• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق پر اعتماد کیا تقلید ہے؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اگر میں کسی حدیث کی تحقیق دیکھنا چاہوں اور علامہ البانی کی تحقیق پر اعتماد کر لوں تو کیا یہ البانی رحمہ اللہ کی تقلید ہو گی یا نہیں؟مثلا ایک حدیث ہے اس پر علامہ البانی نے ضعف کا حکم لگایا ہے، میں ماہر علوم الحدیث نہیں ہوں میں اعتماد کر لوں اور حدیث کو ضعیف کہوں یا ان کے صحیح کہنے پر صحیح کہوں تو کیا یہ ان کی تقلید ہو گی؟
ارسلان بھائی آپ کا سوال اسی نوعیت کا ہے جیسے ایک غیر عالم کسی عالم سے شرعی معالے میں کوئی رہنمائی لیتا،اب کیا وہ اس عالم کا مقلد ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ کی بات تو سو فیصد ٹھیک ہے مگر محترم ارسلان بھائی کے سوال کی وضاحت میں اسکو لینا لوگوں کے لئے شاید مشکل ہو کیونکہ آپ نے جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر عالم کسی عالم سے کسی مسئلہ میں دلیل پوچھے اور پھر اسکی معرفت حاصل کر لے جبکہ اوپر محترم ارسلان بھائی کا سوال شاید بغیر معرفت کے کسی کی بات پر اعتماد کرنے کا تھا
میں بشرط فرصت بعد میں اس بارے میں کچھ لکھوں گا ان شاءاللہ
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
میں سمجھتا ہوں
شیخ البانی رحمہ اللہ کسی حدیث پر جو ضعیف یا صحیح کا حکم لگاتے ہیں وہ ’’تحقیق‘‘کر کے لگاتے ہیں نہ کہ کسی محدث کی تقلید میں ۔اور وہ تحقیق دلیل کہلاتی ہے جس میں مکمل حوالہ موجود ہوتا ہے ۔اور تقلید بلا دلیل پیروی کا نام ہے نہ کہ کسی کی تحقیق یعنی اس دلیل کا اتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے۔اگر اس تحقیق سے متعلق کسی قسم کا اشکال ہو تو کسی بھی عالم دین سے یا اس حوالے کو چیک کر کے اسکی حقیقت کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
محمدکاشف صاحب کے جواب میں ایک غلطی ہے،جس چیز کو وہ البانی کی تحقیق کہہ رہے ہیں وہ دراصل ان کی رائے ہے،دلائل کی بنیاد پر انسان ایک رائے اختیار کرتاہے اوراسی کواجتہاد کہتے ہیں، اگرائمہ متقدمین کی فقہی آراء کو دلیل جانے بغیرماننا تقلید ہے توپھر متقدمین محدثین یاماضی قریب ودورحاضر کے کسی اہل علم کی رائے پر اعتماد تقلیدکیوں نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟جب کہ یہ بات کتب مصطلح حدیث میں اورامام ترمذی نے علل میں اوردیگر محدثین نے بھی کھل کر لکھی ہے کہ جس طرح ائمہ فقہ کے مسائل کے سلسلہ میں ،استنباط احکام کے سلسلے میں اجتہاد ہوتے ہیں، اسی طرح بعینہ محدثین کرام کے احادیث پر حکم لگانے میں ،راویوں پر حکم لگانے میں اجتہاد ہوتاہے، یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ اگر کوئی کسی فقہ کےا مام کی رائے پر اعتماد کرے،دلیل جانے بغیر اس کی رائے کی پیروی کرے تو وہ مقلد ہوگیااوراگرکوئی ائمہ محدثین کے حدیث پر یاراوی پر حکم لگانے کے سلسلے میں اعتماد کرے تو وہ محقق ہوگیا۔
 
شمولیت
جنوری 03، 2014
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
59
تمام احباب کو اسلام علیکم

جس چیز کو وہ البانی کی تحقیق کہہ رہے ہیں وہ دراصل ان کی رائے ہے،دلائل کی بنیاد پر انسان ایک رائے اختیار کرتاہے اوراسی کواجتہاد کہتے ہیں،
محترم عرض ہے کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آپ اس بات سے متفق ہیں کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی رائے تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر ہے۔اور اسی پر وہ اجتہاد کرتے تھے اور یہ بھی کہ دلیل کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی رائے اجتہاد کہلاتی ہے۔

