عطاء اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2016
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 20
علامہ اقبال کی موجودہ نسل کو دعوت ایمان و عمل
خطاب بہ جاوید!
اس مضمون کو نظم کرنے سے کوئی فائدہ تو نہیں، کیونکہ جو کچھ میرے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے وہ الفاظ کے ذریعہ باہر نہیں آتا۔ اگرچہ میں نے سینکڑوں نکتے بغیر کوئی پردہ رکھے ہوئے صاف صاف بیان کر دئیے ہیں مگر ایک نکتہ میرے ذہن میں ایسا ہے جو اس کتاب میں نہیں سماتا۔ اگر میں اسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، الفاظ و آواز کا پیرایہ اختیار کرنے سے مفہوم پر اور زیادہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو میری نگاہ سے اس کے سوز کی حقیقت معلوم کرے یا جو آہیں میں صبح کے وقت بھرتا ہوں ان میں اس حقیقت کا سراغ تلاش کرے۔
××××××
سب سے پہلا سبق تجھے تیری ماں نے پڑھایا تھا، اسی کی خوشگوار ہواؤں سے تیرے فہم و شعور کا غنچہ کھل کر پھول بنا تھا۔ تیری یہ کیفیات قلب اسی کی نسیم تربیت سے فیض یافتہ ہیں، تیرا وجود ہم دونوں کی متاع گراں مایہ ہے مگر تیری قدر و قیمت جو کچھ ہے وہ ماں کی وجہ سے ہے۔ تو نے اسی کی زبان سے لا الہ الا اللہ کا سبق پڑھا ہے۔ یہ دولت جاوید تو نے اسی سے حاصل کی ہے (اب حصول علم کے بعد) بیٹے! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر، لا الہ الا اللہ کی آگ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ لا الہ الا اللہ کو صرف زبان سے ادا کرنا کافی نہیں، تو اپنے دل و جان سے اس کا اعلان کر (کہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں) تاکہ تیرے جسم سے تیرے قلب کی آواز آنے لگے (اور تیرا ظاہر و باطن ایک ہو جائے)۔ (یہ عجیب بات ہے کہ) مومن اور دوسروں کے سامنے پٹکا باندھ کر کھڑا ہو، (ان کی غلامی کرے)، (خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت پر) ایمان رکھنے والا اور قوم کا غدار ہو۔ افلاس اور نفاق کی زندگی گزارے (یہ کس طرح ممکن ہے؟) (اس کی حالت تو آج یہ ہے کہ) اس نے دین و ملت کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا ہے، اپنے گھر کی ساری پونجی جلا دی ہے اور خود گھر کو بھی آگ لگا چکا ہے۔ پہلے اس کی نماز میں لا الہ الا اللہ کا عشق ہوتا تھا مگر اب نہیں، پہلے اس کے نیاز عبودیت میں خودی کے ناز بھی ہوا کرتے تھے مگر اب موجود نہیں، اس کے روزے نماز میں وہ پہلے کا سا نور، وہ عشق کی روشنی، اب باقی نہیں رہی، اس کی کائنات میں اب حقیقت کا کوئی جلوہ نظر نہیں آتا۔ یہ وہ مسلمان تھا جس کے لیے زندگی کا سارا ساز و سامان صرف اللہ کی ذات تھی (اب اس کی یہ حالت ہے کہ) مال کی محبت اور موت کا خوف اس کے لیے فتنہ بنا ہوا ہے۔ عشق کی وہ سرمستی اور عمل کا وہ ذوق و سرور، جو اس کی خصوصیات تھیں، اب ختم ہو چکی ہیں، اس کا دین بس کتاب کے اندر رہ گیا ہے اور وہ خود مردوں کی طرح قبر میں دفن ہے۔ موجودہ زمانے کے ساتھ اس کی صحبت رنگ لائی ہے، اب اس نے دو نئی پیغمبروں کی شریعتیں اپنا لی ہیں۔ ان دو پیغمبروں میں سے ایک ایرانی تھا (بہاء اللہ) اور دوسرا ہندوستانی نسل سے تھا (مرزا احمد قادیانی)۔ پہلا حج سے بیگانہ تھا اور دوسرے کو جہاد سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب جہاد اور حج جیسے فرائض واجبات دین میں شامل نہ رہے تو روزے اور نماز کی روح تو سلب ہی ہو گئی۔ جب نماز اور روزے میں کوئی روح باقی نہ رہی تو فرد کی بے راہ روی اور ملت کا انتشار لازمی تھا۔ جب لوگوں کے سینوں میں تعلیمات قرآنی کی گرمی باقی نہ رہی ہو (اور ان کے دل سرد پڑ گئے ہوں) تو ان سے فلاح و بہبود کی امید کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمان اپنی شخصیت کی نشوونما سے غافل ہو چکا ہے
××××××
مومن کا سجدہ وہ سجدہ تھا جس سے زمین لرز لرز گئی اور جس کی مراد پر چاند اور سورج گردش کرتے رہے ہیں، اگر اس سجدہ کا نشان پتھر پر پڑ جائے تو وہ بھی دھواں بن کر ہوا میں اڑنے لگے مگر اس زمانے میں (جو سجدہ کیا جا رہا ہے) اس کی حیثیت ماتھا ٹیکنے کے سوا اور کچھ نہیں، اس کے اندر بڑھاپے کی کمزوری ہی کمزوری نظر آتی ہے (نماز کے) سجدہ میں جو ربی الا علیٰ (میرا رب سب سے بلند ہے) کہا جاتا ہے اس کا دبدبہ کہاں باقی رہ گیا ہے؟ یہ سجدہ کی خطا ہے یا خود ہمارا قصور ہے؟ (غیروں کو دیکھئے تو ان کا) ہر فرد اپنے مقررہ راستے پر اڑا چلا جا رہا ہے مگر ہماری سانڈنی ہے کہ بے لگام ہو چکی ہے اور فضول ادھر ادھر دوڑ رہی ہے۔ وہ مسلمان جس کی ہدایت کے لیے قرآن اترا تھا، ذوق طلب سے محروم ہو گیا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے! اس پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے۔ ××××××
اگر خدا تجھے صاحب نظر بنا دے تو اس زمانے کی طرف دیکھ جو چلا آ رہا ہے۔ عقلیں خدا کے خوف سے آزاد ہو گئی ہیں اور دل سوز و گداز سے خالی ہیں، آنکھوں میں شرم و حیا باقی نہیں رہی اور نگاہیں حقیقت کو چھوڑ کر مجاز میں ڈوب گئی ہیں۔ علم اور فن، دین اور سیاست، عقل اور دل، یہ سب کے سب پانی اور مٹی کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں (صرف مادہ کو مرکز فکر و عمل بنائے ہوئے ہیں) وہ ایشیا جسے سورج کا وطن پیدائش کہا جاتا ہے، آج دوسروں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ سے پردہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں اب تازہ بہ تازہ خیالات و جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے، اب اس فرسودہ پونجی کو جَو کے دو دانوں کے عوض خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں، اس پرانی دنیا میں اس کی زندگی غیر متحرک، خاموش اور برف کی طرح جمی ہوئی ہے اور چلنے پھرنے یا سفر کرنے کا ذوق اس میں مطلق نہیں، اس کی قوت فکر کو اگر ہرن سے تشبیہ دی جائے تو وہ ایک ایسا ہرن ہے جو لنگڑا اور اپاہج ہو چکا ہے اور جسے ملاؤں اور بادشاہوں نے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کی عقل، اس کا مذہب، اس کی حکمت و دانش اور اس کے ننگ و ناموس فرنگی حکمرانوں کے شکار بند میں بندھے ہوئے ہیں (وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کر سکتے ہیں) میں نے اس کے افکار کی دنیا پر ہلہ بول دیا ہے اور اس کے تمام رازوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اپنے سینہ کے اندر میں نے دل کا خون کر لیا ہے (فکر و نظر کی راہ میں سعی و کاوش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا)، تب کہیں جا کر اس کی دنیا کو دگرگوں کر سکا ہوں۔
××××××
