السلام علیکم،
بریلوی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کے لئے سورۃ نساء کی آیت ٤١ پیش کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی نبیوں پر گواہی کا ذکر ہے، اس کے رد میں جہاں دوسرے دلائل موجود ہیں وہیں دو روایات بھی بہت زبردست ہیں جنہیں میں نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں ایک بریلوی کے جواب میں کچھ یوں پیش کیا:
بریلوی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کے لئے سورۃ نساء کی آیت ٤١ پیش کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی نبیوں پر گواہی کا ذکر ہے، اس کے رد میں جہاں دوسرے دلائل موجود ہیں وہیں دو روایات بھی بہت زبردست ہیں جنہیں میں نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں ایک بریلوی کے جواب میں کچھ یوں پیش کیا:
فی الحال تو امام سیوطی کے الزامی حوالے سے کام چلایا ہے، شیخ محترم کفایت اللہ اگر ان روایات کی مکمل تحقیق پیش کر کے ان مندرجہ بالا دونوں روایات کی صحت کے متعلق کوئی پختہ بات پیش فرما دیں تو اس مسئلہ میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے کہ اگر واقعی یہ روایات صحیح ہیں تو مزید یقین کے ساتھ انہیں پیش کیا جا سکے اور اگر ضعیف ہیں تو انہیں پیش کرنا چھوڑ دیا جائے اور دیگر جوابات سے ہی بات کی جائے۔ جزاک اللہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں خود بھی اپنے حاضر و ناظر ہونے کی نفی کی ہے۔ امام سیوطی نے اسی آیت کی تفسیر میں امام ابن ابی حاتم، بغوی اور طبرانی سے ایک روایت کو حسن قرار دیتے ہوئے پیش کیا ہے، جس میں موجود ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت تلاوت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبڑے اور دونوں پہلو کانپنے لگے اور عرض کی اے میرے رب میں جن کے درمیان ہوں ان کا تو شاہد ہوں، میں ان پر کیسے شاہد ہوں گا جن کو میں نے دیکھا ہی نہیں۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص450۔451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
اسی آیت کی شرح میں امام سیوطی نے یہ روایت بھی پیش کی کہ:
"امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں ان کے درمیان ہوں میں گواہ ہوں اور جب تو مجھے موت عطا کر دے تو تُو ہی ان پر نگہبان ہے۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
ان روایات سے صاف معلوم ہو گیا کہ اس آیت میں جس گواہی کا ذکر ہے اس کا کوئی بھی تعلق حاضر و ناظر ہونے سے نہیں بلکہ اس کی تو نفی موجود ہے۔ یہ گواہی صرف اللہ کے دیے ہوئے علم اور وحی کی بنیاد پر ہی ہو گی، ان شاء اللہ۔
امام سیوطی کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر اور روایات کو صرف اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے ان کے متعلق لکھا: "خاتم حفاظ الحدیث امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ العزیز"
(فتاویٰ رضویہ: ج5 ص493)
اسی طرح بریلویوں کے ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت علامہ حسن علی رضوی نے ایک مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے لکھا: "اس کے مستند ہونے کے لیے امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کا نام گرامی ہی کافی ہے۔"
(محاسبئہ دیوبندیت: ص158)