• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ کا مسئلہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم سوال یہ ہے کہ میرا بیٹا تقریباً ٥ماہ کا ہوگیا ہے اور میں نے ابھی تک عقیقہ نہیں کیا اور عقیقہ جلدی کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔میں کب تک عقیقہ کرسکتا ہوں یعنی اور کتنا لیٹ کرسکتاہوں۔۔۔۔؟؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
اگر تو استطاعت ہو تو ساتویں دن عقیقہ کرنا سنت ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو جب بھی استطاعت ہو تو عقیقہ کر لے۔ شیخ صالح المنجد فرماتے ہیں :
[COLOR=""]سوال : كيا بچے كے والدين كے ليے عقيقہ كا گوشت كھانا جائز ہے ؟
اور كيا عقيقہ والے دن ہى بچے كا نام ركھنا اور عقيقہ كا جانور ذبح كرنا ضرورى ہے ؟
[/COLOR]

الحمد للہ:

اول:

والدين كے ليے عقيقہ كا گوشت كھانا جائز ہے، كيونكہ عقيقہ كے متعلق عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول ہے:

" اسے پورے اعضاء كے ٹكڑے بنا كر كھايا اور كھلايا جائے "

اسے ابن ابى شيبہ نے مصنف ميں روايت كيا ہے.

قاموس ميں درج ہے:

" الجدل: ہر اس مكمل ہڈى كو كہتے ہيں جو نہ تو توڑى جائے اور نہ ہى كسى دوسرى كے ساتھ ملايا جائے "

ديكھيں: القاموس المحيط ( 975 ) طبع الرسالۃ.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جدولا: يعنى اعضاء ركھے جائيں، اور اس كى ہڈى نہ توڑى جائے، بلكہ جوڑوں سے اعضاء كو عليحدہ كيا جائے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 545 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 8388 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:

" جس كے ذمہ عقيقہ ہو تو وہ كچا گوشت بھى تقسيم كر سكتا ہے، يا پھر پكا كر فقراء و مساكين اور پڑوسيوں اور رشتہ داروں اور دوست و احباب ميں بھى تقسيم كر سكتا ہے، اور وہ خود بھى كھائے اور اپنے اہل و عيال كو بھى كھلائے.

اور اسے يہ بھى حق ہے كہ وہ فقراء و مساكين اور مالدار وغيرہ كو اپنے گھر دعوت دے كر عقيقہ كھلائے، اس معاملہ ميں وسعت پائى جاتى ہے "

دوم:

سنت يہ ہے كہ بچے كا ساتويں روز سر منڈايا جائے، اور اسى طرح اسى دن عقيقہ كا جانور بھى ذبح كيا جائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر بچہ عقيقہ كے بدلے ميں رہن اور گروى ركھا ہوا ہے، اس كى جانب سے عقيقہ كا جانور ساتويں روز ذبح كيا جائے، اور اس كا نام ركھا جائے، اور اس كا سر بھى ساتويں روز منڈايا جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1522 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3838 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1165 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر ساتويں روز كے علاوہ كسى اور دن عقيقہ ذبح كرے يا نام ركھے تو اسميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح وہ عقيقہ كسى اور دن اور سر كسى اور دن منڈاتا ہے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عقيقہ كے وقت بچے كا سر منڈانا علماء كرام اسے مستحب سمجھتے ہيں " اھـ

ديكھيں: تحفۃ المودود ابن قيم ( 67 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 7889 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
Top