عہد حاضر کے لوگوں کا انداز طبیعت دیکھ کر، میں نے دو طرح کی تصنیفات کی ہیں (جنہیں یہ سمجھنا چاہیے) دو کوزوں میں دو سمندر بن کیے ہیں۔ ایک وہ ہے جو نثر میں منطقیہ دلائل کے ساتھ لکھی گئی ہے اور جس میں فلسفیانہ و متکلمانہ انداز تحریر اختیار کیا گیا ہے (اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید) تاکہ لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما سکوں۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں فرنگیوں کے انداز پر تشبیہ و استعارہ اور رمز و کنایہ سے کام لیا گیا ہے، اسے چنگ و رباب کے تاروں سے نکلا ہوا ایک نالہ مستانہ سمجھنا چاہیے۔ پہلی قسم فکر پر اور دوسری ذکر پر مبنی ہے، (اے بیٹے) خدا ایسا کرے کہ تو ان دونوں کا وارث بن جائے، میں ایک نہر ہوں جو ان دونوں سمندروں سے مل کر نکلتی ہے۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ بھی کیا ہے پھر خود ہی ان سمندروں کو ملا بھی دیا ہے (میرا فلسفہ اور میری شاعری دونوں میری شخصیت میں مدغم ہو گئی ہیں) چونکہ میرے زمانہ کا مزاج دوسری طرح کا تھا اس لیے میری طبیعت نے بھی دوسرے ہی انداز میں ہنگامہ برپا کیا ہے۔
××××××
آج کے نوجوان تشنہ لب ہیں، ان کے دل کا پیالہ شراب عشق سے خالی ہے، چہرے دھلے دھلائے، صاف ستھرے (فیشن کے دل دادہ) مگر جان اندھیروں میں گھری ہوئی ہے، (ایمان کی شمع فروزاں گل ہو چکی ہے)، (بس علوم مغربی سے) دماغ روشن ہیں، نہ (زندگی کے مسائل پر) ان کی نظر ہے، نہ (حقائق کے متعلق انہیں) یقین حاصل ہے، نہ (مستقبل کے بارے میں انہیں کچھ) امید ہے، انہوں نے دنیا میں آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان نا اہلوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی خودی سے تو انکار کرتے ہیں اور غیروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں (جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ) بت خانہ تعمیر کرنے والا معمار ان کی مٹی سے بنی ہوئی اینٹوں کو اپنی عمارت میں لگا رہا ہے (اغیار اپنی ترقی کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں) ہماری درسگاہوں کو (جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں) اپنی منزل مقصود ہی کا پتا نہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے (اور حقیقی مقصد کی طرف انہیں) متوجہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ان درسگاہوں نے نوجوانوں کے دلوں سے فطرت کے نور کو بالکل دھو دیا ہے، ان میں سے ایک طالبعلم بھی ایسا نہیں نکلا جسے (گلشن اسلام کا) گل رعنا کہا جا سکے۔ ہمارا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے، ہمارے معلمین ابتدا ہی سے شاہین کے بچوں میں بطخوں کی عادتیں پیدا کرتے ہیں۔ علم جب تک زندگی سے سوز و ساز حاصل نہ کرے، اس وقت تک طالب علم کا دل اپنے افکار سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ تجھے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے جو مدارج عالیہ عطا کیے گئے ہیں ان کی تشریح و تفصیل ہی کا نام علم ہے، فطرت کی جو نشانیاں تجھے دی گئی ہیں علم ان کی تفسیر کے سوا اور کیا ہے؟ تجھے پہلے اپنے وجود کو محسوسات کی آگ میں تپانا چاہیے اس کے بعد کہیں تو یہ سمجھ سکے گا کہ تیری چاندی (اسلامی تہذیب) اور غیروں کے تانبے (مغربی تہذیب) میں کیا فرق ہے۔ حقیقت کا علم سب سے پہلے حواس ظاہری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا آخری درجہ حضور قلب سے میسر آتا ہے، معرفت حق کا یہ اعلیٰ مقام شعور میں نہیں سما سکتا، اس سے ماورا ہوتا ہے۔
