محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
6.4)) باطل کی تردید اور حق کے قیام میں علماء کرام کے کردار۔
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين
اس علم کو ہر دور کے قابل اعتمادلوگوں اگے لے کر جائینگے – یہ لوگ اس علم سے وہ تمام تر تحریفات جو ان لوگوں نے کی جو اپنا حد پار کر گئے؛ ؛ یعنی کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کے غلط تشریحات کو خارج کر دینگے-
[ صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (١٠/٢٠٩)، ابن ابی حاتم الجرح ؤ تعدیل (٢/١٧) ، اور التمہید ابن عبدالبر (١/٥٧-٥٨) نے ابراہیم بن عبد الرحمان ال ادھری رضی الله عنہ کی حدیث سے بیان کیا- امام احمد نے اسے صحیح کہا ( دیکھئے : تاریخ دمشق 7/٣٩) اور شرف اصحاب الحدیث الخطیب بغدادی (صفحہ ٢٩). صحیح بحوالہ سلسلہ صحیحہ ٢٢٧ .]
زبیر بن عدی رحم الله نے فرمایا:
ہم انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس گئے اور انسے حجاج کے شر /برائیوں کی فریاد کی- پس انہوں (انس) نے کہا:
" کوئی ایسا سال نہیں ہوگا جو کہ پچھلے والے سال سے بد تر نہ ہو یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو- اور میں نے یہ آپ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے سنا "-
ابن مسعود رضی الله عنہ نے اسکو اسطرح سمجھا:
قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا- اس سے میرا مطلب دولت کی فراوانی یا بے کار معاملات نہیں ہیں- بلکہ اس سے میری مراد وقت کے ساتھ ساتھ علم کی کمی ہے یہاں تک کہ علماء کے فوت ہونے سے لوگ ( علم کے لحاظ سے ) برابر ہو جاینگے- نتیجا وہ نہ پھر اچھائی کی طرف بلائینگے نہ برائی سے روکیں گے اور یہی انکی تباہی کا سبب بنے گا-
[سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المروہ میں؛ نسائی (٣/٣٩٣)، الخطیب نے فقیہ والمتفقیہ میں (١/٤٥٦)؛ فتح الباری (١٣/٢٦)-]
ایک چھوٹی لیکن زبردست مثال "صحابی "کی تعریف ہے- شیعہ اور غیر مسلم بھی روایت لے کر آتے ہیں دعوی کرتے ہیں کہ کسطرح فلاں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد مرتد ہو گیا تھا- بے شک یہ غلط بیانی ہے جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں- اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ہر وہ شخص صحابی نہیں کہلاتا جسنے رسول صلی الله علیہ وسلم سے صرف ملاقات یا بات چیت کی ہو- اگر اسی طرح ہوتا تو پھر تو ابو جہل بھی صحابی ہوتا- الله کے کرم سے علماء ہما ری حفاظت کے لئے موجود تھے اور انہوں نے نے صحابہ کے تعریف ان الفاظ میں کی-
" جو شخص نے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کے ہو، ان پر ایمان لیا ہو اور اسکا خاتمہ بھی اسلام پر ہی ہوا ہو (وہ صحابی کہلاۓ گا)".
[ابن حجر عسقلانی الاصابہ ١/7 ، ڈر ال معرفہ ، ٢٠٠٤، پہلا ایڈیشن ]
جیسا کہ ہم نے دیکھا کے صحابی کے تین شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے- ایک عامی اسکو کسطرح سمجھے گا؟ کیا ایک عامی اس قابل ہے کہ وہ قرآن ؤ سنت سے خود اپنے فہم سے مسائل کے حل تک پہنچ سکے؟ کیا ایک عامی کے پاس اتنا علم ہے؟ کیا ہم کچھ آرٹیکلز ، پی ڈی ایف کتابیں،کچھ آڈیو ویڈیو لیکچرز سن کر اپنے آپ کو علماء کے مد مقابل سمجھتے ہیں؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ جو آرٹیکلز، پی ڈی ایف ، آڈیو اور ویڈیو لیکچرز جو ہم پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بھی علماء کے ہی ہیں-
الحسن البصری رحمہ الله نے فرمایا:
" اگر علماء نہیں ہوتے تو لوگ جانوروں کی طرح برتاؤ کرتے"-
[التبصرہ ابن جوزی (٢/١٩٣)].
