غزنوی
رکن
- شمولیت
- جون 21، 2011
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 659
- پوائنٹ
- 76
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمۃ اللہ علیہ: عالم دین و سیاسی قائد
عمران احمد سلفی
لنک
شہید ِاسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اہلِ حدیث کے مایہ ناز خطیب، متدین عالم دین اور بے باک سیاسی رہنما تھے۔ آپ نے سیالکوٹ کے مردم خیز خطہ میں ایک کاروباری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد شیخ ظہور الٰہی کی خواہش تھی کہ اپنے فرزند ِارجمند کو دین کا سپاہی بنائیں۔ چوں کہ شیخ ظہورالٰہی ضیغمِ اسلام مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے صحبت یافتہ اور دینی ذوق رکھنے والے متدین و متشرع بزرگ تھے لہٰذا انہوں نے خاندانی روایات کے برعکس علامہ احسان الٰہی ظہیر کو دینی مدرسہ میں داخل کرایا جہاں آپ نے محض نو برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ حفظِ قرآن کے بعد آپ کو گوجرانوالہ کے عظیم علمی ادارہ میں داخل کرادیا گیا جہاں آپ نے مفکرِ اسلام مولانا محمد اسماعیلی ، مولانا احمد اللہ مدراسی اور دیگر جیّد علماءکرام سے کسبِ فیض کیا اور سندِ فراغت حاصل کی۔
اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شہیدِ اسلام کی ایک کتاب کا جواب تحریر کرنے والے کے لیے ایوارڈ کا اعلان کردیا اور علامہ شہید کی کتب کی اشاعت میں روڑے اٹکائے۔ انہی حالات سے نبرد آزمائی کرتے ہوئے یہ عظیم خاتون بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔ شہیدِ اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم تھے تو آپ نے مشاہدہ کیا کہ عالم عرب بالخصوص آپ کے اساتذہ کرام فتنہ قادیانیت کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے دورِ طالب علمی میں اپنی پہلی معرکة الآرا تصنیف ”القادیانیہ“ تالیف فرمائی۔ اساتذہ کرام کو مسودہ دکھایا گیا تو عربی زبان میں مرزائیت کا قلع قمع جس انداز میں کیا گیا تھا سب نے اس پر انتہائی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کتاب کی اشاعت کا مشورہ دیا، لیکن یہ بات سب کے لیے عجیب تھی کہ ایک طالب علم کی کتاب کے ٹائٹل پر مولف کو فاضل مدینہ یونیورسٹی لکھا جائے۔ بعض اساتذہ نے خدشات بھی ظاہر فرمائے کہ خدانخواستہ اگر ہم احسان الٰہی ظہیر کو قبل از امتحان فاضل مدینہ لکھنے کی اجازت دے دیں اور وہ امتحان پاس نہ کرسکے تو یونیورسٹی کی بدنامی ہوگی اور اس کا مورال گر جائے گا۔ تاہم شیخ عبدالعزیز بن باز رئیس الجامعہ، شفیق و مہربان استاد جو بظاہر بینائی سے محروم تھے لیکن دل کی آنکھیں روشن اور مومنانہ فراست کے حامل تھی، نے فرمایا کہ اگر احسان الٰہی ظہیر امتحان میں فیل ہوگئے تو میں یونیورسٹی بند کردوں گا۔بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے سلسلے میں آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہوگئے۔ یہ دور جامعہ کا ابتدائی دور تھا اور اس کا تعلیمی معیار انتہائی درجہ کا حامل تھا۔ یہاں طلبہ کی تعلیم و تربیت اور رجحانات و میلانات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ جامعہ میں داخلہ اور پھر کامیابی سے فراغت بجائے خود ایک کٹھن مرحلہ گردانا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ میں آپ کو وقت کے عظیم اساتذہ سے استفادہ کا موقع فراہم ہوا۔ عالم اسلام کی نابغہ عصر شخصیات مولانا حافظ محمد گوندلوی اور مفتی اعظم سعودی عرب فضیلة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز جو اس وقت رئیس الجامعہ تھے‘ سے آپ کو بھرپور شفقت و محبت اور علم کے گوہرِ بے بہا حاصل ہوئے۔ بعدازاں آپ کو حافظ محمد گوندلوی سے شرف ِدامادی بھی حاصل ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ جو آپ کی شہادت کے چند سال بعد رحلت فرما گئیں‘ نہ صرف بہت بڑے عالم دین کی صاحبزادی اور عالم اسلام کی عظیم شخصیت کی شریکِ حیات تھیں بلکہ خود عابدہ، زاہدہ، عالمہ اور انتہائی نیک و پارسا خاتون تھیں۔ انہیں بھی ایک انتہائی متعصب وزیر مذہبی امور کی جانب سے گوناگوں مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نام نہاد عالم وزیر نے آپ کے ادارہ ترجمان السنہ کی شائع کردہ تفسیر قرآن مجید بنام تفسیر ثنائی پر بے جا پابندیوں کے ذریعے اپنے مذہبی تعصب کے جوروستم آزمائے۔
جس اجتماع میں آپ کی شرکت ہوتی وہ جلسہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ آپ فنِ خطابت میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ تحریر و تقریر کے بادشاہ تھے۔ بڑے بڑے خطیب آپ کی شعلہ نوائی کا دم بھرتے تھے۔ آپ دین کے معاملے میں کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے تھے اور بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جانا فرضِ منصبی جانتے تھے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر گرچہ خود بہت بڑے کاروباری آدمی تھے اور گاڑیوں کے شو رومز اور دیگر کاروبار کے علاوہ کروڑوں کے مالک تھی، جب کہ آپ کی کتابوں کی رائلٹی ہی لاکھوں کروڑوں میں تھی تاہم اپنے آپ کو مولوی کہلانے میں فخر محسوس کرتے اور برملا فرماتے کہ محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادنیٰ غلام ہوں اور جب تک اہلِ حدیث کا ایک بچہ بھی زندہ ہے‘ حرمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ تحفظِ ختمِ نبوت کے اجتماعات میں خصوصی طور پر شرکت فرماتے اور فتنہ قادیانیت کے تاروپود بکھیر کر رکھ دیتے۔ آپ تبلیغِ دین کے لیے شہر شہر‘ ملک ملک تشریف لے گئے اور ہر جگہ توحیدِ باری تعالیٰ اور خالص اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ کا درس دیتے۔ حالانکہ اس راہِ پرخار میں آپ کو بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا تاہم کبھی خوف زدہ ہوئے نہ اپنے مشن سے ایک قدم پیچھے ہٹے۔ آپ نے خارزارِ سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔یہ آپ کا اپنے ہونہار شاگرد پر حد درجہ اعتماد تھا کہ آپ کو قبل از فراغت فاضل مدینہ لکھنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی اور اللہ رب العالمین نے اس محبِ رسول کے اپنے حبیب سے حد درجہ لگاو کا پاس رکھا اور آپ کو دوہرے اعزاز سے نوازا۔ ایک طرف تو آپ 52 ممالک کے طلبہ میں سب سے زیادہ امتیازی نمبروںسے پاس ہوکر اوّل درجہ پر فائز ہوئے تو دوسری جانب مالکِ کائنات نے امامِ کائنات علیہ الصلوٰة و التسلیم کی ختم نبوت پر تحریر کی گئی اس معرکة الآراءتصنیف کو شہرت دوام عطا فرمادی کہ چہار دانگ عالم میں القادیانیہ کا چرچا ہوگیا اور دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوکر تشنگانِ علم و حق کی رہنمائی کررہے ہیں۔ بحمداللہ آج بھی مقتدر علماءکرام اس کتاب کو قادیانیت کی سرکوبی کے لیے اتھارٹی مانتے ہیں۔ آپ نے اس کے علاوہ بھی کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ ہفت روزہ ”الاعتصام“ سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں آپ نے اپنا پرچہ ”ترجمان السنة“ کے نام سے جاری کیا جو آج بھی شائع ہورہا ہے۔ شہیدِ اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر دینی و سیاسی جلسوں کی جان ہوتے تھے۔ جماعت غرباءاہل حدیث کی سالانہ کانفرنس میں آپ بالالتزام تشریف لاتے اور جماعت کے ساتھ آپ کا تعلقِ خاطر بھی حد درجہ تھا جو بعض حضرات پر گراں بھی گزرتا۔