××××××
صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کر دے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کر دے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔
××××××
دین کا راز اسی میں ہے کہ آدمی سچ بولے، حلال روزی کھائے اور خلوت میں ہو یا جلوت میں ہر وقت جمال حقیقی کا نظارہ کرتا رہے۔ (اے بیٹے) دین کے راستہ میں ہیرے کی طرح سخت ہو کر زندگی بسر کر، دل کا رشتہ خدا کے ساتھ باندھ لے، پھر بے خوف و خطر جیے جا،
××××××
دین یہی ہے کہ حق کی طلب و جستجو کے لیے اپنے وجود کو جدوجہد کی آگ میں جھونک دیا جائے، دین کا آغاز ادب سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا عشق ہے، پھول کی عزت و آبرو اس کے رنگ اور اس کی خوشبو کے باعث ہے۔ جس کسی میں ادب نہیں وہ بے رنگ و بو ہے، اس لیے اس کی کوئی آبرو نہیں، جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میری یہ حالت ہو جاتی ہے جیسے میرا دن، رات کی طرح تاریک ہو گیا ہو، میرے سینہ میں تپش بڑھ جاتی ہے اور میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میں اپنے زمانے میں پشیمان ہو کر گزرے ہوئے زمانوں میں روپوش ہو جاتا ہوں (اسلام کا معیار ادب یہ تھا کہ) عورت کا ستر اس کا شوہر ہے یا قبر کی مٹی اسے چھپا سکتی ہے اور مرد کا ستر یہ ہے کہ وہ برے دوست کی صحبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ کافر اور مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں، کسی کے لیے بری بات زبان سے نکالنا گناہ ہے۔ آدمیت یہی ہے کہ ہر آدمی کا احترام بحیثیت آدمی ہونے کے کیا جائے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ آدمی کا مقام کس قدر بلند ہے (تمام مخلوقات سے اشرف ہے) آدمیت کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہر فرد کا ربط و ضبط قائم رہے۔ اس لیے تجھے چاہیے کہ دوستی کا طریقہ اختیار کرے، جو شخص عشق کا بندہ ہو جاتا ہے وہ اپنا راستہ خدا کے احکام سے حاصل کرتا ہے اور خدا کے پیدا کیے ہوئے مومنوں اور کافروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔ تو کفر اور دین دونوں کو اپنے دل کی پنہائی میں سمیٹ لے، دل اگر دل ہی سے گریز کرنے لگے تو اس کی حالت قابل افسوس ہے، اگرچہ دل مٹی اور پانی کے قید خانہ میں بند ہے، (جسم کے اندر محدود ہے) مگر ساری کائنات دل ہی کی کائنات ہے۔
اس مضمون کو نظم کرنے سے کوئی فائدہ تو نہیں، کیونکہ جو کچھ میرے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے وہ الفاظ کے ذریعہ باہر نہیں آتا۔ اگرچہ میں نے سینکڑوں نکتے بغیر کوئی پردہ رکھے ہوئے صاف صاف بیان کر دئیے ہیں مگر ایک نکتہ میرے ذہن میں ایسا ہے جو اس کتاب میں نہیں سماتا۔ اگر میں اسے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتا ہے، الفاظ و آواز کا پیرایہ اختیار کرنے سے مفہوم پر اور زیادہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو میری نگاہ سے اس کے سوز کی حقیقت معلوم کرے یا جو آہیں میں صبح کے وقت بھرتا ہوں ان میں اس حقیقت کا سراغ تلاش کرے۔
××××××
سب سے پہلا سبق تجھے تیری ماں نے پڑھایا تھا، اسی کی خوشگوار ہواؤں سے تیرے فہم و شعور کا غنچہ کھل کر پھول بنا تھا۔ تیری یہ کیفیات قلب اسی کی نسیم تربیت سے فیض یافتہ ہیں، تیرا وجود ہم دونوں کی متاع گراں مایہ ہے مگر تیری قدر و قیمت جو کچھ ہے وہ ماں کی وجہ سے ہے۔ تو نے اسی کی زبان سے لا الہ الا اللہ کا سبق پڑھا ہے۔ یہ دولت جاوید تو نے اسی سے حاصل کی ہے (اب حصول علم کے بعد) بیٹے! ذوق نظر مجھ سے حاصل کر، لا الہ الا اللہ کی آگ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ لا الہ الا اللہ کو صرف زبان سے ادا کرنا کافی نہیں، تو اپنے دل و جان سے اس کا اعلان کر (کہ سوائے اللہ کے کوئی دوسرا معبود نہیں) تاکہ تیرے جسم سے تیرے قلب کی آواز آنے لگے (اور تیرا ظاہر و باطن ایک ہو جائے)۔ (یہ عجیب بات ہے کہ) مومن اور دوسروں کے سامنے پٹکا باندھ کر کھڑا ہو، (ان کی غلامی کرے)، (خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت پر) ایمان رکھنے والا اور قوم کا غدار ہو۔ افلاس اور نفاق کی زندگی گزارے (یہ کس طرح ممکن ہے؟) (اس کی حالت تو آج یہ ہے کہ) اس نے دین و ملت کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا ہے، اپنے گھر کی ساری پونجی جلا دی ہے اور خود گھر کو بھی آگ لگا چکا ہے۔ پہلے اس کی نماز میں لا الہ الا اللہ کا عشق ہوتا تھا مگر اب نہیں، پہلے اس کے نیاز عبودیت میں خودی کے ناز بھی ہوا کرتے تھے مگر اب موجود نہیں، اس کے روزے نماز میں وہ پہلے کا سا نور، وہ عشق کی روشنی، اب باقی نہیں رہی، اس کی کائنات میں اب حقیقت کا کوئی جلوہ نظر نہیں آتا۔ یہ وہ مسلمان تھا جس کے لیے زندگی کا سارا ساز و سامان صرف اللہ کی ذات تھی (اب اس کی یہ حالت ہے کہ) مال کی محبت اور موت کا خوف اس کے لیے فتنہ بنا ہوا ہے۔ عشق کی وہ سرمستی اور عمل کا وہ ذوق و سرور، جو اس کی خصوصیات تھیں، اب ختم ہو چکی ہیں، اس کا دین بس کتاب کے اندر رہ گیا ہے اور وہ خود مردوں کی طرح قبر میں دفن ہے۔ موجودہ زمانے کے ساتھ اس کی صحبت رنگ لائی ہے، اب اس نے دو نئی پیغمبروں کی شریعتیں اپنا لی ہیں۔ ان دو پیغمبروں میں سے ایک ایرانی تھا (بہاء اللہ) اور دوسرا ہندوستانی نسل سے تھا (مرزا احمد قادیانی)۔ پہلا حج سے بیگانہ تھا اور دوسرے کو جہاد سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب جہاد اور حج جیسے فرائض واجبات دین میں شامل نہ رہے تو روزے اور نماز کی روح تو سلب ہی ہو گئی۔ جب نماز اور روزے میں کوئی روح باقی نہ رہی تو فرد کی بے راہ روی اور ملت کا انتشار لازمی تھا۔ جب لوگوں کے سینوں میں تعلیمات قرآنی کی گرمی باقی نہ رہی ہو (اور ان کے دل سرد پڑ گئے ہوں) تو ان سے فلاح و بہبود کی امید کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمان اپنی شخصیت کی نشوونما سے غافل ہو چکا ہے
××××××
