• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء اور حكمرانوں كى اتباع كرنا:

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
علماء اور حكمرانوں كى اتباع كرنا:

حكام يا علماء كى جانب سے اللہ كى حرام كردہ كو حلال يا حلال كو حرام كرنے ميں اتباع كرنے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:
اللہ كى حرام كردہ كو حلال يا اس كے برعكس ميں علماء يا حكام كى

اتباع كرنے كى تين قسم بنتى ہيں:

پہلى قسم:
اس معاملہ ميں وہ ان كے قول كو راضى خوشى تسليم كرتا ہوا اللہ كے حكم سے ناراض ہو كر ان كے قول كو مقدم كرے تو وہ كافر ہے؛ كيونكہ اس نے اللہ تعالى كى نازل كردہ شريعت كو ناپسند كيا ہے، اور اللہ كى نازل كردہ شريعت اور حكم كو ناپسند كرنا كفر ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا ہے، تو اللہ تعالى نے ان كے اعمال ضائع كر ديے }محمد ( 9 ).
اور اعمال كفر كى بنا پر ہى ضائع ہوتے ہيں، اس ليے جس نے بھى اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو وہ كافر ہے.

دوسرى قسم:
وہ اللہ تعالى كے حكم پر راضى ہوتے اور يہ علم ركھتے ہوئے كہ يہ نازل كردہ بندوں اور ملك كى مصلحت ميں ہے ان علماء اور حكمرانوں كى اتباع صرف اپنى خواہش كى بنا پر كرتا ہى تو يہ شخص كافر نہيں ہو گا، ليكن فاسق ضرور ہے.
اور يہ كہا جائے كہ: وہ كافر كيوں نہيں ہو گا ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
اس نے اللہ كے حكم كا انكار نہيں كيا بلكہ وہ اس پر راضى ہے ليكن وہ اپنى خواہش كى بنا پر اس كى مخالفت كر رہا ہے، تو يہ سب اہل معصيت كى طرح ہو گا.

تيسرى قسم:
وہ جہالت كى بنا پر ان كى اتباع كرے، اور اس كا خيال اور گمان ہو كہ يہ اللہ كا حكم ہے، يہ دو قسموں ميں منقسم ہوتا ہے:
اول:
اس كے ليے خود ہى حق كى پہچان كرنا ممكن ہو، تو يہ شخص كوتاہى يا زيادتى يعنى افراط يا تفريط كا شكار ہے، اور يہ گنہگار ہو گا، كيونكہ علم نہ ہونے كى صورت ميں اللہ تعالى نے اہل علم سے دريافت كرنے كا حكم ديا ہے.
دوم:
وہ جاہل ہو اور اس كے خود حق كى پہچان كرنا ممكن نہ ہو تو وہ تقليد كى غرض سے يہ گمان اور خيال كرتے ہوئے ان كى اتباع كرے كہ يہ حق ہے، تو اس پر كچھ نہيں؛ كيونكہ اس وہى كام كيا ہے جس كا اسے حكم ديا گيا تھا، اور وہ اس سے معذور ہو گا، اسى ليے حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى بغير علم كے فتوى ديا تو اس كا گناہ فتوى دينے والے پر ہے "
اور اگر ہم كسى دوسرے كى غلطى كى بنا پر اس كو گنہگار كہيں تو اس سے حرج اور مشقت لازم آئيگى اور غلطى اور خطا كے احتمال كى بنا لوگ كسى كو بھى ثقہ تسليم نہيں كرينگے " انتہى .
ديكھيں: فتاوى علماء بلد الحرام ( 475 - 476 ).
 
Top