اگرائمہ متقدمین کی فقہی آراء کو دلیل جانے بغیرماننا تقلید ہے توپھر متقدمین محدثین یاماضی قریب ودورحاضر کے کسی اہل علم کی رائے پر اعتماد تقلیدکیوں نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وہ اس لیے تقلید نہیں ہے کہ متقدمیں محدثیں یا ماضی قریب و دورِحاضر کے اہل علم کی رائے دلیل کی بنیاد پر ہے اور جن فقہاء کی بات آہ کر رہے ہیں انکی رائے بغیر دلیل کےہے جیسے کہ آپ نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے تو یہ ایک جیسی کیسے ہو سکتی ہے۔

جب کہ یہ بات کتب مصطلح حدیث میں اورامام ترمذی نے علل میں اوردیگر محدثین نے بھی کھل کر لکھی ہے کہ
محترم اگر حوالہ دے دیں تو نوازش ہو گی۔

جس طرح ائمہ فقہ کے مسائل کے سلسلہ میں ،استنباط احکام کے سلسلے میں اجتہاد ہوتے ہیں،
محترم اگر تو آپ جن فقہاء کی بات کر رہے ہیں وہ ان مسائل کا استنباط دلیل سے کرتے ہیں تو ٹھک ہے کیونکہ آپ اوپر بتا آئے ہیں کہ اور اگر "دلائل کی بنیاد پر انسان ایک رائے اختیار کرتاہے اوراسی کواجتہاد کہتے ہیں،" اور اگر ایسا نہیں ہے تو اجتہاد کہاں کا۔وہ فقہاء آپ کی اجتہاد کی تعریف جو آپ نے بیان کی ہے اس کے مخالف تھے۔

اسی طرح بعینہ محدثین کرام کے احادیث پر حکم لگانے میں ،راویوں پر حکم لگانے میں اجتہاد ہوتاہے،
لیکن یہ اجتہاد تو دلیل کی بنیاد پر ہے۔ تو اعتراص کہاں کا۔

یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ اگر کوئی کسی فقہ کےا مام کی رائے پر اعتماد کرے،دلیل جانے بغیر اس کی رائے کی پیروی کرے تو وہ مقلد ہوگیااوراگرکوئی ائمہ محدثین کے حدیث پر یاراوی پر حکم لگانے کے سلسلے میں اعتماد کرے تو وہ محقق ہوگیا۔
محترم دلیل اور عدمِ دلیل کا فرق ایک بنیادی فرق ہے نہ جانے مقلدیں اس فرق کو کیوں نہیں سمجھ پاتے۔آپ سے گزارش یہ ہے کہ محدثی، حدیث اور راویوں پر حکم دلائل کی بنیاد پر لگاتے تھے اور فقہائے احناف زیادہ تر اپنی زاتی رائے سے مسائل استنباط کرتے تھے۔ اسی لیے اہلحدیث اور اہلرائے کا فرق ظاہر ہوا۔ اس طرح اس دونوں گروہوں کا طرزِعمل محتلف تھا جو ایک دوسرے میں جمع نہیں ہو سکتا۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
آپ کا خیال ہے کہ ائمہ متقدمین نے جن مسائل کااستنباط کیاہے وہ بغیر دلیل کے ہی کیاہے؟اگریہی خیال ہے جیساکہ ظاہرہوتاہے تو نہایت غلط خیال ہے،پوراعالم اسلام اس پر تقریبامتفق ہے کہ یہ حضرات جنہوں نے مسائل کااجتہاد کیامجتہد تھے اوران کا مجتہد ہوناہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ وہ صاحب علم وتحقیق تھے اور صاحب علم وتحقیق کبھی کوئی رائے بغیر دلیل کے اختیار نہیں کرتا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
پہلی پوسٹ میں سوال کا جواب :
ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮨﮯ : ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺧﻼ‌ﻑ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ-ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻘﻖ ‘ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺘﺎﺏ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﮨﻮﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻼ‌ﺋﮯ ﮔﺎ -ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺘﺎﺏ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮﮔﯽ ، ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺑﻮﺟﮭﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﺍﮌﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ - ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﮨﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻣﺬﻣﻮﻡ ، ﯾﺎ ﮐﻔﺮﯾﮧ ﺷﺮﮐﯿﮧ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ -ﺍﻭﻝ ﺍﻟﺬﮐﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﮨﮯ ، ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺩﮨﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ - ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﺭﮨﯿﮯ !
اب اس جواب پر کسی کو اعتراض ہے تو بات کی جائے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمدکاشف صاحب کے جواب میں ایک غلطی ہے،جس چیز کو وہ البانی کی تحقیق کہہ رہے ہیں وہ دراصل ان کی رائے ہے،دلائل کی بنیاد پر انسان ایک رائے اختیار کرتاہے اوراسی کواجتہاد کہتے ہیں، اگرائمہ متقدمین کی فقہی آراء کو دلیل جانے بغیرماننا تقلید ہے توپھر متقدمین محدثین یاماضی قریب ودورحاضر کے کسی اہل علم کی رائے پر اعتماد تقلیدکیوں نہیں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟جب کہ یہ بات کتب مصطلح حدیث میں اورامام ترمذی نے علل میں اوردیگر محدثین نے بھی کھل کر لکھی ہے کہ جس طرح ائمہ فقہ کے مسائل کے سلسلہ میں ،استنباط احکام کے سلسلے میں اجتہاد ہوتے ہیں، اسی طرح بعینہ محدثین کرام کے احادیث پر حکم لگانے میں ،راویوں پر حکم لگانے میں اجتہاد ہوتاہے، یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ اگر کوئی کسی فقہ کےا مام کی رائے پر اعتماد کرے،دلیل جانے بغیر اس کی رائے کی پیروی کرے تو وہ مقلد ہوگیااوراگرکوئی ائمہ محدثین کے حدیث پر یاراوی پر حکم لگانے کے سلسلے میں اعتماد کرے تو وہ محقق ہوگیا۔
محترم -