مومن کا سجدہ وہ سجدہ تھا جس سے زمین لرز لرز گئی اور جس کی مراد پر چاند اور سورج گردش کرتے رہے ہیں، اگر اس سجدہ کا نشان پتھر پر پڑ جائے تو وہ بھی دھواں بن کر ہوا میں اڑنے لگے مگر اس زمانے میں (جو سجدہ کیا جا رہا ہے) اس کی حیثیت ماتھا ٹیکنے کے سوا اور کچھ نہیں، اس کے اندر بڑھاپے کی کمزوری ہی کمزوری نظر آتی ہے (نماز کے) سجدہ میں جو ربی الا علیٰ (میرا رب سب سے بلند ہے) کہا جاتا ہے اس کا دبدبہ کہاں باقی رہ گیا ہے؟ یہ سجدہ کی خطا ہے یا خود ہمارا قصور ہے؟ (غیروں کو دیکھئے تو ان کا) ہر فرد اپنے مقررہ راستے پر اڑا چلا جا رہا ہے مگر ہماری سانڈنی ہے کہ بے لگام ہو چکی ہے اور فضول ادھر ادھر دوڑ رہی ہے۔ وہ مسلمان جس کی ہدایت کے لیے قرآن اترا تھا، ذوق طلب سے محروم ہو گیا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے! اس پر جتنا تعجب کیا جائے کم ہے۔ ××××××
اگر خدا تجھے صاحب نظر بنا دے تو اس زمانے کی طرف دیکھ جو چلا آ رہا ہے۔ عقلیں خدا کے خوف سے آزاد ہو گئی ہیں اور دل سوز و گداز سے خالی ہیں، آنکھوں میں شرم و حیا باقی نہیں رہی اور نگاہیں حقیقت کو چھوڑ کر مجاز میں ڈوب گئی ہیں۔ علم اور فن، دین اور سیاست، عقل اور دل، یہ سب کے سب پانی اور مٹی کے ارد گرد چکر کاٹ رہے ہیں (صرف مادہ کو مرکز فکر و عمل بنائے ہوئے ہیں) وہ ایشیا جسے سورج کا وطن پیدائش کہا جاتا ہے، آج دوسروں کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ سے پردہ کیے ہوئے ہیں۔ اس کے دل و دماغ میں اب تازہ بہ تازہ خیالات و جذبات پیدا ہی نہیں ہوتے، اب اس فرسودہ پونجی کو جَو کے دو دانوں کے عوض خریدنے کے لیے کوئی تیار نہیں، اس پرانی دنیا میں اس کی زندگی غیر متحرک، خاموش اور برف کی طرح جمی ہوئی ہے اور چلنے پھرنے یا سفر کرنے کا ذوق اس میں مطلق نہیں، اس کی قوت فکر کو اگر ہرن سے تشبیہ دی جائے تو وہ ایک ایسا ہرن ہے جو لنگڑا اور اپاہج ہو چکا ہے اور جسے ملاؤں اور بادشاہوں نے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کی عقل، اس کا مذہب، اس کی حکمت و دانش اور اس کے ننگ و ناموس فرنگی حکمرانوں کے شکار بند میں بندھے ہوئے ہیں (وہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال کر سکتے ہیں) میں نے اس کے افکار کی دنیا پر ہلہ بول دیا ہے اور اس کے تمام رازوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اپنے سینہ کے اندر میں نے دل کا خون کر لیا ہے (فکر و نظر کی راہ میں سعی و کاوش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا)، تب کہیں جا کر اس کی دنیا کو دگرگوں کر سکا ہوں۔
××××××
عہد حاضر کے لوگوں کا انداز طبیعت دیکھ کر، میں نے دو طرح کی تصنیفات کی ہیں (جنہیں یہ سمجھنا چاہیے) دو کوزوں میں دو سمندر بن کیے ہیں۔ ایک وہ ہے جو نثر میں منطقیہ دلائل کے ساتھ لکھی گئی ہے اور جس میں فلسفیانہ و متکلمانہ انداز تحریر اختیار کیا گیا ہے (اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل جدید) تاکہ لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما سکوں۔ دوسری قسم وہ ہے جس میں فرنگیوں کے انداز پر تشبیہ و استعارہ اور رمز و کنایہ سے کام لیا گیا ہے، اسے چنگ و رباب کے تاروں سے نکلا ہوا ایک نالہ مستانہ سمجھنا چاہیے۔ پہلی قسم فکر پر اور دوسری ذکر پر مبنی ہے، (اے بیٹے) خدا ایسا کرے کہ تو ان دونوں کا وارث بن جائے، میں ایک نہر ہوں جو ان دونوں سمندروں سے مل کر نکلتی ہے۔ میں نے ان دونوں کو الگ الگ بھی کیا ہے پھر خود ہی ان سمندروں کو ملا بھی دیا ہے (میرا فلسفہ اور میری شاعری دونوں میری شخصیت میں مدغم ہو گئی ہیں) چونکہ میرے زمانہ کا مزاج دوسری طرح کا تھا اس لیے میری طبیعت نے بھی دوسرے ہی انداز میں ہنگامہ برپا کیا ہے۔
