- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,121
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
سناہے کہ اظہر رحمہ اللہ کے قاتل قصور سے پکڑےگئےہیں
یہ کہاں تک درست بات ہے؟؟؟
یہ کہاں تک درست بات ہے؟؟؟
اللہ کرے یہ خبرسچی ہو۔
اللہ تعالی ڈاکٹرصاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے اورانہیں اعلی علیین میں جگہ عطاکرےآمینعزیز عبدالماجد کی کال بار بار آ رہی تھی میں کسی کام میں مصروف تھا، موبائل کا بٹن آن کیا تو سسکیوں کی آواز آنے لگی۔ عبدالماجد خیریت تو ہے؟ ڈاکٹر عبدالرشید اظہر صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ بات سن کر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور دماغ چکرانے لگا۔ طبیعت پر قابو پا کر کچھ دیر کے بعد میں نے کال کی اور پوچھا کیا واقعی ڈاکٹر صاحب انتقال کر گئے ہیں؟ جی ہاں وہ دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر شہر خموشاں کو آباد کر چکے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
واقعہ کہاں پیش آیا؟ قاتل کون ہیں؟ قتل کی وجہ کیا ہے؟ کچھ علم نہیں، ابھی تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا، میں نے کنفرم کرنے کے بعد علمائے کرام اور عمائدین کو اطلاع کی، مزید مولانا رمضان منظور کو اطلاعات دینے کے حوالے سے فعال کر دیا۔ خبر پورے ملک میں بہت تیزی سے پھیل گئی، ہر طرف سے کالیں اور ایس ایم ایس آنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی ابو صخر شہیدؒ کے والد گرامی حافظ عبدالستار صاحب اپنے بیٹے اور ڈاکٹر صاحب کے بڑے داماد الشیخ عبداللطیف کے ہمراہ عمرہ ادا کرنے گئے تھے، ان کو اطلاع ملی تو انہوں نے واپسی سفر کا ارادہ کر لیا۔ اس کی خبر مجھے جناب عبدالوکیل فہیم نے دی جو ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، وہ بھی ڈاکٹر صاحب کے داماد اور ابو صخر شہید کے چھوٹے بھائی ہیں۔
قارئین کرام! جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو یہ سب لوگ پاکستان آ چکے ہوں گے، ان کے علاوہ ملک بھر سے علمائ، طلبائ، تاجر اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ نماز جنازہ کی ادائیگی کیلئے حاضر ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کی اچانک موت بہت بڑا سانحہ ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ ابھی تک قاتلوں کا علم نہیں ہو سکا۔ واقعہ کی اطلاع کچھ اس طرح ہے کہ کسی صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا وقت مانگا تو انہوں نے ٹائم دے دیا اور گھر میں کھانا تیار کرنے کا کہہ دیا۔ کھانا تیار ہونے لگا، ڈاکٹر صاحب بھی گھر تشریف لے آئے اور کچھ دیر کے بعد مہمان بھی، کھانا پیش کیا گیا۔ عزت و تکریم ہونے لگی، مہمان نوازی جزو ایمان ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے پس وہ اپنے مہمان کی مہمان نوازی کرے۔ ڈاکٹر صاحب، پرتکلف میزبان تھے، اپنے ہاتھ سے خدمت ان کی روایت تھی۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے مہمانوں کی خدمت کی، بعد میں برتن بھی اپنے ہاتھوں سے سمیٹے اور اندر لے گئے اور واپس مہمانوں کے پاس آ گئے۔ کچھ دیر کے بعد گیراج میں کھڑی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو ان کی اہلیہ محترمہ یہی سمجھی کہ ڈاکٹر صاحب مہمانوں کو الوداع کرنے جا رہے ہیں۔ کافی وقت بیت گیا نہ ڈاکٹر صاحب آئے اور نہ ہی کوئی ٹیلی فون کال، یہاں تک کہ ڈرائنگ روم کا وہ دروازہ جو گھر کے اندر کھلتا ہے وہ بھی بند پڑا ہے۔ اس کو اندر سے لاک کر دیا گیا ہے، جستجو میں اضافہ ہو گیا، پریشانی اور زیادہ پیدا ہو گئی۔ بیٹا سعد جو گھر سے باہر تھا وہ بھی واپس آ گیا، مہمان خانے میں جا کے دیکھا گیا تو ڈاکٹر صاحب اپنے مہمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے پڑے تھے۔ یہ لوگ مہمان نہیں مہمان کے روپ میں قاتل ڈاکو، راہزن اور لٹیرے تھے، جنہوں نے چراغ علم کو گل کردیا۔ حلقہ تعلیم و تعلم کو غمزدہ، ان کی اہلیہ محترمہ کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر گئے۔ جاتے جاتے گاڑی اور دیگر ضروری کاغذات اور دستاویزات بھی ہمراہ لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کا پہلا جنازہ جامعہ سلفیہ اسلام آباد میں محقق عالم دین مولانا عبدالحمید ازہر صاحب نے پڑھایا جس میں راولپنڈی، اسلام آباد کے باسیوں کے علاوہ دیگر شہروں کے لوگوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ امیر جماعة الدعوة پروفیسرحافظ محمد سعید صاحب یہاں جنازہ میں شریک ہوئے۔ دوسرا جنازہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں فضیلة الشیخ حافظ مسعود عالم صاحب نے پڑھایا جس میں علماءو طلباءکے ساتھ ساتھ احباب جماعت کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ مولانا امیر حمزہ صاحب کنونیئر تحریک حرمت رسول اسی جگہ شرکت کیلئے گئے، تیسرا جنازہ خانیوال میں مولانا الشیخ محمد یونس بٹ صاحب نے پڑھایا جہاں جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع سے لوگوں نے شرکت کی، جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ سیف اللہ منصور یہاں شریک ہوئے۔
