• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ کی تعریف اور اسلامی عقیدہ کا معنیٰ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
عقیدہ کی تعریف اور اسلامی عقیدہ کا معنیٰ

بسم الله الرحمن الرحیم

لغوی معنیٰ: لفظ ’’عقیدہ‘‘ …اَلْعَقْد سے مشتق ہے۔ جس کا معنیٰ:باندھنا ، گرہ لگانا ، مضبوط و مستحکم کرنا ، کام کو ٹھیک طور پر انجام دینا ، کسی معاملہ میں اعتماد و یقین کے ساتھ وثوق و پختگی حاصل کرنا ، قوت و طاقت سے تھام لینا ، حسّی اور معنوی طور پر کسی چیز کے اجزاء کا باہم ارتباط ، (التماسک) سیسہ پلائی دیوار کی طرح ایک دوسرے سے مضبوط جڑا ہوا ہونا۔ پایۂ ثبوت کو پہنچانا اور یقین و عزم صمیم (جزم و حزم) ہوتا ہے۔

العَقْد …باندھنا، کھولنے کا مخالف ہوتا ہے۔ یہ کلمہ مذکور بالا معانی میں باب ضَرَبَ یَضْرِبُ کے وزن پر …عَقَد یَعْقِدُ عَقْدًا… آتا ہے۔ (ثلاثی مجرد میں یہ باب سَمِعَ یَسْمَعُ کے وزن پر …عَقِدَ یَعْقَدُ عَقْدًا… بھی آتا ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے:اُلجھا ہوا ہونا۔ لکنت والا ہونا وغیرہ) اسی (باب ضَرَبَ) سے اس کا استعمال یوں بھی آتا ہے۔ عُقْدَۃُ الْیَمِیْنِ ، عُقْدَۃُ النِّکَاحِ… جیسے کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں :

﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ﴾ (المائدہ:۸۹)
’’اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو لغو قسموں پر نہیں پکڑے گا۔ البتہ ان قسموں پر پکڑے گا جو قصدًا تم نے (گرہ باندھ کر ، مضبوط) کھائی ہوں۔‘‘


دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ﴾ (البقرۃ:۲۳۵)
’’اور نکاح کی گرہ باندھنے کا قصد مت کرو جب تک کہ عدت نہ گزر جائے۔‘‘


اور العقیدہ کا (اہل لغت کے نزدیک) معنی یوں بھی کیا جاتا ہے۔ الحُکمُ الّذِي لایُقبل الشک فِیہ لدی مُعتقِدہ … (کسی بھی ذات کی نسبت) وہ فیصلہ کہ جس کے متعلق اس فیصلہ و اعتقاد کے رکھنے والے کے ہاں اس بارے میں شک قبول نہ کیا جائے۔ ‘‘

اور دین میں عقیدہ کا مطلب ہوتا ہے عمل کے بغیر صرف دلی اعتقاد۔ جیسے اللہ رب العزت کی ذات کے وجود اقدس اور نبیوں کی بعثت (فرشتوں اور جنوں کا باقاعدہ الگ الگ ایک مخلوق ہونا وغیرہ وغیرہ) کے متعلق دل سے عقیدہ واعتقاد رکھنا۔ عقیدہ کی جمع ’’عقائد‘‘ آتی ہے۔
[تفصیل کے لیے: لسان العرب ، القاموس المحیط ، المعجم الوسیط اور القاموس الوحید دیکھ لیجیے۔]

خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ : ’’جس بات اور جس نظریہ پر انسان اپنے دل کے قصد و جزم کے ساتھ مضبوط گرہ باندھ لے اور اس پر وثوق وپختگی اختیار کر لے …وہ عقیدہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ حق ہو یا باطل۔‘‘ (یوں اس کی دو قسمیں ہوگئیں :عقیدہ ٔ حق اور باطل عقیدہ۔)

اصطلاحی معنی: اصطلاحًا عقیدہ کا معنی یہ ہے کہ : "وہ اُمور جن کے لیے واجب ہے کہ ان کی تصدیق دل کرے اور ان پر نفس مطمئن ہو حتی کہ ایسا یقینِ محکم حاصل ہو جائے جس میں شک و شبہ ملا ہوا، نہ ہو۔‘‘

