• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ حاضر و ناظر کے رد پر دو روایات کی تحقیق مطلوب ہے

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
بریلوی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کے لئے سورۃ نساء کی آیت ٤١ پیش کرتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی نبیوں پر گواہی کا ذکر ہے، اس کے رد میں جہاں دوسرے دلائل موجود ہیں وہیں دو روایات بھی بہت زبردست ہیں جنہیں میں نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں ایک بریلوی کے جواب میں کچھ یوں پیش کیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں خود بھی اپنے حاضر و ناظر ہونے کی نفی کی ہے۔ امام سیوطی نے اسی آیت کی تفسیر میں امام ابن ابی حاتم، بغوی اور طبرانی سے ایک روایت کو حسن قرار دیتے ہوئے پیش کیا ہے، جس میں موجود ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت تلاوت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبڑے اور دونوں پہلو کانپنے لگے اور عرض کی اے میرے رب میں جن کے درمیان ہوں ان کا تو شاہد ہوں، میں ان پر کیسے شاہد ہوں گا جن کو میں نے دیکھا ہی نہیں۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص450۔451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
اسی آیت کی شرح میں امام سیوطی نے یہ روایت بھی پیش کی کہ:
"امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں ان کے درمیان ہوں میں گواہ ہوں اور جب تو مجھے موت عطا کر دے تو تُو ہی ان پر نگہبان ہے۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
ان روایات سے صاف معلوم ہو گیا کہ اس آیت میں جس گواہی کا ذکر ہے اس کا کوئی بھی تعلق حاضر و ناظر ہونے سے نہیں بلکہ اس کی تو نفی موجود ہے۔ یہ گواہی صرف اللہ کے دیے ہوئے علم اور وحی کی بنیاد پر ہی ہو گی، ان شاء اللہ۔
امام سیوطی کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر اور روایات کو صرف اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے ان کے متعلق لکھا: "خاتم حفاظ الحدیث امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ العزیز"
(فتاویٰ رضویہ: ج5 ص493)
اسی طرح بریلویوں کے ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت علامہ حسن علی رضوی نے ایک مسئلہ کو پیش کرتے ہوئے لکھا: "اس کے مستند ہونے کے لیے امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ کا نام گرامی ہی کافی ہے۔"
(محاسبئہ دیوبندیت: ص158)
فی الحال تو امام سیوطی کے الزامی حوالے سے کام چلایا ہے، شیخ محترم کفایت اللہ اگر ان روایات کی مکمل تحقیق پیش کر کے ان مندرجہ بالا دونوں روایات کی صحت کے متعلق کوئی پختہ بات پیش فرما دیں تو اس مسئلہ میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے کہ اگر واقعی یہ روایات صحیح ہیں تو مزید یقین کے ساتھ انہیں پیش کیا جا سکے اور اگر ضعیف ہیں تو انہیں پیش کرنا چھوڑ دیا جائے اور دیگر جوابات سے ہی بات کی جائے۔ جزاک اللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اسی آیت کی شرح میں امام سیوطی نے یہ روایت بھی پیش کی کہ:
"امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں ان کے درمیان ہوں میں گواہ ہوں اور جب تو مجھے موت عطا کر دے تو تُو ہی ان پر نگہبان ہے۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ , قَالَ: ثنا سُفْيَانُ , عَنِ الْمَسْعُودِيِّ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: ٤١ ] قَالَ: " قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مَا دُمْتُ فِيهِمْ , فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ» [تفسير الطبري = جامع البيان ط هجر 7/ 39]۔

اس کی سند صحیح ہے ، تمام رواۃ ثقہ ہیں، سند میں سفیان بن عیینہ کا عنعنہ ہے مگر معن بن عبد الرحمن الهذلي ثقہ راوی نے ان کے شیخ کی متابعت کی چنانچہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي مِسْعَرٌ، وَقَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: «اقْرَأْ عَلَيَّ»، قَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: «إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي»، قَالَ: فَقَرَأَ عَلَيْهِ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ النِّسَاءِ إِلَى قَوْلِهِ: {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا} [النساء: ٤١ ]، فَبَكَى. قَالَ مِسْعَرٌ: فَحَدَّثَنِي مَعْنٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مَا دُمْتُ فِيهِمْ، أَوْ مَا كُنْتُ فِيهِمْ "، شَكَّ مِسْعَرٌ[صحيح مسلم 1/ 551]۔

اور متن کا مفہوم ایک ہی ہے لہٰذا حدیث صحیح ہے والحمدللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں خود بھی اپنے حاضر و ناظر ہونے کی نفی کی ہے۔ امام سیوطی نے اسی آیت کی تفسیر میں امام ابن ابی حاتم، بغوی اور طبرانی سے ایک روایت کو حسن قرار دیتے ہوئے پیش کیا ہے، جس میں موجود ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت تلاوت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبڑے اور دونوں پہلو کانپنے لگے اور عرض کی اے میرے رب میں جن کے درمیان ہوں ان کا تو شاہد ہوں، میں ان پر کیسے شاہد ہوں گا جن کو میں نے دیکھا ہی نہیں۔"
(ترجمہ تفسیر دُرِ منثور: ج2 ص450۔451، ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

حدثنا أبو بكر بن أبي الدنيا، ثنا الصلت بن مسعود الجحدي، ثنا فضيل بن سليمان، ثنا يونس بن محمد بن فضالة الأنصاري، عن أبيه قال: وكان أبي ممن صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم أتاه في بني ظفر، فجلس على الصخرة التي في بني ظفر اليوم، ومعه ابن مسعود ومعاذ بن جبل وناس من أصحابه، فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم قارئا فقرأ، فأتى على هذه الآية: فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا فبكى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ضرب لحياه وجنباه فقال: يا رب هذا، شهدت على من بين ظهري، فكيف بمن لم أره .[تفسير ابن أبي حاتم: 3/ 956 واخرجہ ایضا الطبرانی فی المعجم الكبير 19/ 243 و الواحدی فی تفسیرہ 2/ 55 وابونعیم فی معرفۃ الصحابہ رقم 63کلھم من طریق فضيل بن سليمان بہ]۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کونقل کرکے کہا ہے :
.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 7/ 4]۔

مگر اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں فضيل بن سليمان ہیں جو کہ ضعیف ہیں لیکن آپ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اور صرف حافظہ کے لحاظ سے ضعیف ہیں ، اور اس حدیث میں خط کشیدہ الفاظ کا جومضمون ہے وہ اوپر ذکرکردہ حدیث میں الفاظ کی تبدیلی مگر معنی کی یکسانیت کے ساتھ موجود ہے اوربعض حصوں کے اور بھی متفرق شواہد ہیں، لہٰذا یہ حدیث ان خط کشیدہ الفاظ کےساتھ صحیح ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
جزاک اللہ شیخ محترم،
ایک اور مہربانی ضرور کریں وہ یہ کہ کیا اس آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے با سند صحیح کچھ اور اقوال بھی ہیں تو پیش کر دیں، جزاک اللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
جزاک اللہ شیخ محترم،
ایک اور مہربانی ضرور کریں وہ یہ کہ کیا اس آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے با سند صحیح کچھ اور اقوال بھی ہیں تو پیش کر دیں، جزاک اللہ۔
مسلم کی جوروایت ہے وہ باسند بھی ہے اور مسلم میں ہونے کی وجہ سے باجماع امت صحیح ہے ، وقت ملا تو دیگر نصوص بھی لکھ دوں گا۔
 
Top