦ درسى)
”جان لو ! اہل سنت كا مذہب يہ ہے كہ عذابِ قبر برحق ہے اور اس پر كتاب وسنت كے واضح دلائل موجود ہيں، جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے فرمايا ہے:﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا… ﴾ وہ آگ ہے جس پر وہ (لشكر ِفرعون) صبح و شام پيش كئے جاتے ہيں- ايسے ہى نبى1 سے عذاب كے بارے ميں بہت سى احاديث ِصحيحہ موجود ہيں، جنہيں صحابہ كرام كى ايك جماعت نے بہت سے موقعوں پر بيان كيا ہے-يہ امر عقلاً بهى محال نہيں كہ اللہ تعالىٰ جسم كے كسى حصہ ميں زندگى لوٹا دے اور اسے سزا دے اور شرع ميں بهى اس كا ثبوت موجود ہے- چنانچہ اس كو قبول كرنا اور اس پراعتقاد ركهناواجب ہے-“
امام ابن قيم فرماتے ہيں:
ومما ينبغي أن يعلم أن عذاب القبر هو عذاب البرزخ، فكل من مات وهو مستحق للعذاب، ناله نصيبه منه، قُبِر أولم يُقبر، فلو أكلته السباع أو حرِّق حتى صار رمادا أو نسف في الهواء أو صلب أو غرق في البحر، وصل إلى روحه وبدنه من العذاب ما يصل إلى المقبور (كتاب الروح: ص٥٦)
”اس امر كا علم ركهنا ضرورى ہے كہ عذابِ قبر اصل ميں عذابِ برزخ ہى كا دوسرا نام ہے- ہر مرنے والے كو جو عذاب كا مستحق ہو، اس كا حصہ پہنچ جاتاہے، خواہ اسے قبر ميں دفن كيا جائے يا نہ، اسے درندے كہا گئے ہوں يا وہ آگ ميں جلا ديا گيا ہو، اس كى راكھ ہوا ميں اُڑا دى گئى ہو ياوہ پهانسى دے ديا گيا ہو ياسمندر ميں ڈوب مرا ہو- (ان سب حالات ميں) اس كى رُوح اور اس كے بدن كو وہ عذاب پہنچ كررہے گا جو قبر والوں كو ہوتا ہے-“
حافظ ابن حجر صحيح بخارى كے باب ماجاء في عذاب القبر كے تحت لكهتے ہيں:
واكتفى بإثبات وجوده خلافا لمن نفاه مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسي ومن وافقهما وخالفهم في ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السنة وغيرهم (فتح البارى:٣/٢٩٦، دارالسلام)
”امام بخارى نے يہاں صرف اثباتِ عذاب قبر پر ہى اكتفا كيا ہے تاكہ اس سے ان خارجيوں اور معتزلہ كا ردّ كريں جنہوں نے مطلقاً عذابِ قبر كى نفى كى ہے، جيسے ضرار بن عمرو، بشر مريسى اور ان كے ہم خيال لوگ- البتہ اكثر معتزلہ اور اہل سنت نے اس مسئلے ميں ان كى مخالفت كى ہے-“
علامہ عينى لكهتے ہيں:
إثبات عذاب القبر وهو مذهب أهل السنة والجماعة، وأنكر ذلك ضرار بن عمرو و بِشر المُريسي وأكثر المتأخرين من المعتزلة . (عمدة القارى شرح صحيح البخارى: ٦/١٦١)
”اہل سنت والجماعت كا موقف عذابِ قبر كے اثبات كا ہے، جب كہ ضرار بن عمرو اور بشر مريسى اور متاخرين معتزلہ ميں سے اكثر نے اس كا انكار كيا ہے-“
شيخ الاسلام ابن تيميہ فرماتے ہيں:
ومن الإيمان باليوم الآخر الإيمان بكل ما أخبر به النبي ﷺ مما يكون بعد الموت فيؤمنون بفتنة القبر وبعذاب القبر ونعيمه . (شرح العقيدة الواسطية: ص١٤٠)
”اور آخرت پر ايمان لانے ميں يہ بات بهى شامل ہے كہ نبىﷺ نے موت كے بعد كے احوال كے متعلق جو بهى خبر دى ہے، ان سب پرايمان لاتے ہوئے انسان فتنہٴ قبر ، عذابِ قبر اور ثواب قبر پربہى ايمان ركهے-“
