• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ کا جانور اوراسکی عمر

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
عقیقہ کا جانور اوراسکی عمر
مقبول احمد سلفی

عقیقہ عق سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی پھاڑنے کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں اس جانور کو کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش پر ساتویں دن اس نعمت کے اظہار کے طور پرذبح کیا جائے ۔عقیقہ کابہتر نام نسیکہ یا ذبیحہ ہے ۔ یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ عقیقہ کرنا دلائل کی روشنی میں سنت مؤکدہ ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ( صحيح أبي داود:2842)
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
عقیقہ چھوٹے جانور یعنی بکرا /بکری اور بھیڑ ودنبہ سے دینا چاہئے ، بڑے جانور میں عقیقہ دینے سے اجتناب کرنا چاہئے الا یہ کہ مجبوری ہو ۔حدیث میں عقیقہ کے لئے شاۃ کا لفظ آیا ہے جو بھیڑ اوربکری دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے ۔
ابن حزم نے لکھا ہے : واسم الشاة يقع على الضائنة والماعز بلا خلاف (المحلي 6/234)
ترجمہ: اور شاۃ کا لفظ بھیڑ اور بکری دونوں پربلااختلاف اطلاق ہوتا ہے۔
بعض اہل اعلم بڑے جانور میں بھی عقیقہ کے قائل ہیں ۔بہرحال امر واسع ہے جسے میں اس طرح بیان کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے چھوٹے جانور میں عقیقہ کرنے کی کوشش کرے ،اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو مجبوری میں بڑے جانور میں عقیقہ دے سکتے ہیں مگر واضح رہے عقیقہ میں مکمل جانور ذبح کرناہے کیونکہ خون بہانے کا حکم ہےاور اس میں اشتراک جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:معَ الغُلامِ عقيقةٌ فأَهريقوا عنهُ دَمًا وأميطوا عنهُ الأذَى(صحيح الترمذي:1515)
ترجمہ: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے، لہذا جانور ذبح کرکےاس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے گندگی دورکرو۔
اکثر مسلمانوں کے یہاں عید قرباں کے موقع پر ایک بڑے جانور میں قربانی کے ساتھ بچے کا عقیقہ بھی حصہ لیا جاتا ہے جو کہ سنت کی صریح مخالفت ہے ۔ اگر طاقت ہے تو بچہ کی طرف سے مستقل جانور کا عقیقہ دیں ایسا کرنے سے سنت پوری ہوگی اور طاقت نہیں ہو تو نہ دیں اس پر اللہ تعالی مواخذہ نہیں کرے گا۔
عقیقہ کے جانور کی عمر کے سلسلے میں بصراحت کچھ منقول نہیں ہے اس لئے بعض علماء نے کہا کہ کسی بھی عمر کا جانور عقیقہ کیا جاسکتا ہے خواہ تین ماہ ہو، پانچ چھ ماہ ہومگر یہ قول قوی نہیں معلو م ہوتا ہے کیونکہ عموما لوگ ایسے جانور کو ذبح کرتے ہیں جو کم ازکم ذبح کرنے اور کھانے کے لائق ہو ،ایسے میں ایک سالہ بکری ہی مناسب معلوم ہوتی ہےاور مذکورہ بالا ابوداؤد کی حدیث میں نسک کا لفظ آیا ہے جو ہدی (حج کا جانور) کے لئے استعمال ہوتا ہے ،گویا عقیقہ بھی ہدی کے قائم مقام ہےاور اس بابت امام مالک ؒ کا قول بھی جو آگے آرہا ہےاس لئے اس میں بھی ہدی کی شرائط بجا لانی چاہئے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں دلیل ہے کہ عقیقہ میں وہی کفایت کرے گا جو نسک میں کفایت کرتا ہے خواہ اضحیہ(عیدکی قربانی) ہویا ھدی(حج کی قربانی)۔آگے لکھتے ہیں کہ اس میں اس عمر کا اعتبار کیا گیا ہےجو قربانی اور عقیقہ میں کفایت کرتا ہےاور کامل وصف مشروع کیا گیا ہے ۔اس لئے بچہ کے حق میں دوبکری مشروع کی گئی جو دونوں برابر ہوں ،ان میں سے کسی میں نقص نہ ہوتو یہاں سال کا اعتبار کیا گیا ہے جو ذبح کے لئےمامور بہ سال ہے۔ (تحفۃ المودودص 63)
اس سلسلے میں جمہور کا یہی موقف ہے کہ عقیقہ میں قربانی کی شرائط ملحوظ رکھے جائیں گوکہ بعض مسائل میں عقیقہ وقربانی مختلف بھی ہیں مثلا قربانی میں اشتراک جائز ہے جبکہ عقیقہ میں نہیں ہے۔

