محمد عثمان رشید
رکن
- شمولیت
- ستمبر 06، 2017
- پیغامات
- 96
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 65
علامه ابن باز رحمه الله کی علامه بوصیری پر سخت جرح.!
.
علامه بوصیری سے کون صاحب واقف نهیں هے جناب ۶۰۸ ھجری میں پیدا هوئے ان کا نام محمد بن سعید بن حماد بن عبدالله هے مصر کے شهر ابوصیر کیطرف منسوب هونےکی وجه سے بوصیری کهلائے ۶۹۶ هجری میں فوت هوئے.
(فوات الوفیات ج ۲ ص ۳۴۱ ت ۴۵۶. الاعلام ج ۶ ص ۱۳۹.)
بوصیری حفاظ حدیث شمار هوتے هیں مگر علامه سخاوی انکے متعلق کهتے هیں:
"لا خبرۃ بالفن کما ینبغی"
که انهیں فن حدیث سے کما حفه لگاؤ نهیں تها.
(الضوء اللامع ج ۱ ص ۲۵۱.)
.
اور علامه ابن باز رحمه الله ۱۳۳۰ هجری کو سعودی عرب کے ریاض شهر میں پیدا هوئے
ان کا نام عبدالعزیز بن عبدالله بن باز تها.
موصوف ۱۳۴۶ هجری میں شدید بیماری کی وجه سے آنکهوں کے نور سے محروم هو گئے.
اور ۲۷ محرم ۱۴۲۰ هجری بروز جمعرات بوقت صبح اس جهان فانی کوچ کر گئے
اور ان کے علم سے کون صاحب متعارف نهیں موصوف نے فتح الباری کی تصحیح بهی کی هے بخاری کی ترقیم کی
جناب عالم السلام کے مفتی کهلائے.
.
شیخ ابن باز رحمه الله کے مجموع فتاوع جلد ۲۶ ص ۲۰۷ تا ۳۸۲ میں ایک مقاله موجود هے
"التحفه الکریمه فی بیان بعض الاحادیث الضعیفه والسقیمه"
اسکو اردو ترجمه تحقیق تعلیق کے ساتھ ڈاکڑ سراج الاسلام حنیف نے شائع کیا هے.
اسکے ص ۱۷۱, ۱۷۲ پر ایک روایت بیان کرتے هیں.
"من کا اسمه محمدا صلی الله علیه وسلم فان بیته یکون لهم کدا وکذا."
اس روایت پر جرح کرتے وقت علامه ابن باز نے بوصیری پر تبصره کیا هے. چونکه بوصیری کا نام بهی محمد تها, یه بتایا جاچکا هے که سخاوی کهتے هیں ان کو فن الحدیث کا حقه علم نهیں تها, تو ابن باز بوصیری کے قصیده برده میں سے چند اشعار نقل کر کے بوصیری پر سخت جرح کرتے هیں مکمل کلام پیش خدمت هے.:
.
"...بوصیری نے یه شعر کهه کر غلطی کی هے:
"فان لی ذمه منه بتسمیتی
محمداوهو اوفی الخلق بالذمم
ان لم یکن فی معادی اخذا بیدی
فضلا والا فقل یازله القدم"
(قصدیده برده ۳۳.)
میرے واسطے آپ صلی الله علیه وسلم کا عهد هے بسسب اسکے که میرا نام محمد هے اور مخلوق میں آپ صلی الله علیه وسلم سے بڑھ کر عهدوں کو پورا کرنے والا کوئی نهیں. اگر آپ صلی الله علیه السلام ازورئے فضل روز آخر میری دست گیری نه فرمائیں تو کهو: (شاید مجھ سے) کوئی بڑی غلطی هوئی."
.
اور اس سے بڑھ کر غلطی انهوں نے ان اشعار میں کر لی هے:
"یا اکرم الخلق ما لی من الوذ به
سواک عند حلول الحادث العمم
فان من جودک الدنیا و ضرتها
ومن علو مک علم اللوح والقلم."
