• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ احسان الہیٰ ظہیر کا یہ عمل کیا کہلائے گا سنت یا بدعت؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عن عمرو بن يحيى قال سمعت أبي يحدث عن أبيه قال كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود قبل صلاة الغداة فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد فجانا أبو موسى الأشعري فقال أخرج إليكم أبو عبد الرحمن بعد قلنا لا فجلس معنا حتى خرج فلما خرج قمنا إليه جميعا فقال له أبو موسى يا أبا عبد الرحمن إني رأيت في المسجد آنفا أمرا أنكرته ولم أر والحمد لله إلا خيرا قال فما هو فقال إن عشت فستراه قال رأيت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل وفي أيديهم حصى فيقول كبروا ماة فيكبرون ماة فيقول هللوا ماة فيهللون ماة ويقول سبحوا ماة فيسبحون ماة قال فماذا قلت لهم قال ما قلت لهم شيا انتظار رأيك وانتظار أمرك قال أفلا أمرتهم أن يعدوا سياتهم وضمنت لهم أن لا يضيع من حسناتهم ثم مضى ومضينا معه حتى أتى حلقة من تلك الحلق فوقف عليهم فقال ما هذا الذي أراكم تصنعون قالوا يا أبا عبد الرحمن حصى نعد به التكبير والتهليل والتسبيح قال فعدوا سياتكم فأنا ضامن أن لا يضيع من حسناتكم شي ويحكم يا أمة محمد ما أسرع هلكتكم هؤلا صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وآنيته لم تكسر والذي نفسي بيده إنكم لعلى ملة هي أهدى من ملة محمد أو مفتتحو باب ضلالة قالوا والله يا أبا عبد الرحمن ما أردنا إلا الخير قال وكم من مريد للخير لن يصيبه إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا أن قوما يقرون القرآن لا يجاوز تراقيهم وايم الله ما أدري لعل أكثرهم منكم ثم تولى عنهم فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج ۔۔۔ السلسلة الصحيحة
عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا سید نا ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے سید نا ابوموسی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہےسید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہاسید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی کا بیان کرتے ہیں) پھر سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انہوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا
تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے یاتھ میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیک ہے ۔ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔ پھر سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنت میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ہم لوگ صوفیا کے ان اذکار وغیرہ پر بحث کرتے ہیں لیکن عموما یہ دیکھے بغیر کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔
بدعت کوئی چیز اس وقت ہوتی ہے جب اس کا ثبوت قرون مشہود لہ بالخیر سے نہ ہو اور اسے بلا واسطہ یا بنفسہ ثواب سمجھا جائے۔
صوفیا میں جو درست لوگ ہیں وہ ان مختلف افعال کو مختلف اسباب کے طور پر کرتے ہیں۔ بنفسہ جہر یا پاس انفاس یا ضرب لگانے وغیرہ کو ثواب یہ حضرات نہیں سمجھتے۔ یوں کہہ لیں کہ یہ اصلاح کے لیے مختلف طریقے ہیں جو تجربے سے مجرب ثابت ہوئے ہیں تو انہیں اختیار کرتے ہیں۔ بعض الہامی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک انہیں ثواب کی بحث میں نہ لایا جائے تب تک ہم ان پر سنت یا بدعت کی بحث بھی نہیں کر سکتے۔
واللہ اعلم
سیدنا ابن مسعودؓ نے کنکریوں وغیرہ پر اجتماعی ذکر کی مخصوص کیفیت کی اتنی سخت تردید کیوں فرمائی؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہم لوگ صوفیا کے ان اذکار وغیرہ پر بحث کرتے ہیں لیکن عموما یہ دیکھے بغیر کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔
بدعت کوئی چیز اس وقت ہوتی ہے جب اس کا ثبوت قرون مشہود لہ بالخیر سے نہ ہو اور اسے بلا واسطہ یا بنفسہ ثواب سمجھا جائے۔
صوفیا میں جو درست لوگ ہیں وہ ان مختلف افعال کو مختلف اسباب کے طور پر کرتے ہیں۔ بنفسہ جہر یا پاس انفاس یا ضرب لگانے وغیرہ کو ثواب یہ حضرات نہیں سمجھتے۔ یوں کہہ لیں کہ یہ اصلاح کے لیے مختلف طریقے ہیں جو تجربے سے مجرب ثابت ہوئے ہیں تو انہیں اختیار کرتے ہیں۔ بعض الہامی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جب تک انہیں ثواب کی بحث میں نہ لایا جائے تب تک ہم ان پر سنت یا بدعت کی بحث بھی نہیں کر سکتے۔
واللہ اعلم
محترم -

سادہ سا سوال ہے کہ یہ تزکیہ نفس کا طریقہ نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم کو کیوں نہ معلوم ہو سکا ؟؟؟ کیا یہ تصوف کی دلدادہ لوگ الله اور اس کے نبی سے زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ؟؟؟

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ نفس کے تزکیہ کے لئے جو بھی عمل اختیار کیا جاتا ہے وہ بذات خود دین کہلاتا ہے - جیسے نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے مجاہد کو جہاد کے لئے سامان فراہم کیا تو گویا اس نے خود جہاد میں حصہ ڈالا (متقفق علیہ)-

