اللہ تعالی کو ازل ہی سے جنت میں داخل ہونے والے اور جہنم میں جانے والے تمام حضرات کی تعداد کا علم ہے ، اس میں نہ تو کمی ہوگی نہ زیادتی ہوگی۔ یہی حال بندوں کے افعال کا ہے ، جس کے بارے میں اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ وہ یہ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ ہر ایک کے لیے وہ کام جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا آسان کر دیا گیا۔ اور ہر عمل کا (مقبول و غیر مقبول ہونے) اعتبار اس کے خاتمہ سے ہوگا۔
نیک بخت وہ ہے جس کے نیک بخت ہونے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ، اور بدبخت بھی وہ جس کے بدبخت ہونے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا۔
مخلوق کے بارے میں نوشتۂ تقدیر در اصل الہ تعالی کا ایک بھید ہے ، جس سے نہ تو کوئی مقرب فرشتہ واقف ہے نہ کوئی رسول۔ اس بارے میں فکر و گہرائی میں جانے کی کوشش درماندگی اور اصول اسلام سے برگشتگی کا سبب ہے۔ لہذا اس بارے میں فکر و نظر اور خیال و وہم سے بھی دور رہیے ، اللہ رب العزت نے علم تقدیر کو اپنی مخلوق سے پوشیدہ رکھا ہے اور مخلوق کو اس کے در پے ہونے سے منع فرمایا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : اللہ جو کرے اس بارے میں سوال نہیں کیا جاتا اور ہاں ! لوگوں سے باز پرس ہوگی۔ پس جو دریافت کرے کہ یہ اللہ نے کیوں کیا ؟ اس نے اس حکم قرآنی کو نہ مانا ، اور جو حکم قرآنی کو نہ مانے وہ کافر ہے۔
یہ کچھ ضروری باتیں تھیں ، اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کے لیے جن کے قلوب روشن ہیں ، یہ لوگ راسخین فی العلم کے مرتبہ پر فائز ہیں ، کیوں کہ علم کی دو قسمیں ہیں ، ایک وہ علم جو مخلوق کو دیا گیا ، اور دوسرا وہ جو مخلوق میں مفقود ہے (یعنی نیں دیا گیا)۔ پس موجود علم کا انکار کفر ہے اور مفقود علم میں رسائی کا دعوی بھی کفر ہے۔ اور ایمان تب ہی سلامت رہ سکتا ہے جب موجود کو مانا جائے اور مفقود کی طلب کو ترک کر دیں۔