(قصدیه برده ۳۴, ۳۵.)
اے تمام مخلوق سے بزرگ تر! عام حادثه کے نازل هونے میں آپ صلی الله علیه وسلم کے سوا میرا کوئی ایسا نهیں میں جسکی پناه میں آجاؤں کیوں که دنیا اور آخرت آپ صلی الله علیه وسلم کی بخششوں میں سے هے اور لوح وقلم آپ صلی الله علیه وسلم کے علوم میں سے هیں."
اس بات پر علامه ابن باز نقد کرتے هوئے کهتے هیں:
بوصیری بے چارے نے آخرت کے دن الله تعالی کو حپهوڑ کر رسول الله صلی الله علیه وسلم کی پناه تلاش کی هے. ان کا خیال هے که اگر آخرت میں وه رسول الله صلی الله علیه وسلم کی پناه میں نه آئیں تو هلاک هو جائیں گئے.
انهوں نے الله تعالی کو حپهوڑ دیا هے جسکے قبضه قدرت میں ضررو نفع عطا کرنا اور منع هے وهی اپنے دوستوں اور فرمان برداروں کو نجات دیتا هے. بوصیری نے رسول الله علیه وسلم کو دنیا اور آخرت کا مالک بنا دیا هے اور آپ صلی الله علیه وسلم کے بارے میں اس عقیدے کا اظهار کیا هے که رسول الله صلی الله علیه وسلم کو لوح وقلم کے مندرجات کا علم تها. یه صریح کفر اور غلو هے جس سے بڑھ کر کوئی غلو نهیں. اگر وه توبه کیۓ بغیر اس عقیدے پر مرے هیں تو بے شک قبیح ترین کفر وضلال پر مرے هیں. هر مسلمان پر لازم هے که اس غلو سے بچتار هے اور قصیده برده اور اسکے لکھنے والے کے دهوکه میں نه آئے."
.
الله هم سب کی مغفرت کرے.
.
علامه بوصیری سے کون صاحب واقف نهیں هے جناب ۶۰۸ ھجری میں پیدا هوئے ان کا نام محمد بن سعید بن حماد بن عبدالله هے مصر کے شهر ابوصیر کیطرف منسوب هونےکی وجه سے بوصیری کهلائے ۶۹۶ هجری میں فوت هوئے.
(فوات الوفیات ج ۲ ص ۳۴۱ ت ۴۵۶. الاعلام ج ۶ ص ۱۳۹.)
بوصیری حفاظ حدیث شمار هوتے هیں مگر علامه سخاوی انکے متعلق کهتے هیں:
"لا خبرۃ بالفن کما ینبغی"
که انهیں فن حدیث سے کما حفه لگاؤ نهیں تها.
(الضوء اللامع ج ۱ ص ۲۵۱.)
.
اور علامه ابن باز رحمه الله ۱۳۳۰ هجری کو سعودی عرب کے ریاض شهر میں پیدا هوئے
ان کا نام عبدالعزیز بن عبدالله بن باز تها.
موصوف ۱۳۴۶ هجری میں شدید بیماری کی وجه سے آنکهوں کے نور سے محروم هو گئے.
اور ۲۷ محرم ۱۴۲۰ هجری بروز جمعرات بوقت صبح اس جهان فانی کوچ کر گئے
اور ان کے علم سے کون صاحب متعارف نهیں موصوف نے فتح الباری کی تصحیح بهی کی هے بخاری کی ترقیم کی
جناب عالم السلام کے مفتی کهلائے.
.
شیخ ابن باز رحمه الله کے مجموع فتاوع جلد ۲۶ ص ۲۰۷ تا ۳۸۲ میں ایک مقاله موجود هے
"التحفه الکریمه فی بیان بعض الاحادیث الضعیفه والسقیمه"
اسکو اردو ترجمه تحقیق تعلیق کے ساتھ ڈاکڑ سراج الاسلام حنیف نے شائع کیا هے.
