• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء احناف کے لیے دعوت غور و فکر

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ کی پوری ’’ شراکت ‘‘ کاجائزہ چند نکات میں پیش خدمت ہے :
1۔ محدثین کے مقلدین ہونے کے حوالے سے آپ نےجو کچھ فرمایا اس کا موضوع ’’ اثبات تقلید ‘‘ کی بجائے ’’ اثبات انتساب ‘‘ ہے ۔ جو کہ فی الوقت موضوع بحث نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی امام کی طرف منتسب ہونا اور چیز ہے اور کسی کی تقلید شی دیگر ہے ۔
2۔ محدثین یا اہل حدیث کے مستقل فقہی مسلک کے وجود پر آپ نے درج ذیل اعتراض کیا ہے :
اگر ہم محدثین کرام کو مجتہد مستقل مانیں تو ہمیں ان کے اصول و قواعد ڈھونڈنے ہوں گے۔ جس جس کو مانتے جائیں گے اس کے ڈھونڈنے ہوں گے جو اس نے یا اس کے شاگردوں نے مرتب کیے ہوں یا کم از کم ان کا ذکر ہی کیا گیا ہو۔ اور کم از کم یہ کہ انہیں علماء نے مجتہد مطلق قرار دیا ہو۔
اور اگر ہم محدثین کا الگ لیکن ایک ہی مسلک تسلیم کرتے ہیں تو پھر اس مسلک کے قواعد و اصول کہاں ہیں۔ کس نے اخذ کیے؟ یہ تو ڈھونڈنا ہی ہوگا۔
اس کا بالکل سادہ اور آسان ساجواب ہےکہ اگر کسی مجتہد کے اصول ہمیں نہیں ملے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کے ہاں اصول اجتہاد ہیں ہی نہیں ۔
ایک طرف تو آپ امام صاحب کے بیان کردہ مسائل کے دلائل بھی بایں الفاظ پیدا کرلیتے ہیں کہ ’’ امام صاحب کے پاس یہ دلائل ہوں گے یہ الگ بات ہے کہ ہم تک نہیں پہنچ سکے ‘‘ اور دوسری طرف کسی عالم دین کو مجتہد اس وجہ سے نہیں مان رہے کہ اس کے اصول اجتہاد نہیں ملتے ۔
اس حوالے سے مزید حنفی بزرگوں کے درج ذیل فیصلے آپ نے ملاحظہ کرلیےہوں گے :
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-بخاری-مجتہد-تھے-،-احناف-کی-زبانی.20309/
اسی طرح اہلحدیث کی فقاہت اور اہل الرائے سے ان کا فرق جاننے کے لیے یہاں تشریف لائیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-الحدیث-اور-اہل-الرائے-ایک-تقابلی-جائزہ.3142/
اس مضمون کی آخری شراکت پیش خدمت ہے :
حاصل بحث
حاصل بحث یہ ہے کہ اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تاریخ بہت پرانی ہے اور امت مسلمہ میں اجتہاد واستنباط کے باب میں دو مستقل مناہج فکر تاحال قائم ہیں۔ آج بھی ہم ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے فتاوی کا ایک تقابلی مطالعہ کریں تو یہ فر ق واضح طور نظر آتا ہے کہ مقدم الذکر کے ہاں محدود نصوص نقل کرتے ہوئے تفقہ و استنباط کا پہلو غالب ہے جبکہ موخر الذکر کے ہاں کسی مسئلہ کی بنیاد عموماً احادیث وآثار کی کثرت بیان پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شیخ بن باز اور شیخ صالح العثیمین رحمہما اللہ کے بیان نصوص اور نکتہ رسی دونوں ہی کثرت سے موجود ہیں۔
ہر دور میں بعض اہل علم ایسے بھی رہے ہیں کہ جنہوں نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے منہج کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی کے بعد امام محمد رحمہ اللہ سے تفقہ کی تعلیم حاصل کی اور امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کے بعد حدیث وآثار کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی۔ اگرچہ امام محمد رحمہ اللہ سے استفادہ کے باوجود امام شافعی رحمہ اللہ پر اہل الحدیث کا منہج غالب رہا اور امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کے بعد بھی امام محمد رحمہ اللہ پر اہل الرائے کا منہج چھایا رہا۔
