• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ احسان الٰہی ظہیرشہید رحمہ اللہ… ایک جرأت مند انسان

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب محمد اشرف جاوید

مولانا شہریار مرحوم:


تاریخ نے لکھا ہے کہ جب احمد شاہ ابدالی نے میر معین الملک کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کر لیا اس وقت مولانا شہریار لاہور میں درس دیا کرتے تھے۔ وہ بڑے جید عالم تھے‘ ان کا مدرسہ چینیاں والی مسجد میں تھا۔ نہ صرف پنجاب کے طالبان علم ان کے درس میں شریک ہوتے تھے بلکہ ہندوستان کی حدود سے باہر کے لوگ بھی ان کے درس میں شریک ہونا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ مولانا کے ایک شاگرد مولانا محمد صدیق مسجد وزیر خاں میں درس دیا کرتے تھے۔
احمد شاہ ابدالی نے خواہش ظاہر کی کہ عید کی نماز مسجد وزیر خاں میں ادا کرے گا۔ چنانچہ امراء اور وزراء کے علاوہ عوام جوق در جوق نماز میں شریک ہونے کے لیے مسجد میں جمع ہوئے۔ مولانا محمد صدیق نے نماز پڑھائی‘ جب انہوں نے خطبہ پڑھنا شروع کیا تو خطبہ کے دوران احمد شاہ ابدالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے سلطان العادل کہا۔ مولانا شہریار ذرا دور بیٹھے ہوئے تھے۔ جب خطبہ ختم ہوا تو آپ آگے بڑھے‘ کسی نے انہیں بتایا کہ آپ کے شاگرد نے محض خوشامد کی خاطر احمد شاہ کو سلطان العادل کہا ہے حالانکہ افغانوں کے ظلم وستم سے سارا شہر نالاں ہے۔ آپ امام کے قریب پہنچے‘ اس وقت احمد شاہ ابدالی بھی وہاں کھڑا تھا۔ مولانا محمد صدیق نے احتراماً اپنے استاذ کے ہاتھ چومے‘ احمد شاہ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ مولانا صدیق نے کہا کہ یہ مولانا شہریار ہیں۔

احمد شاہ ان کی شہرت سے واقف تھا‘ وہ بھی آداب وتسلیمات بجا لایا۔ مولانا شہریار اپنے شاگرد سے مخاطب ہوئے اور کہا: بیٹے! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ کون سا ظلم جو افغانوں نے اہل شہر پر روا نہیں رکھا۔ انہوں نے جبر وتشدد کی انتہاء کر دی ہے۔ کئی مرتبہ بادشاہ سے فریاد کی گئی مگر اس نے کوئی تدارک نہ کیا‘ نہ سپاہیوں کا ہاتھ روکا نہ سرداروں کی سرزنش کی۔ اسلام ایسے بادشاہ کو عادل کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مولانا کی اس تقریر سے گرد وپیش کھڑے ہوئے سب لوگ تھرا اٹھے۔ احمد شاہ نے آپ کو خاموش کرنا چاہا مگر آپ نے اس سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ آخر اس نے کہا: حضرت! آپ کس کے بارے میں اور کس کے سامنے باتیں کر رہے ہیں؟ مولانا شہریار نے فرمایا: ’’میں خوب جانتا ہوں کہ میرا مخاطب احمد شاہ ابدالی ہے۔ احمد شاہ نے کہا … اس گفتگو کا انجام بھی آپ کو معلوم ہے؟

مولانا شہریار نے کہا کہ … ہاں شہادت یا جلاوطنی مگر میں دونوں کے لیے تیار ہوں۔ احمد شاہ نے طیش میں آکر آپ کی جلاوطنی کا حکم دیا۔ مولانا شہریار نانڈہ (ضلع ہوشیار) میں جا کر آباد ہو گئے۔ (پنجاب مغلوں کے عہد زوال میں ۱۲۶۰ء نقوش لاہور نمبر ۵۲۹-۵۳۰)

چینیاں والی مسجد لاہور:

یہ لاہور کی قدیم مساجد میں سے ہے‘ اس کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اس کے امام وخطیب ملک وملت کے نامور عالم دین وسیاست ہر دور میں اس ممبر رسولe کے وارث رہے‘ مثلاً مولانا امام محمد حسین بٹالوی‘ امام مولانا عبدالجبار غزنوی‘ مولانا ابوالقاسم‘ مولانا عبدالواحد غزنوی‘ مولانا محمد حسین لاہوری‘ مولانا رحیم بخش (سلسلہ اسلام کی کتابیں) بطل حریت مولانا محمد داؤد غزنوی اور امام انقلاب علامہ احسان الٰہی ظہیر وغیرہ۔ ہم اس موقعہ پر صرف مولانا محمد داؤد غزنوی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ بقول شورش کاشمیری‘ اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے کہ پنجاب کے علماء میں سے مولانا غزنوی پہلے عالم دین تھے جنہوں نے تحریک خلافت کے زمانہ میں انگریزی (برطانوی عیسائی) حکومت کے خلاف اپنا پرچم کھولا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے امرتسر انگریزی حکومت کے خلاف وعظ وارشاد کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ شرف تاریخ نے ان کے سپرد کیا کہ وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو منبر ومحراب کے جمود سے کھینچ کر جہاد وغزا کے میدان میں اٹھا لائے۔ شاہ جی بھی اس کا اعتراف فرماتے تھے۔ (سیدی وابی‘ مرتب سید ابوبکر غزنوی: ص ۶۴‘ ۶۵)

مکمل مضمون
http://www.ahlehadith.org/ek-jurat-mand-insan-allama-ehsan-elahi-zaheer-rh
 
Top