• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ سے انحراف اور اس سے بچنے کے طریقے

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
[JUSTIFY]عقیدہ سے انحراف اور اس سے بچنے کے طریقے
عقیدہ سے انحراف ہلاکت اور بربادی ہے:
صحیح عقیدہ سے انحراف ہلاکت اور بربادی ہے ، اس لیے کہ صحیح عقیدہ ہی اچھے اور مفید اعمال کی ترغیب دلاتا ہے۔ کوئی بھی شخص صحیح عقیدہ کے بغیر توہمات اور شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، جو اس پر جمع ہونے کی صورت میں اس کی خوشحال زندگی کی راہوں میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کی زندگی اس پر تنگ ہوجاتی ہے ، پھر وہ اس تنگی جو کہ اس کی ساری زندگی سےتعبیر ہے سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کرتا ہےخواہ خودکشی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ، جیسا کہ یہی حال ہے بہت سے ان لوگوں کا جو صحیح عقیدہ کی ہدایت سے محروم ہیں۔
اور وہ معاشرہ جس میں صحیح عقیدہ نہ ہو ایک حیوانی معاشرہ ہے جس نے خوشحال زندگی کے تمام اسباب کو ترک کردیا ہے ، اگرچہ اس کے پاس اس مادی دنیا کے بہت سے اسباب ہوں جوکہ غالباً ہلاکت اور بربادی ہی کی طرف لے جاتے ہیں ، جیسا کہ کافر معاشروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ ان مادی اسباب کو رہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ اس کی خصوصیات اور منفعت سے استفادہ حاصل کیا جاسکے ، اور اس کی رہنمائی صحیح عقیدہ کے سوا کوئی اور چیز نہیں کر سکتی ، ارشاد باری تعالی ہے
﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾​
[URDU]
﴿ اے پیغمبرو ! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ﴾ (المومنون: 51)​
[/URDU]
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ، أَنِ اعْمَلْ سَابِغَاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ، وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ، يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاء مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ﴾ (السباء: 10-13)
[URDU]
﴿ اور ہم نے داود پر اپنا فضل کیا ، اے پہاڑو ! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ) یہی حکم ہے ( اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کردیا * کہ تو پوری پوری زرہیں بنا اور جوڑوں میں اندازہ رکھ ، تم سب نیک کام کیا کرو ، )یقین مانو ( کہ میں تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں * اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی ، اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا ، اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ما تحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے * جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کردیتے مثلاً قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں ، اے آل داود اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو ، میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہی ہوتے ہیں﴾
[/URDU]لہذا عقیدہ کی طاقت کو مادی طاقت سے جدا نہیں ہونا چاہیے ، اگر جدا ہوکر باطل عقائد کی طرف منحرف ہوگئی تو پھر مادی قوت ہلاکت اور بربادی کا ذریعہ بن جاتی ہے ، جیسا کہ آج کے دور میں کافر ممالک میں دیکھا جاتا ہے ، جن کے پاس مادی قوت تو ہے لیکن صحیح عقیدہ کا فقدان ہے ۔
صحیح عقیدہ سے منحرف ہونے کی وجوہات:
صحیح عقیدہ سے منحرف ہونے کی کچھ وجوہات ہیں جن کی معرفت حاصل کرنا انتہائی اہم ہے ، بعض اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
1-صحیح عقیدہ سے جہالت:صحیح عقیدہ سے جہالت جس کی وجہ اس کی تعلیم حاصل نہ کرنا ہے ، یا پھر اس سے بے توجہی برتنا ہے ، یہاں تک کہ ایک ایسی نسل پروان چڑھ جاتی ہے جو اس عقیدہ سے بے بہرہ ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے مخالف اور منافی امور کا اسے کوئی علم ہوتا ہے ۔ لہذا وہ حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتی ہے، جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :
‘‘إنما تُنقضُ عُرى الإسلام عروةً عروةً إذا نشأ في الإسلام من لا يعرفُ الجاهلية’’ (اسلام کی رسی کے پھندے ایک ایک کر کے کھل جائیں گے اگر اسلام میں ایسے لوگ آجائیں جنہیں جاہلیت کا کوئی علم نہیں )
2-تعصب اور آباء و اجداد پرستی: تعصب اور آباء و اجداد پرستی اور انہی کی راہ پر جمے رہنا چاہے وہ باطل ہی کیوں نہ ہو اور جو کچھ بھی اس کے مخالف ہو اسےترک کردینا اگرچہ وہ حق ہی کیوں نہ ہو ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ﴾ (البقرۃ: 170)
[URDU]
(اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ، گو ان کے باپ دادے بے عقل اور گم راہ ہوں)​
[/URDU]
3-اندھی تقلید کرنا: اندھی تقلید کرنا اس طرح کہ عقیدے کی معاملے میں لوگوں کی باتوں کو بنا اس کی دلیل کی معرفت یا اس دلیل کی صحت معلوم کئے لے لینا، جیسا کہ (اہلسنت والجماعت کے) مخالف فرقوں کا حال ہے ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ ، اشاعرہ اور صوفیہ وغیرہ ، ان سب نے اپنے سے پچھلے گمراہ سربراہوں کی پیروی کی ، تو وہ گمراہ ہوئے اور صحیح عقیدہ سے منحرف ہوگئے ۔
4-اولیاء اور نیک لوگوں کے بارے میں غلو کرنا: اولیاء اور نیک لوگوں کے بارے میں غلو کرنا ، اور ان کو ان کی حیثیت سے زیادہ اونچا مقام دینا،اس طرح کہ ان کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھنا جس پر صرف اللہ تعالی ہی قادر ہے جیسےنفع پہنچانا یا مصیبت دورکرنا ، اسی طرح ان اولیاء کو اللہ تعالی اور اس کی مخلوق کے درمیان حاجتیں پوری کروانے اور دعاء قبول کروانے کے لئے وسیلہ بنانا ، یہاں تک کے معاملہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر ان اولیاء کی عبادت تک جا پہنچا ، جیسے ان کے مزارات پر منتیں ماننا اور قربانیاں دینا ، ان سے دعاء وفریاد کرنا اور مدد طلب کرنا ۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے نیک لوگوں کے بارے میں ایسا ہی کیا تھا جب انہوں نے کہا :
﴿لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (نوح: 23)
(اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا ))
اور ایسا ہی حال ہے آج بہت سے ممالک میں قبر پرستوں کا ہے۔
5- اللہ تعالی کی کونی (کائناتی) اور قرآنی آیات میں غور و تدبر سے غافل رہنا: اللہ تعالی کی کونی (کائناتی) اور قرآنی آیات میں غور و تدبر سے غافل رہنا، اور مادی تہذیب و تمدن سے شدید متاثر ہونا ، یہاں تک کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ سب کچھ صرف انسانی قدرت کا نتیجہ ہے، لہذا انسانوں کی تعظیم ہونے لگی ، اور تمام وسائل کو انسان کی محنت اور اس کی ایجادات کی طرف منسوب کیا جانے لگا ، جیسا کہ قارون نے ان سے پہلے کہا تھا :
﴿ قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي ﴾ (القصص: 78)
( کہا یہ سب کچھ جومیرے پاس علم ولیاقت ہے اسی کے بل بوتے پر دیاگیا ہوں)
اور جیسا کہ انسان کہتا ہے :
﴿ هَذَا لِي ﴾ (الفصلت: 50)
( یہ میرا ہے یا یہ میری ہی کمائی ہے)
﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ﴾ (الزمر: 49)
﴿یہ میرے اپنے علم کی بنا ء پر ہی دیا گیا ہے ﴾
اور انہوں نے اس کی عظمت پر غور و فکر ہی نہیں کیا جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ، اور اس میں یہ شاندار اور عمدہ خاصیتیں رکھیں ، انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں یہ طاقت دی کہ وہ ان خاصیتوں کو دریافت کرسکیں اور ان سے استفادہ حاصل کرسکیں :
﴿وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾ (الصافات: 96)
﴿حالانکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے یا اللہ تعالی ہی تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق ہے﴾
﴿أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ﴾ (الاعراف: 185)
﴿اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کی ہیں ﴾
﴿ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ﴾ (ابراہیم: 32-34)