اب اگر کوئی اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کے لئے مختلف قسم کے مجاہدے کرتا ہے - تو وہ مجاہدہ دین بن جاتا ہے- اب اگر مجہادے کا یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم سے ثابت ہے تو سنّت رسول ہے اور اگر نہیں تو بدعت ہو گا -

نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے جس کا مفہوم ہے کہ "جب تم الله کی عبادت کرتے ہوے تھک جاؤ تو عبادت ترک کرکے آرام کرو - الله نے تمھارے لئے دین کو آسان بنایا ہے - اگر تم الله کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے تو یہ دین تم پر غالب آ جائے گا - اور پھر تم اس کا حق ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے"-

ایک طرف نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی ذات ہے کہ اپنی امّت پر کتنے رحیم و شفیق ہیں کہ دین میں غلو سے روک رہے ہیں اور دین میں آسانی کا درس اپنے امتیوں کو دے رہے ہیں -اور دوسری طرف یہ صوفی ہیں جن کے اعمال امّت کے لئے مصیبت اور پریشانی کا با عث ہیں -کوئی ساری ساری رات الله ہو الله ہو کے نعرے بلند کر رہا ہے تو کوئی ١٠٠ ١٠٠ نفل نماز کے لئے کھڑا ہے تو کوئی نکاح کے بندھن سے اپنے آپ کو روک رہا ہے- کوئی پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو سب سے زیادہ ،متقی اور پرہیز گار سمجھ رہا ہے تو کوئی روزے پر روزے رکھے چلا جا رہا ہے -تاریخ گواہ ہے کہ صوفیوں کے یہ خود ساختہ طریقے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب ہی بنے ہیں

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا سوره الکہف ١٠٣
کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں -
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ١٠٤
وہ لوگ کہ جن کی ساری کوششیں اس دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئیں اور وہ یہ خیال کرتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں-


الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آمین)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سیدنا ابن مسعودؓ نے کنکریوں وغیرہ پر اجتماعی ذکر کی مخصوص کیفیت کی اتنی سخت تردید کیوں فرمائی؟؟؟
محترمی انس بھائی
کنکریوں کا ذکر جس روایت میں ہے وہ روایت سنن الدارمی کی ہے۔ اس روایت کو دارمی کے علاوہ عبد الرزاق اور طبرانی نے مختلف طرق سے روایت کیا ہے لیکن ان روایات میں کنکریوں کا ذکر نہیں ہے۔ اور عبد الرزاق کی ایک روایت میں تو یہ ذکر ہے کہ دو حلقوں کو عبد اللہ رض نے ایک حلقہ میں کر دیا۔ دارمی کی روایت کے پہلے راوی الحکم بن المبارک ثقہ راوی ہیں (قطع نظر ابن عدی کی سرقہ احادیث کی جرح کے) لیکن حافظؒ فرماتے ہیں: صدوق ربما وہم (تقریب)۔ غالبا انہیں یہاں وہم ہی ہوا ہے۔
بہرحال۔۔۔
علامہ سیوطیؒ نے ذکر بالجہر پر الحاوی للفتاوی میں تفصیلی بحث فرمائی ہے۔ پھر اس کے بعد اس اثر کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
قلت: هذا الأثر عن ابن مسعود يحتاج إلى بيان سنده ومن أخرجه من الأئمة الحفاظ في كتبهم، وعلى تقدير ثبوته فهو معارض بالأحاديث الكثيرة الثابتة المتقدمة، وهي مقدمة عليه عند التعارض، ثم رأيت ما يقتضي إنكار ذلك عن ابن مسعود، قال الإمام أحمد بن حنبل في كتاب الزهد: ثنا حسين بن محمد، ثنا المسعودي، عن عامر بن شقيق، عن أبي وائل قال: هؤلاء الذين يزعمون أن عبد الله كان ينهى عن الذكر، ما جالست عبد الله مجلسا قط إلا ذكر الله فيه.
"میں کہتا ہوں کہ یہ اثر ابن مسعود رض سے اپنی سند اور ائمہ حفاظ نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے اس کے بیان کا محتاج ہے۔ (یہ اثر ثابت ہے۔ سیوطی کی یہ بات درست نہیں۔۔۔۔۔ناقل) اور ثابت ماننے کی صورت میں بہت سی ثابت احادیث کے معارض ہے جو پہلے گزر چکی ہیں۔ اور تعارض کے وقت وہ اس پر مقدم ہوں گی۔"
یہ احادیث سیوطی نے اس سے پہلے ذکر کی ہیں۔ ایک روایت لکھتا ہوں:۔
حدثنا إسحاق بن نصر، قال: حدثنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا ابن جريج، قال: أخبرني عمرو، أن أبا معبد، مولى ابن عباس، أخبره: أن ابن عباس رضي الله عنهما، أخبره: «أن رفع الصوت، بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم» وقال ابن عباس: «كنت أعلم إذا انصرفوا بذلك إذا سمعته»
البخاری

امام بخاری اپنی سند سے ابن عباس رض سے روایت کرتے ہیں کہ "لوگ جب فرض نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اونچی آواز سے ذکر کرنا نبی ﷺ کے دور میں موجود تھا۔"
لہذا یہ بدعت تو ہے نہیں۔

