کئ دفعہ علامہ البانی رحمہ اللہ ضعیف حدیث کے متن کو متعدد طرق کی بنا پر صحیح کہتے ھیں. انکا منہج کیا ھے؟ کیا انکی ایسی احادیث قابل اعتماد ھیں جن میں انھوں نے ایسا منہج اختیار کیا ھے؟
یہ منہج شیخ البانی کا نہیں بلکہ محدثین کا منہج ہے۔ ضعف یسیر والی متعدد اسانید ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہوئے حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔ البتہ اس بات کا فیصلہ کرنا کہ کون سی حدیث حسن بنتی ہے اور کون سی نہیں، یہ محدث کے اجتہاد پر مبنی ہے، اور باقی مجتہدین کی طرح اس میں وہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، یہ ان کے دلائل سے پتہ چلے گا۔
علوم حدیث کا یہ فن مشکل ترین سمجھا جاتا ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
إن مما ينبغى ذكره بهذه المناسبة أن الحديث الحسن لغيره , وكذا الحسن لذاته من أدق علوم الحديث وأصعبها , لأن مدارهما على من اختلف فيه العلماء من رواته , ما بين موثق ومضعف , فلا يتمكن من التوفيق بينها , أو ترجيح قول على الأقوال الأخرى , إلا من كان على علم بأصول الحديث وقواعده , ومعرفة قوية بعلم الجرح والتعديل ومارس ذلك عمليا مدة طويلة من عمره , مستفيدا من كتب التخريجات ونقد الأئمة النقاد عارفا بالمتشددين منهم والمتساهلين , ومن هم وسط بينهم , حتى لا يقع فى الإفراط والتفريط , وهذا أمر صعب قل من يصير له , وينال ثمرته , فلا جرم أن صار هذا العلم غريبا من العلماء والله يختص بفضله من يشاء.
ترجمہ: اس بات کی مناسبت سے یہ ذکر کر دینا چاہیے کہ حسن لغیرہ اور اسی طرح حسن لذاتہ حدیث کے سب سے دقیق اور مشکل ترین علوم میں سے ہیں، کیونکہ ان کا مدار ان رواۃ پر ہوتا ہے جن کی توثیق وتضعیف میں علماء نے اختلاف کیا، لہٰذا ان میں ایک قول کو دوسرے قول پر توفیق یا ترجیح دینا محض اسی کا کام ہے جو اصول وقواعدِ حدیث سے خوب واقف ہو، علم الجرح والتعدیل سے قوی واقفیت رکھتا ہو، اور اپنی عمر کے ایک طویل عرصے تک وہ عملا اس میں تجربہ رکھتا ہو، اور اس کے لئے کتب تخریجات اور ائمہ نقاد کے نقد سے استفادہ کرے، محدثین میں سے متشدد، متساہل، اور متوسط نقاد سے واقف ہو، اور افراط وتفریط میں نہ پڑے۔ یہ ایک نہایت مشکل کام ہے، بہت کم لوگ ہیں جو اس فن کو سیکھتے ہیں اور اس کے ثمرات پاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ علم علماء میں کمیاب ہے، اور اللہ ہی اپنے فضل سے جسے چاہے مختص کرتا ہے۔ (ارواء الغلیل: ج 3 ص 363)
لہٰذا یہ حدیث کی مشکل ترین اقسام میں سے ہے اور اسی لئے کئی محدثین سے اس میں غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ اور شیخ البانی سے بھی اس میں کئی غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن جہاں تک محض اس منہج کی بات ہے تو یقینا یہ محدثین کا منہج ہے، اور شیخ زبیر علی زئی ان منفرد علماء میں سے ہیں جو اس فن کی حجیت کو ہی تسلیم نہیں کرتے تھے، حالانکہ یہ ایک شاذ قول ہے۔
جہاں تک خاص اس حدیث کا تعلق ہے جس میں رات کو سرمہ لگانے کی بات ہے، تو یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جن میں سے بعض تو شاید حسن لذاتہ بھی ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی متعدد، یسیر ضعف والی احادیث تو بالاولی حسن کہلانے کا لائق ہیں۔ اور یہی قول شیخ شعیب الارناؤط ودیگر علماء کا بھی ہے۔
واللہ اعلم۔