اسکے ص ۱۷۱, ۱۷۲ پر ایک روایت بیان کرتے هیں.
"من کا اسمه محمدا صلی الله علیه وسلم فان بیته یکون لهم کدا وکذا."
اس روایت پر جرح کرتے وقت علامه ابن باز نے بوصیری پر تبصره کیا هے. چونکه بوصیری کا نام بهی محمد تها, یه بتایا جاچکا هے که سخاوی کهتے هیں ان کو فن الحدیث کا حقه علم نهیں تها, تو ابن باز بوصیری کے قصیده برده میں سے چند اشعار نقل کر کے بوصیری پر سخت جرح کرتے هیں مکمل کلام پیش خدمت هے.:
.
"...بوصیری نے یه شعر کهه کر غلطی کی هے:
"فان لی ذمه منه بتسمیتی
محمداوهو اوفی الخلق بالذمم
ان لم یکن فی معادی اخذا بیدی
فضلا والا فقل یازله القدم"
(قصدیده برده ۳۳.)
میرے واسطے آپ صلی الله علیه وسلم کا عهد هے بسسب اسکے که میرا نام محمد هے اور مخلوق میں آپ صلی الله علیه وسلم سے بڑھ کر عهدوں کو پورا کرنے والا کوئی نهیں. اگر آپ صلی الله علیه السلام ازورئے فضل روز آخر میری دست گیری نه فرمائیں تو کهو: (شاید مجھ سے) کوئی بڑی غلطی هوئی."
.
اور اس سے بڑھ کر غلطی انهوں نے ان اشعار میں کر لی هے:
"یا اکرم الخلق ما لی من الوذ به
سواک عند حلول الحادث العمم
فان من جودک الدنیا و ضرتها
ومن علو مک علم اللوح والقلم."
(قصدیه برده ۳۴, ۳۵.)
اے تمام مخلوق سے بزرگ تر! عام حادثه کے نازل هونے میں آپ صلی الله علیه وسلم کے سوا میرا کوئی ایسا نهیں میں جسکی پناه میں آجاؤں کیوں که دنیا اور آخرت آپ صلی الله علیه وسلم کی بخششوں میں سے هے اور لوح وقلم آپ صلی الله علیه وسلم کے علوم میں سے هیں."
اس بات پر علامه ابن باز نقد کرتے هوئے کهتے هیں:
بوصیری بے چارے نے آخرت کے دن الله تعالی کو حپهوڑ کر رسول الله صلی الله علیه وسلم کی پناه تلاش کی هے. ان کا خیال هے که اگر آخرت میں وه رسول الله صلی الله علیه وسلم کی پناه میں نه آئیں تو هلاک هو جائیں گئے.
انهوں نے الله تعالی کو حپهوڑ دیا هے جسکے قبضه قدرت میں ضررو نفع عطا کرنا اور منع هے وهی اپنے دوستوں اور فرمان برداروں کو نجات دیتا هے. بوصیری نے رسول الله علیه وسلم کو دنیا اور آخرت کا مالک بنا دیا هے اور آپ صلی الله علیه وسلم کے بارے میں اس عقیدے کا اظهار کیا هے که رسول الله صلی الله علیه وسلم کو لوح وقلم کے مندرجات کا علم تها. یه صریح کفر اور غلو هے جس سے بڑھ کر کوئی غلو نهیں. اگر وه توبه کیۓ بغیر اس عقیدے پر مرے هیں تو بے شک قبیح ترین کفر وضلال پر مرے هیں. هر مسلمان پر لازم هے که اس غلو سے بچتار هے اور قصیده برده اور اسکے لکھنے والے کے دهوکه میں نه آئے."
.
الله هم سب کی مغفرت کرے.