شیخ ربی ابن حدی حفظ الله نے فرمایا؛
" اس ضمن میں سلف سے مروی ہے کہ ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاریٰ سے زیادہ نقصان دہ ہے- یہی کچھ عالم اسلام کے اکابر علماء نے بھی کہا:
ابن عقیل اور انکے استاد ابو الفضل الحمدانی، ابن جوزی، ابن تیمیہ – الشوکانی نے اپنے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ
" بیشک ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاری اور کافر سے زیادہ نقصان دہ ہے-"
ایسا کیوں ہے؟ کیونکے بہت سے لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی لئے انکے جھوٹ کو تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن وہ یہود ؤ نصاریٰ اور کافروں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے اور انسے رہنمائی نہیں لیتے اسی وجہ سے ایک بدعتی یہود ؤ نصاریٰ اور کافر سے زیادہ مضر ہوتا ہے-
[ترجمہ ابو الحسن مالک آدم الاخدار]
امام اؤذاعی فرماتے ہیں؛
" جب بدعات عام ہو جاتے ہیں ( جیسا کہ شب میراج اوراسکے جھوٹے فضائل) اور اہل علم اس پر خاموش رہتے ہیں اور انکی تردید نہیں کرتے تو وہ ایک سنت بن جاتی ہے-"
[تہدھیب شرف اصحابالحدیث الخطیب بغدادی صفحہ ٤٦]
عبد الله ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كانله من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره، ثم إنها تختلف منبعدهم خلوف يقولونمالا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون، فمن جاهدهم بيده فهومؤمن، ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ، وليس وراءذلك الإيمان حبة خردل "
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیا جاتا۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں کے ساتھ ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔
[صحیح مسلم، کتاب ١ ،حدیث نمبر ٨١]
اس حدیث کو عملاً لاگو کرنے کی مثال:
طارق ابن شہاب نے کہا:
کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعید ص نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ سے سنا آپ ]نے فرمایا :
مَنْرَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْيَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَأَضْعَفُ الْإِيمَانِ"
کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور
اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔
[صحیح مسلم ٤٩]
شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے فرمایا:
امام احمد بن حنبل سے کہا گیا: ایک ایسا شخص آپ کو محبوب ہے جو روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اعتکاف میں بھیٹتا ہو یا ایسا شخص جو اہل بدعت کے خلاف بولے؟ امام احمد نے کہا: " اگر وہ روزے رکھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور اعتکاف میں بھیٹتا ہے تو یہ سب صرف اسکے خود کے لئے ہے- لیکن جب وہ اہل بدعت کے خلاف بولتا ہے تو یہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ہے اور یہی بہتر ہے"-
ابن تیمیہ آگے فرماتے ہے :
پس امام احمد نے واضح کر دیا کہ اس سے تمام مسلمانوں کے لئے انکے دین کے حوالے سے فائدہ مند ہے جسطرح الله کی راہ میں جہاد کرنا ہے-
[مجموعہ الفتاویٰ ٢٨/٢٣١-٢٣٢]
الزہری نے فرمایا:
" ایک سنّت کی درس ؤ تدریس ٢٠٠ سالوں کی عبادت سے بہتر ہے"-
[احمد بن حنبل اصول السنہ ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں ]
العباس بن الولید کہتے ہیں کہ عقبہ نے کہا :
ایک دفعہ میں ارطاہ بن المنذر کے ساتھ تھا کہ مجمع میں ایک سخص نے کہا:
" آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو سنت کے پیروکاروں کے ساتھ بھیٹتا ہو اور انکی صحبت اختیار کرتا ہو، لیکن جب ان کے سامنے اہل بدعت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے ." ہمیں انکا ذکر کرنے سے دور ہی رکھئے انکا ذکر ہمارے سامنے مت کیجئے"-
ارطاہ نے کہا: "وہ انہی (اہل بدعت) میں سے ہی ہے-اسکے حالت پر دھوکہ مت کھاؤ."