غلطی آپ کی پوسٹ میں ہے- محدثین کی تحقیق کا دارو مدار راوی کی صحت پر ہوتا ہے اور روایت کی سند پر ہوتا ہے -اور سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے-سند کو روایت و درایت کے مسلمہ اصولوں کے تحت پرکھا جاتا ہے کہ آیا راوی سقہ ہے یا غیر سقہ، مجہول ہے یا معروف . سند متصل ہے یا منقطہ؟؟- اور اس بنا پر سند کے معتبراور غیر معتبر ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے- اور یہ سب کچھ ایک دقییق تحقیق کا بعد ہی سرانجام پاتا ہے - محدثین کی بیان کردہ سند پراس وقت تک اعتماد کیا جاتا ہے جب کہ تک ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ ان اصولوں و ضوابط پر پورا اتررہی ہے جو محدثین نے اس کے صحیح ہونے کے لئے وضع کیے ہیں- اب ظاہر ہے کہ ایک عامی کو جو دلیل چاہیے وہ پہلے سے محدث کی تحقیق میں موجود ہے - اب اگر دور حاضر کے محدث "علامہ البانی"رحمہ الله" وغیرہ کی تحقیق قرون اولیٰ کے محدثین کے اجماعی موقف کے مطابق ہے تو ان کی تحقیق قابل قبول سمجھی جائے گی اور اگر اجماعی موقف کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں - بشرط ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم سے منسوب روایت قرآن کی کسی صریح نص یا دوسری کس صحیح حدیث سے واضح طور پر متعارض نہ ہو- آسان لفظوں میں یہ کہ "معتبر کی گواہی کو قبول کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے یعنی ہم گواہ کی گواہی کو اتباعِ سنت میں قبول کرتے ہیں نہ کے کسی کی تقلید میں"

جب کہ آئمہ متقدمین کی بات صرف ان کی اپنی ذاتی آراء پر مبنی ہوتی ہے جو وہ ان مسائل سے متعلق پیش کرتے ہیں جن کا تعلق دین اسلام کے کی جزویات سے ہوتا ہے- اس لئے ان کی بات قابل قبول بھی ہے اور قابل رد بھی- اور خود ان آئمہ اربعہ کا بیان ہے کہ :"میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو" - خود امام ابو حنیفہ رحمہ الله فرماتے ہیں : "
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔ (تاریخ بغداد 424/13 ،تاریخ ابن معین 2/607 وسندہ صحيح) -


کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے یہ مقلد خوصوصاً "احناف" ایک طرف دن رات تقلید کا ڈھندھوڑا پیٹتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی امام کے اقوال کے مخالف عمل پیرا ہیں-
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
سب کچھ ایک دقییق تحقیق کا بعد ہی سرانجام پاتا ہے -
محمد علی جواد صاحب !لکھنے کے بعد ایک مرتبہ نظرثانی ضرور کیاکیجئے،ہوسکتاہے الفاظ کے ساتھ ساتھ فکر کی بھی اصلاح ہوجائے، ورنہ آپ کی تحقیق اتنی ہی دقیق ہوگی جتناکہ آپ نے لکھاہے
آیا راوی سقہ ہے یا غیر سقہ،
اپنی تحریر پر خود غورکرلیاکریں،ورنہ اس فورم کے ایک علمی نگراں صاحب اس طرح کی ٹائپنگ کی غلطیاں دیکھ کر بہت دور تک پہنچ جایاکرتے ہیں۔
محدثین کی تحقیق کا دارو مدار راوی کی صحت پر ہوتا ہے اور روایت کی سند پر ہوتا ہے -اور سند گواہی کے زمرے میں آتی ہے-سند کو روایت و درایت کے مسلمہ اصولوں کے تحت پرکھا جاتا ہے
اگر کتب مصطلح حدیث کی تھوڑی ورق گردانی کی زحمت گواراکرلیاکریں تو معلوم ہوگاکہ راوی پر محدثین کا حکم لگانا زیادہ تراجتہادی ہوتاہے،کم تر غیراجتہادی ہوتاہے،ایک شکل تویہ ہے کہ کسی امام یامحدث نے کسی راوی کو جھوٹ بولتے ،غلط کام کرتے دیکھاتواس کا ذکر کردیا،یہ تو گواہی کے قبیل سے ہے،لیکن راوی پر زیادہ ترحکم اس طرح لگایاجاتاہے کہ ایک محدث یاحدیث کاامام کسی راوی کی تمام مرویات کو جمع کرتاہے اوراس کی مرویات کا تقابل اس کے شیوخ کے ساتھ شریک دیگر روات کی روایت سے کرتاہے اوراس بنیادی پر وہ راوی پر ضعیف یاثقہ کاحکم لگاتاہے اوریہ اجتہادی امر ہے جس کی صراحت امام ترمذی سے لےکر ابن تیمیہ تک سبھی نے کی ہے۔اس کو غیراجتہادی کہناصرف یہ بتاناہے کہ آپ نے اس موضوع پر مطالعہ نہیں کیاہے۔
محدثین کی بیان کردہ سند پراس وقت تک اعتماد کیا جاتا ہے جب کہ تک ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ ان اصولوں و ضوابط پر پورا اتررہی ہے جو محدثین نے اس کے صحیح ہونے کے لئے وضع کیے ہیں-
یہ ایک عامی شخص کو کیسے معلوم ہوگا؟یاتو ہرشخص محدث بن جائے جوممکن نہیں اور جب ہرشخص محدث نہیں بن سکتاتواسے کیسے معلوم ہوگا اورکیسے اطمینان ہوگاکہ یہ روایت ان اصول وضوابط پر پورااتررہی ہے جو محدثین نے وضع کیاہے؟
اب ظاہر ہے کہ ایک عامی کو جو دلیل چاہیے وہ پہلے سے محدث کی تحقیق میں موجود ہے - اب اگر دور حاضر کے محدث "علامہ البانی"رحمہ الله" وغیرہ کی تحقیق قرون اولیٰ کے محدثین کے اجماعی موقف کے مطابق ہے تو ان کی تحقیق قابل قبول سمجھی جائے گی اور اگر اجماعی موقف کے خلاف ہے تو وہ قابل قبول نہیں -
اولاتو احادیث کے صحت وضعف میں خود محدثین میں اختلاف ہے، اصول حدیث میں سے بھی بعض اصولوں میں اختلاف ہمیں ملتاہے جو کتب مصطلح حدیث میں موجود ہے،پھر احادیث کااجماعی موقف ایک عامی کو کیسے معلوم ہوگا، یاتو وہ تحقیق کرے کہ دیگر تمام محدثین نے اس حدیث کے تعلق سے کیاہے اورپھر اس کو البانی کے حکم سے ملاکردیکھئے، اس کی فرصت کتنے افراد کو حاصل ہے؟
فرصت کی بات چھوڑدیں ،البانی نے جس حدیث پر صحت کا حکم لگایاہے وہ حدیث محدثین کے اجماعی موقف کے مخالف ہے یاموافق ہے اس کی تحقیق کی صلاحیت کیاہراہلحدیث کو حاصل ہے؟اگرہاں میں جواب ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوراگرنامیں جواب ہے تو پھر بات وہیں اٹک جاتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی ،تواس طویل مراسلے کا فائدہ کیاہوا