یعنی عزم صمیم وجزم عمیق والا ایسا ایمان کہ عقیدہ رکھنے والے کے پاس شک و شبہ پھٹکنے بھی نہ پائے۔ اس کے لیے واجب ہے کہ یہ حالت حقیقت وواقعہ کے عین مطابق ہو۔ (فرضی اور صرف سنی سنائی نہ ہو۔) جو نہ ہی تو شک کو قبول کرے اور نہ ہی گمان کو۔ اور اگر اس ضمن میں علم یقینِ جازم (پختہ ارادے والے یقین) کے درجہ کو نہیں پہنچتا تو اس کا نام عقیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ مذکور بالا ساری تشریح کا نام ’’عقیدہ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ :انسان اس پر (عزم صمیم و یقین جازم کے ذریعے) اپنے دل کو گرہ دے لیتا ہے۔

اسلامی عقیدہ: اسلامی عقیدہ کا معنی ہے : ’’اللہ تبارک و تعالیٰ کی ربوبیت ، (کہ وہی اکیلا رب کبریاء تمام کی تمام مخلوقات کے ہر ہر جہان ، ہر جہان کے ایک ایک فرد اور ہر فرد کے ایک ایک جزء کا بلا شرکتِ غیر ، بغیر کسی سانجھی، شریک ، حصے دار ، معاون و مشیر کے تنہا پیدا کرنے والا ، اکیلا ہی ایک ایک چیز کے ہر ہر حصے کا مالک ، سب کائنات کے تمام جہانوں کا اکیلا ہی مدبر الامور ، نگران و نگہبان ، رازق و مشکل کشا اور معبودِ برحق ہے۔) اُس کی اولوہیت (کہ تمام مخلوقات کی سب قلبی ، لسانی ، جسمانی اور مالی عبادات کا صرف ایک اللہ عزوجل ہی حق دار ہے۔ اس کی ذات اقدس کے علاوہ کسی اور کی ، کسی بھی طرح سے عبادت کو جائز اور لائق ہرگز نہ سمجھنا اُلوہیت ہے۔) اور اس کے اسماء حسنی وصفات عالیہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی نازل کردہ کتابوں ، اس کے تمام سچے رسولوں ، تقدیر کے اچھا اور برا ہونے ، غیب سے متعلقہ تمام اُمور کہ جو قرآن و سنت میں مذکور ہیں ، دین حنیف کے اصول وقواعد اور جس جس مسئلہ پر سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعینِ عظام رحمہم اللہ جمیعًا کا اجماع ہے۔ ان تمام اُمور میں اللہ عزوجل ، رب العالمین پر یقین محکم کے ساتھ ایمان جازم رکھنا اسلامی عقیدہ ہے۔

اسی طرح پورے کے پورے دین حنیف میں داخل ہوجانے، فیصلہ و عدالت اور قانون کے نفاذ والے حق میں صرف ایک اللہ عزوجل کے لیے مکمل طور پر اپنے آپ کو پیش کر دینے ، اطاعت میں مکمل رب کائنات کے حق کو تسلیم کرلینے اور اتباع کے لیے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ھادی و رہنما اور قائد اعظم و امامِ اوّل مان لینے کا نام ’’اسلامی عقیدۂِ توحید و رسالت‘‘ ہے۔
(عقیدہ میں یہ اصل پہلی اصل کا جزو لاینفک اور مکمل حصہ ہے۔ اس کے بغیر اسلامی عقیدہ نا تمام اور ادھورا ہے۔)

جب مذکور بالا عبارت کے مطابق اسلامی عقیدہ پر کسی قسم کی اپنی کوئی وضع کردہ قید نہ لگائی جائے اور اسے یونہی مطلق رکھا جائے تو جانیے کہ یہی اہل السنہ والجماعۃ ، اہل الحدیث والقرآن کا عقیدہ ہے۔ اس لیے کہ یہی وہ اسلام ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے بطور ِ شریعت اور دین و دستور العمل کے طور پر پسند فرما رکھا ہے۔ انتہائی فضیلت والے پہلے قرون ثلاثہ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین و تبع تابعین عظام رحمہم اللہ جمیعًا کا عقیدہ بھی یہی تھا۔

اہل السنۃ والجماعۃ ، اہل الحدیث والقرآن کے نزدیک اس عقیدۂ اسلامی کے لیے ہم معنی و مترادف الفاظ کچھ اور بھی ہیں جو اس کے مفہوم پر پوری پوری دلالت کرتے ہیں۔ جیسے کہ ’’التوحید ، السنہ، اُصول الدین ، الفقہ الاکبر، الشریعۃ اور الایمان۔‘‘ علمِ عقیدہ پر اہل السنہ والحدیث کے یہ سب سے زیادہ مشہور ’’اطلاقات‘‘ ہیں۔ جو اسلامی عقیدہ پر منطبق ہوتے ہیں۔

تحریر : شیخ عبدللہ بن عبد الحمید الاثری
مترجم : ابو یحیٰ محمد زکریا زاہد
 
Top