• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ کے باب میں مصطلح توحید

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
عقیدہ کے باب میں مصطلح توحید

✍ ع،ب، أسلم

عقيدہ کے باب میں مصطلح توحید
أولا
: توحيد کا لغوی معنی
" توحید " یہ : - وحد يوحد توحيدا - كا مصدر ہے، - إذا أفرده وجعله واحدا- یعنی اس نے اسے ایک مان لیا.
اور یہ مقصد صرف نفی و إثبات ہی سے پورا ہو سکتا ہے، جسے ایک مانا جائے اس کے علاوہ دوسروں سے حکم ( خاص) کی نفی جائے، اور ( صرف) اسی کے لئے حکم کو ثابت کیا جائے.
مثلا ہم توحید الوہیت کے بارے میں کہتے ہیں :" انسان کے لئے توحید (کا مفہوم) اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، لہذا وہ اللہ کے علاوہ دوسرے ( تمام) معبودان باطلہ کے حق میں " الوہیت" کی نفی کرتا ہے ، اور صرف اللہ ہی کے لئے ثابت کرتا ہے ( لسان العرب لابن منظور : 3/448).
ابن فارس کہتے ہیں :" وحد : الواو والحاء والدال : أصل واحد يدل على الانفراد، من ذلك : الوحدة: وهو واحد قبيلته، إذا لم يكن فيهم مثله" وحد : واو، حاء، اور دال: ایک ایسی اصل ہے جو انفرادیت پر دلالت کرتی ہے، اسی سے ( کہا جاتا) ہے " الوحدة" یعنی وہ قبیلہ کا اکیلا ہے، جب ان میں اس جیسا کوئی نہ ہو( معجم مقاييس اللغة لابن فارس:6/ 190 - 192) .
ثانيا: توحيد كا اصطلاحی معنی
اصطلاح میں " توحید " کہا جاتا ہے : جن امور میں اللہ متفرد ہے، اور جن چیزوں کے ساتھ ایک ماننے کا حکم دیا یے ان تمام امور ( الہیہ) میں اللہ کو ایک مان لینا.
لہذا ہم اللہ کو اس کی ملکیت میں، اس کے کاموں میں اکیلا مانتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی رب نہیں، اور نہ ہی اس کا شریک ہے، اور ہم اللہ کو اس کی الوہیت میں یکتا مانتے ہیں ، لہذا صرف وہی عبادت لائق ومستحق ہے ، اور ہم اسے اس کے نام و صفات میں منفرد مانتے ہیں ، لہذا اس کے کمال میں اس کا نہ تو کوئی مثیل ہے اورنہ ہی کوئی نظیر ہے ( الدين الخالص لصديق حسن خان:1/56).
ثالثا: توحید اور عقیدہ کے درمیان مطابقت
باعتبار مصطلح " عقیدہ " اور " توحید " کے درمیان غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ " عقیدہ" صرف اللہ کی وحدانیت پر مقصور نہیں ہے، بلکہ " توحید" کے علاوہ بہت سارے مسائل عقدیہ کو شامل ہے، لہذا مصطلح " عقیدہ " کے مفہوم میں رسل - علیہم السلام - اور ان کی رسالت، فرشتے اور ان کے اعمال، کتب سماویہ، مسائل قضا و قدر، مسائل امامت (خلافت) و صحابہ - رضی اللہ عنہم، بلکہ فرق ضالہ سے متعلق مسلمانوں کا موقف جیسے مباحث عقدیہ داخل ہوتے ہیں.
علم عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ وہ بہت سارے مباحث عقدیہ کو متضمن ہے، اور اس کی جزئیات میں سے " توحید " سب سے اہم جزو ہے، اسی لئے علماء مسلمین نے علم عقیدہ کا نام ہی " توحید " رکھ دیا ہے.
اور غور کر نے سے یہ بات بھی آشکارا ہو جاتی ہے کہ " توحید " اور " عقیدہ" کے درمیان ایک جزوی مطابقت ہے.