پھر حضرت ابن مسعود رض نے یہ منع کیوں کیا؟ درحقیقت اگر غور کیا جائے تو یہاں منع کرنے کی کچھ خاص وجوہ ہیں۔
  1. نماز کے وقت میں مسجد میں صفوں کے درمیان میں بیٹھنا۔
  2. نماز کے وقت میں حلقہ بنانا۔
  3. نماز کے وقت میں بآواز بلند ذکر کرنا۔
  4. ان کے چہروں کو دیکھ کر عبد اللہ بن مسعود رض نے جو نشانیاں معلوم کی تھیں کہ یہ خوارج میں سے ہیں ان کی وجہ سے۔ اس پر شاہد راوی کے آخری الفاظ بھی ہیں۔
ان چیزوں کو دیکھ کر ابن مسعود رض نے ان لوگوں کو اتنی سختی سے منع کیا تھا۔
واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم -
سادہ سا سوال ہے کہ یہ تزکیہ نفس کا طریقہ نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم کو کیوں نہ معلوم ہو سکا ؟؟؟ کیا یہ تصوف کی دلدادہ لوگ الله اور اس کے نبی سے زیادہ عقل و فہم رکھتے ہیں ؟؟؟


محترم بھائی! آپ کا یہ سوال سوال کی حد سے باہر چلا گیا ہے سادہ ہوتے ہوتے۔ (مسکراہٹ)
دیکھیے بھائی نبی ﷺ کے کسی حکم کو جب ترک نہ کیا جائے اور کسی خاص انداز سے تزکیہ کیا جائے تو ہم کس دلیل کی بنیاد پر اسے رد کر سکتے ہیں؟ کیا صرف یہ کہہ کر کہ نبی ﷺ نے اس طریقے کو اختیار نہیں فرمایا اس لیے؟ تو آج جو کچھ تبلیغ دین کے لیے مستعمل ہے نبی ﷺ نے تو یہ سب بھی استعمال نہیں فرمایا۔ آخر نبی آخر الزماں ﷺ کو یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ بینر لکھوا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ اسپیکر بنا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ نماز کے لیے بلانے کے لیے مختلف چیزوں کا مشورہ کرنے کے بجائے ریت گھڑی، دھوپ گھڑی یا موم گھڑی ہی بنوالیتے؟؟؟ اس لیے جناب عالی یہ سادہ سا سوال درست نہیں۔
لیکن ہم ذرا آگے بڑھیں تو یہ مختلف طریقے مختلف ضروریات کی بنا پر ہوتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کے دور میں جب منافقین کا تنگ کرنا حد سے بڑھا تو آیات نازل ہوئیں جن میں حکم دیا گیا کہ نبی سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیا کرو۔ چنانچہ ان کی یہ بری عادت ختم ہو گئی۔
لوگوں میں ظہار رائج تھا تو اس کا کفارہ لازم ہوا تو اس کا سد باب ہو گیا۔
شہوت کی زیادتی سے نوجوان پریشان ہوئے تو روزے کا ارشاد حدیث نبوی میں آیا۔
مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کے علاوہ پر بھروسہ آنے لگا تو خلیفہ راشد عمر رض نے سیف اللہ خالد بن ولید رض کو معزول کر دیا۔
یہ چند مثالیں ہیں لیکن اگر آپ غور فرمائیں تو یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟ صرف اصلاح۔ چوں کہ یہ نصوص ہیں اس لیے ہمیشہ کے لیے اپنے حکم پر دلالت کرنے لگیں۔ لیکن صوفیاء کرام کے اقوال نصوص نہیں ہوتے بلکہ تجربہ یا الہام یا اجتہاد ہوتے ہیں تو نصوص کی طرح لازم بھی نہیں ہوئے۔ البتہ ضرورت کے وقت استعمال کیے جانے لگے۔
اگر ہمیں ان کا رد کرنا ہو تو باقاعدہ دلیل چاہیے ہوگی۔ جب ان طریقوں کو بذات خود ثواب کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تو ان پر اس بات سے رد بھی نہیں ہو سکتا کہ سلف کے زمانے میں فلاں طریقہ نہیں تھا۔


یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ نفس کے تزکیہ کے لئے جو بھی عمل اختیار کیا جاتا ہے وہ بذات خود دین کہلاتا ہے - جیسے نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے مجاہد کو جہاد کے لئے سامان فراہم کیا تو گویا اس نے خود جہاد میں حصہ ڈالا (متقفق علیہ)-
اب اگر کوئی اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کے لئے مختلف قسم کے مجاہدے کرتا ہے - تو وہ مجاہدہ دین بن جاتا ہے- اب اگر مجہادے کا یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ وا لہ وسلم سے ثابت ہے تو سنّت رسول ہے اور اگر نہیں تو بدعت ہو گا -