﴿ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور آسمانوں سے بارش برساکر اس کے ذریعے سے تمہاری روزی کے لیے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا ہے کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں ، اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی ہیں * اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے * اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے ، اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے ، یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے ﴾
6-اکثر گھرانے (اپنی نسلوں کی) صحیح رہنمائی سے دور ہوچکے ہیں: اکثر گھرانے (اپنی نسلوں کی) صحیح رہنمائی سے دور ہوچکے ہیں، جیسا کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا ہے : ‘‘كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه’’ ( ) ( ہر بچہ فطرت ) اسلام ( پر پیدا ہوتا ہے ، لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں ) [ اس حدیث کی روایت امام بخاری اور مسلم نے کی ہے ]
ثابت ہوا کہ والدین کا انتہائی اہم کردار ہے بچے کے لئے صحیح سمت کا تعین اور صحیح رہنمائی کرنے میں ۔
7-مسلم دنیا میں عموماً میڈیا اور تعلیمی مراکز کا اپنا کردار صحیح طور سے نا انجام دینا: مسلم دنیا میں عموماً میڈیا اور تعلیمی مراکز کا اپنا کردار صحیح طور سے نا انجام دینا، تعلیمی نصاب میں دین کی طرف کوئی خاص توجہ محسوس نہیں ہوتی ، یا پھر بالکل ہی توجہ نہیں ہوتی ۔ سمعی، بصری اور تحریری میڈیا ، الغرض ہر قسم کا میڈیا محض بربادی اور ہلاکت اور انحراف کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے ، جہاں محض مادی اور تفریحی چیزوں کا اہتمام ہوتا ہے ، مگروہ چیزیں جو اخلاق کو درست کریں اور صحیح عقیدہ کو راسخ کریں اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا ، یہاں تک کہ ایسی نسل آئی جس میں کفر اور الحاد کی فوج کا مقابلہ کرنے کی بالکل صلاحیت نہ رہی ۔
صحیح عقیدہ میں انحراف سے بچنے کے طریقے:
اس انحراف سے بچنے کے طریقے درج ذیل ہیں :
1- اللہ تعالی کی کتاب اور رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے: اللہ تعالی کی کتاب اور رسول اللہ (ﷺ) کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ صحیح عقیدہ حاصل کیا جاسکے ، جیسا کہ سلف صالحین اپنا عقیدہ انہی دو مآخذ سےاخذ کیا کرتے تھے، اور ‘‘لن يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها’’ (اس امت کے پچھلے لوگوں کی اصلاح نہیں ہوگی مگر اسی سے جس سے اس امت کے اگلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی) ، اس کے ساتھ ساتھ منحرف فرقوں کے عقائد کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے شبہات کا رد کیا جاسکے اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا جاسکے ، اس لیے کہ جو برائی کو جانتا ہی نہیں قریب ہے کہ وہ اس برائی میں واقع ہوجائے ۔
2- مختلف تعلیمی مرحلوں میں صحیح اسلامی عقیدہ یعنی سلف صالحین کے عقیدے کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے ،اور نصاب (سلیبس) میں اس کی مناسب کلاسس اورپیریڈز رکھے جائیں ، اور امتحانات کے دوران اس مضمون کا پرچہ انتہائی باریک بینی کے ساتھ بنایا جائے ۔
3- نصاب میں خالص سلفی منہج کی کتابیں مقرر کی جائیں ، اور منحرف فرقوں کی کتابوں سے اجتناب کیا جائے ، مثلاً صوفیہ ، جہمیہ ، معتزلہ ، اشاعرہ ، ماتریدیہ اور دیگر تمام اہل بدعت ، ہاں مگر صرف اس غرض سے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ اس میں جو باطل ہے اس کا رد کیا جاسکے اور اس سے خبردار کیا جاسکے ۔
4- ایسے مصلحین داعیان کو کھڑا کیا جائے جو لوگوں میں سلف صالحین کے عقیدےکی تجدید کریں اور منحرف فرقوں کی گمراہی کا رد کریں ۔[/JUSTIFY]
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
السلام علیکم ۔کمال شیئرنگ ہے اللہ تعالی جزائے خیر دے
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔جزاک اللہ خیراٹائپسٹ بھائی
 

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
Top