1- اگر مندرجہ بالا علماء کے فتاوی میں کوئی اجتھادی غلطیاں ہیں تو کیا آپ میں سے کسی نے کسی کتب میں اس کی نشان دہی کیں۔ آپ حضرات کے نذدیک احناف میں جو غلطیاں ہیں ان کی نشاندہی تو فورا کرتے اور بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں ۔ غالبا اس سے آپ نیت ہوتی ہوگی کہ ایک عام آدمی گمراہ نہ ہو ۔
لیکں اگر اہل حدیث علماء کے فتاوی میں کچھ غلطیاں ہیں تو کیا ان کو بھی اسی طرح بیان کیا جاتا ہے ۔
اگر نہیں تو کیوں ، اگر بیان کیا گیا جاتا ہے تو اس کا حوالہ دیں۔
اہلحدیث کے فتاوی میں اگر کچھ غلطیاں ہیں تو ایک آدمی کے بہکنے کا زیادہ خطرہ ہے کیوں کہ وہ عام اہل حدیث سمجھتا ہے یہ اہل حدیث عالم ہیں اور انہوں نے فتوی قرآن و حدیث پر دیا ہوگا ۔
میرے بھائی! اللہ تعالیٰ کے قرآن اور نبی کریمﷺ کے صحیح فرمان کے علاوہ ہر بات یا ہر کسی کی بات میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے، کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں۔ جس طرح کتبِ احناف وفتاویٰ وغیرہ میں غلطیاں ہو سکتی ہیں، بالکل اسی طرح غیر احناف کی کتب وفتاویٰ میں بھی بالکل غلطیاں ہو سکتی ہیں، جس سے ہمیں الحمد للہ کسی قسم کا کوئی انکار نہیں، اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ آپ لوگوں سے ہمیں اختلاف تب ہوتا ہے جب آپ اپنی کتب وفتاویٰ کی ہر صحیح وغلط بات پر اڑ جاتے ہیں، خواہ وہ کتاب وسنت کے صریح منافی ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً پچھلے دنوں فضائل اعمال کے حوالے سے کچھ من گھڑت اور نا ممکن الوقوع واقعات پیش کیے گئے تو آپ لوگوں میں سے کسی نے بھی ان واقعات کو غلط تسلیم نہیں کیا حالانکہ میرا حسن ظن یہی ہے کہ آپ لوگ بھی دل سے ان واقعات کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔
جہاں تک اہل الحدیث کی کتب وفتاویٰ میں اغلاط کا معاملہ ہے تو بسم اللہ کیجئے! آپ کتاب وسنت سے ان کی غلطی ثابت کیجئے! ہم ان شاء اللہ تسلیم کرنے میں بالکل دیر نہیں لگائیں گے، کیونکہ ہمارا مسلک ہی تنازع کی صورت میں رجوع الی الکتاب والسنۃ ہے، اور یہ صرف دعویٰ نہیں آپ ان شاء اللہ اس پر عمل بھی پائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
2- کیا آپ کی بات کا یہ مطلب ہے کہ اگو کوئی عام شخص کوئی ایسی حدیث پائے جو ان علماء کے فتوی سے ٹکرائے تو فتوی چھوڑ کر اس حدیث پر عمل کر لے ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟
جی بھائی! بالکل، اگر کوئی عام شخص کوئی ایسی صحیح وصریح حدیث پائے جو ان علماء کے فتاویٰ سے ٹکرائے تو وہ فتویٰ چھوڑ کر اس حدیث پر عمل کر لے۔ کیونکہ قرآن وحدیث پر عمل جس طرح علماء کیلئے ضروری ہے، اسی طرح عوام کیلئے بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ علماء کیلئے تو کتاب وسنت پر عمل ضروری ہے جبکہ عوام کیلئے علماء کے فتووں پر؟
اگر میں الزامی طور پر آپ کا یہی سوال آپ کو ہی لوٹاؤں کہ اگو کوئی عام شخص کوئی ایسی آیتِ قرآنی پائے جو علمائے احناف کے فتویٰ سے ٹکرائے تو کیا اسے فتویٰ چھوڑ کر آیت پر عمل نہیں کرنا چاہئے؟؟!!
اگر آپ کو موقف کو ہی جدلا درست تسلیم کر لیا جائے کہ عامی شخص کتاب وسنت پر خود عمل نہیں کر سکتا تو پھر یہ بتائیے کہ مشرک اور بدعتی حضرات کو دعوت کس طرح دی جائے کیونکہ ہر اختلافی مسئلے میں وہ خود کتاب وسنت کی صریح نصوص پر عمل کرنے کی بجائے اپنے فتاویٰ یا علماء سے ہی رجوع کریں گے جو انہیں کبھی حق کی طرح نہ جانے دیں گے؟!!