مدینہ منورہ سے عبدالوکیل فہیم سے اطلاع مل گئی تھی کہ ان کے والد صاحب جدہ ایئر پورٹ پہنچ گئے ہیں وہ پاکستان کے لئے 12-30 پر روانہ ہوں گے اور رات جنازہ میں شرکت کریں گے۔ میں ان کے انتظار میں لاہور رک گیا کیونکہ انہوں نے طے شدہ پروگرام کے مطابق میرے ہمراہ
جانا تھا۔ گاہے گاہے ایک دوسرے سے رابطہ ہوتا رہا۔ اطلاع یہ ملی کہ جہاز تین گھنٹے لیٹ ہے، پھر تین کے کئی تین ہو گئے، ورثا کوشش کے باوجود جنازہ میں شریک ہوئے نہ ہی چہرہ دیکھ سکے۔ یہ حال ہے کہ ہماری ایئر لائنز کا اور ایسی ہی صورت حال ہے ریلوے کی، بائی ٹریک سفر بھی بدحالی کا شکار ہے۔ ہر طرف دشواریاں، پریشانیاں اور رکاوٹیں ہیں۔ میں خانیوال جنازہ کیلئے روانہ ہوا تو راستہ میں ڈاکٹر صاحب کے بڑے بیٹے حافظ مسعود اظہر سے وقت معلوم کیا، نو بجے رات کا وقت طے تھا، میرے لئے ٹائم پر پہنچنا بظاہر کوئی مشکل نہ تھا جب ہم اوکاڑہ کراس کر چکے تو جی ٹی روڈ دونوں اطراف سے بالکل بند تھا۔ برادر عمر فاروق اور رمضان منظور دور تک جائزہ لینے گئے۔ معلوم ہوا کہ واپڈا کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا، انہوں نے بجلی لے لی ہے، بھائی ملک میں بجلی ہے بھی نہیں اگر آتی ہے تو وہ بھی قاتل مہمانوں کی طرح۔ پھر اس بجلی کا آنا جانا تو روزانہ کا معمول ہے۔ آج احتجاج وہ بھی جی ٹی روڈ پر کیوں؟ آج 18 مارچ ہے، پاکستان انڈیا کا کرکٹ میچ ہو رہا ہے، لوگ دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔ کرکٹ کے شائقین لوگوں نے شاید اس میچ کا اختتام بلکہ انجام ضرور دیکھ لیا ہو گا مگر ان کے احتجاج اور روڈ بلاک کی وجہ سے متعدد لوگ (مرحوم) کا چہرہ نہ دیکھ سکے اور نہ ہی جنازہ میں شریک ہو سکے۔ اس قسم کا کام کرنے سے قبل یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں غصہ پروان چڑھتا ہے، کئی لوگ اپنے پیاروں کو کندھا نہیں دے سکتے، جنازوں میں شرکت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے جنازہ میں شریک لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں، ان کی موت بہت بڑا علمی نقصان ہے۔ ان سے چند ہفتے قبل عالم باعمل شیخ الحدیث و التفسیر حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب کا انتقال ہوا۔ جو ہر فن میں سند کا درجہ رکھے تھے۔ ایک کے بعد دوسرے عالم دین کا چلے جانا بہت بڑا خلاءہے جو بظاہر پر ہونے والا نہیں۔
ڈاکٹر عبدالرشید اظہر صاحب برسہا برس سے مکتب الدعوة السعودیہ، اسلام آباد سے وابستہ تھے، پاکستان میں مبعوثین (وہ پاکستانی علماءجو سعودی عرب سے یہاں مختلف تعلیمی اداروں میں متعین ہیں) کے نگران (مشرف) تھے۔
ترجمة القرآن کے علاوہ کئی ایک کتابوں کے مو ¿لف و مصنف اور مترجم تھے، متعدد ممالک میں دعوت و تبلیغ اور مختلف قسم کے علمی کورسز کروا چکے ہیں، اس بار موسم حج میں حکومت سعودی عرب نے ان سے خوب علمی خدمات لی ہیں۔
پاکستان میں ہونے والی تقاریب بخاری شریف میں آخری حدیث پر درس کیلئے بطور خاص ان کو بلایا جاتا تھا، کئی ایک اداروں میں مجھے ان کے ہمراہ تقریر کا موقع ملا لوگ ان کے درس کو انتہائی عقیدت و احترام سے سنتے اور علمی نکات سے فیض یاب ہوتے۔ میرا ان کے ساتھ کافی قرب تھا میں جب جامعة الدراسات، کراچی کا مدیر تھا تو دوبار درس بخاری کیلئے میری دعوت پر تشریف لائے۔ آبائی شہر احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور متعدد بار خطابات اور خطبہ جمعة المبارک کیلئے تشریف لائے۔ بے شمار سفر ان کے ہمراہ کئے، علم سے فیض یاب ہوا، ڈاکٹر صاحب کی دینی، ملی اور رفاہی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی کچھ نیکیاں ایسی ہیں جن کو میں ناچیز جانتا ہوں، اللھم اغفرلہ و رحمة اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور جملہ لواحقین کو صبر جمیل دے۔ (آمین)
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput