• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہء وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت کی روشنی میں

شمولیت
جون 25، 2014
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
59
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابوالبیان رفعتؔ سلفی فاضل جامعہ سلفیہ بنارس ”8268563300‘‘
( عقیدہ ء وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت کی روشنی میں)
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے ایمان اور عقیدہ کی اصلاح کرے، اور وہی عقیدہ اختیار کرے جو نبی ؐ اور صحابہء کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عقیدہ تھا،اگر کوئی مسلمان غیر اسلامی عقیدہ کے ساتھ پوری زندگی عبادت الہی میں مصروف رہے پھر بھی وہ اللہ رب العالمین کی جنت کا مستحق نہیں ہو سکتا ،کیونکہ اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں اور محمد رسول اللہ ؐ نے اپنی احادیث صحیحہ میں بڑی کثرت سے جملہ اعمال صالحہ کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط ایمان و عقائد کی اصلاح ہی کو قرار دیا ہے،مثلاً ارشاد رباّنی ہ لَّیْْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عَاہَدُواْ وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ''ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر،قیامت کے دن پر،فرشتوں پر،کتاب اللہ پر،اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجودقرابت داروں،یتیموں ، مسکینوں،مسافروں،اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے،جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے،تنگدستی ، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے اور یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پر ہیز گار ہیں۔(سورۃ البقرۃ :١٧٧)
دور حاضر کے مسلمانوں میں جو عقائد باطلہ رواج پاچکے ہیں انہیںعقائد باطلہ میں سے انکار وفات رسول ؐ کاعقیدہ بھی ہے ، اس عقیدہ سے متعلق مسلمانوں میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں۔
(١)رسول اکرمؐ اپنی دنیوی زندگی گزارنے کے بعد برزخی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی برزخی زندگی کو بالکل دنیاوی زندگی کی طرح قرار دینا سراسر گمراہی ہے۔
(٢) رسول اکرمؐ اپنی وفات کے بعد برزخ میں بھی بالکل دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں ان کی دنیاوی اور برزخی زندگی میں کوئی بھی فرق نہیں، ۔
قرآن و حدیث اور منہج صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی روشنی میں صرف پہلا نظریہ ہی صحیح ہے، میں اپنے اس مضمون میں اسی پہلے نظریہ '' رسول اکرمؐ اپنی دنیوی زندگی گزارنے کے بعد برزخی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی برزخی زندگی کو بالکل دنیاوی زندگی کی طرح قرار دینا سراسر گمراہی ہے'' کے واضح و ٹھوس دلائل کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلی دلیل:ارشاد ربانی ہے:إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُم مَّیِّتُون یقیناً خود آپ کو بھی موت کا مزہ چکھنا ہے اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں (سورۃ زمر ٣٠)
صاحب تفسیر احسن البیان مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں'''اس آیت سے بھی وفات النبی ؐ اثبات ہوتا ہے، اس لئے نبیؐ کی وفات بابت کے یہ عقیدہ رکھنا کہ آپؐ کو برزخ میں بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہے جس طرح دنیا میں حاصل تھی، قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ آپ ؐپر بھی دیگر انسانوں ہی کی طرح موت طاری ہوئی ، اسی لئے آپ ؐ کو دفن کیا گیا، قبر میں آپ کو تو برزخی زندگی یقینا حاصل ہے جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں،لیکن دوبارہ قبر میں آپ کو دنیوی زندگی عطا نہیں کی گئی۔(تفسیر احسن البیان ص:١٠٨٥)
دکتور وہبہ بن مصطفی الزحیلی مذکو رہ آیت کریمہ کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں کہ:اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ؐ کی موت کی خبر دی گئی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اس حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ؐ ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہیں گے بلکہ عنقریب اپنی دنیا وی زندگی گزار کر
وفات پا جائیں گے کیونکہ پہلے بعض صحابہء کرام کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ رسول اللہ ؐ کو موت نہیں آئے گی۔(التفسیر المنیر للز حیلی:ج ٢٣ ص:٢٨٦)
دوسری دلیل:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی)اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جوسنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے، اور اترتے ہی مسجد میں تشریف لے گئے،پھرآپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آئے اور نبی ؐ کی طرف گئے، رسول اکرمؐ کو یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر سے ڈھانک دیا گیا تھا، پھر آپ ( ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ ؐ کا چہرہ کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا،اور رونے لگے،آپ نے کہا مےرے مان باپ آپ ؐ پر قربان ہوں،اے اللہ کے نبی ؐ!اللہ تعالیٰ آپ پر کبھی دو موتیں جمع نہیں کرے گا،سوا ایک موت کے جو آپ ؐ کے مقدر میں تھی پس آپ ؐ وفات پاچکے۔
ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ:ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو عمر رضی اللہ عنہ لو گوں سے کچھ کہ رہے تھے ( واللہ ما مات رسول اللہ ؐ، '' اللہ کی قسم رسول اللہ ؐ کی وفات نہیں ہوئی ہے'')تو صدیق اکبر نے فرمایا: کہ(عمررضی اللہ عنہ) بیٹھ جاؤ ! لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے،پھر دوبارہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے کے لئے کہا لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ،آخر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کلمہء شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا ، پھر آپ نے فرمایا: اما بعد! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد ؐ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ محمد ؐ کی وفات ہو چکی، اور اگر کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ باقی رہنے والا ہے،وہ کبھی مرنے والا نہیں، اللہ پاک نے فرمایا ہے''اور محمد ؐصرف اللہ کے رسول ہیںاور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے، پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے، اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا ، اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے'' اللہ کی قسم ایسا معلوم ہوا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ عز و جل نے قرآن مجید میں اتاری ہے، اب تمام صحابہ ؓ نے یہ آیت ابو بکررضی اللہ عنہ سے سیکھ لی، پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔(صحیح بخاری : ١٢٤٢۔١٢٤١)
تیسری دلیل: ام المو منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ا نہوں نے بیان کیا کہ:میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا تھا آپ ؐ نے فرمایا کہ: جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے، چنانچہ آپ ؐ کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ ؐ فرما رہے تھے''ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے،یعنی انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ، اس لئے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے۔(صحیح بخاری:٤٥٨٦)
چوتھی دلیل:ام المو منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ا نہوں نے بیان کیا کہ: مرض الموت میں رسول اللہ ؐ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایاکہ نبی ؐ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ آپ ؐ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی، یہ سن کر میں رونے لگی،دوسری مرتبہ جب آپ ؐ نے مجھ سے سر گوشی کی تو یہ فرمایا کہ آپ ؐ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ ؐ سے جاملوں گی تو میں ہنسی تھی،(صحیح بخاری:٤٣٣٤،٤٣٣) پانچویں دلیل:ام المو منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہا کرتی تھیں کہ: اللہ کی بہت سی نعمتوں میں سے ایک نعمت مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ؐ کی وفات میرے گھر میں، میری باری کے دن ہوئی ،آپ ؐ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ؐ کی وفات کے وقت میرے اور آپ ؐ کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کردیا تھا اس طور پر کہ عبد الرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہما ' گھر میں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک مسواک تھی' رسول اللہ ؐ مجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ ؐ اس مسواک کو دیکھ رہے ہیں ، میں سمجھ گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں اس لئے میں نے آپ سے پوچھا ، یہ مسواک آپ کے لئے لے لوں؟ آپ ؐ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا ، میں نے وہ
مسواک ان سے لے لی ، رسول اللہ ؐ اسے چبا نہ سکے، میں نے پوچھا آپ کے لئے اسے نرم کردوں؟ آپ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا، میں نے مسواک نرم کر دی ،آپ کے سامنے ایک بڑا پیالہ تھا، چمڑے کا یا لکڑی کا ( راوی حدیث) عمر کو اس میں شک تھا، اس پیالے کے اندر پانی تھا، رسول اللہ ؐ بار بار اپنے دونوں ہاتھ اس میں داخل فرماتے اور پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے لا الٰہ الا اللہ موت کے وقت شدت ہوتی ہے، پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے''فی الرفیق الاعلی فی الرفیق الاعلیٰ'' یہاں تک کہ آپ رحلت فر ماگئے( صحیح بخاری:٤٤٤٩)
ایک دوسری روایت میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہؐ کی دنیاوی زندگی کے آخری دن کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتی ہیں''اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے اور رسول اکرم ؐ کے تھوک کو اس دن جمع کر دیا جو آپ ؐ کی دنیا کی زندگی کا سب سے آخری اور آخرت کی زندگی کا پہلا دن تھا( صحیح بخاری:٤٤٥١)
چھٹی دلیل:انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہـ:شدت مرض کے زمانے میں جب نبی کریم ؐ کی بے چینی بے حد بڑھ گئی تو فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا''آہ! ابا جان کو کتنی تکلیف ہے،اس پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا''آج کے بعد تمہارے ابا جان پر کوئی بے چینی نہیں ہوگی'' جب آپ ؐ وفات پاگئے تو فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے فرمایا'' ہائے اباجان ! رب نے انہیں بلایا تو انہوں نے رب کی پکار پر لبیک کہا، ہائے ابا جان! جنت الفردوس ان کا ٹھکانا ہے،ہائے ابا جان ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی موت کی خبر سناتے ہیں'' جب نبیؐ کو دفنا دیا گیاتو فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تمہارے دل رسول اللہ ؐ کی نعش پر مٹی ڈالنے کے لئے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے؟( صحیح بخاری:٤٤٦٢)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ حدیث مذکور کے آخری ٹکڑے '' یا انس أ طابت أنفسکم أ ن تحثوا علي رسو ل اللہؐ التراب'' کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کاآخری قول بھی حزن و غم کے اظہار کا ایک انداز ہی ہے، ورنہ نبی ؐ کے دفن کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ وہ تو شریعت کا حکم ہے جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔( ریاض الصالحین اردو ج١ص:٧٠)