یہ قیاس فاسد ہے اس لیے اس سلسلے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
بس اتنا عرض ہے کہ جو آپ نے فرمایا وہ درست نہیں ہے۔ ایک تو جو حدیث آپ نے پیش فرمائی اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا مجاہدے کو۔ دوسری بات سب ہی اس سے واقف ہیں کہ کوئی خاص عمل سنت یا قرون مشہود لہ بالخیر سے ثابت نہ ہو تو وہ ثواب نہیں بن سکتا۔ البتہ اگر کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس میں ثواب ہو تو وہ الگ بات ہے۔
آپ کا قیاس اگر ہم درست مان لیں تو تبلیغ، دین اسلام کا عمل ہے۔ اور آپ نیٹ پر یہ مضمون اسی تبلیغ کے لیے ٹائپ کرتے ہیں تو یہ ٹائپ کرنا دین بن جاتا ہے۔ اب یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں اسلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے بھائی جان بجائے الٹے سیدھے قیاس کرنے کے انہی کو قیاس کرنے دیں جن کا یہ کام ہے۔


نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے جس کا مفہوم ہے کہ "جب تم الله کی عبادت کرتے ہوے تھک جاؤ تو عبادت ترک کرکے آرام کرو - الله نے تمھارے لئے دین کو آسان بنایا ہے - اگر تم الله کی دی ہوئی رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے تو یہ دین تم پر غالب آ جائے گا - اور پھر تم اس کا حق ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے"-
ایک طرف نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی ذات ہے کہ اپنی امّت پر کتنے رحیم و شفیق ہیں کہ دین میں غلو سے روک رہے ہیں اور دین میں آسانی کا درس اپنے امتیوں کو دے رہے ہیں -اور دوسری طرف یہ صوفی ہیں جن کے اعمال امّت کے لئے مصیبت اور پریشانی کا با عث ہیں -کوئی ساری ساری رات الله ہو الله ہو کے نعرے بلند کر رہا ہے تو کوئی ١٠٠ ١٠٠ نفل نماز کے لئے کھڑا ہے تو کوئی نکاح کے بندھن سے اپنے آپ کو روک رہا ہے- کوئی پھٹے پرانے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو سب سے زیادہ ،متقی اور پرہیز گار سمجھ رہا ہے تو کوئی روزے پر روزے رکھے چلا جا رہا ہے -تاریخ گواہ ہے کہ صوفیوں کے یہ خود ساختہ طریقے لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب ہی بنے ہیں


اب یہ بھی ایک عدد "شاندار" قیاس ہے۔
ان افعال میں سے کچھ تو خود صحابہ سے ثابت ہیں جیسے نماز وغیرہ کا اور کچھ کے رد میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اب یہاں حدیث میں تھکنے کا ذکر ہے۔ اگر کوئی سو نفل پڑھنے کے بعد بھی نہ تھکے تو؟ اور اگر کوئی چار رکعت نماز عشا میں دو رکعت پڑھ کر تھک جائے تو؟
ان معاملات میں آپ خود ہی جواب نکال لیں۔
دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یا تو علماء کی صحبت میں جا کر علم حاصل کریں یا وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ پر عمل پیرا ہوجائیں۔
اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے۔


قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا سوره الکہف ١٠٣
کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں -
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ١٠٤
وہ لوگ کہ جن کی ساری کوششیں اس دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئیں اور وہ یہ خیال کرتے رہے کہ وہ بہت اچھے کام کررہے ہیں-
الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آمین)

میرے محترم بھائی!
آپ کی نیت بالکل صاف ہوگی لیکن جو بات آپ ان آیات سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے براہ کرم اپنی تحریر میں جان پیدا کرنے اور خوبصورتی ڈالنے کے لیے آیات مبارکہ کا سہارا نہیں لیا کریں۔ اس آیت کی تفسیر میں کچھ نے عیسائی راہب، کچھ نے تمام اہل کتاب، کچھ نے خوارج مراد لیے ہیں۔
کیا آپ کوئی ایسی تفسیر دکھا سکتے ہیں جس میں اس سے متبع شریعت صوفیاء مراد ہوں؟
تو پھر اسے ایسے استعمال کرنے سے یہ کہیں مقصد برآری کے زمرے میں نہ آجائے۔ اس لیے خیال رکھا کریں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم بھائی! آپ کا یہ سوال سوال کی حد سے باہر چلا گیا ہے سادہ ہوتے ہوتے۔ (مسکراہٹ)
دیکھیے بھائی نبی ﷺ کے کسی حکم کو جب ترک نہ کیا جائے اور کسی خاص انداز سے تزکیہ کیا جائے تو ہم کس دلیل کی بنیاد پر اسے رد کر سکتے ہیں؟ کیا صرف یہ کہہ کر کہ نبی ﷺ نے اس طریقے کو اختیار نہیں فرمایا اس لیے؟ تو آج جو کچھ تبلیغ دین کے لیے مستعمل ہے نبی ﷺ نے تو یہ سب بھی استعمال نہیں فرمایا۔ آخر نبی آخر الزماں ﷺ کو یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ بینر لکھوا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ اسپیکر بنا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ نماز کے لیے بلانے کے لیے مختلف چیزوں کا مشورہ کرنے کے بجائے ریت گھڑی، دھوپ گھڑی یا موم گھڑی ہی بنوالیتے؟؟؟ اس لیے جناب عالی یہ سادہ سا سوال درست نہیں۔
لیکن ہم ذرا آگے بڑھیں تو یہ مختلف طریقے مختلف ضروریات کی بنا پر ہوتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کے دور میں جب منافقین کا تنگ کرنا حد سے بڑھا تو آیات نازل ہوئیں جن میں حکم دیا گیا کہ نبی سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیا کرو۔ چنانچہ ان کی یہ بری عادت ختم ہو گئی۔
لوگوں میں ظہار رائج تھا تو اس کا کفارہ لازم ہوا تو اس کا سد باب ہو گیا۔
شہوت کی زیادتی سے نوجوان پریشان ہوئے تو روزے کا ارشاد حدیث نبوی میں آیا۔
مسلمانوں کے دلوں میں اللہ کے علاوہ پر بھروسہ آنے لگا تو خلیفہ راشد عمر رض نے سیف اللہ خالد بن ولید رض کو معزول کر دیا۔
یہ چند مثالیں ہیں لیکن اگر آپ غور فرمائیں تو یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟ صرف اصلاح۔ چوں کہ یہ نصوص ہیں اس لیے ہمیشہ کے لیے اپنے حکم پر دلالت کرنے لگیں۔ لیکن صوفیاء کرام کے اقوال نصوص نہیں ہوتے بلکہ تجربہ یا الہام یا اجتہاد ہوتے ہیں تو نصوص کی طرح لازم بھی نہیں ہوئے۔ البتہ ضرورت کے وقت استعمال کیے جانے لگے۔
اگر ہمیں ان کا رد کرنا ہو تو باقاعدہ دلیل چاہیے ہوگی۔ جب ان طریقوں کو بذات خود ثواب کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تو ان پر اس بات سے رد بھی نہیں ہو سکتا کہ سلف کے زمانے میں فلاں طریقہ نہیں تھا۔