اُستاذِ محترم جناب ڈاكٹر ابوجابر عبدالله دامانوى حفظہ اللہ رقم طراز ہيں:
”احاديث ِرسول پر سچے دل سے ايمان لانے كے بعد اب جو شخص بهى ان احاديث كا مطالعہ كرے گا تو وہ اس حقيقت كو پالے گا كہ قبر كا عذاب ايك حقيقت ہے- عذابِ قبر كا تعلق چونكہ مشاہدے سے نہيں بلكہ اس كا تعلق ايمان بالغيب سے ہے، اس لئے حواس اس كا ادراك نہيں كرسكتے، بس يوں سمجھ ليں كہ جيسے فرشتوں، جنات، جنت اور دوزخ كو ہم اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول كے كہنے سے تسليم كرتے ہيں، اسى طرح عذابِ قبر كو بهى ہميں تسليم كرلينا چاہئے كيونكہ عذاب قبر كے متعلق بے شمار احاديث ِصحيحہ موجود ہيں جو درجہ تواتر تك پہنچ چكى ہيں ان احاديث كا انكار گويا قرآن كريم كے انكار كے مترادف ہے“ (عقيدئہ عذاب قبر:ص٢٠)
مولانا محمد يوسف لدہيانوى ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں:
”پورى جزا سزا تو آخرت ميں ہى ملے گى جب ہر شخص كا فيصلہ اس كے اعمال كے مطابق چكايا جائے گا، ليكن بعض اعمال كى كچھ جزا و سزا دنيا ميں بهى ملتى ہے، جيسا كہ بہت سى آيات واحاديث ميں يہ مضمون آيا ہے اور تجربہ و مشاہدہ بهى اس كى تصديق كرتا ہے- اسى طرح بعض اعمال پر قبر ميں بهى جزا و سزا ہوتى ہے اور يہ مضمون بهى احاديث ِمتواترہ ميں موجود ہے-“
آخر ميں فرماتے ہيں:
”بهرحال قبر كا عذاب و ثواب برحق ہے، اس پر ايمان لانا واجب ہے اور اس سے ہر موٴمن كو پناہ مانگتے رہنا چاہئے- حضرت عائشہ فرماتى ہيں كہ آنحضرتﷺ ہر نماز كے بعد عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تهے- “ (آپ كے مسائل اور ان كا حل:١/٣٠٥)
خلاصہ نكات:مذكورہ بالا بحث سے يہ حقيقت واضح ہوتى ہے كہ
1 قرآن و سنت كى نصوص كى روشنى ميں جملہ اہل سنت والجماعت كے عقيدے كا لازمى حصہ ہے كہ عذابِ قبر كو برحق مانا جائے اور اس پر ايمان لايا جائے-
2 موت كے بعد انسان جہاں كہيں بهى ہو اور جس حالت ميں بهى ہو، اسے عذاب يا راحت پہنچتى ہے-اس كے لئے قبر ميں ہونا لازمى نہيں -
3 عذابِ قبر كا انكار خوارج،بعض معتزلہ اور ان كے بعض پيروكاروں نے كيا ہے، جب كہ يہ لوگ اہل سنت والجماعت سے خارج ہيں اور بالاتفاق گمراہ ہيں-
4 عذابِ قبر كا تعلق مشاہدے سے نہيں بلكہ ايمان بالغيب سے ہے، اس لئے ہمارى عقل اس كا اِدراك نہيں كرسكتى-
5 ہر موٴمن كے لئے ضرورى ہے كہ وہ عذابِ قبر سے پناہ مانگے، كيونكہ رسول اللہﷺ بهى اس سے پناہ مانگا كرتے تهے-
ياد رہے كہ اگر مرنے والا نيك ہو تو قبر اس كے لئے انعاماتِ اُخرويہ كا زينہ اوّل ثابت ہوتى ہے اور اگر وہ نافرمان ہو تو پهر قبر آخرت كے عذاب كا نقطہ آغاز بنتى ہے-
عالم ’برزخ‘سے كيا مراد ہے؟
اصطلاح ميں بَرْزَخ اس مدت اور زمانے كا نام ہے جو دنيا اور آخرت كے درميان ہے، يعنى موت كے وقت سے لے كر قيامت تك كا درميانى ’وقفہ‘ برزخ كہلاتا ہے-
عربى لغت كى مشہوركتاب ’الصحاح‘ كے مصنف علامہ جوہرى فرماتے ہيں:
