• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء کرام سے علم کے حصول کی ضرورت اور اہمیت!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
6.4)) باطل کی تردید اور حق کے قیام میں علماء کرام کے کردار۔

ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين

اس علم کو ہر دور کے قابل اعتمادلوگوں اگے لے کر جائینگے – یہ لوگ اس علم سے وہ تمام تر تحریفات جو ان لوگوں نے کی جو اپنا حد پار کر گئے؛ ؛ یعنی کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کے غلط تشریحات کو خارج کر دینگے-

[ صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (١٠/٢٠٩)، ابن ابی حاتم الجرح ؤ تعدیل (٢/١٧) ، اور التمہید ابن عبدالبر (١/٥٧-٥٨) نے ابراہیم بن عبد الرحمان ال ادھری رضی الله عنہ کی حدیث سے بیان کیا- امام احمد نے اسے صحیح کہا ( دیکھئے : تاریخ دمشق 7/٣٩) اور شرف اصحاب الحدیث الخطیب بغدادی (صفحہ ٢٩). صحیح بحوالہ سلسلہ صحیحہ ٢٢٧ .]

زبیر بن عدی رحم الله نے فرمایا:

ہم انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس گئے اور انسے حجاج کے شر /برائیوں کی فریاد کی- پس انہوں (انس) نے کہا:
" کوئی ایسا سال نہیں ہوگا جو کہ پچھلے والے سال سے بد تر نہ ہو یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو- اور میں نے یہ آپ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے سنا "-

ابن مسعود رضی الله عنہ نے اسکو اسطرح سمجھا:

قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا- اس سے میرا مطلب دولت کی فراوانی یا بے کار معاملات نہیں ہیں- بلکہ اس سے میری مراد وقت کے ساتھ ساتھ علم کی کمی ہے یہاں تک کہ علماء کے فوت ہونے سے لوگ ( علم کے لحاظ سے ) برابر ہو جاینگے- نتیجا وہ نہ پھر اچھائی کی طرف بلائینگے نہ برائی سے روکیں گے اور یہی انکی تباہی کا سبب بنے گا-

[سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المروہ میں؛ نسائی (٣/٣٩٣)، الخطیب نے فقیہ والمتفقیہ میں (١/٤٥٦)؛ فتح الباری (١٣/٢٦)-]

ایک چھوٹی لیکن زبردست مثال "صحابی "کی تعریف ہے- شیعہ اور غیر مسلم بھی روایت لے کر آتے ہیں دعوی کرتے ہیں کہ کسطرح فلاں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد مرتد ہو گیا تھا- بے شک یہ غلط بیانی ہے جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں- اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ہر وہ شخص صحابی نہیں کہلاتا جسنے رسول صلی الله علیہ وسلم سے صرف ملاقات یا بات چیت کی ہو- اگر اسی طرح ہوتا تو پھر تو ابو جہل بھی صحابی ہوتا- الله کے کرم سے علماء ہما ری حفاظت کے لئے موجود تھے اور انہوں نے نے صحابہ کے تعریف ان الفاظ میں کی-

" جو شخص نے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کے ہو، ان پر ایمان لیا ہو اور اسکا خاتمہ بھی اسلام پر ہی ہوا ہو (وہ صحابی کہلاۓ گا)".

[ابن حجر عسقلانی الاصابہ ١/7 ، ڈر ال معرفہ ، ٢٠٠٤، پہلا ایڈیشن ]

جیسا کہ ہم نے دیکھا کے صحابی کے تین شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے- ایک عامی اسکو کسطرح سمجھے گا؟ کیا ایک عامی اس قابل ہے کہ وہ قرآن ؤ سنت سے خود اپنے فہم سے مسائل کے حل تک پہنچ سکے؟ کیا ایک عامی کے پاس اتنا علم ہے؟ کیا ہم کچھ آرٹیکلز ، پی ڈی ایف کتابیں،کچھ آڈیو ویڈیو لیکچرز سن کر اپنے آپ کو علماء کے مد مقابل سمجھتے ہیں؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ جو آرٹیکلز، پی ڈی ایف ، آڈیو اور ویڈیو لیکچرز جو ہم پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بھی علماء کے ہی ہیں-

الحسن البصری رحمہ الله نے فرمایا:

" اگر علماء نہیں ہوتے تو لوگ جانوروں کی طرح برتاؤ کرتے"-

[التبصرہ ابن جوزی (٢/١٩٣)].

شیخ ربی ابن حدی حفظ الله نے فرمایا؛

" اس ضمن میں سلف سے مروی ہے کہ ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاریٰ سے زیادہ نقصان دہ ہے- یہی کچھ عالم اسلام کے اکابر علماء نے بھی کہا:

ابن عقیل اور انکے استاد ابو الفضل الحمدانی، ابن جوزی، ابن تیمیہ – الشوکانی نے اپنے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ
" بیشک ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاری اور کافر سے زیادہ نقصان دہ ہے-"

ایسا کیوں ہے؟ کیونکے بہت سے لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی لئے انکے جھوٹ کو تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن وہ یہود ؤ نصاریٰ اور کافروں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے اور انسے رہنمائی نہیں لیتے اسی وجہ سے ایک بدعتی یہود ؤ نصاریٰ اور کافر سے زیادہ مضر ہوتا ہے-

[ترجمہ ابو الحسن مالک آدم الاخدار]

امام اؤذاعی فرماتے ہیں؛

" جب بدعات عام ہو جاتے ہیں ( جیسا کہ شب میراج اوراسکے جھوٹے فضائل) اور اہل علم اس پر خاموش رہتے ہیں اور انکی تردید نہیں کرتے تو وہ ایک سنت بن جاتی ہے-"

[تہدھیب شرف اصحابالحدیث الخطیب بغدادی صفحہ ٤٦]

عبد الله ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

" ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كانله من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره، ثم إنها تختلف منبعدهم خلوف يقولونمالا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون، فمن جاهدهم بيده فهومؤمن، ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ، وليس وراءذلك الإيمان حبة خردل "

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیا جاتا۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں کے ساتھ ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔

[صحیح مسلم، کتاب ١ ،حدیث نمبر ٨١]

اس حدیث کو عملاً لاگو کرنے کی مثال:

طارق ابن شہاب نے کہا:

کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعید ص نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ سے سنا آپ ]نے فرمایا :

مَنْرَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْيَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَأَضْعَفُ الْإِيمَانِ"

کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور
اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔

[صحیح مسلم ٤٩]

شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے فرمایا:

امام احمد بن حنبل سے کہا گیا: ایک ایسا شخص آپ کو محبوب ہے جو روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اعتکاف میں بھیٹتا ہو یا ایسا شخص جو اہل بدعت کے خلاف بولے؟ امام احمد نے کہا: " اگر وہ روزے رکھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور اعتکاف میں بھیٹتا ہے تو یہ سب صرف اسکے خود کے لئے ہے- لیکن جب وہ اہل بدعت کے خلاف بولتا ہے تو یہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ہے اور یہی بہتر ہے"-
ابن تیمیہ آگے فرماتے ہے :
پس امام احمد نے واضح کر دیا کہ اس سے تمام مسلمانوں کے لئے انکے دین کے حوالے سے فائدہ مند ہے جسطرح الله کی راہ میں جہاد کرنا ہے-

[مجموعہ الفتاویٰ ٢٨/٢٣١-٢٣٢]

الزہری نے فرمایا:

" ایک سنّت کی درس ؤ تدریس ٢٠٠ سالوں کی عبادت سے بہتر ہے"-

[احمد بن حنبل اصول السنہ ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں ]


العباس بن الولید کہتے ہیں کہ عقبہ نے کہا :

ایک دفعہ میں ارطاہ بن المنذر کے ساتھ تھا کہ مجمع میں ایک سخص نے کہا:
" آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو سنت کے پیروکاروں کے ساتھ بھیٹتا ہو اور انکی صحبت اختیار کرتا ہو، لیکن جب ان کے سامنے اہل بدعت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے ." ہمیں انکا ذکر کرنے سے دور ہی رکھئے انکا ذکر ہمارے سامنے مت کیجئے"-

ارطاہ نے کہا: "وہ انہی (اہل بدعت) میں سے ہی ہے-اسکے حالت پر دھوکہ مت کھاؤ."