ہماری رائے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان دونوں مناہج کو کمال درجے میں جمع کیا ہے کہ جس کا شاہکار 'مجموع الفتاوی' ہے۔ امام صاحب ایک طرف تو اہل الحدیث کے منہج پر چلتے ہوئے حدیث وسنت کے بالمقابل کسی امام کی تقلید کو حرا م قرار دیا تو دوسری طرف اہل الرائے کے منہج پر بڑھتے ہوئے قیاس وعلت کے باب میں حکمت کا تصور دے کر قیاس کو جمود سے نکال کر ہر زمانہ کے لیے ایک حرکی تصور بنا دیا۔ ایسے فقہا کہ جنہوں نے ان دونوں مناہج کو جمع کیا ہو، انہیں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے 'فقہائے محدثین' کا لقب دیا ہے اور اپنی تحریروں میں ان کی اتباع کا مشورہ دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اہل الحدیث کے منہج میں تشدد کی وجہ سے اگر امام داود اور امام ابن حزم ظاہری رحمہا اللہ وغیرہ کی صورت میں ظاہریت نے جنم لیا تو اہل الرائے کے منہج میں غلو نے تقلیدی جمود کو فروغ دیا۔ اہل الحدیث اپنے فتاوی کو ظاہریت کے اثرات سے اسی صورت خالی کر سکتے ہیں کہ جب وہ اہل الرائے جیسی نکتہ رسی کے قائل ہوں اور اہل الرائے اپنے آپ کو اسی صورت تقلیدی جمود سے نکال سکتے ہیں جبکہ وہ اہل الحدیث کی طرح حدیث وسنت میں مہارت پیدا کریں اور اپنے ائمہ کے اجتہادات کو عارضی حیثیت دیتے ہوئے ان کے منہج پر ہر دور میں اپنے علم وفضل کی روشنی میں عوام الناس کی قدیم وجدید مسائل میں رہنمائی کرتے رہیں۔
انتہی ۔
یہ المخالفین لنا فی الفروع میں "نا" ضمیر کس کی جانب ہے؟ ائمہ اربعہ کے یا احناف کے؟
اگر اس سے مراد وہ اہل حدیث ہیں جو تمام فروع یعنی فقہ میں ائمہ اربعہ کے خلاف تھے تو کیا ایسی کتابیں کوئی موجود ہیں یا مذکور ہیں جن کے مصنفین نے ائمہ اربعہ کے اصولوں سے ہٹ کر اپنے اصول بنائے ہوں اور وہ محدث بھی ہوں؟ کم از کم میرے ناقص علم میں نہیں ہیں۔
تو یہاں ضمیر کا مرجع غالبا احناف ہیں جیسا کہ آگے قسموں کے ذکر میں ماتریدیؒ کا ذکر کیا ہے اور اشعریؒ کا ذکر نہیں کیا۔
دونوں میں سے جو مرضی احتمال قبول کرلیں کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ ’’ اہل حدیث ‘‘ کا تعلق صرف ’’ روایت حدیث ‘‘ یا ’’ اصول دین ‘‘ سےنہیں بلکہ ’’ فروع دین ‘‘ یعنی فقہی مسائل میں بھی ان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
گویا مسلک اہلحدیث ایک جامع مسلک ہے ۔ یہ نہیں کہ فقہ کہیں اور سے ، عقیدہ کہیں اور سے ، اور روایات ( بوقت ضرورت ) کہیں اور سے ۔
وہاں ایسی چند مثالیں ہیں جن میں اپنا مسلک چھوڑا گیا ہے تفرد کی بنا پر۔ یعنی قرآن و سنت سے جیسی سمجھ آئی اس کی بنیاد پر مسلک کو ترک کیا۔ واللہ اعلم
یہاں اقتباس لگا سکتے ہیں ؟
اسی طرح آپ نے کہا تھا :
اور میں نے آپ کی تعیین کر کے الزام نہیں لگایا (مسکراہٹ)
آپ کے اس غیر معین الزام کے ’’ ملزمین ‘‘ میں سے ایک حوالہ مل گیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
وأمَّا أبو داود، فهو حنبلي راوٍ لفِقه الإِمام أحمد رحمه الله تعالى، كمحمد وأبي يوسف لفقه الحنفية، ومَنْ عدَّه من الشافعية، فكأنَّه لم يقصد به إلاّ تكثيرَ السواد، ولا ريب أنَّه حنبلي فاعلمه. ( فیض الباری أمالی الکشمیری ج 1 ص 400 )
میرے محترم بھائی دونوں جانب ہی قرآن و سنت کے دلائل ہوتے ہیں۔ اب اسے مزید قرآن و سنت سے ترجیح کیسے دی جا سکتی ہے؟ کیا ضیاء الحق کے قانون کی طرح قرآن و سنت میں کہیں ذکر ہے کہ اس صورت کو معارضہ کے وقت ترجیح ہوگی؟ دونوں فریق اپنا اپنا موقف بھرپور طور پر مدلل کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں ترجیح کسی خارج چیز کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے اور وہ دی گئی ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ علمائے احناف کی ان کتب میں سے کسی ایک سیریز کا (یعنی متون،شروح و کتب تخریج وغیرہ) کا ایسے مسائل میں بھرپور مطالعہ فرما لیں۔
اچھا اگر کسی مسئلہ میں اگر قرآن وسنت کے دلائل میں قرآن وسنت سے ہی ترجیح دکھا دی جائے تو آپ قبول کرلیں گے ؟ یا پھر وہی کہیں گے جو بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ مذہب کی پابندی لازم ہے ۔ ؟
ویسے تو اس سے محدثین کا الگ مسلک ثابت نہیں ہو رہا لیکن اگر ذرا گہرائی میں جائیں اور ہم اس دور کی تشریح شاہ صاحبؒ کے اس قول کی روشنی میں کریں تو کیا حرج ہے؟
وكان من خير العامة أنهم كانوا في المسائل الاجماعية التي لا اختلاف فيها بين المسلمين أو جمهور المجتهدين لا يقلدون إلا صاحب الشرع، وكانوا يتعلمون صفة الوضوء والغسل والصلاة والزكاة ونحو ذلك من آبائهم أو معلمي بلدانهم، فيمشون حسب ذلك
یعنی سنن اور آثار کا معنی یہ ہوگا کہ جو احادیث ان تک پہنچی تھیں اور جیسے انہوں نے اپنے آباء کو پایا تھا ویسے عمل کرتے تھے حتی کہ ان میں یہ صاحب مذہب ابو حنیفہ لے آئے(اور پھر انہوں نے اسے قبول بھی کر لیا اور ان سنن و آثار پر ترجیح دے دی اور اس پر کسی نے انہیں مشرک بھی نہیں کہا۔ حیرت ہے!!!)۔
یہ قول اپنے معنی و مفہوم اور مدلول میں بالکل واضح ہے ۔ باقی گہرائیوں میں اترنے والوں سے ( معاف کیجیے گا ) سے تو بعض دفعہ قرآن وسنت کی نصوص بھی محفوظ نہیں رہ سکیں یہ تو پھر ایک تاریخی قول ہے ۔
یہاں بات بالکل واضح ہے کہ احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی سے سیراب ہونا اپنی اپنی حیثیت کےمطابق ہر ایک کا حق ہے ۔ اسی بات کی دعوت مختلف زمانوں میں اہل حدیث دیتے آئے ہیں اور یہی مسلک اس دور میں موجود تھا ۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایساطرز عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور سے شروع ہوا اور صحابہ کرام نے اس کو نشرو اشاعت کی ۔ ایک دور میں آکر یہی مسلک و مشرب مطعون ٹھہرا دیا گیا ۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ جن لوگوں نے امت اسلام کو اور آئمہ عظام کو مابینہم تقسیم کرلیا تھا ان سے پوچھا جاتا کہ جناب یہ تقسیم جوبقول شاو ولی اللہ چوتھی صدی ہجری میں ہوئی اس کی وجہ جواز کیا ہے ؟
لیکن معاملہ برعکس ہوگیا ہے کہ بعد میں ایک نیا طرز عمل متعارف کرنے والے پہلوں کو پوچھ رہے ہیں کہ جناب ہم تو کہاں پہنچ گئے اور آپ ابھی تک وہی پرانا طرز عمل کیوں لیے بیٹھے ہیں !
ایک چیز ہوتی ہے زیادہ مسائل یا عبارات جاننا اور ایک چیز ہوتی ہے مسائل و عبارات کو ان کی روح کے ساتھ جاننا۔
شاہ صاحب کے اس قسم کے اقوال سے مجھے یہی اندازہ ہوا کہ شاید شاہ صاحب مسائل میں قلیل النظر تھے یعنی مکمل نہیں سمجھ سکے تھے اور یا پھر مسلکی جنگ کا شاخسانہ تھا یہ۔
آپ کی اس بات سے اتفاق ہے ۔ یقینا شاہ صاحب نے فقہ حنفی کے مسائل و عبارات کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا جس نگاہ سے حنفی حضرات دیکھتے ہیں ۔ کیونکہ دیکھنے کے انداز میں تو ’’ اہل حدیث ‘‘ اور ’’ اہل الرائے ‘‘ کے مابین فرق قدیم سے ہی چلا آ رہا ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ کی پوری ’’ شراکت ‘‘ کاجائزہ چند نکات میں پیش خدمت ہے :
1۔ محدثین کے مقلدین ہونے کے حوالے سے آپ نےجو کچھ فرمایا اس کا موضوع ’’ اثبات تقلید ‘‘ کی بجائے ’’ اثبات انتساب ‘‘ ہے ۔ جو کہ فی الوقت موضوع بحث نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی امام کی طرف منتسب ہونا اور چیز ہے اور کسی کی تقلید شی دیگر ہے ۔
2۔ محدثین یا اہل حدیث کے مستقل فقہی مسلک کے وجود پر آپ نے درج ذیل اعتراض کیا ہے :