یہ قیاس فاسد ہے اس لیے اس سلسلے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
بس اتنا عرض ہے کہ جو آپ نے فرمایا وہ درست نہیں ہے۔ ایک تو جو حدیث آپ نے پیش فرمائی اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا مجاہدے کو۔ دوسری بات سب ہی اس سے واقف ہیں کہ کوئی خاص عمل سنت یا قرون مشہود لہ بالخیر سے ثابت نہ ہو تو وہ ثواب نہیں بن سکتا۔ البتہ اگر کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس میں ثواب ہو تو وہ الگ بات ہے۔
آپ کا قیاس اگر ہم درست مان لیں تو تبلیغ، دین اسلام کا عمل ہے۔ اور آپ نیٹ پر یہ مضمون اسی تبلیغ کے لیے ٹائپ کرتے ہیں تو یہ ٹائپ کرنا دین بن جاتا ہے۔ اب یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں اسلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے بھائی جان بجائے الٹے سیدھے قیاس کرنے کے انہی کو قیاس کرنے دیں جن کا یہ کام ہے۔




اب یہ بھی ایک عدد "شاندار" قیاس ہے۔
ان افعال میں سے کچھ تو خود صحابہ سے ثابت ہیں جیسے نماز وغیرہ کا اور کچھ کے رد میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
اب یہاں حدیث میں تھکنے کا ذکر ہے۔ اگر کوئی سو نفل پڑھنے کے بعد بھی نہ تھکے تو؟ اور اگر کوئی چار رکعت نماز عشا میں دو رکعت پڑھ کر تھک جائے تو؟
ان معاملات میں آپ خود ہی جواب نکال لیں۔
دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ یا تو علماء کی صحبت میں جا کر علم حاصل کریں یا وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ پر عمل پیرا ہوجائیں۔
اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے۔



میرے محترم بھائی!
آپ کی نیت بالکل صاف ہوگی لیکن جو بات آپ ان آیات سے ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے براہ کرم اپنی تحریر میں جان پیدا کرنے اور خوبصورتی ڈالنے کے لیے آیات مبارکہ کا سہارا نہیں لیا کریں۔ اس آیت کی تفسیر میں کچھ نے عیسائی راہب، کچھ نے تمام اہل کتاب، کچھ نے خوارج مراد لیے ہیں۔
کیا آپ کوئی ایسی تفسیر دکھا سکتے ہیں جس میں اس سے متبع شریعت صوفیاء مراد ہوں؟
تو پھر اسے ایسے استعمال کرنے سے یہ کہیں مقصد برآری کے زمرے میں نہ آجائے۔ اس لیے خیال رکھا کریں۔
محترم بھائی -

آپ کے مراسلے سے تو مجھے یہ اندازہ ہوا ہے کہ آپ بدعت کے "صحیح " مفہوم سے نا آشنا ہیں -میرے خیال سے پہلے بدعت پر بات کرلیں کہ آخر یہ ہے کیا شے؟؟- تا کہ آپ کو اس چیز کا پتا چلے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز -؟؟ جیسے آپ نے اسلامی بینر لکھوانے کے بارے میں فرمایا یا یہ کہ نبی کریم اسپیکر بنا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ نماز کے لیے بلانے کے لیے مختلف چیزوں کا مشورہ کرنے کے بجائے ریت گھڑی، دھوپ گھڑی یا موم گھڑی ہی بنوالیتے؟؟؟ یا آپ کا یہ کہنا کہ "نیٹ پر یہ مضمون اسی تبلیغ کے لیے ٹائپ کرتے ہیں تو یہ ٹائپ کرنا کیا دین بن جاتا ہے؟؟۔" وغیرہ -