جب کسی نے اسلام کی مخالفت کی تو آپ نے اے آر ڈی کو خیرباد کہہ کر تن تنہا جمعیت اہلِ حدیث اور اہلِ حدیث یوتھ فورس کے پلیٹ فارم کو منظم کیا۔ آپ نے علماءاور نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی جو بدقسمتی سے 23 مارچ 1987ءکو مینار پاکستان کے زیر سایہ قلعہ لچھمن سنگھ میں یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ جلسہ عام میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئی۔ آپ کے مخلص رفقاءکار مولانا حبیب الرحمن یزدانی‘ مولانا عبدالخالق قدوسی‘ مولانا محمد خان نجیب اور دیگر علماءو زعماءجو اسٹیج پر تشریف فرما تھے‘ بزدل دشمنوں کی مکروہ سازش کا شکار ہوکر شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئی، البتہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو زخمی حالت میں پہلے میو اسپتال لاہور اور بعدازاں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کی خواہش پر ملٹری اسپتال ریاض منتقل کردیا گیا تاہم اس دوران بم کا زہر سرایت کرچکا تھا جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے اور 30 مارچ 1987ءکو ریاض میں اپنے رب کی بارگاہ میں شہادت کی منزل عبور کرتے ہوئے حاضر ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ایوب خان کی آمریت سے لے کر تادم شہادت ضیاءالحق کے خلاف آوازِ حق بلند کرتے رہے۔ آپ اسلام اور پاکستان کے خلاف ہونے والے کسی اقدام پر خاموش نہیں رہتے تھے۔ بھٹو دور میں آپ کو بہت ستایا گیا لیکن آپ کبھی جھکے نہ بکی، بلکہ استقامت و پامردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ ضیاءالحق کے ابتدائی دور میں اسے محب اسلام سمجھ کر اس کا دست و بازو بنے اور یہ اعلان فرمایا کہ ضیاءالحق! اگر نفاذِ شریعتِ اسلام کے لیے تمہارا پسینہ گرے گا تو ہم اپنا خون بہادیں گے لیکن اگر تم نے اسلام سے بے وفائی کی تو جان لو کہ سب سے پہلے تم ہمیں اپنا مخالف پاو گے۔ اور یہی ہوا، جب آپ نے دیکھا کہ ضیاءالحق نفاذ اسلام میں مخلص نہیں بلکہ چند نمائشی اقدامات کے ذریعے دین کو رسوا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تو آپ نے ببانگ دہل حکومت کی مخالفت شروع کردی اور اس حد تک مخالفت کی کہ بے نظیر بھٹو بھی ضیاءمخالفت میں اس قدر پیش پیش نہیں تھیں جس قدر علامہ احسان الٰہی ظہیر تھے۔ آپ نے اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے بھی ضیاءحکومت کے خلاف جدوجہد کی۔
آپ کے استاد مکرم شیخ عبدالعزیز بن باز نے ریاض میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی، بعدازاں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آپ جنت البقیع میں قیامت تک کے لیے رب کے مہمان ہوکر اپنے محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سینے پر سجائے ان کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اولیاءاللہ کے پہلو میں آرام فرما ہوگئے۔ آپ کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے شہر سے جو لگاو تھا اللہ نے آپ کی دعا پوری کی اور قیامت تک کے لیے قربِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دیا۔