اس کا بالکل سادہ اور آسان ساجواب ہےکہ اگر کسی مجتہد کے اصول ہمیں نہیں ملے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کے ہاں اصول اجتہاد ہیں ہی نہیں ۔
ایک طرف تو آپ امام صاحب کے بیان کردہ مسائل کے دلائل بھی بایں الفاظ پیدا کرلیتے ہیں کہ ’’ امام صاحب کے پاس یہ دلائل ہوں گے یہ الگ بات ہے کہ ہم تک نہیں پہنچ سکے ‘‘ اور دوسری طرف کسی عالم دین کو مجتہد اس وجہ سے نہیں مان رہے کہ اس کے اصول اجتہاد نہیں ملتے ۔
اس حوالے سے مزید حنفی بزرگوں کے درج ذیل فیصلے آپ نے ملاحظہ کرلیےہوں گے :
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-بخاری-مجتہد-تھے-،-احناف-کی-زبانی.20309/
اسی طرح اہلحدیث کی فقاہت اور اہل الرائے سے ان کا فرق جاننے کے لیے یہاں تشریف لائیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-الحدیث-اور-اہل-الرائے-ایک-تقابلی-جائزہ.3142/
اس مضمون کی آخری شراکت پیش خدمت ہے :
حاصل بحث
حاصل بحث یہ ہے کہ اہل الرائے اور اہل الحدیث کی تاریخ بہت پرانی ہے اور امت مسلمہ میں اجتہاد واستنباط کے باب میں دو مستقل مناہج فکر تاحال قائم ہیں۔ آج بھی ہم ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے فتاوی کا ایک تقابلی مطالعہ کریں تو یہ فر ق واضح طور نظر آتا ہے کہ مقدم الذکر کے ہاں محدود نصوص نقل کرتے ہوئے تفقہ و استنباط کا پہلو غالب ہے جبکہ موخر الذکر کے ہاں کسی مسئلہ کی بنیاد عموماً احادیث وآثار کی کثرت بیان پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شیخ بن باز اور شیخ صالح العثیمین رحمہما اللہ کے بیان نصوص اور نکتہ رسی دونوں ہی کثرت سے موجود ہیں۔
ہر دور میں بعض اہل علم ایسے بھی رہے ہیں کہ جنہوں نے اہل الرائے اور اہل الحدیث کے منہج کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی کے بعد امام محمد رحمہ اللہ سے تفقہ کی تعلیم حاصل کی اور امام محمد رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کے بعد حدیث وآثار کے لیے امام مالک رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی۔ اگرچہ امام محمد رحمہ اللہ سے استفادہ کے باوجود امام شافعی رحمہ اللہ پر اہل الحدیث کا منہج غالب رہا اور امام مالک رحمہ اللہ سے کسب فیض کے بعد بھی امام محمد رحمہ اللہ پر اہل الرائے کا منہج چھایا رہا۔
ہماری رائے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان دونوں مناہج کو کمال درجے میں جمع کیا ہے کہ جس کا شاہکار 'مجموع الفتاوی' ہے۔ امام صاحب ایک طرف تو اہل الحدیث کے منہج پر چلتے ہوئے حدیث وسنت کے بالمقابل کسی امام کی تقلید کو حرا م قرار دیا تو دوسری طرف اہل الرائے کے منہج پر بڑھتے ہوئے قیاس وعلت کے باب میں حکمت کا تصور دے کر قیاس کو جمود سے نکال کر ہر زمانہ کے لیے ایک حرکی تصور بنا دیا۔ ایسے فقہا کہ جنہوں نے ان دونوں مناہج کو جمع کیا ہو، انہیں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے 'فقہائے محدثین' کا لقب دیا ہے اور اپنی تحریروں میں ان کی اتباع کا مشورہ دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اہل الحدیث کے منہج میں تشدد کی وجہ سے اگر امام داود اور امام ابن حزم ظاہری رحمہا اللہ وغیرہ کی صورت میں ظاہریت نے جنم لیا تو اہل الرائے کے منہج میں غلو نے تقلیدی جمود کو فروغ دیا۔ اہل الحدیث اپنے فتاوی کو ظاہریت کے اثرات سے اسی صورت خالی کر سکتے ہیں کہ جب وہ اہل الرائے جیسی نکتہ رسی کے قائل ہوں اور اہل الرائے اپنے آپ کو اسی صورت تقلیدی جمود سے نکال سکتے ہیں جبکہ وہ اہل الحدیث کی طرح حدیث وسنت میں مہارت پیدا کریں اور اپنے ائمہ کے اجتہادات کو عارضی حیثیت دیتے ہوئے ان کے منہج پر ہر دور میں اپنے علم وفضل کی روشنی میں عوام الناس کی قدیم وجدید مسائل میں رہنمائی کرتے رہیں۔
انتہی ۔