مجھے یہ بات بہت عجیب لگی، پس میں امام اوزاعی کے پاس گیا (اکابر تبع تابعین میں سے تھے)- تو انہوں نے فرمایا : " ارطاہ نے صحیح کہا، یہ معاملہ اسی طرح ہے جسطرح اسنے بیان کیا: یہ بندہ اگر لوگوں کو اہل بدعت کے بارے میں ذکر کرنے سے روکتا ہے تو پھر لوگ اہل بدعت سے کسطرح خبردار ہونگے اگر انکو بے نقاب نہ کیا جاۓ؟"

[تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ٨ صفحہ ١٥]

امت کو اہل علم کی ہر وقت اور ہر جگہ ضرورت ہے- علماء کے بغیر لوگ برم ؤ دھوکے میں رہینگے اور انکا خاتمہ بھی تاریکی پر ہوگا- سورہٴ توبہ میں جہاں جہاد کو فرض قرار دیا گیا، تب بھی الله نے کہا کہ لوگوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے جو پیچھے رہ جائیں اور مطالعہ اور درس ؤ تدریس کریں- قرآن نے انہیں " لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ" کہا –

" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ .

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں
[٩:١٢٢ ]


نیچے کچھ لنکس دئے گئے ہیں انہیں ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ کسطرح علماء نے بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس سے خبردار کیا ہے- ان کے اقوال سے ہمیں انکی علم، زہد، تقوی اور حکمت کا پتا چلتا ہے-

Link 1 :Why bid'ah is the most dangerous thing ever ! - by scholars

Link 2 :Criticism of the scholars on shia'as

Link 3 : The indisputable virtues and importance of Sahaabas - by scholars

Read more In sha Allah:

http://the-finalrevelation.blogspot.com/2014/10/blog-post.html#ixzz3KRW9erh2
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
6.5) علماء کرام کے اختیارات۔

ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ

" الْجَمَاعَةِ اللہ کی حفاظت میں ہے"-

[سنن ترمذی ٢١٦٦، صحیح البانی صحیح الجامع ٨٠٦٥]


ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ

بے شک الله میری امت یا آپ نے کہا : " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت" کو نہیں جمع کرے گی"-گمراہی پر ( اور ا الْجَمَاعَةِ اللہ کی حفاظت میں ہے- اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا وہ آگ کی طرف جاۓ گا-

[سنن ترمذی ٢١٦٧، شیخ البانی سے اسے " اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا اہ اگ کی طرف جاۓ گا-" کے علاوہ صحیح کہا-]

ارفجہ بن شریح رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ممبر پر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے دیکھا- آپ الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ أَوْ يُرِيدُ تَفْرِيقَ أَمْرِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم كَائِنًا مَنْ كَانَ فَاقْتُلُوهُ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُضُ

" میرے بعد بہت سے فتنے اور برائیاں ہونگی- اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ جمع سے دور جاتا ہے یا امت محمدی صلی الله علیہ وسلم میں تفرقہ ڈالتا ہے تو اسے مار دو، کیوں کہ الْجَمَاعَةِ الله کی حفاظت میں ہے، اور شیطان اسکے ساتھ ہے جو اپنے آپ کو امت سے جدا کرتا ہے-

[سنن نسائی ٤٠٢٠، صحیح البانی صحیح الجامع ٣٦٢١]

اس امت کی خاص خصوصیت " الْجَمَاعَةِ " میں ہی ہے- حقیقت میں یہ ایک ہی جمع ہے جو اس سے پہلے کسی اور قوم میں نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا گیا- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کو صرف اپنی قوموں کی طرف بھیجا گیا تھا- اس امت سے پہلے ایک قوم کے لئے مختلف ادوار میں شریعت ایک جیسی نہیں تھی بلکے وقت،جگہ اور علاقے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے-* جبکہ اس امت کے لئے وقت،جگہ اور علاقے سے قطع نظر شریعت شروع دن سے ہی ایک ہے- اور ا الْجَمَاعَةِ الله کی حفاظت میں ہے- واللہ علم-یہی صحیح خلاصہ ہے-"

*.مثال:

بنی اسرائیل کے لئے شریعت یعقوب علیہ سلام کے دور میں موسیٰ علیہ سلام کے دور سے مختلف تھی- عیسیٰ علیہ سلام کے دور میں یہ پھر بدلی، لیکن مسلمانوں کے لئے یہ روزے آخر تک ایک ہی رہے گی-

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" الله نے اپنے بندوں کے دلوں میں جھانکا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہترین پایا- پس اللہ نے آپ کو چنا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا- پھر اللہ نے اپنے رسول کے بعد اپنے بندوں کے دلوں میں جھانکا اور اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہتر پایا- پس اللہ نے انہیں اپنے رسول کا مددگار بنایا تا کہ اہ اللہ کے دین کے لئے لڑ سکے- پس جس کسی چیز کو بھی مسلمان (حقیقی علماء) اچھا سمجھیں (قرآن ؤ سنت کی روشنی میں) وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کسی چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہو گا-"

[مسند احمد:٣٤١٨، صحیح البانی التخریح الطاحاویہ،٥٣٠ (اور حسن موقوف # ٤٦٩). امام سیوطی نے اسے الاشبہ وہ نتھائر ٨-٧ میں قاضی ابو سعید سے روایت کیا جب وہ شافی مذہب کے قوائد کے بارے میں سوال کا جواب دی رہے تھے، تحفتہ الطالب ابن کثیر:٣٩، مختصر المقاصد الزرقانی ٨٨٩،

مسند أحمد،أحمد شاكر ٥/٢١١;اور کہا کہ یہ ابن مسعود سے صحیح موقوف ثابت ہے-

عمدة التفسیر من تفسیر ابن کثیر،أحمد شاكر ١/٨٢٠، اور کہا "اسناد صحیح"، شیخ مقبل الودی اسے صحیح المسند میں لائے اور اس حسن کہا ؛ منہاج السنہ ابن تیمیہ ٢/٧٧ اور اسکے اسناد کو معروف کہا، العملی المتلقه ٦٥ "حسن"، اور الدیارہ ٢/١٨٧ میں اسکی توثیق کی ؛ مجمع الزواہد ہیثمی ١/١٨٢،

الطرؤق الحکمیہ فی السیاسہ الشریعہ ٨١، کہا کہ "ابن مسعود سے ثابت ہے " ؛ ابن قیم سے الفروسیہ ٢٩٩ میں اسی طرح ہی مروی ہے ؛ المقاصد الحسنہ الشوکانی ٩٥٩ میں اسے موقوف حسن کہا ؛ ابن ملقن وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے-]



﴿وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾

جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے-

[سورہٴ النساء ١١٥]

اس آیت سے سب سے پہلے حجت امام شافی نے لی- انکے بعد لوگوں نے بھی اسے بطور حجت استمعال کیا-

استدلال:

"رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے"،

مطلب یہ کہ رسول پر جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اسکی خلاف ورزی کرے ؛ اور

" اور تمام مومنوں کی راه"؛

اس کا مطلب ہے کہ وہ عقائد، اعمال اوراقوال پر جن پر مؤمنین (صحابہ سے لے کر) باالتفاق متفق ہوں- یہی وجہ ہے کہ

