حیدرآبادی
مشہور رکن
- شمولیت
- اکتوبر 27، 2012
- پیغامات
- 287
- ری ایکشن اسکور
- 500
- پوائنٹ
- 120
علامہ یوسف القرضاوی دنیائے اسلام کے بہت زیادہ قابل احترام مشہور و مقبول عالم دین ہیں، بہت سی علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی شخصیت ہر حلقہ میں بہت معتبر اورموقر سمجھی جاتی ہے ، قطر میں مقیم ہیں، شہر کی جامع مسجد میں 31/ مئی کو انہوں نے جمعہ کا خطبہ دیا، اور الجزیرہ ٹی وی نے اسے نشرکیا، آدھے گھنٹے کا خطبہ پورے عالم اسلام میں شوق اور توجہ سے سناگیا، یہ خطبہ اتنا اہم تھاکہ چند روز کے بعد سعودی عرب کے مفتی اورعالم دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے اس کی تائید اور حمایت میں بیان جاری کیا، شیخ یوسف القرضاوی کا یہ خطبہ شام کے حالاتِ حاضرہ سے متعلق تھا۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے پر جوش خطبہ میں شام کی تاریخ مختصراً بیان کی اور یہ کہاکہ شام ایک جمہور یت پسند ملک رہاہے، فرانسیسوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اہل شام نے اپنے لئے جمہوری نظام پسند کیا، لیکن شام کا جب مصر سے اتحاد ہوا تومصر نے اپنے استبدادی نظام کو شام تک وسیع کرناچاہا،اہل شام اس کے لئے تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے مصر کے ساتھ اتحاد کو خیر باد کہا ، اور پھر ایسا ہوا کہ شام پر حافظ الاسد پورے طور پر مسلط ہوگئے، اور اپنے ہم مسلک علویوں اور نصیریوں کو فوج اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا، نصیری چھوٹی سی اقلیت ہیں جو حضرت علی کے الوہیت کے قائل ہیں ،اور علامہ ابن تیمیہ نے جن کے بارے میں کہا تھاکہ وہ یہودیوں سے بڑھ کر کافر واسلام دشمن ہیں،پھر شام میں بعث پارٹی قائم کی گئی جودراصل کمیونسٹ پارٹی کا عرب ایڈیشن ہے، روس سے عسکری اور اقتصادی تعلقات قائم کئے گئے ،خود کو عوام میں مقبول بنانے کے لئے بعث پارٹی نے اپنے آپ کو اسرائیل کے سب سے بڑے حریف کے طور پر پیش کیا، اور پورے ملک میں امیرنجنسی نافذ کردی، پچاس سال تک ایسی زبان بندی رہی کہ لوگ اظہار خیال کے لئے ترس گئے، زبان و قلم کی آزادی چھین لی گئی، اور پورا ملک ایک جیل خانہ بن گیا، گولان کی اہم پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا، بازیابی کے لئے کوئی اقدام نہیں کیاگیا، اور بلاکسی مزاحمت کے اسے اسرائیل کے حوالہ کردیاگیا،اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی،لیکن اپنے ملک کے اسلام پسندوں کوخاک وخوں میں لٹادیا گیا۔ حافظ الاسد کا بیٹا بشارالاسد حکومت کا وارث ہوا، اور اس نے بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام آزادیاں سلب کرلیں اور ملک کوذاتی جاگیر بنالیا۔دولت کےٍ تمام وسائل پر اس کا اور اس کے قرابت داروں کا قبضہ رہا۔
شیخ یوسف القرضاوی نے شام میں جاری انقلاب کی تاریخ بتاتے ہوئے کہاکہ جب مصر اورتونس اور یمن میں انقلاب ایک زندہ حقیقت بننے لگا اور لوگ استبدادی اور غیر جمہوری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے تو شام کے نوجوان بھی کھڑے ہوئے اور آزادی اور باعزت زندگی کے لئے نعرے لگانے لگے، وہ جمہور یت اور انسانی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے، ابتداء ''درعا'' میں ایک جلوس سے ہوئی ،جس میں اہل سنت کے ساتھ کرواور عیسائی بھی شریک ہوئے تھے، بشارالاسد کی حکومت کو نوجوانوں کی یہ جرأت رندانہ ناگوار ہوئی، حکومت کے کارپردازوں نے ان نوجوانوں کو اذیت خانوں میں ڈال کر ان کے حلیے بگاڑدیئے اوران کے ہاتھ پیرتوڑدیئے ،زخمی اورنیم مردہ حالت میں جب وہ نوجوان اذیت خانوں سے باہر نکلے تو ان کے والدین اوررشتہ داروں کو اور دوست احباب سے یہ حالت دیکھی نہیں گئی اوریہ کرب ناک منظر برداشت نہ ہوسکا ،انہوں نے احتجاج کو پورے ملک میں منظم کیا اور پھر انقلاب کا لاوا آتش فشاں بن گیا۔ لوگ پا بجولاں خوں بداماں سڑکوں پر نکل آئے ۔
اخبارات کے قارئین جانتے ہیں کہ شام میں اب تک ایک لاکھ مردوں عورتوں اوربچوں کا خون ناحق بہہ چکا ہے ،ایرانی حکومت نے بشارالاسد کا اسلحہ سے اور اپنی فوج سے ساتھ دیاہے، اوربشار الاسد کو قتل عام کی اجازت دے دی ہے، اور گویا زبان حال سے یہ کہہ دیا ہے کہ:
تو مشقِ ناز کرخونِ دوعالم میری گردن پر
بعض ناعاقبت اندیش صحافی جو ہر واقعہ کا مجرم امریکہ کو ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ شام کے معاملہ میں بھی بشارالاسد اورایران کی حمایت میں ابھی تک لکھ رہے ہیں ،اس طرح وہ بھی بالواسطہ طور پر شامیوں کے قتلِ عام کے جرم میں شریک ہیں، شام کی یہ جدوجہد اور مذہبی ادارے اس جہاد میں شریک ہیں، قیادت مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، یہ وہ جماعت ہے جس پر یہ مصر ع صادق آتا ہے: ''جمے تو مدرسہ وخانقاہ اٹھیے توسیاہ '' یہ وہ تنظمیں ہیں جو باہمی اختلافات کو ختم کرکے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جان ہتھلی پر لے کر پابہ جولاں خون بہ داماں میدان میں آئی ہیں ۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے خطبہ میں حزب اللہ کو حزب الشیطان اور حسن نصراللہ کو نصر الطاغوت قراردیا ہے، ایران کے دس ہزار جگنجوبشار کی حکومت کو بچانے لئے شام کی سرزمین پر اترچکے ہیں، ایک طرف شام کی فوج ہے جس کے پاس روسی ساخت کے طاقتوں اسلحہ ہیں تیسری طرف ایران کے پاسدران انقلاب ہیں،چوتھی طرف عراق ابوالفضل عباس کا فوجی دستہ ہے، پانچویں طرف لبنان کی حزب اللہ ہے، چھٹی طرف اور دوسرے کئی ملکوں کے شیعی رضا کار ہیں، گویایہ جنگ احزاب رہے شیعوں نے مل کرالقصیر میں زبردست خونریزی کی ہے، اور الحیش الحرلرپیچھے پلٹنے پر مجبور کیاہے۔
علامہ یوسف القرضاوی نے اپنے خطبہ میں صراحت کی ہے کہ ہم صرف ان شیعہ رضاکاروں کے خلاف ہیں، جوبشارالاسد کی ظالم حکومت کا ساتھ دے رہیں ورنہ عراق اور ایران کے بہت شیعوں علماء کو جانتے ہیں، جو بشارالاسد سے سخت برہم ہیں اور ان کی ہمدردی شامی عوام کے ساتھ ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنی پر جوش اور دل سوز خطبہ می کہا کہ شام کا مسئلہ بالکل واضح ہے وہاں کی چھوٹی سے اقلیت کو بہت بڑی اکثریت پر اپنا استبدادی نظام نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں ، وہ استبدادی نظام جس نے ایک لاکھ عوام کو خون کیا ہے جس نے سفاکی اوربربریت کی انتہاکردی ہے ،ایسی استبدادی کے نظام کے خلاف کھڑا ہونا دنیا کے ہر جمہوری اور دستوری قدروں کے اعتبار سے بھی درست ہے ،اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اس مقابلہ کا پورا وجہ جواز موجودہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے ولولہ انگیزخطبہ میں کہا کہ اس وقت پورے عالم اسلام پر احرار شام کی مدد کرنا واجب ہے ،ترکی اور قطر کی طرف سے دست تعاون اور دست سخاوت اوردست حوصلہ وہمت پڑھایا جارہا ہے، لیکن یہ مدد ہر مسلم ملک کو کرنی چاہیے اور وہاں اسلحہ بھی بھیجنا چاہیے اور جواس جہاد آزادی میں شریک ہوسکتے ہیں، انہیں خود وہاں جانا چاہیے میرے بوڈھے جسم میں طاقت وتوانائی ہوتی تو میں خود اس جنگ میں شریک ہوتا، کوئی مسلمان شام کے مسلمان بھائیوں کو خاک وخون میں تڑپتا ہوانہیں دیکھ سکتا۔