دونوں میں سے جو مرضی احتمال قبول کرلیں کم از کم یہ تو ثابت ہوگیا کہ ’’ اہل حدیث ‘‘ کا تعلق صرف ’’ روایت حدیث ‘‘ یا ’’ اصول دین ‘‘ سےنہیں بلکہ ’’ فروع دین ‘‘ یعنی فقہی مسائل میں بھی ان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
گویا مسلک اہلحدیث ایک جامع مسلک ہے ۔ یہ نہیں کہ فقہ کہیں اور سے ، عقیدہ کہیں اور سے ، اور روایات ( بوقت ضرورت ) کہیں اور سے ۔

یہاں اقتباس لگا سکتے ہیں ؟
اسی طرح آپ نے کہا تھا :

آپ کے اس غیر معین الزام کے ’’ ملزمین ‘‘ میں سے ایک حوالہ مل گیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
وأمَّا أبو داود، فهو حنبلي راوٍ لفِقه الإِمام أحمد رحمه الله تعالى، كمحمد وأبي يوسف لفقه الحنفية، ومَنْ عدَّه من الشافعية، فكأنَّه لم يقصد به إلاّ تكثيرَ السواد، ولا ريب أنَّه حنبلي فاعلمه. ( فیض الباری أمالی الکشمیری ج 1 ص 400 )

اچھا اگر کسی مسئلہ میں اگر قرآن وسنت کے دلائل میں قرآن وسنت سے ہی ترجیح دکھا دی جائے تو آپ قبول کرلیں گے ؟ یا پھر وہی کہیں گے جو بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ مذہب کی پابندی لازم ہے ۔ ؟

یہ قول اپنے معنی و مفہوم اور مدلول میں بالکل واضح ہے ۔ باقی گہرائیوں میں اترنے والوں سے ( معاف کیجیے گا ) سے تو بعض دفعہ قرآن وسنت کی نصوص بھی محفوظ نہیں رہ سکیں یہ تو پھر ایک تاریخی قول ہے ۔
یہاں بات بالکل واضح ہے کہ احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ صافی سے سیراب ہونا اپنی اپنی حیثیت کےمطابق ہر ایک کا حق ہے ۔ اسی بات کی دعوت مختلف زمانوں میں اہل حدیث دیتے آئے ہیں اور یہی مسلک اس دور میں موجود تھا ۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایساطرز عمل جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور سے شروع ہوا اور صحابہ کرام نے اس کو نشرو اشاعت کی ۔ ایک دور میں آکر یہی مسلک و مشرب مطعون ٹھہرا دیا گیا ۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ جن لوگوں نے امت اسلام کو اور آئمہ عظام کو مابینہم تقسیم کرلیا تھا ان سے پوچھا جاتا کہ جناب یہ تقسیم جوبقول شاو ولی اللہ چوتھی صدی ہجری میں ہوئی اس کی وجہ جواز کیا ہے ؟
لیکن معاملہ برعکس ہوگیا ہے کہ بعد میں ایک نیا طرز عمل متعارف کرنے والے پہلوں کو پوچھ رہے ہیں کہ جناب ہم تو کہاں پہنچ گئے اور آپ ابھی تک وہی پرانا طرز عمل کیوں لیے بیٹھے ہیں !

آپ کی اس بات سے اتفاق ہے ۔ یقینا شاہ صاحب نے فقہ حنفی کے مسائل و عبارات کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا جس نگاہ سے حنفی حضرات دیکھتے ہیں ۔ کیونکہ دیکھنے کے انداز میں تو ’’ اہل حدیث ‘‘ اور ’’ اہل الرائے ‘‘ کے مابین فرق قدیم سے ہی چلا آ رہا ہے ۔
حیرت ہے! میں نے یہ جواب آج پڑھا ہے۔
ان میں سے کچھ باتوں سے اختلاف ہے اور کچھ سے اتفاق۔ بس یہی خلاصہ کلام ہے۔
 
Top