" اور تمام مومنوں کی راه" " سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ" کا تذکرہ "واحد" میں ہوا ہے جو دین کے تمام امور پر لاگو ہوتا ہے- اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مؤمنین کی مخالفت کو باعث سزا بنایا ہے- اللہ نے اسلئے حرف "و" کو بطور حرف جار استعمال کیا ہے کہ ان لوگوں کو ایک ہی حکم کے اندھر لیا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم اور مؤمنین کی مخالفت کریں- پس ثابت ہوا کہ مؤمنین کی عقائد،اعمال ؤ اقوال جن پر مؤمنین بالاتفاق متفق ہوں انکی مخالفت ایسے ہی ہے جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہو- اجماع قرآن ؤ سنّت کے بعد شریعت کا ماخذ ہے اور یہی مذہب سلف ؤ صالحین کا ہے جیسا کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے مروی ہے- بلکہ امام نسائی نے اپنے سنن میں اس پر ایک باب " احکام بمطابق اجماع اہل علم" کے نام سے قائم کیا اور اسی کے نیچے یہ احادیث روایت کیں-

محمد بن بشار، ابوعامر، سفیان، شیبانی، شعبی، شریح حضرت عمر کو تحریر فرمایا وہ ان سے چند مسائل دریافت فرما رہے تھے تو انہوں نے جواب میں تحریر کیا کہ تم کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق اگر اس میں بھی نہ ہو تو نیک لوگوں کے حکم کے موافق، نہ ہو تو تمہارا دل چاہے تو تم پیچھے ہٹو اور میرا خیال ہے کہ پیچھے کی طرف ہٹ جانا تمہارے واسطے بہتر ہے۔

[سنن نسائی ٥٣٩٩، صحیح البانی ]

محمد بن العلاء، ابومعاویہ، اعمش، عمارة، ابن عمیر، عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ ایک دن لوگوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے بہت باتیں کیں۔ انہوں نے فرمایا ایک دور ایسا تھا کہ ہم کسی بات کا حکم نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہم حکم کرنے کے لائق تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھا تھا کہ ہم اس درجہ کو پہنچ گئے کہ جس کو تم دیکھ رہے ہو پس اب آج کے دن سے جس شخص کو تم میں سے فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق حکم دے اگر وہ فیصلہ کتاب اللہ میں نہ ملے تو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم دے اور وہ فیصلہ کتاب اللہ اور پیغمبر کے فیصلوں کے میں بھی نہ پائے تو نیک لوگوں کے فیصلوں کے مطابق فیصلے دے۔( نیک حضرات سے اس جگہ مراد حضرات خلفاء راشدین اور حضرت صحابہ کرام ہیں) اور اگر وہ کام ایسا ہو جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ملے اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام میں ملے اور نہ ہی نیک حضرات کے فیصلوں میں تو تم اپنی عقل و فہم سے کام لو اور یہ نہ ہو کہو کہ میں ڈرتا ہوں اور میں اس وجہ سے خوف محسوس کرتا ہوں کہ حلال (بھی) کھلا ہوا یعنی ظاہر ہے اور حرام (بھی) کھلا ہوا ہے اور دونوں (یعنی حرام و حلال) کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے معلوم ہوتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان بعض ایسے کام ہیں کہ جن میں شبہ ہے تو تم اس کام کو چھوڑ دو جو کام تم کو شک و شبہ میں مبتلا کرے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث جید ہے یعنی یہ حدیث صحیح ہے۔

[سنن نسائی ٥٣٩٧،٥٣٩٨ صحیح البانی]

[نوٹ: سنن ابو داود ؤ ترمذی میں معاذ رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ اسی طرح کے الفاظ منقول ہیں لیکن وہ روایت ضعیف ہے ]

امام بخاری کے استاد اسحاق ابن راہویہ (المتوفی ٢٣٨ ھ ] نے فرمایا:

' اگر تم ایک جاہل سے پوچھو کے " الْجَمَاعَةِ " (اہل علم کی جماعت جو اجماع کا سبب بنتا ہے) کیا ہے تو وہ کہیں گے ، لوگوں کی اکثریت – حالانکہ انہیں پتہ نہیں کہ "الْجَمَاعَةِ " وہ اہل علم ہیں جو رسول اللہ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں – پس جو بھی انکے ( حقیقی علماء) نقش قدم پر ہیں پس وہ بھی " الْجَمَاعَةِ ' ہیں-

[ هليه الاولياء أبو نعیم ٩:٢٣٨ ]

ابن عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي - أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ

بے شک الله میری امت یا آپ نے کہا : " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت" کو نہیں جمع کرے گی"-گمراہی پر ( اور جمع اللہ کی حفاظت میں ہے- اور جو کوئی بھی اس سے انخراف کرے گا و ہ آگ کی طرف جاۓ گا-

یہ ایک بہت ہی طویل موضوع ہے جس پر ہم یہاں بات نہیں کر سکتے- پس جان لو کہ اجماع اہل علم امت کے لئے حجت ہے- یہی حکم اللہ اور اسکے رسول اللہ والہ وسلم کا ہے اور جو کوئی بھی اس سے انکار کرتا ہے پھر :


شیخ صالح الفوزان حفظ اللہ فرماتے ہیں :

"اجماع کا مکمل انکار کفر اور اسلام سے مرتد ہونے کے مترادف ہے- اگر کوئی شخص اجماع سے مکمل انکار کرے اور کہے کہ میں نہیں مانتا کسی اجماع کو تو یہ شخص کافر ہے- اور اگر کوئی شخص اجماع کے کچھ پہلو سے منکر ہے تو یہ ایک نہ پسندیدہ اور مکروہ فعل ہے- اسکے اعتراض اور انکار کی نوعیت کو دیکھا اور پرکھا جائے گا کہ وہ صحیح ہے یا غلط-

یہ صرف اسلئے کیوں کہ ایسے معاملات ہیں جہاں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اس پر اجماع ہے لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس پر اجماع قائم نہیں ہوئی ہوتی- لیکن ایک ایسا شخص جو کہ بالکل اجماع کے حجت ہونے کا ہی منکر ہے تو ایسا شخص کافر ہے- وہ اللہ کا بھی منکر ہے کیونکہ اللہ پر بھی اجماع ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہی ہیں- علماء کا عقائد پر اجماع ہے، انکا توحید پر اجماع ہے،، اور انکا سود کے حرام ہونے پر اجماع ہے، اور انکا زنا کے حرام ہونے پر اجماع ہے، اور انکا دین کے وہ امور جن پر ضرورت کے وقت رخصت دی گئی ہے ان پر اجماع ہے- جو شخص مکمل طور پر اجماع کو رڈ کرے وہ کافر ہے، پس اسکی دیکھا اور پرکھا جائے گا-

حوالہ: Source: http://www.alfawzan.af.org.sa/node/2387


ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:

" اجماع اس دین کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے، جسکی طرف ایک بندہ احکامات حاصل کرنے کے لئے رجوع کرتا ہے، اور جو ایک مسلے پر اجماع ثابت ہونے کے بعد اسے رد کرے وہ شخص کافر ہے-

[مراطب الجماع١/٧]
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
6.6) علما کرام میں خدا کا خوف (ہزاوں مثالیں میں سے صرف چند ذیل میں بیان کی گئی ہیں) ۔

شیخ السلام ابن قیم الجوزیہ " الفوائد" صفحہ ١٦٢ پر عبدللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں:

عبد اللہ ابن مسعود کے کے گروہ میں ایک شخص بولا:

" میں دائیں ہاتھ والے اصحاب میں نہیں ہونا چاہتا بلکہ مقربون میں ہونا چاہتا ہوں (جو اللہ کے قریب لائے جائیں گے)-

پس عبد اللہ ابن مسعود نے فرمایا:

" لیکن یہاں ایک بندہ ہے جسکی خواہش ہے کہ اسے مرنے کے بعد نہ اٹھایا جائے (اللہ کے خوف سے)، (انکا اشارہ اپنے آپ کی طرف تھا).

