سب کچھ ایک دقییق تحقیق کا بعد ہی سرانجام پاتا ہے -
محمد علی جواد صاحب !لکھنے کے بعد ایک مرتبہ نظرثانی ضرور کیاکیجئے،ہوسکتاہے الفاظ کے ساتھ ساتھ فکر کی بھی اصلاح ہوجائے، ورنہ آپ کی تحقیق اتنی ہی دقیق ہوگی جتناکہ آپ نے لکھاہے
آیا راوی سقہ ہے یا غیر سقہ،
اپنی تحریر پر خود غورکرلیاکریں،ورنہ اس فورم کے ایک علمی نگراں صاحب اس طرح کی ٹائپنگ کی غلطیاں دیکھ کر بہت دور تک پہنچ جایاکرتے ہیں۔
محدثین کی تحقیق کا دارو مدار راوی کی صحت پر ہوتا ہے اور روایت کی سند پر ہوتا ہے -اور سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے-سند کو روایت و درایت کے مسلمہ اصولوں کے تحت پرکھا جاتا ہے
اگر کتب مصطلح حدیث کی تھوڑی ورق گردانی کی زحمت گواراکرلیاکریں تو معلوم ہوگاکہ راوی پر محدثین کا حکم لگانا زیادہ تراجتہادی ہوتاہے،کم تر غیراجتہادی ہوتاہے،ایک شکل تویہ ہے کہ کسی امام یامحدث نے کسی راوی کو جھوٹ بولتے ،غلط کام کرتے دیکھاتواس کا ذکر کردیا،یہ تو گواہی کے قبیل سے ہے،لیکن راوی پر زیادہ ترحکم اس طرح لگایاجاتاہے کہ ایک محدث یاحدیث کاامام کسی راوی کی تمام مرویات کو جمع کرتاہے اوراس کی مرویات کا تقابل اس کے شیوخ کے ساتھ شریک دیگر روات کی روایت سے کرتاہے اوراس بنیادی پر وہ راوی پر ضعیف یاثقہ کاحکم لگاتاہے اوریہ اجتہادی امر ہے جس کی صراحت امام ترمذی سے لےکر ابن تیمیہ تک سبھی نے کی ہے۔اس کو غیراجتہادی کہناصرف یہ بتاناہے کہ آپ نے اس موضوع پر مطالعہ نہیں کیاہے۔
محدثین کی بیان کردہ سند پراس وقت تک اعتماد کیا جاتا ہے جب کہ تک ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ ان اصولوں و ضوابط پر پورا اتررہی ہے جو محدثین نے اس کے صحیح ہونے کے لئے وضع کیے ہیں-
یہ ایک عامی شخص کو کیسے معلوم ہوگا؟یاتو ہرشخص محدث بن جائے جوممکن نہیں اور جب ہرشخص محدث نہیں بن سکتاتواسے کیسے معلوم ہوگا اورکیسے اطمینان ہوگاکہ یہ روایت ان اصول وضوابط پر پورااتررہی ہے جو محدثین نے وضع کیاہے؟
اب ظاہر ہے کہ ایک عامی کو جو دلیل چاہیے وہ پہلے سے محدث کی تحقیق میں موجود ہے - اب اگر دور حاضر کے محدث "علامہ البانی"رحمہ الله" وغیرہ کی تحقیق قرون اولیٰ کے محدثین کے اجماعی موقف کے مطابق ہے تو ان کی تحقیق قابل قبول سمجھی جائے گی اور اگر اجماعی موقف کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں -
اولاتو احادیث کے صحت وضعف میں خود محدثین میں اختلاف ہے، اصول حدیث میں سے بھی بعض اصولوں میں اختلاف ہمیں ملتاہے جو کتب مصطلح حدیث میں موجود ہے،پھر احادیث کااجماعی موقف ایک عامی کو کیسے معلوم ہوگا، یاتو وہ تحقیق کرے کہ دیگر تمام محدثین نے اس حدیث کے تعلق سے کیاہے اورپھر اس کو البانی کے حکم سے ملاکردیکھئے، اس کی فرصت کتنے افراد کو حاصل ہے؟
فرصت کی بات چھوڑدیں ،البانی نے جس حدیث پر صحت کا حکم لگایاہے وہ حدیث محدثین کے اجماعی موقف کے مخالف ہے یاموافق ہے اس کی تحقیق کی صلاحیت کیاہراہلحدیث کو حاصل ہے؟اگرہاں میں جواب ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوراگرنامیں جواب ہے تو پھر بات وہیں اٹک جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی ،تواس طویل مراسلے کا فائدہ کیاہوا
جب کہ آئمہ متقدمین کی بات صرف ان کی اپنی ذاتی آراء پر مبنی ہوتی ہے جو وہ ان مسائل سے متعلق پیش کرتے ہیں جن کا تعلق دین اسلام کے کی جزویات سے ہوتا ہے-