مجھے یہ بات بہت عجیب لگی، پس میں امام اوزاعی کے پاس گیا (اکابر تبع تابعین میں سے تھے)- تو انہوں نے فرمایا : " ارطاہ نے صحیح کہا، یہ معاملہ اسی طرح ہے جسطرح اسنے بیان کیا: یہ بندہ اگر لوگوں کو اہل بدعت کے بارے میں ذکر کرنے سے روکتا ہے تو پھر لوگ اہل بدعت سے کسطرح خبردار ہونگے اگر انکو بے نقاب نہ کیا جاۓ؟"
[تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ٨ صفحہ ١٥]
امت کو اہل علم کی ہر وقت اور ہر جگہ ضرورت ہے- علماء کے بغیر لوگ برم ؤ دھوکے میں رہینگے اور انکا خاتمہ بھی تاریکی پر ہوگا- سورہٴ توبہ میں جہاں جہاد کو فرض قرار دیا گیا، تب بھی الله نے کہا کہ لوگوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے جو پیچھے رہ جائیں اور مطالعہ اور درس ؤ تدریس کریں- قرآن نے انہیں " لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ" کہا –
" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ .
اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں [٩:١٢٢ ]
نیچے کچھ لنکس دئے گئے ہیں انہیں ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ کسطرح علماء نے بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس سے خبردار کیا ہے- ان کے اقوال سے ہمیں انکی علم، زہد، تقوی اور حکمت کا پتا چلتا ہے-
Link 1 :Why bid'ah is the most dangerous thing ever ! - by scholars
Link 2 :Criticism of the scholars on shia'as
Link 3 : The indisputable virtues and importance of Sahaabas - by scholars
Read more In sha Allah:
http://the-finalrevelation.blogspot.com/2014/10/blog-post.html#ixzz3KRW9erh2
ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين
اس علم کو ہر دور کے قابل اعتمادلوگوں اگے لے کر جائینگے – یہ لوگ اس علم سے وہ تمام تر تحریفات جو ان لوگوں نے کی جو اپنا حد پار کر گئے؛ ؛ یعنی کذابوں کے جھوٹ اور جاہل لوگوں کے غلط تشریحات کو خارج کر دینگے-
[ صحیح- سنن الکبریٰ بیہقی (١٠/٢٠٩)، ابن ابی حاتم الجرح ؤ تعدیل (٢/١٧) ، اور التمہید ابن عبدالبر (١/٥٧-٥٨) نے ابراہیم بن عبد الرحمان ال ادھری رضی الله عنہ کی حدیث سے بیان کیا- امام احمد نے اسے صحیح کہا ( دیکھئے : تاریخ دمشق 7/٣٩) اور شرف اصحاب الحدیث الخطیب بغدادی (صفحہ ٢٩). صحیح بحوالہ سلسلہ صحیحہ ٢٢٧ .]
زبیر بن عدی رحم الله نے فرمایا:
ہم انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس گئے اور انسے حجاج کے شر /برائیوں کی فریاد کی- پس انہوں (انس) نے کہا:
" کوئی ایسا سال نہیں ہوگا جو کہ پچھلے والے سال سے بد تر نہ ہو یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو- اور میں نے یہ آپ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے سنا "-
ابن مسعود رضی الله عنہ نے اسکو اسطرح سمجھا:
قیامت کے دن تک ہر آنے والا دن گزرنے والے دن سے بد تر ہوگا- اس سے میرا مطلب دولت کی فراوانی یا بے کار معاملات نہیں ہیں- بلکہ اس سے میری مراد وقت کے ساتھ ساتھ علم کی کمی ہے یہاں تک کہ علماء کے فوت ہونے سے لوگ ( علم کے لحاظ سے ) برابر ہو جاینگے- نتیجا وہ نہ پھر اچھائی کی طرف بلائینگے نہ برائی سے روکیں گے اور یہی انکی تباہی کا سبب بنے گا-
[سنن دارمی (١٩٤)؛ یعقوب بن سفیان نے المروہ میں؛ نسائی (٣/٣٩٣)، الخطیب نے فقیہ والمتفقیہ میں (١/٤٥٦)؛ فتح الباری (١٣/٢٦)-]
ایک چھوٹی لیکن زبردست مثال "صحابی "کی تعریف ہے- شیعہ اور غیر مسلم بھی روایت لے کر آتے ہیں دعوی کرتے ہیں کہ کسطرح فلاں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد مرتد ہو گیا تھا- بے شک یہ غلط بیانی ہے جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں- اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ہر وہ شخص صحابی نہیں کہلاتا جسنے رسول صلی الله علیہ وسلم سے صرف ملاقات یا بات چیت کی ہو- اگر اسی طرح ہوتا تو پھر تو ابو جہل بھی صحابی ہوتا- الله کے کرم سے علماء ہما ری حفاظت کے لئے موجود تھے اور انہوں نے نے صحابہ کے تعریف ان الفاظ میں کی-
" جو شخص نے بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کے ہو، ان پر ایمان لیا ہو اور اسکا خاتمہ بھی اسلام پر ہی ہوا ہو (وہ صحابی کہلاۓ گا)".