31/ مئی کو جمعہ کے خطبہ میں شام کے مظلوموں کی مدد کے لئے شیخ یوسف القرضاوی کی آواز بلند ہوئی ،اور چند روز کے اندر سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل شیخ نے اس کی مکمل تائید کی کیوں کہ قرآن وحدیث میں مظلوم مسلمانوں کی مددکرنے کا واشگاف حکم موجودہے ، لیکن نہایت افسوس اورصدمے کی بات ہے کہ شامی مسلمانوں کی بے بسی اور بے کسی کو نظرنداز کرکے شیخ یوسف القرضاوی کے بیان کی تروید میں ہندوستان کے ایک انگریزی صحافی اور ایک جماعت کے ذمہ دار کا تکلیف دہ بیان آگیا،جس میں یہ کہاگیا کہ شام کے مسلمانوں کی باہر سے کوئی مدد نہیں کی جانی چاہیے ،کیوں کہ اس سے شیعہ سنی جھگڑا بڑھ جائیگا ،ایسا لگتا ہے کہ یہ بیان دینے والے بڑرگ شام میں حق اور باطل کی تمیز کی صلاحیت سے محروم ہیں مسلمانوں کے مرنے اور مرغ بسمل کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں، گویا بالواسطہ قتل نامہ کے محضر پر ان کی مہر بھی ثبت ہوچکی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی کا یہ جملہ سماعت کے راستہ سے لوگوں کے دلوں میں اترگیا کہ کاش کہ ان کے جسم میں اتنی طاقت ہوتی کہ حق وباطل کے اس معرکے میں شریک ہوتے، ایک مرد مومن کی یہ سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کشتئ جان کو موج بلا میں اور خون کے دریا میں ڈال دے اور شہادت کی منزل حاصل کرلے ۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیزہے لذتٍ آشنائی
شہادت ہے مقصود ومطلوب مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مضمون نگار : ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی
بشکریہ : تعمیر نیوز - علامہ یوسف القرضاوی کا خطبۂ جمعہ - مظلومین شام کے لئے اپیل
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے پر جوش خطبہ میں شام کی تاریخ مختصراً بیان کی اور یہ کہاکہ شام ایک جمہور یت پسند ملک رہاہے، فرانسیسوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اہل شام نے اپنے لئے جمہوری نظام پسند کیا، لیکن شام کا جب مصر سے اتحاد ہوا تومصر نے اپنے استبدادی نظام کو شام تک وسیع کرناچاہا،اہل شام اس کے لئے تیار نہیں ہوئے اور انہوں نے مصر کے ساتھ اتحاد کو خیر باد کہا ، اور پھر ایسا ہوا کہ شام پر حافظ الاسد پورے طور پر مسلط ہوگئے، اور اپنے ہم مسلک علویوں اور نصیریوں کو فوج اور حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا، نصیری چھوٹی سی اقلیت ہیں جو حضرت علی کے الوہیت کے قائل ہیں ،اور علامہ ابن تیمیہ نے جن کے بارے میں کہا تھاکہ وہ یہودیوں سے بڑھ کر کافر واسلام دشمن ہیں،پھر شام میں بعث پارٹی قائم کی گئی جودراصل کمیونسٹ پارٹی کا عرب ایڈیشن ہے، روس سے عسکری اور اقتصادی تعلقات قائم کئے گئے ،خود کو عوام میں مقبول بنانے کے لئے بعث پارٹی نے اپنے آپ کو اسرائیل کے سب سے بڑے حریف کے طور پر پیش کیا، اور پورے ملک میں امیرنجنسی نافذ کردی، پچاس سال تک ایسی زبان بندی رہی کہ لوگ اظہار خیال کے لئے ترس گئے، زبان و قلم کی آزادی چھین لی گئی، اور پورا ملک ایک جیل خانہ بن گیا، گولان کی اہم پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا، بازیابی کے لئے کوئی اقدام نہیں کیاگیا، اور بلاکسی مزاحمت کے اسے اسرائیل کے حوالہ کردیاگیا،اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی،لیکن اپنے ملک کے اسلام پسندوں کوخاک وخوں میں لٹادیا گیا۔ حافظ الاسد کا بیٹا بشارالاسد حکومت کا وارث ہوا، اور اس نے بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام آزادیاں سلب کرلیں اور ملک کوذاتی جاگیر بنالیا۔دولت کےٍ تمام وسائل پر اس کا اور اس کے قرابت داروں کا قبضہ رہا۔
شیخ یوسف القرضاوی نے شام میں جاری انقلاب کی تاریخ بتاتے ہوئے کہاکہ جب مصر اورتونس اور یمن میں انقلاب ایک زندہ حقیقت بننے لگا اور لوگ استبدادی اور غیر جمہوری نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے تو شام کے نوجوان بھی کھڑے ہوئے اور آزادی اور باعزت زندگی کے لئے نعرے لگانے لگے، وہ جمہور یت اور انسانی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے، ابتداء ''درعا'' میں ایک جلوس سے ہوئی ،جس میں اہل سنت کے ساتھ کرواور عیسائی بھی شریک ہوئے تھے، بشارالاسد کی حکومت کو نوجوانوں کی یہ جرأت رندانہ ناگوار ہوئی، حکومت کے کارپردازوں نے ان نوجوانوں کو اذیت خانوں میں ڈال کر ان کے حلیے بگاڑدیئے اوران کے ہاتھ پیرتوڑدیئے ،زخمی اورنیم مردہ حالت میں جب وہ نوجوان اذیت خانوں سے باہر نکلے تو ان کے والدین اوررشتہ داروں کو اور دوست احباب سے یہ حالت دیکھی نہیں گئی اوریہ کرب ناک منظر برداشت نہ ہوسکا ،انہوں نے احتجاج کو پورے ملک میں منظم کیا اور پھر انقلاب کا لاوا آتش فشاں بن گیا۔ لوگ پا بجولاں خوں بداماں سڑکوں پر نکل آئے ۔
اخبارات کے قارئین جانتے ہیں کہ شام میں اب تک ایک لاکھ مردوں عورتوں اوربچوں کا خون ناحق بہہ چکا ہے ،ایرانی حکومت نے بشارالاسد کا اسلحہ سے اور اپنی فوج سے ساتھ دیاہے، اوربشار الاسد کو قتل عام کی اجازت دے دی ہے، اور گویا زبان حال سے یہ کہہ دیا ہے کہ:
تو مشقِ ناز کرخونِ دوعالم میری گردن پر
بعض ناعاقبت اندیش صحافی جو ہر واقعہ کا مجرم امریکہ کو ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ شام کے معاملہ میں بھی بشارالاسد اورایران کی حمایت میں ابھی تک لکھ رہے ہیں ،اس طرح وہ بھی بالواسطہ طور پر شامیوں کے قتلِ عام کے جرم میں شریک ہیں، شام کی یہ جدوجہد اور مذہبی ادارے اس جہاد میں شریک ہیں، قیادت مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، یہ وہ جماعت ہے جس پر یہ مصر ع صادق آتا ہے: ''جمے تو مدرسہ وخانقاہ اٹھیے توسیاہ '' یہ وہ تنظمیں ہیں جو باہمی اختلافات کو ختم کرکے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جان ہتھلی پر لے کر پابہ جولاں خون بہ داماں میدان میں آئی ہیں ۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے خطبہ میں حزب اللہ کو حزب الشیطان اور حسن نصراللہ کو نصر الطاغوت قراردیا ہے، ایران کے دس ہزار جگنجوبشار کی حکومت کو بچانے لئے شام کی سرزمین پر اترچکے ہیں، ایک طرف شام کی فوج ہے جس کے پاس روسی ساخت کے طاقتوں اسلحہ ہیں تیسری طرف ایران کے پاسدران انقلاب ہیں،چوتھی طرف عراق ابوالفضل عباس کا فوجی دستہ ہے، پانچویں طرف لبنان کی حزب اللہ ہے، چھٹی طرف اور دوسرے کئی ملکوں کے شیعی رضا کار ہیں، گویایہ جنگ احزاب رہے شیعوں نے مل کرالقصیر میں زبردست خونریزی کی ہے، اور الحیش الحرلرپیچھے پلٹنے پر مجبور کیاہے۔