آپ ایک روز گھر سے باہر نکلے تو لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے- آپ نے فرمایا:

"کیا تم لوگوں کو کچھ چاہئے؟"

لوگوں نے کہا:

"نہیں لیکن ہم آپ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہتے ہیں-"

آپ نے فرمایا:

" واپس چلے جاؤ کیونکہ ایک پیروکار کے لئے یہ ایک نیچ اور ذلت کی بات ہے اور جسکی پیروی کی جائے اس کے لئے فتنے کی بات ہے"

آپ نے یہ بھی فرمایا:

" اگر تم میرے بارے میں وہ جانتے جو میں اپنے بارے میں جانتا ہوں، تو تم میرے سر کے اوپر ریت ڈال دیتے- تم میں سے کوئی شخص بھی دین کے معاملات میں کسی کی (اندھی) تقلید نہ کرے، اگر وہ (جسکی تقلید کی جاۓ) ایمان رکھتا ہو تو اسکے پیروکار بھی ایمان رکھتے ہونگے اور اگر وہ کفر کرے تو وہ (پیروکار) بھی کفر کریں گے- اگر تم کسی کی تقلید ہی کرنی ہے تو تو پھر انکی کرو جو فوت ہو چکے ہیں مثال بن کر، اور بے شک جو لوگ زندہ ہیں وہ فتنے سے محفوظ نہیں ہیں-

اپنے دل کو تین جگہ پر تلاش کرو:

١ – جب تم قرآن سن رہے ہو-

٢ – اس مجمع میں جہاں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو-

٣ – اور جب تم اکیلے ہو-

اگر ان جگہوں پر بھی تمہیں اپنا دل نہیں ملا پھر اللہ سے دعا کرو کہ تمھیں دل عطا کرے کیونکے بے شک تم دل سے محروم ہو-

بے شک لوگ بولنے کے فن میں ماہر ہو گئے ہیں، تو جس کسی کا فعل اسکے قول کے مطابق ہوگا ، پھر اسے اپنے حصے کا اجر ملے گا، اور جس کسی کے قول اور فعل میں تضاد ہوگا، تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کر رہا ہے-یقیناّ ایک شخص علم کو بھول جاتا ہے ان گناہ کی وجہ سے جو کرتا ہے –علم یہ نہیں کہ تم بہت سے روایات بیان کرو، علم اللہ سے خوف کا نام ہے-

امام اوزاعی فرماتے ہیں-

" قال الأوزاعي: أنبئت انه كان يقال: ويل للمتفقهين بغير العبادة والمستحلين للحرمات بالشبهات"

مجھے خبر دی گئی کہ کہا جاتا تھا کہ: " عبادت سے خالی علماء پر افسوس کیا جاتا تھا- اور شبہات کے ساتھ حرام چیزوں کو حلال کرنے والے پر افسوس کیا جاتا تھا-"

[سنن دارمی ١٨٧، یا بحوالہ ١٩٣ اردو ایڈیشن ]

واللہ، میں اس موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا کیونکے یہ ایک طویل بحث ہے جسکے اندھر بہت سے فضائل اور موضوعات اور بھی ڈالنے ہیں، لیکن قارئیں کی آسانی کے لئے میں ادھر طویل بحث نہیں کرونگا بلکہ بہت ہی مختصر انداز میں ان موضوعات کا تذکرہ کرونگا- لیکن جان لو کہ علماء دین کے تلوار ہیں، جب وہ گرگئے تو دین گر جاۓ گا کیوں ہم بد بخت تو اپنی روزی روٹی، رہن سہن اور آرائش میں مصروف ہیں- نہ تو ہمارے پاس وقت ہے اور نہ ہی وہ آداب کہ ہم اپنی زندگی اللہ کے دین کی خدمت میں صرف کر دیں اور اخروی فلاح حاصل کریں-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
7) مذہب ؤ مذہبی احکامات کی اپنے منطق و فہم کے مطابق تشریح کے رد میں سلف صالحین کے فتوے۔

ایسے بہت سے مرفوع اور موقوف روایات ہیں جو ہمیں اپنے فہم کے مطابق تشریح کرنے سے خبردار کرتی ہیں- میں پہلے ہی ان مناظروں کا ذکر کر چکا ہوں جو صحابہ اور ان لوگوں کے درمیان پیش آئی تھیں جنہوں نے حدیث کا انکار کر دیا تھا یا قرآن کو اپنے فہم پر سمجھنے کی کوشش کی تھی- اس بابت میں نے سلف کی مثالیں بھی نقل کیں- آپ ان سب کو اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں-

" Refuting Munkarul Hadeeth by proving the authority of Sunnah from Islamic texts" :


http://fahmalhadeeth.blogspot.in/2013/09/refuting-munkarul-hadeeth-by-proving.html

صفحہ # ٤٣ اور اس سے آگے پڑھئے یانڈکس میں اپنے پسند کا موضوع چنئے –

اگر اس بابت آپ کچھ مرفوع اور موقوف روایات پڑھنا چاہتے ہیں تو اسکے لئے اس لنک پر جایئں-

http://the-finalrevelation.blogspot.com/2013/10/warning-from-self-interpretation-of.html

١ -- علامہ ابن العزحنفی (المتوفی.٧٩٢) عقیدہ الطاحاویہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ؛

ولا يشاء مبطل أن يتأول النصوص ويحرفها عن مواضعها الا وجد الي ذالك من السبيل.

" ایک گمراہ شخص نصوص کی (من پسند اور غلط) تاویل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ مختلف اطراف سے اس پر کوشش کرتا ہے اور بلآخر وہ اسکے لئے ایک راستہ تلاش کر لیتا ہے-

[شرح العقیدہ الطاحاویہ ١٨٩ یا ٨٩]

وہ، غلط تاویلات کے نقصانات والے باب کے نیچے لکھتے ہیں-

: وهذا الذي أفسد الدنيا والدين وهكذا فعلت اليهود
والنصاري في نصوص التوراة والإنجيل وحذرنا الله أن نفعل مثلهم وأبيالمبطلون الا سلوك سبيلهم، وكم جني التأويل الفاسد علي الدين وأهله منجناية؟ فهل قتل عثمان رضي الله عنه الا بالتأويل الفاسد! وكذا ما جري فييوم الجمل، وصفين، ومقتل الحسين رضي الله عنه، والحرة! وهل خرجت الخوارج،واعتزلت المعتزلة، ورفضت الروافض، وافترقت الأمة علي ثلاث وسبعين فرقة، الاباتأويل الفاسد


" اس نقطہ نظر (من پسند اور اپنے فہم پر تشریح ؤ تاویل) نے دین اور زندگی میں تباہی مچا دی ہے- یہی حشر یہود ؤ نصاری نے اپنے تورات اور انجیل کے ساتھ کیا- اللہ نے ہمیں ایسا کرنے سے خبردار کیا ہے- لیکن شیطانی لوگوں نے اس خبرداری پر کان نہیں درے اور یہود ؤ نصاری کے نقش قدم پر چلنے لگے- اس (غلط اور اور اپنے فہم پر) تاویلات نے اسلام اور مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ کیا عثمان رضی اللہ عنہ کو نصوص کے غلط تاویلات کی وجہ سے شہید نہیں کر دیا گیا تھا؟ کیا جنگ جمل اور صفین، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور الحراہ کے واقعات اسی (غلط اور اپنے فہم پر تشریح) کی وجہ سے رونماء نہیں ہوئے تھے؟ کیا ان (اپنے فہم پرغلط تشریحات) کی وجہ سے ہی خوارج، معتزلی اور رافضی کفر کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اور کیا یہی وہ وجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے امت ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہوگی؟

[شرح عقیدة الطحاوي ١٨٩]

وہ آگے لکھتے ہیں:

وأما اذا تأول الكلام بما لا يدل عليه ولا اقترن به ما يدل عليه، فباخباره بأن هذا مراده كذب عليه، وهو تأويل بالراى وتوهم بالهوى.