محترم پہلے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ :

احادیث میں جس بدعت کی مذمت آئی ہے اس سے وہ بدعت مراد ہے جسے شرعی اعتبار سے بدعت کہا جائے، جو عمل "فی الدین"یعنی دین (میں) اندر بطور اضافہ اور کمی بیشی کے ہو اور اسے دین قرار دے کر اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح ثواب اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے ، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو ، نہ قرآن و سنت اور نہ ( خلفاء_راشدین) سے ثابت ہو

آج کل کی نو ایجاد چیزیں ،سفر کے جدید ذرائع ، ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ ،ان چیزوں کو بھی بدعت نہیں کہا جائےگا ،اس لئے کہ ان کو دین اور ثواب اور رضائے الہی کا کام سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، لہٰذا جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہر نئی چیز بدعت ہے تو یہ تمام نو ایجاد اشیاء بھی بدعت ہونا چاہئے اور ان کو استعمال نہ کرنا چاہئے یہ صریح جہالت ہے یا عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ جب یہ چیزیں نبی کریم صل الله ؛علیہ و آ لہ کے دور مبارک میں تھیں ہی نہیں اور نہ اس وقت ان کی ضرورت تھی تو یہ انٹرنیٹ پر دین کی تبلیغ ، اسلامی بینر لکھوانا ،لاؤڈ اسپیکرکا استمعال، صرف و نحو کی تعلیم ، قرآن پر اعرا ب لگانا وغیرہ کیسے بدعت ہو گیا؟؟ بدعت تو وہ چیز ہے جو نبی کریم کے دور میں موجود تھی یا ممکن تھی لیکن آپ صل الله علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دین کا حصّہ نہ بنایا اور نہ قرار دیا -

جب کہ تصوف ہے ہی اس ریاضت اور ان اعمال جدیدہ کا نام جو نفس کے تزکیہ کے لئے استمعال کیے جاتے ہیں- یہ تمام اعمال اور حربے جو تزکیہ نفس کے لئے تصوف میں استمعال کیے جاتے ہیں نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے دور میں نا صرف ممکن تھے بلکہ بعض صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے تو اس کا قصد بھی کر لیا تھا -

جیسے کہ مسلم کی صحیح حدیث میں کہ آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے تین صحابیوں نے یہ عہد کیا - ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا- ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ رات کو عبادت کروں گا- ایک نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا - تینوں صحابہ نے یہ عہد تزکیہ نفس کے تحت ہی کیا تھا - لیکن جب نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو ان کے اس ارادے کا پتا چلا تو آپ ان صحابہ پر نہ صرف ناراض ہوے بلکہ فرمایا -"

من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نا مقبول ہے۔ [صحیح مسلم:جلد دوم]:


اب آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ باوجود صحابہ کرام رضوان الله کی نیک نیتی کے ارادے سے کیے گئے فیصلے پربھی الله کے نبی نے ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی مرضی سے تزکیہ نفس کے طریقے ایجاد کریں اور ان کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا ڈالیں -تو پھر صوفیوں کو اس بات کا کہاں سے حق مل گیا کہ جو ذہن میں آے اس کے مطابق تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کرلو؟؟

آپ کی آخری بات کا جواب یہ کہ میں نے سوره الکھف ١٠٤ کی آیت کا شان نزول نہیں بیان کیا- بلکہ عبرت کے طور پر پیش کی ہے- ممکن ہے کہ اس سے مراد عیسائی راہب، اور کچھ نے تمام اہل کتاب، کچھ نے خوارج مراد لیے ہیں۔ لیکن آپ کا یہ کہنا کہ اس سے متبع شریعت صوفیاء مراد نہیں ہو سکتے - میرے خیال میں تو یہ قرآن کی آیات کے ساتھ انتہائی بد دیانتی ہے کہ اپنے مسلک کو بچانے کے لئے آپ "صوفیوں" کو اس آیات کے مصادق نہیں سمجھتے -

محترم - قرآن کی ہر آیت اپنے شان نزول کے ساتھ قیامت تک کے لئے آنے والے انسانوں کے لئے ایک سبق اور عبرت بھی رکھتی ہے - اور جو شخص بھی ہو، چاہے وہ صوفی ہو یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو- اگر دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کر کے اپنے آپ کو حق پر سمجھے گا تو ان ہی قرآن کی آیات کے مصادق ہو گا جو پیش کی گئی ہیں -

الله ہم سب کو دین کا صحیح فہم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماے (آمین)-
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اشماریہ بھائی!
یہ"خاص انداز کا تزکیہ "بھی بدعت ہے جب یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں۔
جدید ایجادات کی مثال سے بدعت قرار دینے کا قیاس بھی الٹا ہے سیدھا نہیں!