اسی سے سوال اٹھتا ہے کہ اگر " توحید " اور " عقیدہ" کے درمیان صرف ایک جزوی مطابقت ہے، " تو پھر کیوں علم عقیدہ کا نام توحید رکھا گیا ؟" اور " کیوں قرون ماضیہ کے علماء نے اپنی کتب عقیدہ کا نام - توحید - رکھا ؟
الجواب: عقیدہ کا نام توحید رکھنا در اصل " تسمية الشيء بأشرف أجزائه " كے باب میں سے ہے ، یعنی کسی چیز کا نام اس کے سب سے بہترین جزو کے ساتھ رکھ دیا جائے، اور چونکہ اللہ کی وحدانیت ہی علم عقیدہ کا سب سے بہترین مبحث ہے ( اس لئے علم عقیدہ کا نام توحید رکھا گیا ہے)، رہی بات دوسرے مباحث عقدیہ کی جیسے فرشتے، کتب سماویہ، یوم آخرت، قضا و قدر پر ایمان لانا، مباحث امامت ( خلافت ) و صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم - وغیرھا مسائل تو یہ سب اسی " توحید " کی طرف لوٹتے ہیں، کیونکہ وہی ان کی اساس وجوہر ہے، لہذا اس طرح کے عقدی مسائل مصطلح توحید کے اندر استلزاما داخل ہوجاتے ہیں.
رابعا: توحید اور عقیدہ کے درمیان فرق
توحید اور عقیدہ کے معانی کے درمیان کیا فرق ہے ؟
الجواب: عقیدہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اعم ہے ، کیونکہ یہ توحید اور دوسرے مباحث عقدیہ کو بھی شامل ہے، لہذا اس کے مفہوم میں ایمان کے چھ ارکان، دوسرے دیانات ، فرق، اور عصری انقلابات پر علمائے کرام کے ردود جیسے مسائل بھی داخل ہو جاتے ہیں.
اس کے بر عکس توحید ہے، جو صرف اللہ کی وحدانیت پر ہی مقصور ہے، اور یہ "عقیدہ" کا سب عمدہ جزو ہے.
ملاحظہ کرنے سے یہ بات بھی عیاں ہو جاتی کہ کتب سماویہ، رسل - علیہم السلام - یوم آخرت، قضا و قدر کے مباحث إیمانیہ عقيدہ کے مفہوم میں مطابقا داخل ہوتے ہیں ، جبکہ توحید کے مفہوم میں استلزاما داخل ہوتے ہیں، لہذا آپ اللہ عزوجل إيمان پر رکھتے ہیں تو لازمی طور پر آپ کو اللہ کے فرشتوں ، اس کی کتابوں، اس کے رسل، اور ان تمام امور غیبیات پر إيمان رکھنا ہے جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس تقدیر پر بھی إيمان رکھنا ضروری ہے جسے اللہ اپنی مشیئت و ارادے کے مطابق اپنے بندوں پر نافذ کرتا ہے.
خامسا: توحید کے نام پر علم "عقيده" کی چند مؤلفات
1 - امام محمد بن إسماعيل بخاري (ت 256 ھ) - رحمہ اللہ - نے اپنی کتاب " الجامع الصحیح " کے اندر اس مصطلح کا استعمال کیا ہے، انہوں جس کتاب کے اندر احادیث "عقیدہ " کی تخریج کی ہے اس کا نام " کتاب التوحید " رکھا ہے.
2- أبوالعباس أحمد بن عمر بن سريج البغدادي ( ت 306 ھ ) - رحمہ اللہ - نے جب عقیدہ پر تصنیف کی تو اس کتاب کا نام " کتاب التوحید " رکھا.
3- أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري (ت 311ھ) - رحمہ اللہ - نے جب عقیدہ پر تالیف کی تو اس کا نام " كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عزوجل" رکھا.
4- أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن مندة ( ت 395ھ) - رحمہ اللہ - نے " کتاب التوحید ومعرفة أسماء الله عزوجل وصفاته على الاتفاق والتفرد " نامی کتاب " عقیدہ" پر تالیف کی.
پھر اس کے بعد " توحید " کے نام سے بہت ساری کتابیں لکھی گئیں.
 
Top