• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علاقہ "نجد" (ریاض) میں صحابہ کرام تھے ؟

سوالی

مبتدی
شمولیت
اپریل 24، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
79
پوائنٹ
0
فتنوں کی سرزمین نجد والی حدیث میں ہے کہ مدینہ کے مشرق نجد سے فنتے ہوتے ہیں اور شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے ، جس پر مسلکی تعصب رکھنے والے جہلاء سعودیہ عرب کے کے علاقہ ریاض و گرد ونواح کے علاقہ کو نجد قرار دینے پر مصر ہے جبکہ دیگر صحیح احادیث سے واضح ہے کہ مدینہ کے مشرق سے مراد عراق ہے ۔۔

سوال :
اس حدیث میں جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، شام اور یمن کے لیے برکت کی دعا فرما رہے تھے ، تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اور ہمارے نجد کے بارے میں ، جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے اور شیطان کے سینگ طلوع ہونے والی بات کہیں

تو جس نجد کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین دعا کرنے کے لیے کہہ رہے اگر مسلکی تعصبی کے مطابق وہ ریاض کا علاقہ ہے تو اس دور میں صحابہ کی جماعت ریاض کے علاقہ میں رہا کرتی تھی ؟
یا یہ وہ نجد نہیں جس کے بارے میں صحابہ کرام دعا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے کوئی اور علاقہ تھا

شکریہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شارحین حدیث کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ اس روایت میں نجد سے مراد مشرق ہے یعنی اہل مدینہ کا مشرق اور یہ عراق کا صحرائی علاقہ ہے۔ یہ امام خطابی رحمہ اللہ کا قول ہے۔ جبکہ دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ یہاں نجد سے مراد مشرق ہے اور اس زمانے میں مشرق میں کفار آباد تھے لہذا مقصود کسی خاص سمت کی مذمت نہیں ہے بلکہ اس سمت میں رہنے والوں کی مذمت تھی اور وہ بھی اس دور اور زمانے کے حوالہ سے۔
بظاہر دوسری رائے ہی بہتر معلوم ہوتی ہے کہ مشرق کی جہت کی مذمت مطلقا نہیں ہے بلکہ کفار کے سبب سے ہے یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارے زمانے میں مغرب کا علاقہ کفار کے لیے خاص ہو گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص فی زمانہ یہ کہے کہ مغرب فتنوں کی سر زمین ہے تو ایک اعتبار سے بات درست ہے لیکن اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جو بھی مغرب میں ہے وہ فتنہ ہے۔ یعنی یہ بحثیت مجموعی ایک بات ہو گی۔ وگرنہ تو مغرب میں بھی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ آج اگر ہم مغربی تہذیب پر نقد کرتے ہیں تو یہ کسی جہت مغرب پر نقد نہیں ہوتی ہے بلکہ مغرب میں فی زمانہ آباد کفار کی تہذیب پر نقد ہوتی ہے۔

ڈاکٹر عبد اللہ الفقیہہ لکھتے ہیں:
قال الحافظ في الفتح نقلا عن الخطابي: نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهي شرق أهل المدينة.
ونقل الحافظ عن غير الخطابي من أهل العلم قوله: كان أهل المشرق يومئذٍ أهل كفر، فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سبباً للفرفة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان، ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.
ومما يدل على صحة رجحان ما رجحناه: هو أن من اطلع على ألفاظ روايات هذا الحديث وغيره من الأحاديث في هذا الباب يكاد يجزم بأن المقصود هو جهة المشرق التي هي بادية العراق وما حولها بالنسبة لمن هو في المدينة، من ذلك ما في صحيح مسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال وهو مستقبل المشرق: "ألا إن الفتنة هاهنا، ألا أن الفتنة هاهنا، من حيث يطلع قرن الشيطان".
بل هنالك رواية لهذا الحديث المسؤول عنه أخرجها الطبراني في الكبير فيها التصريح بالعراق بدل نجد.
ومن ذلك أيضاً الحديث المتقدم الذي ذكرناه في فضل الشام واليمن، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أرشد إلى اللحوق بجند الشام أو جند اليمن، ولم يرشد إلى اللحوق بجند العراق، مما يوحي بأن تلك الجهة فيها ما ليس مرغوباً فيه شرعاً.
هذا بالإضافة إلى أن الواقع يشهد بأن تلك الجهة لم تزل على مر تاريخ الأمة مصدر فتن عظمى.
وعلى كل، فالخلاصة - والله تعالى أعلم - هي أن المراد بنجد: هو جهة العراق، وهذا لا يعني ذماً لتلك الجهة مطلقاً، ولا ذما لكل من سكنها، بل إن من كان من أهلها وصبر على ما يحصل فيها من ابتلاء، ونجاه الله تعالى من الفتن التي تحصل فيها، فهو من خير الناس، إن شاء الله تعالى.
وإن أعلام الأمة من مقرئين ومحدثين وفقهاء وزهاد وأئمة في كل فن وكل باب من البر من تلك البلاد لا يحصون كثرة، ولله الحمد.
والله أعلم.
 
Top