علامہ یوسف القرضاوی نے اپنے خطبہ میں صراحت کی ہے کہ ہم صرف ان شیعہ رضاکاروں کے خلاف ہیں، جوبشارالاسد کی ظالم حکومت کا ساتھ دے رہیں ورنہ عراق اور ایران کے بہت شیعوں علماء کو جانتے ہیں، جو بشارالاسد سے سخت برہم ہیں اور ان کی ہمدردی شامی عوام کے ساتھ ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنی پر جوش اور دل سوز خطبہ می کہا کہ شام کا مسئلہ بالکل واضح ہے وہاں کی چھوٹی سے اقلیت کو بہت بڑی اکثریت پر اپنا استبدادی نظام نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں ، وہ استبدادی نظام جس نے ایک لاکھ عوام کو خون کیا ہے جس نے سفاکی اوربربریت کی انتہاکردی ہے ،ایسی استبدادی کے نظام کے خلاف کھڑا ہونا دنیا کے ہر جمہوری اور دستوری قدروں کے اعتبار سے بھی درست ہے ،اور اسلامی نقطۂ نظر سے بھی اس مقابلہ کا پورا وجہ جواز موجودہے۔
شیخ یوسف القرضاوی نے اپنے ولولہ انگیزخطبہ میں کہا کہ اس وقت پورے عالم اسلام پر احرار شام کی مدد کرنا واجب ہے ،ترکی اور قطر کی طرف سے دست تعاون اور دست سخاوت اوردست حوصلہ وہمت پڑھایا جارہا ہے، لیکن یہ مدد ہر مسلم ملک کو کرنی چاہیے اور وہاں اسلحہ بھی بھیجنا چاہیے اور جواس جہاد آزادی میں شریک ہوسکتے ہیں، انہیں خود وہاں جانا چاہیے میرے بوڈھے جسم میں طاقت وتوانائی ہوتی تو میں خود اس جنگ میں شریک ہوتا، کوئی مسلمان شام کے مسلمان بھائیوں کو خاک وخون میں تڑپتا ہوانہیں دیکھ سکتا۔
31/ مئی کو جمعہ کے خطبہ میں شام کے مظلوموں کی مدد کے لئے شیخ یوسف القرضاوی کی آواز بلند ہوئی ،اور چند روز کے اندر سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل شیخ نے اس کی مکمل تائید کی کیوں کہ قرآن وحدیث میں مظلوم مسلمانوں کی مددکرنے کا واشگاف حکم موجودہے ، لیکن نہایت افسوس اورصدمے کی بات ہے کہ شامی مسلمانوں کی بے بسی اور بے کسی کو نظرنداز کرکے شیخ یوسف القرضاوی کے بیان کی تروید میں ہندوستان کے ایک انگریزی صحافی اور ایک جماعت کے ذمہ دار کا تکلیف دہ بیان آگیا،جس میں یہ کہاگیا کہ شام کے مسلمانوں کی باہر سے کوئی مدد نہیں کی جانی چاہیے ،کیوں کہ اس سے شیعہ سنی جھگڑا بڑھ جائیگا ،ایسا لگتا ہے کہ یہ بیان دینے والے بڑرگ شام میں حق اور باطل کی تمیز کی صلاحیت سے محروم ہیں مسلمانوں کے مرنے اور مرغ بسمل کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں، گویا بالواسطہ قتل نامہ کے محضر پر ان کی مہر بھی ثبت ہوچکی ہے۔
شیخ یوسف القرضاوی کا یہ جملہ سماعت کے راستہ سے لوگوں کے دلوں میں اترگیا کہ کاش کہ ان کے جسم میں اتنی طاقت ہوتی کہ حق وباطل کے اس معرکے میں شریک ہوتے، ایک مرد مومن کی یہ سب سے بڑی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کشتئ جان کو موج بلا میں اور خون کے دریا میں ڈال دے اور شہادت کی منزل حاصل کرلے ۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیزہے لذتٍ آشنائی
شہادت ہے مقصود ومطلوب مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مضمون نگار : ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی
بشکریہ : تعمیر نیوز - علامہ یوسف القرضاوی کا خطبۂ جمعہ - مظلومین شام کے لئے اپیل