• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر ( حصہ اول)

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
(یہ تو بہت ہی عجیب و غریب عقائد ہیں جو کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کے خلاف اور پھر دعویٰ کہ ہم اہل سنت والجماعت!!! بھائی آپ تو اہل حدیث ہو یا زیادہ زیادہ اپنے آپ کو وہابی کہہ لیں )
ویسے عجیب بات کہی آپ نے! آپ نے کہا یہ عقائد بخاری و مسلم کے خلاف ہیں تو اس لیئے آپ اہلِ سنت سے خارج ہوئے ۔ بہت جلدی کی آپ نے فتوٰی دینے میں ۔ تو جناب اہلِ سنت والجماعت کی پہلی کتاب قرآنِ مجید ہے کیا آپ نے عقائد کو پہلے قرآن سے پرکھا اور پھر بخاری مسلم پر آئے یا ڈائریکٹ بخاری و مسلم پر ؟

اگر قرآن سے پرکھا تو کیا آپ کو یہ عقائد قرآن کے مطابق ملے یا خلاف ؟؟ جواب ضرور دیجئے گا !!
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
یہ تو ہوا غیر انبیاء مردوں کا احوال صحیح بخاری سے اب آتے ہیں صحیح مسلم کی جانب امام مسلم نے بیان کیا کہ
شب اسراء جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر انور سے ہوا تو آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں مصروف صلاۃ تھے
تو کیا مردہ اجسام بغیر روح کے مصروف صلاۃ ہوسکتے ہیں ؟؟
حضرت موسٰی علیہ السلام قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے! تو جناب اس بات سے کس کو انکار ہے یا اس حدیث سے کس کو انکار ہے ؟
جناب وہ ایک
برزخی حیات
ہے!
اور نبی کریمﷺ نے شبِ معراج میں انبیاء کو برزخی حیات کے ساتھ دیکھا تھا ۔ جو کہ اس دنیاوی حیات کی ضد ہے۔ اور میں نے تفصیلاً دوسری پوسٹ میں دلائل دئے تھے کہ انبیاء جنت الفردوس میں برزخی حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔تو یہ حدیث قطعاً ہمارے عقیدے کے خلاف نہیں ہے ۔ رہی بات کہ اگر آپ اسے حیاتِ دنیاوی سے تعبیر کرتے ہو تو آپ احادیث دیکھ لیں ۔۔

حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ فَقَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1027 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر حاضر ہوئے جو انہیں کسی کتابی سے ہاتھ لگی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے پڑھنا شروع کردیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ اے ابن خطاب کیا تم اس میں گھسنا چاہتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں تمہارے پاس ایک ایسی شریعت لے کر آیا ہوں جو روشن اور صاف ستھری ہے تم ان اہل کتاب سے کس چیز کے متعلق سوال نہ کیا کرو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں صحیح بات بتائیں اور تم اس کی تکذیب کرو اور غلط بتائیں تو تم اس کی تصدیق کرو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔۔۔۔ اگر موسی بھی زندہ ہوتے ۔۔۔۔۔تو انہیں بھی میری پیروی کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔
سنن دارمی کی حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور۔۔۔۔۔
اگر آج موسی زندہ ہوتے
۔۔۔۔اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔

اب آپ کیا کہیں گے ؟ کیا زندہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو یہ ہوتا ؟؟

یہاں سے ہمارا ہی عقیدہ ہی ثابت ہے جناب کہ انبیاء وفات پا چکے ہیں ، دنیاوی اعتبار سے میت ہیں ، اور جنت الفردوس میں برزخی حیات سے "رفیقِ اعلٰی" میں موجود ہیں ۔۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ احادیث دیکھ لیں ۔۔
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُجَالِدٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ فَقَرَأَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي
مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1027 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
سنن دارمی کی حدیث:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 436
اب آپ کیا کہیں گے ؟ کیا زندہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو یہ ہوتا ؟؟
یہاں سے ہمارا ہی عقیدہ ہی ثابت ہے جناب کہ انبیاء وفات پا چکے ہیں ، دنیاوی اعتبار سے میت ہیں ، اور جنت الفردوس میں برزخی حیات سے "رفیقِ اعلٰی" میں موجود ہیں ۔۔
آپ ان احادیث کی سند میں جو کمزوری ہے وہ بھی دیکھ لیں
أن عمرَ بنَ الخطابِ أتَى النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بكتابٍ أصابه من بعضِ أهلِ الكتابِ فقرأه على النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فغضب وقال أمُتهوِّكون فيها يا ابنَ الخطابِ والذي نفسِي بيدِه لقد جئتكم بها بيضاءَ نقيةً لا تسألوهم عن شيءٍ فيُخبِروكم بحقٍّ فتكذبوا به أو بباطلٍ فتصدقوا به والذي نفسِي بيدِه لو أن موسَى كان فيكم حيًّا ما وسعه إلا أن تبِعَني
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 1/179
خلاصة حكم المحدث: فيه مجالد بن سعيد ضعفه أحمد ويحيى بن سعيد وغيرهما ‏‏‏‏

علامہ ھیثمی کے بارے میں البانی کہتے ہیں کہ
و قال الألباني: متساهل في النقد.
اب ایک نقد میں متساہل محدث جس راوی کے بارے یہ کہے کہ یہ ضعف ہے اس کے ضعوف کا عالم کیا ہوگا !!!
یہ تو ہوئی علامہ ھیثمی کی بات کچھ ایسی ہی بات علامہ بدر الدين العيني صاحب بھی فرماتے ہیں اس روایت کے ایک روای مجالد کے بارے میں
أن عمرَ رضِيَ اللهُ تعالَى عنه أُتِيَ بكتابٍ أصابه من بعضِ أهلِ الكتابِ فقرأه عليه فغضِب فقال لقد جئتُكم بها بيضاءَ نقيةً لا تسألوهم عن شيءٍ فيخبِرونكم بحقٍّ فتكذِّبوا به أو بباطلٍ فتصدِّقوا به والذي نفسِي بيدِه لو أن موسَى كان حيًّا ما وسِعَه إلا أن يتبِعَنِي
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم: 25/111
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات إلا أن في مجالد ضعفا

اور سب سے بڑی بات یہ کہ علامہ ابن حجر عسقلانی کی رائے بھی مجالد کے بارے کچھ ایسی ہی ہے
أن عمر أتى النبي صلى الله عليه وسلم بكتاب أصابه من بعض أهل الكتاب فقرأه عليه فغضب وقال لقد جئتكم بها بيضاء نقية لا تسألوهم عن شيء فيخبروكم بحق فتكذبوا به أو بباطل فتصدقوا به والذي نفسي بيده لو أن موسى كان حيا ما وسعه إلا أن إلا أن يتبعني
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم: 13/345
خلاصة حكم المحدث: رجاله موثقون إلا أن في مجالد ضعفا

ان سب باتوں مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا اس روایت سے استدلال کرنا سود مند نہیں بلکہ بہتر ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو ہی مانا جائے یا پھر علامہ البانی کی بیان کردہ ان روایت کو مانا جائے جس میں انبیاء علیہ السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے کی بات کی گئی ہے
الأنْبياءُ أحياءٌ في قُبورِهِمْ يُصَلُّونَ
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
الانبیاء احیاء ۔۔ والی حدیث پر امام ذہبیؒ کی جرح موجود ہے ۔۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ
'' نبی ﷺ نے فرمایا کہ انبیائ اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں''(مسند ابو یعلٰی)
۔۔
اس روایت کے راوی مستلم بن سعید:: ابن حجر::قال في التقريب : صدوق عابد ربما وهم, قال شعبہ ما کنت اظن ان ذاک حدیثین (تقریب،تہذیب) اس روایت ا دوسراراوی 'حجاج بن اسود '، 'ثابت البنانی ' سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔ذہبی نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل کے طور پر یہ روایت پیش کی ملاحظہ ہو حجاج بن اسود عن ثابت البنانی نکرۃما روی عنہ فیما اعلم سوی مستلم بن سعید ؛فاتی بخنر منکر ، عنہ، عن انس فی "" الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " (میزان الاعتدال) ۔ سکین ملاحظہ ہو ۔۔

تو آپ کے نظریے کے مطابق

ان سب باتوں مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا اس روایت سے استدلال کرنا سود مند نہیں بلکہ بہتر ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کو ہی مانا جائے یا پھر علامہ البانی کی بیان کردہ ان روایت کو مانا جائے جس میں انبیاء علیہ السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے کی بات کی گئی ہے
ایسی روایت کے مقابل صحیح مسلم و بخاری کی روایت کو ہی مانا جائے ۔۔ تو صحیح مسلم کی ہی حدیث ہے کہ :

حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِشَهْرٍ تَسْأَلُونِي عَنْ السَّاعَةِ وَإِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا عَلَی الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ
ہارون بن عبداللہ حجاج بن شاعر، حجاج ابن محمد ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے فرما رہے تھے کہ تم لوگ مجھ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہو لیکن قیامت کا علم تو صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے اور ہاں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانے میں زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ہے کہ اس پر سو سال کا عرضہ گزر جائے اور پھر وہ زندہ رہے۔

جی تو یہ صحیح مسلم کی ہی روایت ہے ۔ کہ جو آج جاندار موجود ہیں وہ سو سال کے بعد زندہ نہیں ہوں گے ۔۔

میں یادہانی کرانا چاہوں گا کہ ہمارا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنا دنیاوی حیات مکمل کی ، اور وفات پا گئے ، اب وہ دنیوی اعتبار سے اموات میں داخل میں ، وہ میت ہیں ، ہاں ان کی ارواح رفیقِ اعلٰی،اعلیٰ علیین میں موجود ہیں اور اسی رفاقت کی دعا اللہ کے آخری نبی ﷺ نے مانگی تھی۔۔
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
رفیقِ اعلٰی کا ثبوت


حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَيَّ ظَهْرَهُ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ

معلی بن اسد عبدالعزیز ہشام بن عروہ عباد بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کا وقت قریب ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ یا اللہ مجھے بخش دے رحم فرما اور بلند رفیقوں سے ملا۔

بخاری شریف ج ۲ ص ۶۳۹ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، بخاری شریف ج ۲ ص ۸۴۷ کتاب المرضٰی

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرَضَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَعَلَ يَقُولُ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1621
مسلم شعبہ سعد عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مرض میں بیمار ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ فرماتے تھے ( فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی) اعلیٰ مرتبہ کے رفیقوں میں رکھنا۔

باقی احادیث یہاں ملاحظہ ہوں۔

تو ان بخاری و مسلم اور دوسری صحاحِ ستہ کی احادیث کی صحیح احادیث کے سامنے کیسے قبر میں دنیوی زندگی تسلیم کر سکتے ہیں ؟ اور صرف احادیث ہی نہیں رفیقِ اعلٰی کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے اور حافظ ابنِ کثیر نے اور دوسرے مفسرین حضرات نے اپنی تفسیر میں تفصیلا رفیقِ اعلی کا ذکر کیا ہے ۔

وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ مَعَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمَ ٱللَّهُ عَلَيۡہِم مِّنَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَٱلصِّدِّيقِينَ وَٱلشُّہَدَآءِ وَٱلصَّـٰلِحِينَۚ وَحَسُنَ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ رَفِيقً۬ا

اورجو شخص الله اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہو تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر الله نے انعام کیا وہ نبی اور صدیق اور شہید اور صالح ہیں اور یہ رفیق کیسے اچھے ہیں

سورۃ النساء 69
 
Top