• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ کے جانور کی ہڈی توڑنے کے تعلق سے حدیث کی وضاحت مطلوب ہے

عامر

رکن
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
151
ری ایکشن اسکور
827
پوائنٹ
86
السلام علیکم،

عقیقہ کے جانور کی ہڈی توڑنے کے تعلق سے حدیث کی وضاحت مطلوب ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وصلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی عقیقوں کے موقع پر فرمایا:
ان ابعثو الی القابلتہ منھا برجل وکلوا واطعموا ولا تکسروا منھا عظماً ۔ ابو داود

اسمیں سے ایک پیر دائی کو بھیج دو، کھاو اور کھلاو مگر اسکی ہڈی نہ توڑو۔

اگر گوشت تقسیم کرنا ہو تو بغیر ہڈیوں کو کاٹے یہ ممکن نہیں
اگر اس گوشت سے دعوت کرنی ہو تو بھی ممکن نہیں۔

مہر بانی فرماکر اس حدیث کا مطلب اور فہم کی مدلل وضاحت کریں۔

جزاک اللہ خیرا

عامر
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ان ابعثو الی القابلتہ منھا برجل وکلوا واطعموا ولا تکسروا منھا عظماً ۔ ابو داود
۱۔ یہ روایت مرسل ہونے کے سبب سے ضعیف ہے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”المراسیل“ میں نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لیے لنک دیکھیں۔
۲۔ اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے کہ عقیقہ کی گوشت کی ہڈی توڑی جائے یا نہیں۔ جمہور اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کی ہڈی نہیں توڑی جائے گی اور وہ اس مرسل روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ عقیقہ کے گوشت کی ہڈی اس کے جوڑ سے جدا کی جائے گی اور اس طرح جن لوگوں میں گوشت تقسیم کیا جائے گا انہیں جانور کے مکمل اعضاء ملیں گے۔ علاوہ ازیں وہ اس عمل سے یہ نیک فال بھی پکڑتے ہیں کہ اس جانور کے مکمل اعضاء بطور عقیقہ ہدیہ کرنے سے بچے کے اعضاء کے مکمل رہنے پر نیک فال نکلتی ہے۔
بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ عام گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کی بھی ہڈی توڑی جا سکتی ہے اور مرسل روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ یہ ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے اور شیخ صالح العثیمین اور شیخ صالح الفوزان رحمہما اللہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top