جب کہ آئمہ متقدمین کی بات صرف ان کی اپنی ذاتی آراء پر مبنی ہوتی ہے جو وہ ان مسائل سے متعلق پیش کرتے ہیں جن کا تعلق دین اسلام کے کی جزویات سے ہوتا ہے-
کاش یہ جملہ تحریر کرنے سے قبل اس پر غورکرتے اور سوچتے کہ میں کیالکھ رہاہوں،کیاائمہ مجتہدین نے جومسائل وضع کئے ہیں وہ ان کی ذاتی آراء ہیں، اناللہ واناالیہ راجعون۔یہ ایک فطری چیز ہے کہ خالی گھڑا میں تھوڑا پانی زیادہ شور کرتاہے اور سمندر اپنی بے پناہ وسعت کے باوجود بیشتر پرسکون اورخاموش رہتاہے ،ہماری خواہش یہ ہے کہ
کیف پیداکرسمندر کی طرح
وسعتیں ،خاموشیاں،گہرائیاں​
امام ابوحنیفہ کو ہم چھوڑدیتے ہیں ان پرآپ کو اعتماد نہیں ہے لیکن دیگر ائمہ فقہاء جوگزرے ہیں ان کے تعلق سے بھی آپ کی رائے اگریہ ہے کہ ان کے ذکر کردہ فقہی مسائل ان کی ذاتی آراء ہیں تویہ نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ان کے ساتھ بھی ظلم ہے اور میں کہوں گاکہ یہ ان کی توہین بھی ہے۔
حضرات ائمہ مجتہدین اس سے بہت دور تھے کہ وہ فقہی مسائل محض اپنی رائے کے طورپر ذکر کریں
اصل غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ بعض حضرات مجتہدین نے تواضع اورانکساری کے طورپر (جوایک مومن مخلص کی شان ہونی چاہئے)فقہی مسائل کو اپنی رائے کے طورپر بیان کیا،اس کو صحیح تناظر میں دیکھنے کے بجائے اس کو واقعتا ان کی ذاتی رائے سمجھ لینا کم فہمی ہے،جیسے کہ آپ کے ایک وسیع المطالعہ والعلم استاد اپنے کو احقر العباد لکھتے ہیں،توکیااپ بھی ان کو احقر العباد سمجھناشروع کردیں گے؟آپ کاایک بزرگ جس نے بڑی خدمات انجام دی ہیں، تواضع اورانکساری میں کہتاہے کہ میں نے کچھ نہیں کیاتوکیا واقعتاآپ یہ سمجھ لیں گے کہ اس نے کچھ نہیں کیا،جملوں کو ،تحریروں کو صحیح تناظرمیں پڑھنے اورسمجھنے کی عادت ڈالیے ،اس طرزفکر سے کسی دوسرے کا کچھ نقصان توہونے سے رہا،خوداپنارہاسہابھرم بھی ختم ہوگا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ آج کے یہ مقلد خوصوصاً "احناف" ایک طرف دن رات تقلید کا ڈھندھوڑا پیٹتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی امام کے اقوال کے مخالف عمل پیرا ہیں-
عموماًغیرمقلد یہ اعتراض کرتے ہیں لیکن اس طرح کے جملوں کا صحیح پس منظر یاتوانہیں معلوم نہیں ہوتایاپھر وہ تجاہل عارفانہ برت کر عوام کو مغالطہ میں رکھنااورڈالناچاہتے ہیں،
اس طرز کے اوراس قبیل کے جتنے جملے ہیں کہ میری رائے کے خلاف جب حدیث مل جائے توپھر اس کو دیوار پر ماردو،میرے رائے پر پیشاب کردو،میری رائے کی دلیل جانوپھراس پر عمل کرو،بغیر دلیل جانے میری رائے اختیار نہ کرو،وغیرذلک،آپ غورکریں گے توپائیں گے کہ اس طرح کے تمام جملے ہرایک امام نے اپنے انہیں شاگردوں سے کہاہے جوعلم میں ان کے جانشیں تھے،خود بھی بڑے صاحب علم تھے،مجھے باوجود تلاش اورجستجو کے کہیں یہ بات نہیں ملی کہ کسی ایک مجتہد نے بھی کسی عامی یاکسی جاہل سے یہ بات کہی ہے کہ میری رائے پر عمل مت کرو ،میری رائے کے خلاف حدیث دیکھوتو اسے دیوار پر ماردووغیرذلک۔یہ ہمیں بتاتاہے کہ ان بزرگوں نے ،ان فقہاء نے ،ان مجتہدین نے اس باب میں عوام اورخواص کے درمیان فرق کیاہے۔اہل علم کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کی رائے سے اختلاف کریں، ان کی رائے کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں اورترک واختیار کافیصلہ کریں لیکن عوام کیلئے انہوں نے یہی بات پسند کی ہے کہ وہ علماء سے مسائل پوچھ کرعمل کریں،خود رائی سے کام نہ لیں۔