نیچے اہل علم کے کچھ اقوال ذکر کئے جاتے ہیں جو عقیقہ کوقربانی کے حکم میں مانتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور میں بکری کے لئے ایک سال کی عمر چاہئے ۔
(1)ابن قدامہ لکھتے ہیں :ويجتنب فيها من العيب ما يجتنب في الأضحية ، وجملته : أن حكم العقيقة حكم الأضحية ، في سنها , وأنه يمنع فيها من العيب ما يمنع فيها (المغني : 7/366) .
ترجمہ: اور عقیقہ میں اس عیب سے اجتناب کیا جائے گا جس سے قربانی میں اجتناب کرتے ہیں اور منجملہ عقیقہ کا حکم عمر میں قربانی کا ہی حکم ہے اور اس میں ایسے عیب سے بھی منع کیا جائے گا جو قربانی میں ممنوع ہے۔
(2)امام مالک نے کہا : وإنما هي – أي العقيقة - بمنزلة النسك والضحايا.(الموطا 2/400)
ترجمہ: اور عقیقہ ہدی اور قربانی کے درجہ میں ہے ۔
(3)اور امام نووی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ (المغنی 9/436)
(4) امام ترمذی نے علماء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : لایجزی فی العقیقۃ من الشاۃ ما یجزی فی الاصحیۃ (جامع الترمذی 4/86)
ترجمہ:بکری کے عقیقہ میں وہی کفایت کرے گا جو قربانی میں کفایت کرتا ہے۔
(5) ابن الحاج مالکی کہتے ہیں:و حكمها حكم الأضحية في السن و السلامة من العيوب (المدخل 3/277)
ترجمہ: اور عقیقہ کا حکم عمر کے سلسلے میں اور عیوب سے پاک ہونےکے سلسلے میں قربانی کے حکم کی طرح ہے۔
(6) ابن حبيب المالكي کہتے ہیں : سنها و اجتناب عيوبها و منع بيع شئ منها مثل الأضحية الحكم واحد (التاج و الأكليل 4/390)
ترجمہ: عقیقہ کی عمر اور اس کا عیوب سے پاک ہونا اور اس میں سے کچھ بیچنا قربانی کی طرح ہے ،حکم ایک ہی ہے۔
(7) عرب کے علماء مثلا شیخ ابن عثیمین، شیخ محمد صالح منجد، عبد الرحمن بن ناصر البراك، شیخ صالح فوزان، شیخ بکرابوزید،شیخ عبداللہ بن غدیان اورشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہاء کا قول ہے کہ عقیقہ میں ان عیوب سے بچا جائے گا جن سے قربانی میں بچا جاتا ہے ۔ (الاستذكار 15/384)
مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر یہ کہا جائے گا کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کے بارے میں نص صریح موجود نہیں ہے تاہم عقیقہ سے متعلق نصوص اورمذکورہ بالااقوالِ اہل علم کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ میں جانور کی شرائط کو لازم قرار نہیں دیا جائے گا مگر احتیاط کے طور پر قربانی کی شرائط کو عقیقہ میں ملحوظ رکھا جائے گاکیونکہ حدیث میں وارد لفظ شاۃ کا اطلاق بچہ دینے والی بکری پر ہوتا ہے ،نسک سے حج کی قربانی کا حکم نکلتا ہے، کبش کا لفظ بھی وراد ہےا س سے جوان میڈھا مراد ہوتا ہے اور شاتان مکافئتان سے بے عیب اور معتبر عمر کی طرف اشارہ ہے ۔ ہاں قربانی کی طرح عقیقہ میں شرائط ملحوظ رکھنا مشکل ہو تو سال سے کم بکری یا بلاضرر عیب والاجانور عقیقہ کر سکتے ہیں ۔