××××××
آج کے نوجوان تشنہ لب ہیں، ان کے دل کا پیالہ شراب عشق سے خالی ہے، چہرے دھلے دھلائے، صاف ستھرے (فیشن کے دل دادہ) مگر جان اندھیروں میں گھری ہوئی ہے، (ایمان کی شمع فروزاں گل ہو چکی ہے)، (بس علوم مغربی سے) دماغ روشن ہیں، نہ (زندگی کے مسائل پر) ان کی نظر ہے، نہ (حقائق کے متعلق انہیں) یقین حاصل ہے، نہ (مستقبل کے بارے میں انہیں کچھ) امید ہے، انہوں نے دنیا میں آنکھ کھول کر کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ ان نا اہلوں کی حالت یہ ہے کہ اپنی خودی سے تو انکار کرتے ہیں اور غیروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں (جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ) بت خانہ تعمیر کرنے والا معمار ان کی مٹی سے بنی ہوئی اینٹوں کو اپنی عمارت میں لگا رہا ہے (اغیار اپنی ترقی کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں) ہماری درسگاہوں کو (جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں) اپنی منزل مقصود ہی کا پتا نہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچنے (اور حقیقی مقصد کی طرف انہیں) متوجہ کرنے کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آتا۔ ان درسگاہوں نے نوجوانوں کے دلوں سے فطرت کے نور کو بالکل دھو دیا ہے، ان میں سے ایک طالبعلم بھی ایسا نہیں نکلا جسے (گلشن اسلام کا) گل رعنا کہا جا سکے۔ ہمارا معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے، ہمارے معلمین ابتدا ہی سے شاہین کے بچوں میں بطخوں کی عادتیں پیدا کرتے ہیں۔ علم جب تک زندگی سے سوز و ساز حاصل نہ کرے، اس وقت تک طالب علم کا دل اپنے افکار سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ تجھے اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے جو مدارج عالیہ عطا کیے گئے ہیں ان کی تشریح و تفصیل ہی کا نام علم ہے، فطرت کی جو نشانیاں تجھے دی گئی ہیں علم ان کی تفسیر کے سوا اور کیا ہے؟ تجھے پہلے اپنے وجود کو محسوسات کی آگ میں تپانا چاہیے اس کے بعد کہیں تو یہ سمجھ سکے گا کہ تیری چاندی (اسلامی تہذیب) اور غیروں کے تانبے (مغربی تہذیب) میں کیا فرق ہے۔ حقیقت کا علم سب سے پہلے حواس ظاہری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے اور اس کا آخری درجہ حضور قلب سے میسر آتا ہے، معرفت حق کا یہ اعلیٰ مقام شعور میں نہیں سما سکتا، اس سے ماورا ہوتا ہے۔
××××××
صبح کی ہوا جب چلتی ہے تو چراغ گل ہو جاتا ہے مگر اسی ہوا سے لالہ اپنے پیالے میں شراب انڈیل دیتا ہے۔ (سرخ ہو کر دمکنے لگتا ہے)،(اگر اہل نظر کی ہدایت چاہتا ہے تو) کم کھا، کم سو اور بولنا بھی کم کر دے، پرکار کی طرح خود اپنی شخصیت کے گرد چکر کاٹتا رہ (تمام تر توجہ اپنی خودی پر مبذول کر دے) ملا کے نزدیک خدا کا منکر کافر ہے اور میرے نزدیک جو اپنی خودی کا منکر ہو زیادہ بڑا کافر ہے۔ خدا کے وجود سے انکار کرنے والا تو صرف حد درجہ جلد بازی کا مجرم ٹھہرے گا مگر جس نے خودی سے انکار کر دیا وہ تو حد درجہ جلد باز بھی ہے اور بڑا ظالم اور بڑا جاہل بھی۔ اخلاص کا طریقہ بڑی مضبوطی سے اختیار کر، بادشاہوں اور امیروں کا خوف دل سے نکال دے، قہر ہو یا رضا، دونوں صورتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی اور امیری، دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہ۔ اگر کسی حکم کی تعمیل مشکل ہے تو اس کے لیے تاویلیں تلاش نہ کر، اپنے ضمیر کی روشنی کے سوا کسی اور قندیل کی روشنی کا جویا نہ ہو، جانوں کا تحفظ مسلسل و بے حساب ذکر و فکر سے کام لیا جائے، زمین و آسمان پر حکومت کرنے کی بس یہی صورت ہے کہ جان اور جسم کی حفاظت مذکورہ بالا اصول پر کی جائے۔ سفر کا مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ گھومنے پھرنے کی لذت حاصل ہو، اگر تیری نظر اڑتے وقت بھی اپنے آشیانہ پر لگی ہوئی ہے تو پرواز ہی کیوں کرتا ہے؟ (سکون چاہتا ہے تو ترقی کا نام نہ لے) چاند اس لیے گردش میں ہے کہ اپنا مقام حاصل کر لے (ہلال سے بدر ہو جائے) مگر آدمی کے سفر کی منزل مقصود تو یہی ہے کہ وہ برابر چلتا رہے (ایک مقام سے دوسرے مقام کا سلسلہ لامتناہی جاری رہے) پرواز میں جو لذت ہے اسی کا نام زندگی ہے، کسی آشیانے میں قیام کرکے بیٹھ جانا انسان کی فطرت کے لیے سازگار نہیں، کووں اور گدھوں کا رزق قبروں کے اندر ہوتا ہے مگر بازوں کا رزق چاند اور سورج کی فضاؤں میں ہے۔
××××××
دین کا راز اسی میں ہے کہ آدمی سچ بولے، حلال روزی کھائے اور خلوت میں ہو یا جلوت میں ہر وقت جمال حقیقی کا نظارہ کرتا رہے۔ (اے بیٹے) دین کے راستہ میں ہیرے کی طرح سخت ہو کر زندگی بسر کر، دل کا رشتہ خدا کے ساتھ باندھ لے، پھر بے خوف و خطر جیے جا،
××××××
دین یہی ہے کہ حق کی طلب و جستجو کے لیے اپنے وجود کو جدوجہد کی آگ میں جھونک دیا جائے، دین کا آغاز ادب سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا عشق ہے، پھول کی عزت و آبرو اس کے رنگ اور اس کی خوشبو کے باعث ہے۔ جس کسی میں ادب نہیں وہ بے رنگ و بو ہے، اس لیے اس کی کوئی آبرو نہیں، جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میری یہ حالت ہو جاتی ہے جیسے میرا دن، رات کی طرح تاریک ہو گیا ہو، میرے سینہ میں تپش بڑھ جاتی ہے اور میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میں اپنے زمانے میں پشیمان ہو کر گزرے ہوئے زمانوں میں روپوش ہو جاتا ہوں (اسلام کا معیار ادب یہ تھا کہ) عورت کا ستر اس کا شوہر ہے یا قبر کی مٹی اسے چھپا سکتی ہے اور مرد کا ستر یہ ہے کہ وہ برے دوست کی صحبت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ کافر اور مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں، کسی کے لیے بری بات زبان سے نکالنا گناہ ہے۔ آدمیت یہی ہے کہ ہر آدمی کا احترام بحیثیت آدمی ہونے کے کیا جائے، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ آدمی کا مقام کس قدر بلند ہے (تمام مخلوقات سے اشرف ہے) آدمیت کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہر فرد کا ربط و ضبط قائم رہے۔ اس لیے تجھے چاہیے کہ دوستی کا طریقہ اختیار کرے، جو شخص عشق کا بندہ ہو جاتا ہے وہ اپنا راستہ خدا کے احکام سے حاصل کرتا ہے اور خدا کے پیدا کیے ہوئے مومنوں اور کافروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے۔ تو کفر اور دین دونوں کو اپنے دل کی پنہائی میں سمیٹ لے، دل اگر دل ہی سے گریز کرنے لگے تو اس کی حالت قابل افسوس ہے، اگرچہ دل مٹی اور پانی کے قید خانہ میں بند ہے، (جسم کے اندر محدود ہے) مگر ساری کائنات دل ہی کی کائنات ہے۔