" اور اگر کوئی کسی قول کی تشریح کرے اور اسکے وہ معنی نکالے جو اس قول کا (بنیادی) طور پر نہ ہو، اور نہ ہی دوسرے شواہد اسکی (جو تشریح نکالی گئی ہے) طرف اشارہ کرتے ہوں ، تو پھر اس بندے کا دعوی ( جس نے اپنے فہم سے تشریح کی ہے) اس شخص پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے جس کا وہ قول ہے؛ اور اس بندے کی تشریح صرف ایک من پسند اور خیالی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں-

[شرح عقیدة الطحاوي ١٩٨]


٢ – امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

سلف کے روایات اور طریقے کو پکڑو اور نئے ایجاد کئے ہوئے طریقے سے بچو کیوں یہ سب بدعات ہیں-

[سؤن المنطق ولکلام للسیوطی صفحہ ٣٢]

٣ – امام البربہاری (المتوفی-٣٢٩ ھ) نے فرمایا:

" الْجَمَاعَةِ " جن بنیادوں پر واضح طور پر قائم ہے وہ بنیادیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں- وہ ہی اہل السنہ والجماعہ ہیں، پس جو کوئی بھی ان سے (دین کے اصولوں اور معاملات میں ) رہنمائی نہ لے گا وہ بھٹکا ہوا ہے بدعتی ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے-

[کتاب شرح السنہ للبربہاری (٢) ]

٤ – امام الشاطبی (المتوفی-٧٧٧ ھ]:

" ہر وہ شخص جو متشابہات (غیر واضح) امور کی پیروی کرے گا، یا بنیادی اصولوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرے گا، یا ایک آیت کی تشریح اسطرح کرے گا جو سلف صالحین نے نہ کی ہو، یا بہت کمزور اور موضوع احادیث پر عمل کرتا ہو، یا ظاہری احکام کو اپنے مقصد اور نیت اور اپنے ہر عمل،عقیدے اور قول کا حجت بناتا ہے اور جسکی مثال بنیادی اصولوں میں نہیں ملتی، تو پس پھر یہ طریقہ بلا شبہ بدعت اور بدعتی کے پیداوار کا سبب بنے گا-

[الاعتصام للشاطتبی ١/٢٣١]

الشعبی نے ایک دفعہ مجھ سے کہا:

" جب یہ لوگ تمھیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کچھ کہیں تو اسے لے لو؛ لیکن اگر وہ اپنی رائے دیں، تو اسے کچرے کے ڈ بے میں پھینک دو-

[السنن الدارمی ١:٧٨]

امام شاطبی الا عتصام میں ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں جو اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں:

" اتخذوا الرجال ذريعة لأهوائهم"

" وہ اپنے نفس کی پیروی کیلئے افراد کو بہانہ بناتے ہیں-

وہ آگے لکھتے ہیں:

" بحثوا عن أقوال العلماء في المسألة المسؤول عنها حتىيجدوا القول الموافق للسائل فأفتوا به ، زاعمين أن الحجة في ذلك لهم قول منقال : اختلاف العلماء رحمة"

" وہ ایک خاص معاملے میں علماء کے اقوال کی ڈھونڈ میں رہتے ہیں جو سائل نے انسے کئے ہوتے ہیں، وہ پھر ایک عالم کا فتویٰ اٹھاتے ہیں جو انکی خواہشات کے مطابق ہو اور پھر اپنی دفاع میں یہ قول لاتے ہیں کہ : علماء کے درمیان رائے کا اختلاف باعث رحمت ہے"

٥ – امام ابن عبد الہادی (المتوفی-٧٤٥ ھ):

ایک آیت یا سنت کی اسطرح تشریح کرنا قطعاّ ممنوع ہے جو سلف کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، نہ ہی انکو اسکا علم ہو اور نہ ہی انہوں نے اسے امت کیلئے اس طریقے سے وضاحت کی ہو- اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ کہ سلف ان معاملات میں جاہل تھے، انکو اس بات کا علم نہیں تھا یا وہ اس معاملے کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے تھےاور جو بندہ جو اسکی ایک نئی طریقے سے تشریح کرتا ہے (جو کے سلف سے بہت بعد میں آیا ہے) وہ حق کو جانتا ہے اور ہدایت یافتہ ہے (اور سلف ؤ صالحین گمراہ تھے)؟

[الصارمل المنکی للعبد الہادی صفحہ ٤٢٧].

٦ – امام ابن القیم (المتوفی-٧٥٦):

کتاب اللہ کی اس طریقے سے تشریح کرنا جو سلف نے نہیں کی ہو اور سلف اور علماء کے فہم کے خلاف ہو: تو پھر ان دو باتوں میں سے ایک لازم آئی ہو گی-

i )- یا تو تو وہ تشریح (اور اسکا کرنے والا) بذات خود غلط ہے یا

ii )- سلف اور علماء کے فہم اور اقوال غلط ہیں- اور جس کسی میں بھی رائی کے دانے کے برابر بھی عقل ہو وہ کبھی بھی اس بات میں شک نہیں کرے کا کہ جس انسان کا قول سلف کے قول سے تضاد رکھتا ہو، وہی انسان گمراہ ہے اور غلطی پر ہے-

[مختصر السوایقُل مرسلہ للابن القیم ٢/١٢٨]-

الله فرماتا ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
[سورة الْحُجُرٰت آیت ٢].

"اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو-"

ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

" اگر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنا اعمال کے بربادی ؤ ضیاع کا سبب تھا ، پھر انکے کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے راۓ، فہم ؤ عقل، ترجیحات، سیاست اور سمجھ کو ان احکامات پر ترجیح دیتے ہیں- جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے؟ کیا ان لوگوں کے اعمال کی بربادی ؤ ضیاع یقینی نہیں؟؟

[العام الموقعین ١/١٤]

ابن قیم مزید کہتے ہیں:

"خلاصہ یہ ہے کہ: اہل کتاب تفرقہ اور اس امت کے ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہونا صرف صرف اپنے فہم (قرآن ؤ سنّت ) کو سمجھنے کے ہی وجہ سے ہے-"

[العام الموقعین : ٤/٣١٧]

٧ -- الحافظ ابن عبدالبر جامع البیان العلم جلد ٢ صفحہ ٣٦ پر رقم طراز ہیں:

" علماء کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے کہ جس کسی چیز کے بارے میں ایک شخص بالکل واضح اور یقینی ہو- جو شخص بھی کسی معاملے کے بارے میں واضح اور یقینی ہو تو وہ اس معاملے کے بارے میں صحیح جانکاری رکھتا ہے- اسلئے، جو شخص ایک بات کسی کی اندھی تقلید میں کہتا ہے اور خود اسے اس معاملے کے بارے میں صریح طور پر جانکاری نہ ہو، تو وہ وہ اس معاملے میں جاہل ہے- علماء کے نزدیک اندھی تقلید اور اتباع میں فرق ہے- اتباع ایک بندے کی پیروی ایک صریح اور واضح دلیل کے بنیاد پر کی جاتی ہے ، جبکہ اندھی تقلید ایک شخص کی بات کو من ؤ عن بغیر دلیل کے اور بغیر سمجھ کے قبول کرنا ہے-

٨ – عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

بے شک ، اپنے رائے کی (جس میں وہ افراد بھی آ جاتے ہیں جو اپنے فہم اور عقل پر قرآن ؤ سنت کی تشریح کرے) پیروی کرتے ہیں وہ سنت رسول رسول اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں: وہ حدیث کی حفاظت نہیں کر سکے (نہ انہیں حفظ کیا اور ان پر عمل کیا) اور انکی سمجھ سے قصر رہے، اور جب انسے (دینی امور) کے بارے میں سوال کئے گئے تو (حدیث کا علم نہ ہونے کی وجہ سے) انکے پاس جواب نہیں تھا اور یہ کہنے میں انہیں شرم محسوس ہوتی تھی کہ کہ دیتے کہ "ہم نہیں جانتے" ، تو پس انہوں سے سنت کی مخالفت کی اور اپنے فہم کو ترجیح دی- اور گمراہوں میں ہو گئے-