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے کوئی کام کیا اور لوگوں کو اس کی رخصت دے دی،لیکن کچھ لوگوں نے وہ رخصت لینے سے پرہیز کیا۔نبی کریم ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے خطبہ دیا،اللہ تعالی حمد وثناء کے بعد ارشاد فرمایا: "کیا وجہ ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں،کچھ لوگ اس سے پرہیز کرتے ہیں۔اللہ تعالی کی قسم! میں لوگوں کی نسبت اللہ کی منشا اور مرضی سے زیادہ واقف ہوں اور لوگوں کی نسبت زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوں(یعنی تم لوگ نہ تو مجھ سے زیادہ اللہ تعالی کے احکامات کے احکامات سے واقف ہو سکتے ہو نہ مجھ سے زیادہ متقی بن سکتے ہو)۔" اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
محترم بھائی! آپ کا یہ سوال سوال کی حد سے باہر چلا گیا ہے سادہ ہوتے ہوتے۔ (مسکراہٹ)
دیکھیے بھائی نبی ﷺ کے کسی حکم کو جب ترک نہ کیا جائے اور کسی خاص انداز سے تزکیہ کیا جائے تو ہم کس دلیل کی بنیاد پر اسے رد کر سکتے ہیں؟ کیا صرف یہ کہہ کر کہ نبی ﷺ نے اس طریقے کو اختیار نہیں فرمایا اس لیے؟ تو آج جو کچھ تبلیغ دین کے لیے مستعمل ہے نبی ﷺ نے تو یہ سب بھی استعمال نہیں فرمایا۔ آخر نبی آخر الزماں ﷺ کو یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ بینر لکھوا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ وہ اسپیکر بنا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ نماز کے لیے بلانے کے لیے مختلف چیزوں کا مشورہ کرنے کے بجائے ریت گھڑی، دھوپ گھڑی یا موم گھڑی ہی بنوالیتے؟؟؟
جدید ایجادات کی مثال سے بدعت قرار دینے کا قیاس بھی الٹا ہے سیدھا نہیں!
باجی آپ کی بات میں مَیں اس بات کا اضافہ کروں گا کہ

اشماریہ بھائی۔! آپ نے تو بعینہ وہی انداز اپنا لیا ہے جو مدنی چینل والے حضرت (جنہیں آپ لوگ بدعتی بدعتی کہتے نہیں تھکتے) اپناتے ہیں۔

جب اُن سے اُنکی عبادات میں اختیار کردہ بدعات کا ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ لوگ بھی اسی انداز میں فرماتے ہیں " آپ لوگ مسجدیں پکی کیوں کرتے ہیں، مسجدوں میں پنکھے کیوں لگاتے ہیں یا یہ کہ مسجدوں میں ایئر کنڈیشنر سے تمتع کیوں فرماتے ہیں۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی -
آپ کے مراسلے سے تو مجھے یہ اندازہ ہوا ہے کہ آپ بدعت کے "صحیح " مفہوم سے نا آشنا ہیں -میرے خیال سے پہلے بدعت پر بات کرلیں کہ آخر یہ ہے کیا شے؟؟- تا کہ آپ کو اس چیز کا پتا چلے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے کیا چیز جائز ہے اور کیا نا جائز -؟؟ جیسے آپ نے اسلامی بینر لکھوانے کے بارے میں فرمایا یا یہ کہ نبی کریم اسپیکر بنا لیتے؟ یہ علم کیوں نہ ہو سکا کہ نماز کے لیے بلانے کے لیے مختلف چیزوں کا مشورہ کرنے کے بجائے ریت گھڑی، دھوپ گھڑی یا موم گھڑی ہی بنوالیتے؟؟؟ یا آپ کا یہ کہنا کہ "نیٹ پر یہ مضمون اسی تبلیغ کے لیے ٹائپ کرتے ہیں تو یہ ٹائپ کرنا کیا دین بن جاتا ہے؟؟۔" وغیرہ -

محترم پہلے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ :

احادیث میں جس بدعت کی مذمت آئی ہے اس سے وہ بدعت مراد ہے جسے شرعی اعتبار سے بدعت کہا جائے، جو عمل "فی الدین"یعنی دین (میں) اندر بطور اضافہ اور کمی بیشی کے ہو اور اسے دین قرار دے کر اور عبادات وغیرہ دینی امور کی طرح ثواب اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے ، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو ، نہ قرآن و سنت اور نہ ( خلفاء_راشدین) سے ثابت ہو

آج کل کی نو ایجاد چیزیں ،سفر کے جدید ذرائع ، ریل موٹر ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ ،ان چیزوں کو بھی بدعت نہیں کہا جائےگا ،اس لئے کہ ان کو دین اور ثواب اور رضائے الہی کا کام سمجھ کر استعمال نہیں کیا جاتا، لہٰذا جو لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہر نئی چیز بدعت ہے تو یہ تمام نو ایجاد اشیاء بھی بدعت ہونا چاہئے اور ان کو استعمال نہ کرنا چاہئے یہ صریح جہالت ہے یا عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ جب یہ چیزیں نبی کریم صل الله ؛علیہ و آ لہ کے دور مبارک میں تھیں ہی نہیں اور نہ اس وقت ان کی ضرورت تھی تو یہ انٹرنیٹ پر دین کی تبلیغ ، اسلامی بینر لکھوانا ،لاؤڈ اسپیکرکا استمعال، صرف و نحو کی تعلیم ، قرآن پر اعرا ب لگانا وغیرہ کیسے بدعت ہو گیا؟؟ بدعت تو وہ چیز ہے جو نبی کریم کے دور میں موجود تھی یا ممکن تھی لیکن آپ صل الله علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دین کا حصّہ نہ بنایا اور نہ قرار دیا -