کاش یہ جملہ تحریر کرنے سے قبل اس پر غورکرتے اور سوچتے کہ میں کیالکھ رہاہوں،کیاائمہ مجتہدین نے جومسائل وضع کئے ہیں وہ ان کی ذاتی آراء ہیں، اناللہ واناالیہ راجعون۔یہ ایک فطری چیز ہے کہ خالی گھڑا میں تھوڑا پانی زیادہ شور کرتاہے اور سمندر اپنی بے پناہ وسعت کے باوجود بیشتر پرسکون اورخاموش رہتاہے ،ہماری خواہش یہ ہے کہ
کیف پیداکرسمندر کی طرح
وسعتیں ،خاموشیاں،گہرائیاں
امام ابوحنیفہ کو ہم چھوڑدیتے ہیں ان پرآپ کو اعتماد نہیں ہے لیکن دیگر ائمہ فقہاء جوگزرے ہیں ان کے تعلق سے بھی آپ کی رائے اگریہ ہے کہ ان کے ذکر کردہ فقہی مسائل ان کی ذاتی آراء ہیں تویہ نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ان کے ساتھ بھی ظلم ہے اور میں کہوں گاکہ یہ ان کی توہین بھی ہے۔
حضرات ائمہ مجتہدین اس سے بہت دور تھے کہ وہ فقہی مسائل محض اپنی رائے کے طورپر ذکر کریں
اصل غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ بعض حضرات مجتہدین نے تواضع اورانکساری کے طورپر (جوایک مومن مخلص کی شان ہونی چاہئے)فقہی مسائل کو اپنی رائے کے طورپر بیان کیا،اس کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کو واقعتا ان کی ذاتی رائے سمجھ لینا کم فہمی ہے،جیسے کہ آپ کے ایک وسیع المطالعہ والعلم استاد اپنے کو احقر العباد لکھتے ہیں،توکیااپ بھی ان کو احقر العباد سمجھناشروع کردیں گے؟آپ کاایک بزرگ جس نے بڑی خدمات انجام دی ہیں، تواضع اورانکساری میں کہتاہے کہ میں نے کچھ نہیں کیاتوکیا واقعتاآپ یہ سمجھ لیں گے کہ اس نے کچھ نہیں کیا،جملوں کو ،تحریروں کو صحیح تناظرمیں پڑھنے اورسمجھنے کی عادت ڈالیے ،اس طرزفکر سے کسی دوسرے کا کچھ نقصان توہونے سے رہا،خوداپنارہاسہابھرم بھی ختم ہوگا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے یہ مقلد خوصوصاً "احناف" ایک طرف دن رات تقلید کا ڈھندھوڑا پیٹتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی امام کے اقوال کے مخالف عمل پیرا ہیں-
عموماًغیرمقلد یہ اعتراض کرتے ہیں لیکن اس طرح کے جملوں کا صحیح پس منظر یاتوانہیں معلوم نہیں ہوتایاپھر وہ تجاہل عارفانہ برت کر عوام کو مغالطہ میں رکھنااورڈالناچاہتے ہیں،
اس طرز کے اوراس قبیل کے جتنے جملے ہیں کہ میری رائے کے خلاف جب حدیث مل جائے توپھر اس کو دیوار پر ماردو،میرے رائے پر پیشاب کردو،میری رائے کی دلیل جانوپھراس پر عمل کرو،بغیر دلیل جانے میری رائے اختیار نہ کرو،وغیرذلک،آپ غورکریں گے توپائیں گے کہ اس طرح کے تمام جملے ہرایک امام نے اپنے انہیں شاگردوں سے کہاہے جوعلم میں ان کے جانشیں تھے،خود بھی بڑے صاحب علم تھے،مجھے باوجود تلاش اورجستجو کے کہیں یہ بات نہیں ملی کہ کسی ایک مجتہد نے بھی کسی عامی یاکسی جاہل سے یہ بات کہی ہے کہ میری رائے پر عمل مت کرو ،میری رائے کے خلاف حدیث دیکھوتو اسے دیوار پر ماردووغیرذلک۔یہ ہمیں بتاتاہے کہ ان بزرگوں نے ،ان فقہاء نے ،ان مجتہدین نے اس باب میں عوام اورخواص کے درمیان فرق کیاہے۔اہل علم کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کی رائے سے اختلاف کریں، ان کی رائے کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں اورترک واختیار کافیصلہ کریں لیکن عوام کیلئے انہوں نے یہی بات پسند کی ہے کہ وہ علماء سے مسائل پوچھ کرعمل کریں،خود رائی سے کام نہ لیں۔
محمد علی جواد اور دیگر صاحبان جو اس بحث میں حصہ لیناچاہتے ہیں،ان سے گذارش ہے کہ وہ بحث برائے بحث سے پرہیز کریں۔
وماتوفیقی الاباللہ