[سنن الدارقطنی ٤:١٤٦ بروایت امر ابن حریث، المدخل للبیہقی صفحہ ١٩٠، الاحکام ابن حزم ٢٣١:٦، اور شرح اصول الاعتقاد اللالکہ ١:٢٣٠ یا آرٹیکل ٢٠٠- ایسی رائے جسکی دین میں اجازت ہو، اسکے وضاحت کے لئے دیکھئے ابن حجر کی فتح الباری ١٩٥٩ ایڈیشن ١٣:١٨٩ اور العام الموقعین ابن قیم ١:٨٣، نیز دیکھئے الکوثری کی فقہ اہل العراق اور التہانوی کی اعلعل السنن کی تعارفی باب- ابن ابی زمانن کی اصول السنہ آرٹیکل ٨]-

عمر ابن عبد اللہ الاشج نے کہا کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" بہت جلد لوگوں کا ایک ایسا گروہ آئے گا، جو تمہارے ساتھ قرآن کی متشابہات کے بارے میں بحث کرینگے- پس انکے ساتھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زریعے بحث کرو- کیونکہ بے شک اصحاب السنن (جو لوگ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھتے ہیں) ہی قرآن کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں-

[اسے الدارمی نے اپنی سنن میں روایت کیا، الخطیب نے تاریخ بغداد( ١٤:٢٨٦)میں ، اللالکہ نے شرح اصول الاععتقاد اہل السنہ (١:٢٣) اور خطیب البغدادی نے فقیہ ولمتفقیہ ١/٥٥٩-٥٦٠ میں]

٩ – ابن حزم نے کہا:

" ایک شخص کی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہی یہی ہے کہ وہ ایک ایسے رائے (تشریح) کی تلاش میں رہتا ہے جو اسکے خواہشات کے مطابق ہو"-

[الاحکام ٥/٦٤]

١٠ – امام ابو امر عبدر الرحمان ابن امر الاوزاعی (المتوفی-١٧٩ ھ)نے فرمایا:

"ان لوگوں کے اثار کو پکڑو جو تم سے پہلے گزرے (سلف)، اگر لوگ تمھیں رد کرے تو تب بھی- اور لوگوں کی رائے سے بچو اگرچے وہ اسے بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرینگے – تو پس یہ معاملا ابھی نیا ہے اور آپ لوگ اس حوالے سے صراط مستقیم پر ہو-

[صحیح: المدخل للبیہقی # ٢٣٣، شرف اصحاب الحدیث للخطیب ا لبغدادی # ٦، اور الجامع ابن عبدالبر ]

الاوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

ایک اہل الرائے (جو اپنے رائے کو فوقیت دیتا ہے) علی رضی اللہ عنہ سے بحث کر رہا تھا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
" او ابوالحسین! یہ لوگ قرآن کی تشریح اپنے فہم اور سوچ پر کر رہیں ہیں ، پس تم کچھ اور کہو گے اور آگے سے وہ کچھ اور کہیں گے- بلکہ آپ انکو جواب سنت (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) سے دو، کیونکے بے شک یہ لوگ سنت کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے-"

[الفقیہ ولمتفقیہ الخطیب البغدادی ٥٦٠/١]

١١ – علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

" اگر دین کا انحصار رائے پر ہوتا تو موزوں پر مسح نیچے کی طرف سے کیا جاتا اپر کی طرف نہیں لیکن میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کے آپ موزوں کے اپر کی طرف سے مسح کرتے تھے-

[سنن ابو داود، # ١٦٢،١٦٤، اور حدیث ١٦٣ کا آخری حصہ- کچھ محدثین نے اسے ضعیف کہا لیکن شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے- تا ہم اسکا متن صحیح ہے-]

١٢ – امام ذہبی رحمہ الله اپنے کتاب العلو للعلي الغفار میں فرماتے ہیں:

" او عبد اللہ، اگر تم انصاف کرنا چاہتے ہو تو قرآن ؤ سنت سے آگے مت بڑھو اور اسکے بعد بعد صحابہ اور تابعین کے اقوال ،بمع ائمہ تفاسیر جو انہوں نے آیات کی تفسیر میں لکھی ہیں اور جو کچھ بھی سلف ؤ صالحین سے ثابت ہو، اس میں تلاش کرو – تو پس یا تو تم اگر بولو تو علم کے ساتھ یا خاموش رہو نرمی کے ساتھ-"

[الوسطیہ اہل السنہ بین الفراق صفحہ ١٠٢-١٠٣]

١٣ – ابن رشد (٥٢٠-٥٩٥ ھ ) اپنے کتاب " مناہج الادلہ فی عقائد الملہ " صفحہ ١٥٠ پر فرماتے ہیں:

" شریعت کے حوالے سے یہی حال بدعتی گروہوں کا تھا- ان میں سے ہر ایک گروہ نے شریعت کی غلط تشریح کی اور ہر ایک کا دعوی تھا کہ اس کے گروہ کی تشریح اور سمجھ بلکل اسی طرح ہی ہے جسطرح قانون ساز (خالق) نے نازل کیا تھا- اسی حرکت نے شریعت کے ٹکرے ٹکرے کر دئے اور اسکی حقیقی معنی سے دور ہو گئے- قانون ساز کو پتہ تھا کہ اس طرح ہوگا- پس اللہ نے (اپنے رسول صلی اللہ وسلم) کے ذریعے سے فرمایا:

" میری امت ٧٣ فرقوں میں تقسیم ہوگی، یہ سب دوزخ میں جائیں گے ماسوائے ایک کے"- اس ایک گروہ سے آپ کا مراد وہ لوگ تھے جو شریعت کے آیتوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان میں اوہام کا شکار نہیں ہوتے-

اگر ہم امت کے اب تک کے تقسیم اور تفرقے کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے اسکی وجہ (فہم اور تشریح) کی غلط فہمی اور اوہام ہی ہیں- اور اس مرض میں سب سے پہلے خوارج، پھر معتزلہ، پھر اشعری،اور صوفیہ مبتلاء ہوئے- پھر ابو حامد آ گئے جنہوں نے وادی کے دیہاتوں پر مٹی کا تودہ گرا دیا-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
7.1 ) کچھ ایسی مثالیں جب علماء نے اپنے علماء سے فتوے کے لئے رجوع کیا اور نص کے خلاف اپنے منطق کو استمعال کرنے کا رد کیا-

ایوب السختیانی (الموتوفی-١٣١ ھ) نے فرمایا:

أجسر الناس على الفتيا أقلهم علما باختلاف العلماء، وأمسك الناس عن الفتيا أعلمهم باختلاف العلماء

" ہمیشہ، فتوے دینے میں تیزی وہی شخص ہی کرے گا جو اختلاف بین العلماء سے نا واقف ہو، اور فتوے دینے میں سب سے زیادہ احتیاط وہی کرے گا جو اختلاف بین العلماء سے با خبر ہو-

[جامع البیان العلم ؤ فضیلہ # ١٥٢٥]

روایت ہے کہ ایک روز ابن عباس رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا اور دیکھا کہ معاویہ رضی الله عنہ کعبہ کے تمام کونوں کو چھو رہے ہیں- ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں منع فرمایا اور کہا:

" تم ان دو کونوں کو کیوں چھوتے ہو؟ (یعنی رکن عراقی اور رکن شامی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نہیں چھوتے تھے- معاویہ رضی اللہ عنہ نے (اپنے فہم سے) جواب دیا:

" اس گھر (کعبہ) کے کسی حصے کو نہیں چھوڑنا چاہئے-" تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے - [سورہٴ الاحزاب آیت ٢١]-