محمد علی جواد اور دیگر صاحبان جو اس بحث میں حصہ لیناچاہتے ہیں،ان سے گذارش ہے کہ وہ بحث برائے بحث سے پرہیز کریں۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮨﮯ : ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺧﻼ‌ﻑ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ-
کسی جاہل نے کچھ عرصہ قبل پتہ نہیں کہاں سے تقلید کی یہ تعریف وضع کرلی ہے، اب اکثر وبیشتر نیٹ پر آپ حضرات کے ہم مسلک اسی تعریف کو دوہراتے پھرتے ہیں، یہ تعریف کس امام نے کی ہے ؟یہ تعریف اصول فقہ کی کس کتاب میں موجود ہے؟ذرااس کا حوالہ دیجئے۔محض اپنی جی سے اپنی من سے کوئی کسی اصطلاح کی کوئی تعریف بیان کردے تواس سے وہ تعریف معتبر نہیں ہوجائے گی۔دوسروں کوتقلید کا طعنہ دینے سےقبل خود تحقیق کی عادت ڈالئے کہ میں کتنی باتوں کی تحقیق کرتاہوں اورکتنی باتیں محض دوسروں کی بیان کردہ سنی سنائی دوہراتارہتاہوں۔
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻘﻖ ‘ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺘﺎﺏ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﮨﻮﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻼ‌ﺋﮯ ﮔﺎ -
ایک عامی کو یہ کیسے پتہ چلے گاکہ البانی کی فلاں بات کتاب وسنت کے موافق ہے یامخالف ہے؟اس بنیادی بات کا کوئی واقعی اورمعقول جواب دیں اورجواب بن نہ پڑے تو خاموشی بھی جواب برائے جواب سے بہتر جواب ہے۔
ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺘﺎﺏ ﻭﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮﮔﯽ ، ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﺑﻮﺟﮭﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﺍﮌﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ -
البانی نے کسی حدیث کے بارے میں جو حکم لگایاہے اس کے بارے میں یہ جانناکہ انہوںنے صحیح حکم لگایاہے یاغلط حکم لگایاہے، ایک عامی کیلئے کتنادشوار اورکٹھن کام ہے،وہ محتاج بیان نہیں ہے، اصل غلطی یہ ہے کہ آپ حضرات دلی پڑھنے،جاننے اوردلیل سمجھنے کا فرق بھول جاتے ہیں اوراسی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جس نے البانی کی الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ کا ترجمہ پڑھ لیاوہ اس حدیث پر حکم کے باب میں تمام دلائل سے واقف ہوگیا،اللہ کے بندے!جب ایک شخص کو یہی نہیں معلوم ہے کہ خبرواحد کیاہے،خبرمشہور کیاہے، محدثین نے روات پر حوحکم لگایاہے اس کی شرطیں کیاہیں، طریقہ کار کیاہے،روات پر محدثین کی رائے میں اختلاف کی صورت میں طریقہ کار کیاہے تواس کے محض دلیل پڑھ لینے سے کیافائدہ ہوسکتاہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
یہ ایک عامی شخص کو کیسے معلوم ہوگا؟یاتو ہرشخص محدث بن جائے جوممکن نہیں اور جب ہرشخص محدث نہیں بن سکتاتواسے کیسے معلوم ہوگا اورکیسے اطمینان ہوگاکہ یہ روایت ان اصول وضوابط پر پورااتررہی ہے جو محدثین نے وضع کیاہے؟
تویہی سوال آپ سے ہے کہ ایک عامی مقلد کو کیسے پتہ چلے گا کہ میرے امام صاحب کس کس مسئلہ میں خطاء اور کس میں صواب پر ہے ؟
 
Top