[ابن حجر عسقلانی الاصابہ ١/7 ، ڈر ال معرفہ ، ٢٠٠٤، پہلا ایڈیشن ]
جیسا کہ ہم نے دیکھا کے صحابی کے تین شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور اسی پر اہل سنت کا اجماع ہے- ایک عامی اسکو کسطرح سمجھے گا؟ کیا ایک عامی اس قابل ہے کہ وہ قرآن ؤ سنت سے خود اپنے فہم سے مسائل کے حل تک پہنچ سکے؟ کیا ایک عامی کے پاس اتنا علم ہے؟ کیا ہم کچھ آرٹیکلز ، پی ڈی ایف کتابیں،کچھ آڈیو ویڈیو لیکچرز سن کر اپنے آپ کو علماء کے مد مقابل سمجھتے ہیں؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ جو آرٹیکلز، پی ڈی ایف ، آڈیو اور ویڈیو لیکچرز جو ہم پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بھی علماء کے ہی ہیں-
الحسن البصری رحمہ الله نے فرمایا:
" اگر علماء نہیں ہوتے تو لوگ جانوروں کی طرح برتاؤ کرتے"-
[التبصرہ ابن جوزی (٢/١٩٣)].
شیخ ربی ابن حدی حفظ الله نے فرمایا؛
" اس ضمن میں سلف سے مروی ہے کہ ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاریٰ سے زیادہ نقصان دہ ہے- یہی کچھ عالم اسلام کے اکابر علماء نے بھی کہا:
ابن عقیل اور انکے استاد ابو الفضل الحمدانی، ابن جوزی، ابن تیمیہ – الشوکانی نے اپنے تفسیر میں نقل کیا ہے کہ
" بیشک ایک بدعتی اسلام کے لئے یہود ؤ نصاری اور کافر سے زیادہ نقصان دہ ہے-"
ایسا کیوں ہے؟ کیونکے بہت سے لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور اسی لئے انکے جھوٹ کو تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن وہ یہود ؤ نصاریٰ اور کافروں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے اور انسے رہنمائی نہیں لیتے اسی وجہ سے ایک بدعتی یہود ؤ نصاریٰ اور کافر سے زیادہ مضر ہوتا ہے-
[ترجمہ ابو الحسن مالک آدم الاخدار]
امام اؤذاعی فرماتے ہیں؛
" جب بدعات عام ہو جاتے ہیں ( جیسا کہ شب میراج اوراسکے جھوٹے فضائل) اور اہل علم اس پر خاموش رہتے ہیں اور انکی تردید نہیں کرتے تو وہ ایک سنت بن جاتی ہے-"
[تہدھیب شرف اصحابالحدیث الخطیب بغدادی صفحہ ٤٦]
عبد الله ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كانله من أمته حواريون وأصحاب يأخذون بسنته ويقتدون بأمره، ثم إنها تختلف منبعدهم خلوف يقولونمالا يفعلون ويفعلون ما لا يؤمرون، فمن جاهدهم بيده فهومؤمن، ومن جاهدهم بقلبه فهو مؤمن، ومن جاهدهم بلسانه فهو مؤمن ، وليس وراءذلك الإيمان حبة خردل "
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیا جاتا۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں کے ساتھ ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔
[صحیح مسلم، کتاب ١ ،حدیث نمبر ٨١]
اس حدیث کو عملاً لاگو کرنے کی مثال:
طارق ابن شہاب نے کہا:
کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعید ص نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ سے سنا آپ ]نے فرمایا :
مَنْرَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْيَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَأَضْعَفُ الْإِيمَانِ"
کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور
اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔
[صحیح مسلم ٤٩]
شیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے فرمایا:
امام احمد بن حنبل سے کہا گیا: ایک ایسا شخص آپ کو محبوب ہے جو روزے رکھتا ہو، نماز پڑھتا ہو اور اعتکاف میں بھیٹتا ہو یا ایسا شخص جو اہل بدعت کے خلاف بولے؟ امام احمد نے کہا: " اگر وہ روزے رکھتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور اعتکاف میں بھیٹتا ہے تو یہ سب صرف اسکے خود کے لئے ہے- لیکن جب وہ اہل بدعت کے خلاف بولتا ہے تو یہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے ہے اور یہی بہتر ہے"-
ابن تیمیہ آگے فرماتے ہے :
پس امام احمد نے واضح کر دیا کہ اس سے تمام مسلمانوں کے لئے انکے دین کے حوالے سے فائدہ مند ہے جسطرح الله کی راہ میں جہاد کرنا ہے-
[مجموعہ الفتاویٰ ٢٨/٢٣١-٢٣٢]
الزہری نے فرمایا:
" ایک سنّت کی درس ؤ تدریس ٢٠٠ سالوں کی عبادت سے بہتر ہے"-
[احمد بن حنبل اصول السنہ ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں ]
العباس بن الولید کہتے ہیں کہ عقبہ نے کہا :
ایک دفعہ میں ارطاہ بن المنذر کے ساتھ تھا کہ مجمع میں ایک سخص نے کہا:
" آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو سنت کے پیروکاروں کے ساتھ بھیٹتا ہو اور انکی صحبت اختیار کرتا ہو، لیکن جب ان کے سامنے اہل بدعت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے ." ہمیں انکا ذکر کرنے سے دور ہی رکھئے انکا ذکر ہمارے سامنے مت کیجئے"-
ارطاہ نے کہا: "وہ انہی (اہل بدعت) میں سے ہی ہے-اسکے حالت پر دھوکہ مت کھاؤ."
مجھے یہ بات بہت عجیب لگی، پس میں امام اوزاعی کے پاس گیا (اکابر تبع تابعین میں سے تھے)- تو انہوں نے فرمایا : " ارطاہ نے صحیح کہا، یہ معاملہ اسی طرح ہے جسطرح اسنے بیان کیا: یہ بندہ اگر لوگوں کو اہل بدعت کے بارے میں ذکر کرنے سے روکتا ہے تو پھر لوگ اہل بدعت سے کسطرح خبردار ہونگے اگر انکو بے نقاب نہ کیا جاۓ؟"
[تاریخ دمشق ابن عساکر جلد ٨ صفحہ ١٥]
امت کو اہل علم کی ہر وقت اور ہر جگہ ضرورت ہے- علماء کے بغیر لوگ برم ؤ دھوکے میں رہینگے اور انکا خاتمہ بھی تاریکی پر ہوگا- سورہٴ توبہ میں جہاں جہاد کو فرض قرار دیا گیا، تب بھی الله نے کہا کہ لوگوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے جو پیچھے رہ جائیں اور مطالعہ اور درس ؤ تدریس کریں- قرآن نے انہیں " لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ" کہا –
" وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ .
اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں [٩:١٢٢ ]
نیچے کچھ لنکس دئے گئے ہیں انہیں ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ کسطرح علماء نے بدعت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس سے خبردار کیا ہے- ان کے اقوال سے ہمیں انکی علم، زہد، تقوی اور حکمت کا پتا چلتا ہے-
Link 1 :Why bid'ah is the most dangerous thing ever ! - by scholars
Link 2 :Criticism of the scholars on shia'as
Link 3 : The indisputable virtues and importance of Sahaabas - by scholars
Read more In sha Allah:
http://the-finalrevelation.blogspot.com/2014/10/blog-post.html#ixzz3KRW9erh2