البرزخ الحاجز بين الشيئين والبرزخ ما بين الدنيا والآخرة من وقت الموت إلى البعث فمن مات فقد دخل في البرزخ ( تفسير قرطبى:١٢/١٣٥)
”برزخ (لغت ميں) اس ركاوٹ كا نام ہے جو دو چيزوں كے درميان ہوتى ہے،جبكہ (اصطلاح ميں) برزخ وہ عرصہ ہے جو دنيا اور آخرت كے درميان ہے؛ موت كى گهڑى سے لے كر قيامت تك- پس جو شخص مرگيا وہ برزخ ميں چلا گيا-“
امام ابن زيد فرماتے ہيں :
البرزخ ما بين الموت إلى البعث (تفسير طبرى: ج١٨/ ص٦٢)
”برزخ موت اور قيامت كے درميانى عرصے كو كہتے ہيں-“
برزخ كے متعلق چند ضرورى باتيں:فوت شدہ انسان كے لئے برزخ ظرفِ زمان ہے، مرنے كے بعد انسان عالم برزخ ميں چلا جاتا ہے- جو ميت چارپائى پر پڑى ہو، وہ بهى عالم برزخ ميں داخل ہوچكى ہے، جس كو لوگ كندہوں پر اُٹهائے ہوئے ہوتے ہيں، وہ بهى عالم برزخ ميں ہى ہے اور جس كو قبر ميں دفن كرديا گيا ہو، وہ بهى برزخ ميں ہے- الغرض فوت شدہ انسان جہاں اور جس حالت ميں بهى ہو، وہ عالم برزخ ميں ہى ہے كيونكہ موت كے وقت سے اس كا عالَم(زمانہ) تبديل ہوگيا- پہلے وہ ’عالم دنيا‘ ميں تها اور اب وہ ’عالم برزخ‘ ميں داخل ہوگيا ہے، اگرچہ وہ وہيں چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑا ہوا ہو-
يادرہے كہ وقت اور زمانے كى تبديلى كے لئے جگہ كى تبديلى ضرورى نہيں مثلاً ايك شخص نے عصر كى نماز مسجد ميں ادا كى اور پهر اسى مسجد اور اسى مصلىٰ پر ہى بيٹها رہاحتىٰ كہ سورج غروب ہوگيا اور مغرب ہوگئى تو وہ شخص وہاں بيٹهے بيٹهے ہى رات ميں داخل ہوچكا ہے- حالانكہ وہ ايك ہى مقام پر بيٹها رہا اور اس نے كوئى جگہ نہيں بدلى ليكن زمانہ تبديل ہوگيا- عصر كے وقت وہ دن ميں تها اور مغرب كے وقت رات ميں پہنچ گيا- اسى طرح مرنے سے پہلے آدمى عالم دنيا ميں ہوتا ہے اور مرنے كے بعد عالم برزخ ميں چلا جاتا ہے خواہ چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑا ہو يا جہاں بهى ہو ، اب اس كا زمانہ تبديل ہوگيا ہے-
برزخ والے دنيا والوں كے حالات سے بے خبر ہيں- وہ يہ نہيں جانتے كہ اس وقت دنيا ميں كيا كچھ ہورہا ہے اور ہمارے اہل و عيال پر كيا بيت رہى ہے، اگرچہ ميت چارپائى پر ہى كيوں نہ پڑى ہو- بالكل ايسے ہى دنيا والوں كى مثال ہے كہ وہ بهى مرنے والے كے ساتھ ہونے والى كارروائى سے ناآشنا ہيں- فرشتے مرنے والے كى پٹائى كررہے ہوں يا اسے جنت كى بشارتيں سنا رہے ہوں يا ميت چيخ و پكار كررہى ہو، أين تذهبون كى صدا يا قَدِّمُوْنِيْ قَدِّمُوْنِيْ پكار رہى ہو، دنيا والوں كو كچھ نظر نہيں آتا اور وہ سب اس سارى كارروائى سے بے خبر ہوتے ہيں- اس لئے كہ اب دونوں كا زمانہ مختلف ہے- ايك عالم دنيا ميں ہے اور دوسرا عالم برزخ ميں ہے- اختلافِ عالم كے سبب يہ كيسے ممكن ہوسكتا ہے كہ دنيا والے برزخيوں كے حالات يا اہل برزخ دنيا والوں كے حالات سے آگاہ ہوسكيں-