یہاں یہ بات بتلانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ میں بہت وسعت ہے اس لئے وسعت میں زیادہ سختی کرنا ٹھیک نہیں ہے ، مندرجہ ذیل سطور میں وسعت سے متعلق چند مسائل بیان کئے جاتے ہیں ۔
(1)اگر چھوٹا جانور نہ ملے یا اس سے عاجزہوتوبڑے جانورمیں بھی عقیقہ کرسکتے ہیں البتہ قربانی کی طرح مشارکت جائزنہیں ہے۔
(2)قربانی کی طرح شرائط پورے نہ کرسکتے ہوں تو جس عمر کا جانور عقیقہ کرنا میسر ہو کر سکتے ہیں۔
(3)اگر ساتویں دن میسر نہ ہو تو بعد میں بھی عقیقہ دے سکتے ہیں حتی کے بڑی عمر میں بھی ۔
(4)بغیر عقیقہ کے کوئی بچہ وفات پا گیا یا کسی ایسے شخص کا انتقال ہوگیا جس کا عقیقہ نہیں ہواتھا تواس کی طرف سے وفا ت کے بعد بھی عقیقہ دے سکتے ہیں،فوت شدہ بچہ کی طرف سے عقیقہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ساتویں دن کے بعد انتقال کیا ہو۔
(5)لڑکا کی طرف سےدوجانور عقیقہ کرنا ہے مگر بروقت صرف ایک جانور عقیقہ کرنے کی طاقت ہو تو ایک بھی دے سکتے ہیں اور ایک دوسرا بعد میں طاقت ہونے پر عقیقہ کرے۔
(6)اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے تو خود اپنا عقیقہ بھی کرسکتے ہیں۔
(7)اگر کوئی ایسے عیوب سے پاک جانور کا عقیقہ کرنے سے عاجز ہو جن کا قربانی میں اعتبار کیا جاتا ہے تو پھر عیب دار کا عقیقہ بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ ایسا عیب نہ ہو جو ضرر پہنچانے والا ہو۔
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔

عقیقہ خود اپنا کر سکتے ہیں اسکی دلیل مل سکتے ہیں الشیخ محترم ۔

برائے مہربانی
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔

عقیقہ خود اپنا کر سکتے ہیں اسکی دلیل مل سکتے ہیں الشیخ محترم ۔

برائے مہربانی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابن القیمؒ نے تحفۃ المودود فی احکام المولود میں اپنی جانب سے عقیقہ کرنے کو مستحب کہا ہے۔ یہی رائے شیخ ابن بازؒ کی بھی ہے۔اور نبی ﷺ کا خود سے عقیقہ کرنا بھی ثابت ہے ۔
لنک پہ کلک کرکے میرا مضمون پڑھیں ۔
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
469
پوائنٹ
209
عقیقہ میں بھی کیا گوشت حصوں میں تقسیم ہوگی
عقیقہ کے گوشت کی تقسیم کے سلسلے میں کوئی خاص کیفیت کا ذکر نہیں ہے ،قربانی کی طرح بھی تقسیم کرسکتے ہیں یا اس سے ہٹ کر اپنی مرضی سے جیسے چاہیں ویسے بھی کرسکتے ہیں ۔ تقسیم میں اپنی مرضی کا دخل ہے۔
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
۔

نومولود اور عقیقہ کے احکام
احادیث صحیحہ کی روشنی میں
( یہ کتاب اپنے عنوان سے متعلق اردو و عربی کی بہت ساری دیگر تحقیقی و علمی کتب میں سب سے زیادہ صحیح و اصولی تحقیق پیش کرنے والی عمدہ کتاب ہے مختصر و جامع ہے ، سمندر کو کوزے میں بھر دینے کے مصداق ہے ، جن موضوعات میں ڈھیر سارا اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے ایک عقیقہ بھی ہے جس کو پڑھ کر قاری کا دماغ چکرا جاتا ہے اور صحیح مؤقف کو سمجھنے اور اختیار کرنے میں کافی دشواری محسوس کرنے لگتا ہے لیکن یہ کتاب اس شدید دشواری کو ختم کر جہاں یہ علمی و تحقیقی ہے وہیں دوسری کتابوں کے بنسبت بآسانی صحیح رہنمائی کرتی ہے۔ اس کتاب میں بس دو چار ہی ایسے مسائل ہیں جن سے دیگر محققین کی تحقیق کے مطابق اختلاف کیا جا سکتا ہے یا محل نظر قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ہر قاری کو چاہئے کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے ۔ طالب علم - عزیر ادونوی )

ابو طاہر بن عزیز الرحمن سلفی

صفحات 122

https://telegram.me/salafitehqiqikutub/4305

۔
 
Top