جب کہ تصوف ہے ہی اس ریاضت اور ان اعمال جدیدہ کا نام جو نفس کے تزکیہ کے لئے استمعال کیے جاتے ہیں- یہ تمام اعمال اور حربے جو تزکیہ نفس کے لئے تصوف میں استمعال کیے جاتے ہیں نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے دور میں نا صرف ممکن تھے بلکہ بعض صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے تو اس کا قصد بھی کر لیا تھا -

جیسے کہ مسلم کی صحیح حدیث میں کہ آپ صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے تین صحابیوں نے یہ عہد کیا - ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا- ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ رات کو عبادت کروں گا- ایک نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا - تینوں صحابہ نے یہ عہد تزکیہ نفس کے تحت ہی کیا تھا - لیکن جب نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کو ان کے اس ارادے کا پتا چلا تو آپ ان صحابہ پر نہ صرف ناراض ہوے بلکہ فرمایا -"

من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ نا مقبول ہے۔ [صحیح مسلم:جلد دوم]:


اب آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ باوجود صحابہ کرام رضوان الله کی نیک نیتی کے ارادے سے کیے گئے فیصلے پربھی الله کے نبی نے ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی مرضی سے تزکیہ نفس کے طریقے ایجاد کریں اور ان کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا ڈالیں -تو پھر صوفیوں کو اس بات کا کہاں سے حق مل گیا کہ جو ذہن میں آے اس کے مطابق تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کرلو؟؟

آپ کی آخری بات کا جواب یہ کہ میں نے سوره الکھف ١٠٤ کی آیت کا شان نزول نہیں بیان کیا- بلکہ عبرت کے طور پر پیش کی ہے- ممکن ہے کہ اس سے مراد عیسائی راہب، اور کچھ نے تمام اہل کتاب، کچھ نے خوارج مراد لیے ہیں۔ لیکن آپ کا یہ کہنا کہ اس سے متبع شریعت صوفیاء مراد نہیں ہو سکتے - میرے خیال میں تو یہ قرآن کی آیات کے ساتھ انتہائی بد دیانتی ہے کہ اپنے مسلک کو بچانے کے لئے آپ "صوفیوں" کو اس آیات کے مصادق نہیں سمجھتے -

محترم - قرآن کی ہر آیت اپنے شان نزول کے ساتھ قیامت تک کے لئے آنے والے انسانوں کے لئے ایک سبق اور عبرت بھی رکھتی ہے - اور جو شخص بھی ہو، چاہے وہ صوفی ہو یا کسی اور مسلک سے تعلق رکھتا ہو- اگر دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کر کے اپنے آپ کو حق پر سمجھے گا تو ان ہی قرآن کی آیات کے مصادق ہو گا جو پیش کی گئی ہیں -

الله ہم سب کو دین کا صحیح فہم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماے (آمین)-


جزاک اللہ خیرا بھائی۔
آپ نے بدعت کی جو تعریف کی اسی کو تزکیہ کے ان طریقوں پر اپلائی کریں۔
کیا کوئی یہ کہتا ہے کہ پاس انفاس یا جہر بذات خود ثواب ہے؟؟
اسے کسی اور ثواب کے عمل کے تحت ثواب کہا جاتا ہے۔ میں درحقیقت نیٹ وغیرہ کے استعمال سے یہی مشابہت بتانا چاہتا تھا جسے غالبا آپ درست نہیں سمجھ سکے۔
قرآن کے اعراب لگانا بذات خود (جسے میں عربی لفظ بنفسہ سے اور عبدہ بھائی غالبا بلاواسطہ سے تعبیر کرتے ہیں) کوئی ثواب نہیں ہیں لیکن چوں کہ اس سے فہم قرآن میں آسانی ہوتی ہے اور وہ ثواب ہے تو اس کے تحت یہ بھی ثواب ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح تزکیہ کے افعال بذات خود ثواب نہیں ہوتے لیکن ان کی وجہ سے تزکیہ ہوتا ہے جو کہ مطلوب ہے تو اس کے تحت یہ ثواب ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک باریک سا فرق ہمارے تمام کاموں میں ہوتا ہے۔ اہل حدیث کے بھی اور احناف کے بھی۔

آیت کا شان نزول تو میں نے بھی بیان نہیں کیا۔ مصداق بیان کیا ہے۔ دوبارہ اس پر غور فرمانے کی درخواست ہے۔

اشماریہ بھائی!
یہ"خاص انداز کا تزکیہ "بھی بدعت ہے جب یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں۔
جدید ایجادات کی مثال سے بدعت قرار دینے کا قیاس بھی الٹا ہے


ٹھیک ہے دعا بہن آپ کی بات مانے لیتے ہیں۔
آپ اس کی جگہ قرآن کریم کے اعراب لگانے کو لے لیجیے اور اپنی تمام بات اس پر خود منطبق کرلیں۔
 
  • پسند
Reactions: Dua
Top