عالم دنيا ميں ہر انسان كو راحت ولذت اور عذاب وسزا كا پہنچنا ايك مسلم حقيقت ہے جس سے كسى كو بهى انكار نہيں ليكن آپ ديكهيں كہ بسا اوقات انسان كو اس زمين كے بجائے فضاوٴں (جيسے ہوائى جہاز وغيرہ) ميں آرام يا سزا ملتى ہے- اب اس شخص كو دليل بنا كر كسى نے بهى زمين پر ملنے والى سزاوٴں كا انكار نہيں كيا كيونكہ اوّلا زمين پر سزاوٴں كاملنا اَغلب واكثر ہے - ثانياً: ہوائى سزا بهگتنے والا بهى بالآخر كسى نہ كسى وقت زمين پر آ ہى جائے گا- بعينہ عالم برزخ ميں بهى ثواب وعذاب كاملنا برحق ہے، خواہ كسى كو يہ زمينى گڑہے (قبر) ميں ملے يا نہ ملے؟جس فوت شدہ شخص كو يہ زمينى قبر نہ ملے، اسے دليل بنا كر اس زمينى قبر ميں ہونے والى كارروائى كا انكار كر كے كسى نئى قبر (جيسے فرقہ عثمانيہ نے برزخى قبر كا تصور پيش كيا ہے) ميں عذاب يا ثواب ديے جانے كا نظريہ قائم نہيں كيا جا سكتا-
جہاں تك برزخ ميں ہونے والے عذاب كو عذابِ قبر كہنے كى بات ہے تواس كى وجہ يہ ہے كہ اوّلاً قبروں ميں مردوں كا دفن ہونا اَغلب واكثر ہے، ثانياً: جنہيں فى الوقت قبر نہيں ملى، كسى تابوت يا چارپائى پر ركها گيا ہے وہ بهى ايك نہ ايك دن اسى زمين ميں چلے جائيں گے جو آخركار ان كے ليے قبر بن جائے گى اور پهر حشر كے دن سارے اسى زمينى قبروں سے ہى اُٹهائے جائيں گے:﴿مِنْها خَلَقْنَاكُمْ وَفِيْها نُعِيْدُكُمْ وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرٰى﴾(طهٰ:٥٥) اسى (زمين) سے ہم نے تمہيں پيداكيا اور اسى ميں لوٹائيں گے اور اسى سے دوبارہ (قيامت كے دن ) ہم تمہيں نكاليں گے -“
عالم برزخ عالم آخرت ہى كا حصہ ہے، كتاب و سنت ميں اس كے بے شمار دلائل موجود ہيں- رسول اللہﷺ نے موٴمن بندے كى موت كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا: ((وإن العبد المومن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال الآخرة)) (صحيح بخارى:رقم ٤٤٥١)
”بے شك موٴمن بندہ جب دنيا سے كوچ كرنے لگتا ہے اور آخرت كى طرف روانہ ہوتا ہے-“
ايك اور فرمانِ نبوى ہے: ((ان القبر أول منزل من منازل الآخرة))
”بے شك قبر آخرت كى گهاٹيوں ميں سے پہلے گهاٹى ہے-“ (ترمذى، كتاب الزہد، رقم ٢٣٠٨)
معلوم ہوا كہ عالم برزخ عالم آخرت ہى كا حصہ ہے، اسى لئے عالم برزخ كو آخرت كا مقدمہ بهى كہا جاتا ہے- عالم آخرت يا عالم برزخ ميں ہونے والى سارى كارروائى كا تعلق پردئہ غيب سے ہے، اور غيب كى خبروں كا علم وحى الٰہى كے بغير ناممكن ہے، اس ليے بحيثيت ِمسلمان ہم سب پر ضرورى ہے كہ احوالِ آخرت كے بارے جس قدر اللہ تعالىٰ نے اپنے آخرى نبى حضرت محمد ﷺ كے ذريعے ہميں علم ديا ہے، اس پر بلا چوں چرا ، من وعن بغير كسى تحريف ،تمثيل اور كيفيت كے ايمان لايا جائے،كيونكہ ربّ العالمين نے نيك لوگوں كى پہلى صفت ہى يہ بيان فرمائى ہے كہ ﴿يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ (البقرة:٣) ”وہ غيب پر ايمان ركهتے ہيں-“
البتہ اس حد تك عالم برزخ كى كيفيت كا تذكرہ جو خود زبانِ رسالت سے ہميں علم ہواہے، اس كى تفصيلات ہم آگے اپنے مقام پر پيش كريں گے-(تحریر محمدارشدکمال)