میرے عزیز بھائی! علماء اور عوام دونوں نے کتاب وسنت پر عمل کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی کتاب وسنت پر عمل کا حکم دیا ہے کہیں بھی عالم وغیر عالم کی تقسیم نہیں فرمائی۔ بس فرق یہ ہے کہ علماء نے براہِ راست عمل کرنا ہے جبکہ عوام نے سمجھ نہ آنے کی صورت میں علمائے حق کے واسطے سے۔
(فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون) گویا عامی شخص بھی عمل کتاب وسنت پر ہی کرتا ہے، نہ کہ عالم کی بات پر۔ بلکہ اگر کوئی عامی شخص علمائے کرام سے کتاب وسنت کی بجائے ان کی ذاتی رائے (بغیر دلیل جانے) معلوم کرکے اس پر عمل کرے (جیسے بعض لوگ سوال ہی یہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس مسئلہ کا حل
فلاں فقہ کی روشنی میں بتائیں) تو یہی تو علماء کو تحلیل وتحریم کا حق دینا اور اللہ کے علاوہ رب بنانا ہے، یہی یہود ونصاریٰ کا طرز عمل تھا، ارشاد باری ہے:
﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۳۱ ﴾کہ ’’
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تشریح میں سیدنا عدی بن حاتم سے مروی ہے جو جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے، کہ میں رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« يا عدي! اطرح عنك هذا الوثن » کہ اے عدی! اس بت کو اپنے سے دور کر دو۔‘‘ اور میں نے نبی کریمﷺ کو یہ آیت کریمہ پڑھتے سنا
﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ آپ نے فرمایا:
« أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ، ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه ، وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه » کہ ’’وہ ان (علماء ودرویشوں) کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن
جب وہ ان کیلئے کسی شے کو حلال قرار دیتے تو یہ بھی اسے حلال سمجھتے اور جب وہ کسی شے کو ان پر حرام کہتے تو یہ بھی اسے حرام سمجھتے تھے۔‘‘ صحیح الترمذی: 3095
سیدنا حذیفہ سے درج بالا آیت کریمہ کے متعلّق سوال کیا گیا کہ اہل کتاب ان (احبار اور رہبان) کیلئے نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
لا ولكنهم كانوا يحلون لهم ما حرم الله عليهم فيستحلونه ويحرمون عليهم ما أحل الله لهم فيحرمونه فصاروا بذلك أربابا کہ ’’نہیں بلکہ
وہ ان کیلئے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیتے تو یہ انہیں حلال سمجھ لیتے اور وہ ان پر اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیتے تو یہ انہیں حرام سمجھتے تھے، اس طرح وہ اِن کے رب بن گئے۔‘‘ (
السلسلة الصحيحة للألباني: 7 / 865)
میرے بھائی! اختلاف کی صورت میں ہماری منزل علمائے کرام نہیں بلکہ کتاب وسنت ہیں، کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ (
سورۃ النساء: 59)
علمائے کرام کا مقام ہمارے نزدیک مینارۂ نور کا ہے، جس کی روشنی میں ہم نے اپنے مقصد ومنزل (اللہ کے حکم) تک پہنچنا ہے۔ نہ کہ علماء بذاتِ خود ہی منزل ہیں کہ ان کی ہر ہر بات بغیر دلیل کے تسلیم کر لی جائے۔
بالکل ایسے جیسے صحراء یا سمندر کے راستے سے حج کو جانے والے شخص کی اصل منزل مکہ مکرمہ ہے، لیکن وہ اس سلسلے میں بھٹک جانے پر قطبی ستارے سے مدد لیتا ہے۔ اب راستہ تلاش کرنے میں قطبی ستارے کی اہمیت تو مسلمہ ہے، اس سے انکار نہیں لیکن اس کی اہمیت راستہ واضح کرنے کی حد تک ہے، وہ حاجی کی منزل نہیں اور اگر کوئی حاجی اسے اتنی اہمیت دے تو اصل منزل (مکہ مکرمہ) کو بھول کر اسی کی طرف سفر شروع کر دے تو کبھی منزلِ مقصود نہ پا سکے گا۔ کیا خیال ہے؟!!
واللہ تعالیٰ اعلم!
مزید تفصیل کیلئے یہ تھریڈ ملاحظہ کیجئے!
http://www.kitabosunnat.com/forum/شرک۔اقسام-ومسائل-واحکام-15/اللہ-کا-حقِ-تحلیل-وتحریم-غیر-اللہ-کو-دینا-شرک-ہے-1495/
اللهم أرنا الحق حقا ...