یہ سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " تم بلکل ٹھیک کہ رہے ہو"-

[الاوسط للطبرانی ٣/١٧ اور مند احمد میں بھی جیسا کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے بیان "طواف میں غلطیاں" کے ٹیپ/فتوے میں بیان کیا-]

شیخ عثیمین کی تقوی کی مثال:

یہ شیخ کے تقوے کی ایک عمدہ مثال ہے- شیخ نے ایک دن گلوکوز انجکشن (cose Injectio glu) کے حوالے سے ایک فتویٰ دیا تو مجمعے میں موجود ایک شخص نے طبی بنیادوں پر شیخ کے فتوے کی مخالفت کی- اس پر شیخ نے کہا کہ میں اپنا فتویٰ واپس لیتا ہوں تب تک جب تک میں اپنے شیخ علامہ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ سے نہ پوچھو- پھر اگلے روز وہ آئے اور لوگوں کو اپنے شیخ کا فتویٰ سنایا-

[الجامع لحیات العلّامہ محمد ابن صالح العثیمین، صفحہ ٢٣؛ gift of knowledge wordpress ]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
8) خلاصہ/ اختتام-

فہم ؤ منطق ؤ رائے کو استاد کے علم کے مقابلے میں دور پھینکا جاۓ گا اور یہاں پر استاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں-

اہم امور میں اور خاص طور پر وہ امور جو دین سے ماخوذ ہیں اور امت کی بھلائی کا سبب ہیں ، ان میں علماء سے رہنمائی لینی چاہئے- اگر ہم سلف صالحین کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے اکابر علماء جو اس وقت زندہ تھے، کی طرف رجوع کرتے تھے، خاص طور پر تبدی (کسی کو بدعتی قرار دینا) اور تکفیر (کسی کو کافر کہنے) کے امور میں –

نوٹ :

اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ایک طالب علم ایک مسلے پر تحقیق نہیں کر سکتا یا حکم نہیں لگا سکتا - ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایک طالب علم کو ایسے امور پر جو موجودہ حالات میں رونماء ہوئے ہوں اور خاص طور پر وہ جو غیر واضح ہوں، ان پر اپنے فہم سے حکم نہیں لگانا چاہئے- جہاں تک ایسے امور کا تعلق ہے جن میں کچھ ابہام نہیں ہے اور واضح ہیں تو ان امور پر وہ نصوص سے دلیل بمع فہم العلماء حکم دے سکتا ہے-

یحییٰ بن یعمر البصری اور ہمید بن عبد الرحمن الحمیری البصری کی مثال دیکھئے-

جب ان کے زمانے میں قادریہ نموردار ہوئے اور اہل السنہ کے بنیادی عقائد سے کھلا اختلاف کرنا شروع کر دیا، تو پھر اس بات کی ضرورت تھی کہ انکو بدعتی قرار دیا جائے یا اہل السنہ ؤ الجماعه سے خارج قرار دیا جائے- تا ہم انہوں نے انکے خلاف حکم لگانے میں جلدی نہیں کی بلکہ وہ اس و قت کے اہل علم کے پاس گئے جو ان امور میں علم اور مہارت رکھتے تھے- اور وہ عبد اللہ بن عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ تھے- انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اس گروہ (قادریہ) کے حالات ؤ عقائد بیان کئے – عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ نے ان پر (قادریہ) گمراہی کا حکم لگایا (انکی تکفیر نہیں کی)-

یحییٰ بن یعمر نے کہا:

" بصرہ میں پہلا شخص جو "القدر" کے عقیدے سے منحرف ہوا وہ "معبد الجھنی" تھا- ہمید بن عبد الرحمن الحمیری اور میں حج ؤ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سفر پر روانہ ہوئے اور ہم نے ایک دوسرے سے کہا:

" کاش اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے کسی ایک صحابی سے ملاقات ہو جاۓ اور ہم ان سے ان لوگوں (قادریہ) کے کلام کے بارے میں پوچھے جو یہ القدر کے بارے میں کر رہیں ہیں- پس ہماری خواہش اللہ نے پوری کی اور عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ مسجد میں داخل ہوئے- پس میں اور میرا دوست انکے پاس آ کر انکے دائیں اور بائیں جانب بیٹھ گئے- مجھے ایسا لگا کہ میرا دوست چاہتا تھا کہ میں بولوں، تو میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا:

" ابو عبدر الرحمان (ابن عمر)، ہمارے علاقے میں کچھ لوگ نمودار ہوئے ہیں، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور علم کی پیروی کرتے ہیں، اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ "القدر"(تقدیر) نامی کوئی چیز نہیں اور یہ کہ یہ مسترد ہو چکا ہے-"

ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

" اگر تم ان لوگوں سے ملو، تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بھری ہوں اور وہ مجھ سے بھری ہیں، اس ذات کی قسم جس پر عبد الله ابن عمر قسم کھاتا ہے (اللہ کی قسم)، اگر ان میں سے کوئی احد کے پہاڑ جتنا سونا بھی خیرات کیوں نہ کر دیں اللہ انکی یہ خیرات قبول نہیں فرمائے گا تب تک جب تک وہ القدر پر ایمان نہ لے آئیں، پھر انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اسے (حدیث) کو مجھے روایت کیا-

[صحیح مسلم ٩٣]

اور زبید ابن حارث الیمنی کی مثال لے لیجئے-

جب ان کے وقت میں "مرجیہ" نمودار ہوئے اور انھوں نے دیکھا کہ وہ اہل سنت کے بنیادی عقائد سے اختلاف کرتے تھے، تو پھر اس بات کی ضرورت تھی کہ انکو بدعتی قرار دیا جاۓ یا اہل ؤ السنہ الجماعه سے خارج قرار دیا جائے- تا ہم انہوں نے انکے خلاف حکم لگانے میں جلدی نہیں کی بلکہ وہ اس قوت کے اہل علم کے پاس گئے جو ان امور میں علم اور مہارت رکھتے تھے اور جنہوں نے دین کا علم اکابر صحابہ سے لیا- اور وہ تھے ابو وائل شقیق بن سلامہ الاسدی الکوفی رحمہ اللہ-

پس زبیر ابن حارث الیمنی انکے پاس گئے اور ان لوگوں (مرجیہ) کے حالات ؤ عقائد بیان کئے- ابو وائل شقیق بن سلامہ نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے حدیث کی بنیاد پر ان پر فتویٰ دیا، اور مرجیہ کے گمراہ عقائد جسمیں انہوں نے اہل السنہ سے انحراف کیا، کی نشاندہی کی-

زبیر ابن حارث الیمنی کہتے ہیں کہ جب مرجیہ نمودار ہوئے تو میں ابو وائل شقیق بن سلامہ کے پاس گیا اور اور انکے حالت انسے بیان کئے، انہوں نے فرمایا:

عبداللہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ‏

" مسلمان کو گالی فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر"-

[صحیح بخاری ٤٨، صحیح مسلم ٢١٨]

یہ اقتباس " الاوسایہ الثانیہ التایبینہ الساالسلفیہ" سے لیا گیا ہے-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
9) علماء کرام کا مزاق اڑانا اور انکی توہین کرنا ۔

عن كعب بن مالك رضي الله عنه قال : قالرسول الله صلى الله عليه وسلم : “من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماريبه السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله النار” رواه الترمذي
(مشكوة – مرقاة ٢٧٨/١)

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" کوئی بھی شخص اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی ہمسری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"

[ترمذی نے اسے روایت کیا- الفاظ مشکوة کے ہیں]

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" جو شخص بھی اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی برابری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"

[شعب الایمان بیہقی ١٦٣٥، صحیح السیوطی]

عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اللہ کی نظر میں سب سے ذلیل بندہ وہ ہے جسکی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ (بلا وجہ) تنازعات میں پڑے- (صرف اور صرف اپنے علم اور بحث ؤ دلائل کے فن کے دکھاوے کے واسطے)-

[صحیح مسلم کتاب ٣٣،حدیث ٦٤٤٧]

ابو عمامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کوئی لوگ ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتے مگر وہ جو (بلا وجہ) بحث میں پڑتے ہیں"- پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی،

" مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ"-

" تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو"

[سورہٴ الزخرف:٥٨]
[سنن ترمذی کتاب التفسیر، # ٣٢٥٣،صحیح]


شیخ سلیمان الرھیلی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انھوں نے اس بابت کہا:

" گمراہ ہونے کے وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے - یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو رلا دیتا ہے- او میرے بھائیوں! یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتی ہے- گمراہی اور اسکے وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل سنت رسول صلی اللہ وسلم کے علماء کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن ؤ سنت سیکھنے اور انہی بنیادوں سے علم لوگوں کے سکھانے میں لگا دی؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں گزار دی- انکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے- لیکن ان سب کے باوجود یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں- انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتی ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک ؤ شبہات اور اپنے رائے ؤ خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے- اے اللہ کے بندو ! آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو اللہ کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور وہ ممنوع اعمال کا مرتکب ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے- وہ کہتا ہے:

" ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں- انکے پاس فلاں فلاں ہے یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں- ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز حرام ہے"، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز فرائض میں سے ہے"،- وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو ہمیں انسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں- انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں-"

جب آپ ایک ایسےنوجوان کو دیکھتے ہو،جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اسمیں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا ان سب کے باوجود بھی آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں میں دیکھو گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو خقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے- میرے بھائیوں! یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے- اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے انکو درس ؤ تدریس اور آگاہی کے زریعے سے بچا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے-

شیخ صالح الفوزان نے فرمایا:

" مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں- انکی تضحیک انکی منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے- انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمداری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے- اگر علماء کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو پھر کس کو ؟ اگر علماء پر سے لوگ اپنا یقین اٹھا لیں تو پھر امت اپنے مسائل اور بنیادی اصولوں سے آگاہی کے لئے کن کی طرف رجوع کرینگے؟ امت تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف انتشار پھیل جایگا-

شیخ، اللہ انکی حفاظت کرے، نے بالکل سچ بولا- اور جو شیخ نے بولا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نمودار ہو چکا ہے (یعنی تباہی ؤ انتشار)- ہم دیکھتے ہیں کہ کسطرح ہم میں بہتوں نے اکابر علماء کے علم ؤ فہم کو چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی رائے کے پیچھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے مگر تھوڑا سا- ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور حق کو قائم اور ان امور کو کرنے میں، جو ہم پر لازم ہیں، ہماری مدد کریں،

[حوالہ: : http://mtws.posthaven.com/from-the-reasons-for-deviation-contempt-for-the-scholars-shaykh-sulaymaan-ar-ruhaylee]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10) علماء سے برتاؤ کے حوالے سے کچھ باتیں ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ :

"آج کی نوجوان نسل کے ساتھ مسلہ یہ ہے کہ جونہی وہ کچھ سیکھ لیتے ہیں وہ سمجھ بھیٹتے کہ وہ عالم بن گئے-

[الحدا والنور ٨٦١]

شیخ البانی مزید فرماتے ہیں:

" میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو ہمارے دعوت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، وہ کچھ وقت کے بعد اپنے آپ سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں اور دھوکے میں پڑ جاتے ہیں- چند ایک کتابیں پڑھنے کے بعد تم دیکھو گے کہ وہ اپنے آپ کو (دین کے معاملے میں) میں خود مختار سمجھنے لگتے ہیں- اگر کوئی شخص ان کو نشاندھی کرائے کہ شیخ کی رائے اس مسلے میں یہ ہے تو آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ "شیخ کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی"-

[الحدا النور ٢٥٦]

ابن القیم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہالت ایک بیماری ہے اور اسکا علاج علماء سے پوچھنا ہے –

[الد 'داء، صفحہ ٨، afatwa.com]

عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا:

" یہ بات درست ہے کہ ایک عقلمند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرے:

علماء کی، حکمرانوں کی اور اپنے مسلمان بھائی بھائی کی- جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق ؤ کردار سے محروم رہے گا-

[الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]

عون بن عبد اللہ نے فرمایا:

" میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:

" کہا جاتا ہے کہ: اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ایک عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء ؤ طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو-"
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
" سبحان اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے-"

[ابو ہیثمہ فصوی، معارفت التاریخ ٣/٣٩٨،٣٩٩، ابن عبدالبر جامع البیان العلم ، ١.١٤٢-١٤٣]

الشعبی نے کہا:

" زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ایک دفعہ اپنے ( گھوڑے یا اونٹ) پر چڑھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لگام کو پکڑ لیا ( تا کہ سواری کو روانہ کر سکے)، اس پر زید بن ثابت نے (ابن عباس کے احترام میں) کہا:

" او! اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے بھائی ایسا مت کرو"-

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:

" ہمیں اپنے علماء کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کرنے کو کہا گیا ہے (کہ انکی عزت اور احترام کی جائے) "-

زین بن ثابت نے کہا:

" مجھے اپنا ہاتھ دکھاؤ"- ابن عباس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور زید بن ثابت نے نے اسے چوما اینڈ کہا:

" اور ہمیں اہل بیت کے ساتھ یہی برتاؤ کرنے کا کہا گیا ہے"-

[ابو بکر ال دینوری، المجلصہ ؤ جواہر العلم ٤:١٤٦]

10.1) اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک ۔

علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا؛ علم کے حصول کے لئے ایک شیخ کا ہونا لازم ہے، جس پر آپکا یقین ہو ،جو کہ آپ کے لئے علم کے بند دروازے کھولے اور جب آپ غلطی کرو تو وہ آپ کی رہنمائی کرے- آپ پر لازم ہے کہ آپ انسے حن سلوک کے ساتھ پیش آؤ، کیونکے یہی فلاح اور علم میں ثابت قدمی کا راستہ ہے – آپ اپنے شیخ کو عزت دو، اسکی قدر کرو اور اس سے نرمی کا برتاؤ کرو- جب آپ اپنے شیخ کی صحبت میں ہو اور جب انسے ہمکلام ہو تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرو- مناسب طریقے سے سوالات پوچھواور ادب کے ساتھ انکو سنو- انکے ساتھ بحث کی کوشش مت کرو، نہ ہی گفتگو میں انسے آگے بڑھو اور نہ ہی انکی موجودگی میں حد سے زیادہ باتیں کرو- کثرت سوالات سے پرہیز کرو اور انکو ا س بات پر مجبور مت کرو کہ وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دے خاص طور پر جب آپ لوگوں کے سامنے ہوں کیونکہ لوگ سمجھیں گے کہ آپ دکھاوا کر رہے ہو اور آپکا شیخ بھی آپ کے سوالات بیزار ہو جائے گا- انکو انکے نام یا عرفیت سے مت بلاؤ، بلکہ کہو: "او شیخ"، یا "او میرے شیخ" یا " او ہمارے شیخ" –

اگر آپکے خیال میں شیخ نے غلطی کی ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کے آپکی نگاہ میں شیخ کی قدر ؤ عزت کم ہو جاۓ کیونکے یہ حرکت آپکو انکے علم سے محروم کر دیگی- کون ہے جو غلطی سے پاک ہے؟ کون ہے جو غلطی نہیں کرتا؟
[دیکھئے: ہلیت طالب العلم شیخ بکر ابو زید ]

تمام اچھائی اللہ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے- اللہ ہم سب پر رحم کرے-

http://the-finalrevelation.blogspot.com/2014/10/blog-post.html
 
Top