ساتویں دلیل:منگل کے روز آپ ؐ کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا،غسل دینے والے حضرات یہ تھے (١)عباس (٢)علی ،عباس رضی اللہ عنہ کے دو صاحبزادگان (٣) فضل (٤) قثم(٥) رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام شقران(٦) اسا مہ بن زید،(٧)اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم، عباسؓ ،فضلؓ اور قثمؓ ؓآپ کی کروٹ بدل رہے تھے،اسامہؓ اور شقرانؓ پانی بہارہے تھے،علی رضی اللہ عنہ غسل دے رہے تھے،اور اوسؓ نے آپ ؐ کو اپنے سینے سے ٹیک دے رکھی تھی ،اس کے بعد آپ ؐ کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنایا گیا ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی بس آپ ؐ کو چادروں ہی میں لپیٹ دیا گیا۔
آپ کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہؓ کرام کی رائیں مختلف تھیں لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا لیکن اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں فوت ہوا،اس فیصلے کے بعد ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کا وہ بستر اٹھا یا جس پر آپ ؐ کی وفات ہوئی تھی اور اسی کے نیچے قبر کھودی ،قبر لحد والی( بغلی) کھودی گئی،اس کے بعد باری باری دس دس صحابہء کرام نے حجرہ شریفہ میں داخل ہو کر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا،سب سے پہلے آپ ؐکے خانوادہ بنو ہاشم نے نماز جنازہ پڑھی ، پھر مہا جرین نے ، پھر انصار نے ، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے اور ان کے بچوں نے،
نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گزر گیااور بدھ کی رات آگئی،رات میں آپ ؐ کے جسد پاک کو سپرد خاک کیا گیا۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہ ؐ کی تدفین کا علم نہ ہوا یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میںپھاؤ ڑوں کی آواز سنی( الرحیق المختوم ص:٦٣٣)
ۤۤآٹھویں دلیل:عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ: جب رسول اللہ ؐ کی وفات ہوئی اس وقت آپ ؐ کی عمر ٦٣ سال تھی(صحیح بخاری:٤٤٦٦)
نویں دلیل :عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ: جب نبی ؐ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں تیس صاع جو کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی تھی( صحیح بخاری:٤٤٦٧)
دسویں دلیل:انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کی وفات کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا، آؤ ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا کی زیارت کو چلیں جس طرح رسول اللہؐ ان کی زیارت کیا کرتے تھے،جب یہ دو نوں ان کے پاس پہونچے تو وہ رو پڑیں، ان دونوں نے پوچھا ،آپ کیوں رو رہی ہیں؟کیا آپ نہیں جانتی ہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ رسول اللہ ؐ کے لئے (دنیا سے) زیادہ بہتر ہے؟ انہوں نے جواب دیا''میں اس لئے نہیں روتی کہ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ رسول اللہ ؐ کے لئے زیادہ بہتر ہے، لیکن میں تو اس لئے روتی ہوں کہ آسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا'' پس ام ایمن رضی اللہ عنہ نے (اپنی اس بات سے) ان دونوں کو بھی زاروقطار رونے پر مجبور کردیا اور وہ دونوں بھی ان کے ساتھ رونے لگے(صحیح مسلم٦٤٧٢)
خلاصہء کلام: یہ کہ محمد رسول اللہ ؐسمیت سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے تمام انبیاء پر فطری موت طاری ہوچکی ہے، تمام انبیاء وفات کے بعد اپنی برزخی زندگی گزار رہے ہیں ،اور ان کے اجسام گلتے سڑتے نہیں،'' ان ّ اللّہ تبارک و تعالیٰ حرّم علیٰ الارض أجساد الانبیاء '' بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام (علیہم السلام ) کے جسم حرام کردئے ہیں( سنن ابی داؤد:١٥٣١)
جن روایتوں سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کو دنیاوی زندگی کی طرح زندہ قرار دیتے ہےں وہ سب روایتیں انبیاء کی برزخی زندگی کی وضا حت کرتی ہیں نہ کہ دنیاوی زندگی کی ، مثلاً'ألأنبیاء احیاء فی قبورھم یصلون''انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں(صحیح الجامع :٢٧٩٠)
''مررت علی موسیٰ وہو یصلی فی قبرہ''میں موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے(صحیح مسلم٦٣٠٨)
انبیاء کی برزخی زندگی کو دنیا وی زندگی پر قیاس کرنے کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ، موت کے بعد سے لیکر قیامت تک کی زندگی برزخی زندگی کہلاتی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:وَمِن وَرَائِہِم بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُون اور ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے دوبارہ جی اٹھنے تک(المومنون:١٠٠)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے برزخ کی تفسیر مین متعدد اقوال نقل فرمایا ہے (١) امام ضحاک ، مجاہد ، اور ابن زید رحمہم اللہ فرماتے ہیں''برزخ ای حاجز بین الموت والبعث''برزخ موت اور قیامت کے درمیا ن کے آڑ کو کہتے ہیں۔(٢)امام ضحاک کا ایک دوسرا قول یہ ہے ''ھو ما بین الدنیا و الآخرۃ''دنیا اور آخرت کے درمیان والی زندگی کو برزخی زندگی کہتے ہیں( تفسیر القرطبی ج ١٢ ص:١٥٠)
آخر میں دعاگو ہوں کہ الٰہ العالمین! تمام مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح فر ما اور ہمیں ایمان کی موت نصیب فرماآمین
 
Top